
MERA PAKISTAN NEWS
June 19, 2025 at 03:34 PM
’ *ڈراؤنی راتیں، ہر وقت سائرن، چیخ و پکار’ ایران سے وطن واپس آنے والے پاکستانیوں کے تاثرات*
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث ایران میں مقیم پاکستانی شہریوں نے وطن واپسی اختیار کر لی ہے، جہاں انہوں نے میزائل، ڈرون حملے اور خوف و ہراس سے بھری راتوں کا سامنا کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف تہران کے طالبعلم محمد حسن نے بتایا کہ وہ اس ہفتے ایران سے پاکستان واپس لوٹے ہیں، ان کے مطابق، ’ وہ راتیں بہت ہی ڈراؤنی تھیں، ہر وقت سائرن، چیخ و پکار اور میزائلوں کے گرنے کا خطرہ منڈلاتا رہتا تھا۔’
35 سالہ حسن ان تقریباً 3000 پاکستانیوں میں شامل ہیں، جنہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق، گزشتہ ہفتے اسرائیل کے ایران پر فضائی حملوں کے بعد وطن واپس لایا گیا ہے۔
حسن کا کہنا تھا، ’ میں تہران شہر شہر کے مرکز میں موجود تھا جہاں بیشتر حملے ہوئے، ایک طالبعلموں کے ہاسٹل پر بھی حملہ ہوا، خوش قسمتی سے کوئی شہید نہیں ہوا، مگر کئی طالبعلم زخمی ہوئے۔’
انہوں نے مزید بتایا کہ صرف یونیورسٹی آف تہران میں 500 سے زائد پاکستانی طالبعلم زیر تعلیم ہیں، جو اس وقت سب پاکستان واپسی کے سفر پر ہیں۔
حسن نے اے ایف پی کو بتایا۔’وہ دن اور راتیں انتہائی خوفناک تھیں… سائرن کی آوازیں، چیخ و پکار، اور میزائل لگنے کا خطرہ، جب رات کے وقت کھڑکی سے باہر جھانکتے تو ڈرون اور آگ کی لکیر چھوڑتے ہوئے میزائل دکھائی دیتے تھے۔‘
تہران کا سناٹا
پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں، گزشتہ سال، پاکستان نے ایران کی سرزمین پر موجود اہداف پر جوابی حملے کیے تھے، قبل ازیں تہران نے پاکستانی سرزمین پر حملہ کرکے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہاں موجود ایک گروہ کے اڈوں پر حملہ کیا تھا۔
تاہم، دونوں ممالک کے حکام نے جلد ہی مصالحتی اقدامات کیے، جو کشیدگی کم کرنے کی باہمی خواہش کا اشارہ تھے۔
اس باہمی کشمکش کے باوجود، دونوں جانب سے تجارت، سیاحت اور تعلیمی روابط معطل نہیں کیے گئے۔
پاکستان بھر میں ایرانی قونصل خانے اپنی جامعات کی تشہیر کے لیے اپنی کوششیں تیز کر چکے ہیں۔
25 سے 35 ملین کے درمیان شیعہ مسلمان اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ایران کے مقدس مقامات کی زیارت کی امید رکھتے ہیں، جن میں سرفہرست مقدس شہر ’ قم’ ہے۔
41 سالہ پیٹرولیم انجینئر محمد خلیل نے بتایا کہ انہوں نے تین دن قبل تہران چھوڑا، جہاں سڑکیں سنسان ہو چکی تھیں اور لوگ گھروں میں محصور تھے۔
انہوں نے بتایا،’ آخری دو دنوں میں، میں نے لوگوں کو مختلف گاڑیوں میں شہر چھوڑتے دیکھا، وہ ساتھ ضروری سامان بھی لے جا رہے تھے۔’
عبدالغنی خان، جو پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور طبی آلات کی خریداری کے لیے ایران آتے ہیں، حملوں کے وقت تہران میں موجود تھے، ان کا کہنا تھا، ’ ہم نے ڈرونز، اینٹی ایئر کرافٹ گنز کی لال روشنیاں اور ایک عمارت کو آگ پکڑتے دیکھا۔’
وہ ایک ہفتے سے تہران میں موجود تھے جب جمعے کے روز اسرائیل نے پہلا میزائل حملہ کیا، اس کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید میزائلوں کا تبادلہ ہوا ہے، جس سے خطے میں ایک وسیع تر جنگ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے کیونکہ یہ واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جو ایٹمی طاقت رکھتا ہے، یہ ایران کی طرح اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، لیکن ساتھ ہی امریکا کا ایک اہم اتحادی بھی ہے۔
عبدالغنی خان کو بذریعہ سڑک وطن واپس آنا پڑا کیونکہ فضائی حدود اب بند ہو چکی ہے، پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحدیں بھی بند کر دی ہیں، سوائے ان پاکستانیوں کے جو وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔
زیارات ادھوری رہ گئیں
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل محمد آصف زیارات کے لیے قم اور مشہد گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں وہ پر سکون تھے، مگرجب مشہد کے ایئرپورٹ پر اسرائیلی حملہ ہوا، جو پاکستان کی سرحد سے تقریباً 1000 کلومیٹر دور ہے، تو وہ فوراً وطن واپسی کے فیصلے پر مجبور ہو گئے۔
ثمرین علی بھی مشہد میں موجود تھیں، جہاں وہ اپنے شوہر اور 15 سالہ بیٹے کے ہمراہ زیارات پر گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا، ’ میں مسجد میں نماز ادا کر رہی تھی جب دو دھماکوں کی آواز آئی۔’
ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی نو بار ایران جا چکی ہیں، لیکن کبھی جنگ کا تصور بھی نہ کیا تھا، اچانک موبائل پر پیغامات آنا بند ہو گئے، تب لگا شاید جنگ کے باعث رابطے محدود کر دیے گئے ہیں۔“
46 سالہ سید ثاقب قم سے یزد جانے پر مجبور ہوئے، جہاں انہوں نے رات ایک بس ٹرمینل میں گزاری، اور پھر زاہدان کے لیے روانہ ہوئے جو بلوچستان کے قریب واقع ہے۔
ثاقب نے پرسکون لہجے میں بتایا ’ آخرکار تفتان بارڈر عبور کیا، جہاں کئی خاندان بھاری سامان اٹھائے کھڑے تھے۔’