اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا سفر ❤️
اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا سفر ❤️
June 17, 2025 at 04:16 PM
*رب سے جڑنے کا سفر* #قسط نمبر 31,32 وہ ہاسپٹل بیڈ پر لیٹی اپنی ماں کو پیار سے دیکھ رہی تھی جو اسکے ساتھ بیٹھیں اسے دباتے دباتے اسی کے بازو پر سر رکھ کر سو گئی تھیں۔ فاطمہ کے دوسرے بازو پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ اسکے بابا اسکے لیے کینٹین سے فریش جوس لینے گئے ہوئے تھے۔ یکایک اس نے مسز ریان سے نگاہیں پھیر کر ہاسپٹل رووم کی چھت پر گاڑھ لیں۔ شکرگزاری کے آنسو چہرے کے اطراف سے چھلکتے ہوئے اسکے کانوں تک چلے گئے۔ وہ دل ہی دل میں اللہ کے شکر کے ساتھ قرة العین کو دعائیں دینے لگی۔ 6 ماہ پرانی یادوں کے مناظر اسکے ذہن کے پردوں پر چھانے لگے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ ، حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِهٖ ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو کلمے جو زبان پر ہلکے ہیں لیکن ترازو پر ( آخرت میں) بھاری ہیں اور اللہ رحمٰن کے یہاں پسندیدہ ہیں وہ یہ ہیں «سبحان الله وبحمده،‏‏‏‏ سبحان الله العظيم‏ ‏.» ۔ صحیح بخاری#6682 موبائل کی گھنٹی کافی دیر سے بج رہی تھی۔ قرة العین ہاتھ دھوتے ہوئے کچن سے بھاگتی ہوئی یہ تسبیح پڑھتے ہوئے آئی اور بیڈ پر پڑا موبائل فوراً سے اٹھایا۔ "السلام علیکم ورحمت اللہ!" یہ فاطمہ کا فون تھا۔ "وعلیکم السلام! کیسی ہو؟؟" "الحمدللہ میں ٹھیک۔ تمھاری طبیعت ٹھیک ہے؟ آواز بہت بھاری لگ رہی ہے۔" "ہاں بس! قرت میں تم سے ملنا چاہتی ہوں۔" "ابھی؟" "ہاں ابھی۔" "ہاں میں گھر ہوں آجاؤ۔" "اوکے!" سلام کرتے ہوئے فاطمہ نے موبائل بند کر دیا۔ قرة العین سوچوں میں گم، اللہ خیر رکھنا کہتی ہوئی موبائل رکھ کر کچن کی طرف چلی گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو گھنٹے بعد فاطمہ قرة العین کے سامنے اسکے کمرے میں بیٹھی تھی۔ یہ دوپہر 4 بجے کا وقت تھا۔ قرة العین کی والدہ قیلولہ (دوپہر کا آرام) کر رہی تھیں اس لیے انھیں فاطمہ کی آمد کی خبر نہ تھی۔ خلاف معمول آج فاطمہ اپنے آپکو مکمل کور کر کے عبایا، نقاب میں آئی تھی۔ قرة العین کو بہت خوشی ہوئی تھی جسکا اظہار وہ بار بار فاطمہ کو گلے لگا کر کر رہی تھی۔ "مجھے یقین نہیں آ رہا فاطمہ! میری دوست جنت کی راہوں میں اتنا تیزی سے آگے نکلنے لگی ہے ماشاءاللہ ماشاءاللہ!! اللہ تمھیں بہتتت استقامت دیں۔" اس نے پھر سے فاطمہ کو پُرجوش طریقے سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ "قرت! کیا دین پر چلنا، اس جنت کی راہ پر چلنا کوئی جرم ہے کہ اپنے ہی دشمن بن جائیں؟؟" فاطمہ نے آنکھوں میں نمی لیے پھیکی سی مسکراہٹ سے اس سے جدا ہوئے بغیر ہی پوچھا۔ "نہیں فاطمہ! ایسا تو بالکل نہیں ہے۔ مجھے پوری بات بتاؤ آخر ہوا کیا ہے؟" اس نے حیرت اور پریشانی کے ملے جلے اثرات سے اس سے جدا ہوتے ہوئے پوچھا۔ "قرت میرا دل بہت تنگ ہونے لگ گیا ہے۔ میرے اپنے ہی گھر والے مجھ سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں۔ کیوں اس پردے کو ہمارا معاشرہ اتنا برا سمجھتا ہے؟ کیا یہ حکم اللہ کی طرف سے قرآن میں نہیں ہے؟" وہ کہتے کہتے رو پڑی تھی۔ قرة العین نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ماما حیدر بھائی کے لیے لڑکی دیکھنے جا رہی تھیں۔ میں اکلوتی بہن ہوں اور وہ مجھے ملوائے بغیر ہی بات پکی کر آئے۔" "تمھیں کیوں نہیں لے کر گئے؟" "میرے پردے کی وجہ سے۔" "کیا مطلب؟؟" قرة العین نے ماتھے پر بل لاتے ہوئے پوچھا۔ "میں عبایا میں جانا چاہ رہی تھی ان کے ساتھ کیونکہ مجھے پتہ تھا وہاں مکس گیدرنگ ہو گی۔ میں خوشی خوشی انکے ساتھ جانے کے لیے کمرے سے نکلی تھی مگر مجھے عبایا میں دیکھ کر سیف بھائی نے اتنے غصے سے ڈانٹا۔ ماما نے حیدر بھائی کو فون کر دیا۔ بھائی نے بھی اتنے غصے سے کہا کہ اسے مت لے کر جائیں ورنہ اسکی وجہ سے بنی بنائی بات بگڑ جائے گی۔ قرة العین کیا میں منحوس ہوں؟؟" وہ سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ قرة العین خاموشی سے سن رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ فاطمہ اپنے اندر کی بھڑاس نکالنا چاہتی ہے، اس لیے اسے بولنے دیا۔ "ماما نے جاتے ہوئے مجھے غصے سے رووم میں دھکا دیا اور دروازے کو باہر سے لاک کر دیا۔ میں ساری رات اکیلی روتی رہی قرت! کچھ کھائے پیے بغیر۔ وہ سب سرونٹس کو منع کر گئی تھیں کہ کوئی اس "منحوس" کے کمرے کا دروازہ نہیں کھولے گا۔ کوئی بھی نہیں آیا قرت! کوئی بھی نہیں! کل کی رات میں کبھی نہیں بھول سکتی۔" اس نے شدت سے روتے ہوئے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا تھا۔ "فاطمہ میری جان! ایسے مت روؤ۔ کیا تم نے اللہ سے جواب مانگا؟؟" اس نے ایسے ہی چہرہ ہاتھوں میں چھپائے نفی میں سر ہلایا۔ "وہ تو وقت تھا اسکے پاس جانے کا۔" قرة العین نے اداسی سے کہا۔ "کیا وہ نہیں جانتے قرت میں کس کرب سے گزر رہی ہوں؟ میں تو انکے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، پھر کیوں یہ سب ہو رہا ہے؟؟ انھیں تو میرے لیے رستے آسان کرنے چاہیے۔" اس نے چہرے سے ہاتھوں کو پیچھے کر کے معصومانہ انداز میں پوچھا، جیسے وہ بہت ٹوٹ چکی ہو۔ "فاطمہ! یہ تو اس رستے کی سنت ہے۔ اس پر جو بھی چلتا ہے اسے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ یہ جنت اتنی سستی تھوڑی ہے نا۔ اندر باہر ہر طرف سے مخالفتوں کا سامنا ہو کر لڑنا پڑتاہے دیکھو نا ہم پر تو ایسی کوئی سخت آزمائش بھی نہیں آئی جیسی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آتی تھیں۔ تم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا پڑھا ہے نا؟ کیسے انھیں تپتے سہرا میں لٹا دیا جاتا تھا، انکے سینے پر پتھر رکھ دیا جاتا تھا، کوئلوں پر لٹایا جاتا تھا، چربی گھل جاتی تھی انکی۔ صرف توحید پر ایمان لانے کی وجہ سے! مگر وہ پھر بھی احد احد کہتے رہتے تھے۔ وہ تو ایسے نہیں روئے تھے؟؟ وہ تو ایسے نہیں پوچھتے تھے کہ جنت کی راہوں پر چلنا جرم ہے جو مجھے اتنی بڑی بڑی سزائیں مل رہی ہیں؟؟" "مگر قرت وہ صحابہ تھے۔ میں ایک عام سی بندی ہوں، کمزور سی۔ میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں اتنی مخالفت؟؟" اس نے بے بسی سے کہا۔ "اللہ فرماتے ہیں: اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ *"کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں، ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟"* (سورت العنکبوت: 2) یہ اللہ کہہ رہے ہیں فاطمہ! جن سے زیادہ سچی بات کسی کی نہیں ہو سکتی نا؟ اگر ہم نے ارادہ کیا ہے اس جنت کو پانے کا، اس رب کی رضا کو پانے کا تو ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے رستوں میں پھول بچھائے جائیں؟ محبتیں نچھاور کی جائیں؟ ہاں ایک وقت آتا ہے جب یہ سب ہوتا ہے مگر پہلے مکہ کی مشکلیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ دکھانا پڑتا ہے اللہ کو کہ ہاں ہم نے جو دعویٰ کیا ہے ہم اس میں سچے ہونا چاہتے ہیں، اس پر پورا اترنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ پھر جب ہم مضبوطی سے اس رستے پر ڈٹ جاتے، حق کی گواہی دینے لگتے تو پھر دور آتا ہے ہجرتِ مدینہ والا۔۔ جب نفرتوں کی بجائے محبتیں ملتی ہیں۔ پھر یہی لوگ جو راہوں میں کانٹے بچھاتے ہیں، یہ ساتھی بن جاتے ہیں، دین میں ساتھ چلنے والے ساتھی۔ سنو!!! تم بازار سے حقیر سا جوتا خریدتے وقت بھی اسکو الٹا پلٹا کر دیکھتی ہو، اسکا سول sole چیک کرتی ہو، اسی سے تمھیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتنا پائدار ہے، کتنا عرصہ چلے گا۔ تو کیا تمھارا رب تمھیں نہ چیک کرے؟ کہ تم اس کے لیے کس حد تک جا سکتی ہو؟ تم میں اس کی رضا پانے کی تڑپ کتنی سچی ہے؟ کہ تم اسکی خاطر سب کچھ برداشت کرتی جاؤ۔" "یعنی صبر؟؟؟؟" اس نے نم آنکھوں سے پوچھا جیسے اسے جواب مل گیا ہو۔ قرة العین کی باتوں سے اسکے رونگٹے کھڑے ہوتے جا رہے تھے۔ "ہاں! صبر۔۔ یہی تو مطلوب ہے۔ یہ رونا، اداس ہونا فطری ہے۔ مگر اللہ کی رضا میں راضی رہنا، کھلے دل سے اسکے ہر فیصلے کو قبول کرنا ہی دراصل آزمائش ہے۔ اللہ کہتے ہیں: وَ جَعَلۡنَا بَعۡضَکُمۡ لِبَعۡضٍ فِتۡنَۃً ؕ اَتَصۡبِرُوۡنَ ۚ وَ کَانَ رَبُّکَ بَصِیۡرًا ¤ *"اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا، کیا تم صبر کرو گے؟ تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے۔"* (الفرقان: 20) "اتصبرون"۔۔ سوال ہے یہ اللہ کا۔ کیا تم صبر کرو گی؟؟ فاطمہ نے یکایک اثبات میں سر ہلایا۔ قرة العین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ "اس رب نے کہا کہ وہ دیکھ رہا ہے، وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ کون تمھاری مخالفت کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ کتنی کر رہا ہے؟ اور جواب میں تم کیا کر رہی ہو؟ تم بس اپنا دیکھو کہ وہ تم سے کیا چاہ رہا ہے۔ فاطمہ! وہ تو بس یہ دیکھتا ہے کہ تم آزمائش کے کن لمحوں میں جا کر کس درجے کا صبر کرتی ہو۔" "اور وہ جو میری مخالفت کر رہے ہیں؟؟" "وہ تمھاری مخالفت نہیں کر رہے فاطمہ! وہ تمھارے دین پر چلنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اور کیوں؟؟ کیونکہ ہمارے معاشرے میں دین کو ویلیو نہیں دی جاتی، اسکا ایک غلط فہمیوں پر مبنی برا امیج بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے وہ انجانے خوف و خدشات کا شکار ہو کر مخالفت کرنے لگتے ہیں۔" "ہاں جو بھی ہے مگر وہ تو مسلمان ہیں نا؟" "ہاں بالکل مسلمان ہیں مگر وہ لاعلم ہیں فاطمہ۔ انسان ہمیشہ اس چیز کا دشمن ہوتا ہے جسکے متعلق یا تو وہ علم نہ رکھتا ہو یا اس سے حسد کرتا ہو۔ جس دن انھیں علم ہو گیا نا کہ یہ راہ کوئی عام راہ نہیں ہے، یہ دین پر چلنا کتنی سعادت کی بات ہے تو وہ تمھارے ساتھی بن جائیں گے۔" "ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ انھیں آخر کیسے پتہ چلے گا؟؟" "تم بتاؤ گی انھیں۔" "میں کیسے بتا سکتی ہوں؟ وہ تو میری بات تک سننے کو تیار نہیں۔" اس نے اداس لہجے میں کہا۔ "سنیں گے، ضرور سنیں گے ان شاءاللہ! مگر تمھیں صبر کرنا ہو گا۔ ڈھیر سارا صبر۔۔۔صبر جمیل!!" "صبر جمیل؟؟" "ہاں صبر جمیل۔۔۔" قرة العین کی نظریں کھڑکی سے باہر کہیں دور ٹکی ہوئی تھیں۔ وہ جیسے کسی گہری سوچ میں، کسی خاص احساس کے زیرِ اثر کہے جا رہی تھی۔ "ایسا صبر کہ تمھارے مخالفین کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس بات نے تمھیں ہرٹ کیا ہے۔ ایسا صبر کہ وہ تمھیں ڈانٹیں، ماریں، گالیاں دیں مگر تم جب اس سب کے بعد ان سے ملو، مسکرا کر ملو اور ایسے معاف کر دو جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ صبر جمیل!! وہ صبر جو میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔" اسکی آنکھوں سے دو آنسو چھلک کر اسکے دوپٹے میں جا کر جذب ہو گئے۔ فاطمہ ہمہ تن گوش اسکی باتیں سن رہی تھی۔ "پھر یہ سب۔۔۔یہ سب تمھارے ہو جائیں گے۔ جیسے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آ کر معافی مانگ لی تھی، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ جیسے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ انکے دلی ساتھی بن گئے تھے۔ سب بدل جائیں گے، بس کچھ وقت دو۔" اسے اپنی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ "کتنا وقت؟؟" "یہ تو تمھارے صبر پر منحصر ہے۔ ہو سکتا ہے ایک ہفتہ، ایک ماہ، ایک سال یا پھر دس سال۔۔ یہ تو اللہ جانتے ہیں۔" میں اتنا صبر کیسے کر سکتی ہوں؟؟ وہ بھی صبر جمیل؟" "کر سکتی ہو، بالکل کر سکتی ہو۔ اگر تم یہ سب حالات برداشت نہ کر سکتی تو اللہ کبھی تمھیں اس سب سے نہ گزارتے۔ کیا تم نے وہ آیت نہیں پڑھی؟ کہ "اللہ کسی نفس پر اسکی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔" فاطمہ نے ہاں میں سر ہلایا۔ "تو سنو! تم انکی برائی کے جواب میں اچھائی کرتی جاؤ، کرتی جاؤ۔ اور یقین رکھو، وہ وقت آئے گا ان شاءاللہ جب یہ سب تمھارے دین کے ساتھی ہوں گے، ایمان کے ساتھی اور بالآخر جنت کے ساتھی۔۔۔ اللہ فرماتے ہیں: *"اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتیں (تو تم) برائی کو بھلائی سے دور کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے خوش نصیب لوگوں کے کوئی نہیں پا سکتا۔"* (سورت حم السجدہ: 34،35) "تم صبر کی انتہا کر دینا۔۔ وہ کرم کی انتہا کردے گا!! ان اللہ مع الصابرین (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)" اتنے میں عصر کی اذانوں کی آواز آنے لگی۔ چلو آؤ مل کر نماز پڑھتے ہیں۔ قرة العین نے فاطمہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ اسکی باتوں نے فاطمہ میں گویا ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ اسکا سارا غم اب اسکی موٹیویشن میں بدل گیا تھا۔ اسے صبر کرنا تھا۔۔صبر جمیل!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "کیا ہوا بیٹا؟" "جی؟؟" اس نے ہڑبڑاتے ہوئے پوچھا۔ فاطمہ تم رو رہی ہو یا مسکرا رہی ہو؟" مسز ریان پریشانی کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔ "اوہ۔۔۔الحمدللہ!!" اس نے اپنے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے بھرپور طریقے سے مسکراتے ہوئے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔ اسے یاد آیا کہ وہ تو ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے! #ام ہریرہ *رب سے جڑنے کا سفر* #قسط نمبر 32 فاطمہ آج کچن میں صغراں اور اسکی بیٹی کے ساتھ شام سے ڈنر کی تیاری میں مصروف تھی۔ مختلف قسم کی ڈشز، ڈیزرٹس، ڈرنکس، مٹھائی وغیرہ ہر چیز اس نے اپنی نگرانی میں بنوائی تھی۔ آج حیدر کے سسرال والے رسم کے لیے آ رہے تھے۔ حیدر بہت خوش تھا۔ اسے اور ریان صاحب کو گھر آئے ہوئے دو دن ہی ہوئے تھے۔ گھر میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ مسز ریان سیف کے ساتھ مل کر گھر کو ڈیکوریٹ کروانے میں مصروف تھیں۔ "پھول یہاں لگاؤ۔" "پردے ایسے سیٹ کرو۔" "لائٹس یہاں ایسے سیٹ کرو۔" انکی آوازیں پورے لاؤنج میں گونج رہی تھیں۔ وہ الیکٹریشنز اور ڈیکوریٹرز کو ہدایات دے رہی تھیں۔ غرض ایسے لگ ریا تھا جیسے آج ہی شادی ہونے لگی ہے۔ اس گھر کے بڑے بیٹے کی ہونے والی بیوی نے آنا تھا، سب کا خوش ہونا ایک لازمی امر تھا۔ البتہ فاطمہ کے ساتھ سب کا رویہ بہت تبدیل ہو چکا تھا۔ فاطمہ کا پردہ کرنا انکے لیے ایک امتحان بن چکا تھا۔ وہ باہر تو خود کو مکمل عبایا میں ڈھانپ کر جاتی تھی تب اسے کوئی نہیں روکتا تھا۔ مگر خاندان میں پردہ کرنا اور وہ بھی حیدر کے سسرال والوں کے سامنے؟ اس چیز نے انھیں بہت پریشان کر رکھا تھا۔ پچھلی رات مسز ریان نے فاطمہ کو بہت سمجھایا تھا کہ "کل کسی بھی قسم کا کوئی ڈرامہ نہیں کرنا۔" مگر فاطمہ اسی بات پر اصرار کر رہی تھی کہ وہ سب کام کرے گی، ان سے ملے گی بھی، مگر انکے مردوں کے سامنے پردے میں ہی جائے گی۔ "فاطمہ پردہ دل کا ہوتا ہے، تم میں حیا ہے نا؟ یہ کافی ہے۔ باہر کر رہی ہو، کرو مگر اب یہ کیا تماشہ کہ گھر میں آنے والے مہمانوں سے بھی چہرے چھپاتی پھرو؟" ان کا لہجہ سخت تھا۔ "ماما! دل میں حیا ہو تو ہی باہر جسم کو پردے میں ڈھانپا جاتا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی دل پر پردہ پڑے ورنہ تو انسان کی مت ماری جاتی ہے۔" اس نے گہری سوچوں میں گم ہوتے ہوئے کہا۔ "میرا دماغ مت خراب کیا کرو فاطمہ! تمھارے کہنے کا کیا مطلب ہے کہ اگر میں پردہ نہیں کرتی تو کیا میرے دل میں حیا نہیں ہے؟ تم اپنی ماں کو بے حیا کہنا چاہ رہی ہو؟" انھوں نے جان بوجھ کر بات کو غلط رخ دے دیا تھا۔ "بالکل بھی نہیں میری پیاری ماما۔ دیکھیں! ایک چھوٹی سی مثال دیتی ہوں۔ آپ کسی سے پیار کا اظہار تب کرتی ہیں نا جب دل میں محبت کے جذبات ہوں؟؟" مسز ریان نے بھنویں سکیڑتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔ "ایسا ہی ہے نا؟ تو اگر دل میں حیا ہو تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اسکا اظہار نہ ہو۔ پردہ میرے اور آپکے رب کا حکم ہے ماما۔ جب دنیا کی سب سے پاکیزہ خواتین، صحابیات نے دنیا کے سب سے زیادہ پاکیزہ انسان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ کیا تھا، صرف اس لیے کہ اللہ کا حکم ہے تو ہم جیسے گناہ گار کیسے دل کی پاکیزگی کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ انکے دل تو ہم سے زیادہ پاکیزہ تھے نا؟" اس نے انکے بے زاری والے اکسپریشنز کو بالکل اگنور کرتے ہوئے نرمی سے کہا تھا۔ "فاطمہ تم جانتی ہو کس دور کی بات کر رہی ہو؟ کتنی صدیاں گزر گئی ہیں؟ اب وہ زمانہ جا چکا ہے۔ اسلام اتنا بھی سخت نہیں ہے۔" "ماما بالکل جا چکا ہے وہ ٹائم، مگر آج کا ٹائم زیادہ پر فتن ہے۔ آج تو انسان کو خود کو بچا کر رکھنے کی، اپنی حفاظت کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہم تو خون کے رشتوں کے دلوں تک کو نہیں جان سکتے، کہاں یہ کہ باہر کے لوگ!" "فاطمہ میرے ساتھ بحث مت کیا کرو۔ پتہ نہیں لوگ دین میں آ کر کیوں بحث کرنے لگتے ہیں۔ پتہ نہیں مجھ سے کونسی غلطی ہوئی کہ تمھیں اس پرانے زمانے کے مدرسے میں جانے کی اجازت دے دی۔ تم تو اپنے مینرز بھی بھولتی جا رہی ہو۔" انکی بات سن کر فاطمہ چپ ہو کر رہ گئی، بڑے ضبط سے اپنے آنسؤوں پر کنٹرول کیا ہوا تھا۔ "صبر جمیل!! ایسا صبر۔۔۔کہ مخالفوں کو پتہ بھی نہ چلے کہ انکی کسی بات نے تمھیں ہرٹ کیا ہے۔" قرة العین کی باتیں اسکے مائنڈ میں گونجنے لگیں۔ اس نے مشکل سے مسکرانے کی کوشش کی مگر آنکھوں نے اس مسکراہٹ کا ساتھ نہ دیا اور دو قطرے بہہ نکلے جنھیں اس نے منہ پھیر کر اپنی ماں سے چھپا لیا۔ "بہرحال! اب مزید مجھے کوئی بحث نہیں کرنی۔ میں اپنے بیٹے کی خوشیوں کو تمھاری نحوست سے خراب نہیں کرنا چاہتی۔ اگر کل کوئی ڈرامہ کیا تو یاد رکھنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔" غصے سے کہتے ہوئے وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچن میں کام کرواتے ہوئے وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی کہ آج کیا ہو گا؟ "تمھاری ماما ٹھیک کہتی ہیں۔ گھر میں آنے والوں سے پردہ کرنا کتنا مشکل ہے۔ کب تک ایسے خود کو چھپاؤ گی؟ ابھی تو تمھاری اپنی بھی شادی ہونی ہے۔" اسکے اندر طرح طرح کے وسوسے اٹھ رہے تھے۔ شیطان مکمل زور لگا رہا تھا۔۔ اندر سے بھی، باہر سے بھی، کہ کسی طرح وہ پردہ نہ کرے۔ "اللہ تعالیٰ میں کیا کروں؟؟" وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ مسز ریان کی آواز آئی۔ "چلو فاطمہ تم جا کر ریڈی ہو جاؤ۔ صغراں تم سب کچھ چیک کرو ایک بار، آج میرے بیٹے کی منگنی ہے کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ جیسے ہی گیسٹ آنے لگیں تم ڈرنکس سرو کروانا شروع کر دینا۔" فاطمہ کچھ کہے بغیر کچن سے نکلی اور لاؤنج میں نظر دوڑاتے ہوئے سیدھا اپنے رووم میں چلی گئی۔ سب کچھ فائنل ہو چکا تھا۔ سب اب ریڈی ہونے کے لیے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ مغرب کی نماز کے بعد جائے نماز پر ہی بیٹھی تھی۔ دل انتہائی مضطرب تھا، دھڑکن کنٹرول میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ الجھ چکی تھی، کیا کرے اور کیا نہ کرے؟ اب تو آنسو بھی جیسے رک کر گلے کا پھندہ بنے ہوئے تھے۔ اگر آج نہ کروں تو؟ منگنی ہو جائے ایک بار پھر کرلوں گی۔ باہر پردہ کرتی تو ہوں، کیا اتنا ہی کافی نہیں ابھی؟ مجھے لگتا ہے آہستہ آہستہ کرنا چاہیے۔ اتنے لوگوں کا سامنا کرنا آسان تھوڑی ہے۔ ماما لوگوں نے مجھے نہیں چھوڑنا اگر میں نے حیدر بھائی کے سسرال والوں کے سامنے پردہ کیا۔ تو کیا میں ویسے ہی انکے سامنے چلی جاؤں جیسے پہلے بے پردہ رہا کرتی تھی؟ پھر کیا فائدہ میرا قرآن پڑھنے کا؟ اگر میں نے اللہ کا حکم جان کر بھی عمل نہ کیا؟ یا میں کمرے سے نکلوں ہی نا؟ ہائےے!!!! اللہ اکبر!! وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹے بعد تقریب کا آغاز ہونے والا تھا۔ ہزاروں خیال اور وسوسے اسکے دماغ کو الجھائے جا رہے تھے۔ "اللہ تعالیٰ!! مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔" اس نے بے بس ہوتے ہوئے کہا۔ "جب بھی ٹوٹنے لگو، جب بھی دنیا سے تھک جاؤ، جب بھی اللہ کی یاد آئے، جب بھی کسی سوال کا جواب چاہیے ہو، اسے کھول کر پڑھ لینا۔" اسے قرت کی بات یاد آئی جو اس نے فاطمہ کو اپنا قرآن دیتے ہوئے کہی تھی۔ وہ تیزی سے جائے نماز سے اٹھی اور بھاگ کر الماری سے قرآن نکال کر کھولا۔ "یہ وہ کتاب ہے جو انسان کی ہر معاملے میں رہنمائی کرتی ہے۔" اس کے پہلے پیج پر فاطمہ نے اپنے ہاتھ سے لکھی لائن کو دہرایا۔ فاطمہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی اور درمیان سے کھول کر سورت کا نام دیکھے بغیر تلاوت شروع کر دی۔ وہ اپنی سوچوں میں محو، ابھی قرآن کے صفحات پلٹ ہی رہی تھی کہ مسز ریان کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں۔ "فاطمہ وہ گفٹس۔۔ ارے یہ کونسا وقت ہے قرآن پڑھنے کا؟؟" اسے قرآن کھولے دیکھ کر انھوں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر فوراً پوچھا۔ "جی ماما بس دل بے چین ہو رہا تھا بہت، اس لیے۔" "تم اور تمھارا دل!! بند کرو اسے، جب دیکھو ایک ہی کام ہے۔ جلدی سے ریڈی ہو کر باہر آؤ۔ تمھارے تایا لوگوں کی فیملی آ گئی ہے۔ انگلینڈ سے انکا بیٹا عکاشہ بھی آیا ہے، وہ باہر ویٹ کر رہے ہیں، جلدی آؤ۔" "جی۔۔" اسے اپنی آواز اپنے ہی حلق میں پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔ مسز ریان دروازہ بند کر کے جا چکی تھیں۔ "یا اللہ!!!!" آنسو ٹپ ٹپ بہہ کر قرآن کے صفحات بھگونے لگے۔ "میں انکا کیسے سامنا کروں گی اللہ؟؟؟؟" اس نے روتے ہوئے قرآن کے کھلے صفحات کو دیکھا۔ اسے یقین تھا کہ اسکا رب اسے ضرور جواب دے گا۔ سامنے یہ آیت۔۔ *"مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو، وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے۔"* (سورت البقرة: 208) پڑھی اور بس۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "یہ مسز ریان کی بیٹی ہے؟؟" "اسے کیا ہوا ہے؟؟ "شاید چہرے پر کچھ ہوا ہے جو چہرہ چھپائے پھر رہی ہے۔" "یہ ایسے ماسیوں کی طرح کیوں گھوم رہی ہے؟؟" "بھائی کی رسم ہے، بہنیں تو بہت خوشیاں مناتی ہیں۔ یہ کیوں ایسے چھپتی پھر رہی ہے؟" ہال نما ڈیکوریٹڈ لاوؤنج میں حیدر سے زیادہ فاطمہ کو ڈسکس کیا جا رہا تھا۔ فاطمہ سب سے خوش اخلاقی اور محبت سے مل رہی تھی۔ اس نے ڈریس تو وہی پہنا تھا جو ماما نے ڈیزائن کروایا تھا مگر اوپر سے ایک بڑی چادر سے خود کو ڈھانپ لیا تھا، جسکی وجہ سے سارے کپڑے چھپ گئے تھے۔ اس نے میک اپ بھی کیا تھا البتہ جب کسی مرد کے سامنے سے گزرتی یا کوئی مرد اسکے سامنے سے گزرتا تو وہ فوراً سے اپنے چہرے کو ایسے چھپا لیتی کہ آنکھیں بھی نظر نہ آتیں۔ سب خاندان والوں کی چبھتی نظریں اور مختلف سوالوں کو بالکل اگنور کر کے وہ سب کو بس ایک ہی جواب دے رہی تھی۔ "جی الحمدللہ! اللہ کی توفیق سے، قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے میں نے مکمل پردہ شروع کر دیا ہے۔" مسز ریان فاطمہ کے باہر آنے سے لاعلم، اپنی فرینڈز کے سرکل میں حیدر کے سسرال والوں کی تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہی تھیں کہ اچانک انکی دوست سارہ نے منہ سکیڑتے ہوئے کہا۔ "یہ آپکی بیٹی فاطمہ ایسے کیوں پھر رہی ہے؟؟" مسز ریان نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر فوراً مڑ کر فاطمہ کو دیکھا، جو سب سے گلے لگ لگ کر مل رہی تھی۔ "بچی نے پردہ شروع کیا ہے، بہت اچھی بات ہے۔ آج کے دور میں تو لڑکیاں بے حیا ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ بہت خوشی ہو رہی جوانی میں ایسی استقامت دیکھ کر۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں مسز ریان! ورنہ میں تو اپنی بچیوں کو کہتی رہتی ہوں کہ کم از کم دوپٹہ تو اوڑھ لو۔" ایک اور خاتون جو انکے پاس کھڑی تھیں بڑے رشک کی نگاہوں سے اس دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔ جبکہ مسز ریان کی آنکھیں شدتِ غضب سے سرخ ہونے لگیں، میک ایپ شدہ چہرہ غصے سے تپنے لگا تھا۔ وہ تیزی سے فاطمہ کی جانب لپکیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے! #ام ہریرہ
Image from اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا سفر ❤️: *رب سے جڑنے کا سفر*  <a class="text-blue-500 hover:underline cursor-po...
❤️ 👍 🙏 😢 🫀 😂 🆕 🤲 1.9K

Comments