PTI NA-125 (PP-164 / PP-165 / PP-166)
PTI NA-125 (PP-164 / PP-165 / PP-166)
May 26, 2025 at 10:18 PM
اڈیالہ جیل میں ناحق قید سابق وزیراعظم عمران خان کی دوران ٹرائل کارکنان، وکلأ اور صحافیوں سے گفتگو اور سوالات کے جوابات تاریخ - ۲۶ مئی ، ۲۰۲۵ ‏“میں ساری زندگی جیل کی چکی میں گزار لوں گا لیکن فرعونیت اور یزیدیت کے سامنے نہیں جھکوں گا!! ‏قانون کی حکمرانی میری تحریک کا مرکزی مقصد ہے، جس سے ہم جنگل کا قانون ختم کریں گے- ‏جب سیاسی جماعت پر تمام دروازے بند کر دئیے جائیں ان پر ظلم کیا جائے، عدلیہ آزاد نہ ہو تب ان کے پاس سوائے پر امن احتجاج کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔ ‏میں اپنی پارٹی، کارکنان اور سپورٹرز کو ہدایت کرتا ہوں کہ آپ سب لوگ ایک بھرپور ملک گیر تحریک کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس بار صرف اسلام آباد نہیں پورے پاکستان کی کال دوں گا- ‏پارٹی کے تمام لوگوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں آپ میں سے کوئی بھی “الیکٹیبل” نہیں ہے۔ آپ سب نظریے کے زور پر جیت کر آئے ہیں۔ مجھے سب کے بارے میں معلوم ہے کہ کون وکٹ کے دونوں اطراف کھیل رہا ہے، جو پارٹی احکامات پر عمل پیرا نہیں ہو گا اس کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ مجھے جب بھی موقع ملا پارٹی انتخابات کرواؤں گا۔ پارٹی میں الیکشن کروانا ناگزیر ہے تاکہ ورکرز اوپر آ سکیں۔ ‏نو مئی صرف آدھے گھنٹے کا کیس ہے۔ اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج چرانے والے ہی اصل ذمہ دار ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے نو مئی کیا تھا تو CCTV فوٹیجز سامنے لے آئیں۔ ‏پولی گرافک ٹیسٹ تو شہباز شریف کا ہونا چاہیئے اور اس سے پوچھنا چاہئیے کہ وہ فارم 47 سے آیا ہے یا 45 سے۔ ‏میں پاکستان کا سابق وزیراعظم ہوں، جس کے لیے جیل میں علیحدہ کیٹیگری ہوتی ہے لیکن مجھے جیل میں عام قیدیوں والی سہولیات بھی نہیں دی گئیں- مجھے جیل کے جس سیل میں 22 ماہ سے قید کیا ہوا ہے وہ ایک “چکی” ہے۔ اسی ملک میں چوروں کو وی وی آئی پی سیل میں رکھا گیا جو کسی “سویٹ”سے کم نہیں تھے۔ ‏یہاں جنگل کا قانون نافذ ہے اور ایک کرنل کے کہنے پر تمام عدالتی احکامات ہوا میں اڑا دئیے جاتے ہیں- میرے بچوں سے میری بات نہیں کروائی جاتی، میری بہنوں کو مجھ سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ میری کتابوں سے پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے کہ ڈھائی ماہ سے مجھ تک کوئی کتاب نہیں پہنچنے دی گئی، صرف وہی کتابیں دی جاتی ہیں جو پہلے ہی پڑھ چکا ہوں- میں ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں لیکن میری جماعت کے لوگوں کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی حالانکہ ان کے پاس عدالتی احکامات موجود ہوتے ہیں- ‏صرف مجھے اذیت دینے کے لیے میری اہلیہ کو سزائیں سنائی گئیں اس سے زیادہ گھٹیا پن کیا ہو سکتا ہے۔ ایک ہفتے میں میری اہل خانہ یا وکلاء سے صرف 30 منٹ کی ملاقات کروائی جاتی ہے۔ میری اہلیہ پر صرف سہولت کاری کا جھوٹا الزام تھا جو ثابت بھی نہیں ہو سکا۔ ‏کل ہائی کورٹ کے باہر ہونے والے احتجاج میں تمام اپوزیشن اراکین لازمی شرکت کریں۔چھبیسیوں ترمیم کے بعد عدلیہ بلکل مفلوج اور بےاثر ہو چکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بارہا وعدے کرنے کے باوجود بھی ہمارے کیسز نہیں لگا رہا- ‏سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کے حق میں فیصلہ دے کر اپنے ہی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کر دیا ہے- ‏بھارت کے جواب میں ہماری فورسز خصوصاً پاک فضائیہ نے زبردست جواب دیا ہے اور پوری قوم نے بھی ساتھ دیا۔ میں جیل میں مقید ہوں مگر یہاں بھی لوگوں نے پاکستان کے جواب پر خوشی منائی۔” ‏

Comments