𝗨𝗿𝗱𝘂 𝗧𝗮𝗵𝗿𝗶𝗿 ✍
𝗨𝗿𝗱𝘂 𝗧𝗮𝗵𝗿𝗶𝗿 ✍
June 19, 2025 at 03:27 AM
جب دنیا ایک نئی عالمی کشیدگی کی لپیٹ میں ہے ایران جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے اور امریکہ براہِ راست اس تناؤ میں شامل ہے، ایسے حساس وقت میں پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی امریکہ میں موجودگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کی خودمختاری یا غیر جانبداری پر سمجھوتہ ہے۔ لیکن ایسے نازک عالمی حالات میں کسی اقدام کو صرف ظاہری شکل میں پرکھنا دانشمندی نہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ جنرل صاحب امریکہ میں کیوں ہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ وہاں کیا پیغام دے رہے ہیں اور کیا حاصل کر رہے ہیں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ ایک ایسی پیچیدہ شطرنج کی مانند ہے، جس میں دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر اعتماد کیے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ عسکری ناکامی صرف طالبان کی مزاحمت نہیں تھی، بلکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی چالاک سفارت کاری، دہری پالیسی، اور طاقتور توازن سازی کا بھی نتیجہ تھی۔ پاکستان نے ہمیشہ بڑی طاقتوں کے بیچ رہتے ہوئے اپنے مفاد کا تحفظ کیا، اور یہی طرزِ عمل آج بھی جاری ہے جنرل عاصم منیر کا امریکی دورہ اسی پرانی، مگر مؤثر حکمت عملی کا تسلسل محسوس ہوتا ہے، جس کا مقصد وقت خریدنا، سفارتی سطح پر موجودگی کو مستحکم کرنا، اور عالمی بیانیے میں پاکستان کے لیے جگہ بنانا ہے۔ اس میں نہ کوئی کمزوری ہے اور نہ ہی کسی جھکاؤ کی علامت، بلکہ یہ عالمی شطرنج کی بساط پر ایک چال ہے جس کا مقصد پاکستان کے لیے توازن اور مہلت کا حصول ہے۔ پاکستان برسوں سے چین جیسے اسٹریٹجک شراکت دار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے، اور بیک وقت امریکہ جیسے عالمی کھلاڑی کو بھی انگیج رکھے ہوئے ہے۔ یہی دوہری پالیسی پاکستان کی بقاء، خودمختاری اور سفارتی اثرورسوخ کی بنیاد بنی ہے چین کی سوچ بھی اس حکمت عملی سے ہم آہنگ ہے۔ چین خود چاہتا ہے کہ پاکستان امریکہ کو سفارتی محاذ پر مصروف رکھے، تاکہ امریکی اثرورسوخ کا دائرہ محدود رہے۔ اس وقت دنیا کی بڑی طاقتیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں، اور پاکستان اگر ان کے درمیان اپنی پوزیشن مضبوط کر لیتا ہے تو یہ ایک عظیم اسٹریٹجک کامیابی ہوگی آج کی دنیا میں جنگ صرف میدان میں نہیں، بلکہ سفارت کاری، معاشی توازن، اور نفسیاتی برتری کے ذریعے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر پاکستان وقت خرید سکتا ہے، دشمن کو الجھا سکتا ہے، اور اندرونی صفوں کو منظم کر سکتا ہے، تو یہ قومی کامیابی کی بنیاد ہے، نہ کہ کسی مصلحت کا اظہار۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ حکمت عملی ہمیں کمزور نہیں بلکہ زیرک، فعال اور دوراندیش قوم کے طور پر پیش کرتی ہے لہٰذا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بطور قوم جذبات کے بجائے بصیرت سے فیصلے کریں۔ ہمیں اپنی فوج اور قیادت پر اعتماد برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ یہ وہ ادارہ ہے جو عالمی طوفانوں میں بھی پاکستان کے مفادات کا محافظ بن کر کھڑا ہے۔ یہی حکمت، یہی صبر، اور یہی مزاحمت ہماری بقاء کا راستہ ہے
👍 2

Comments