
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 16, 2025 at 01:15 PM
*⭕ ایران، یورشی ہدف یا پہلا ہدف؟ — مسلم دنیا کا اضطراب اور موقع پرستی*
✍️ تحریر: مجدی المغربی - غزہ فلسطین
حالیہ خبروں کے مطابق ترکی، پاکستان، اور یہاں تک کہ طالبان بھی ایسے بیانات دے چکے ہیں جن میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اگر اسرائیل ایران کے خلاف اپنے حملوں میں کسی بڑی کامیابی کے قریب پہنچ گیا، تو وہ ایران کے حق میں کوئی نا کوئی عملی مداخلت کر سکتے ہیں۔ تاہم ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں ان ریاستوں کا یہ مؤقف دراصل ایران سے محبت یا کسی نظریاتی ہم آہنگی کا نتیجہ نہیں، بلکہ خالصتاً ایک تزویراتی اضطراب ہے۔
ایران ان ریاستوں کے لیے یا تو ایک بدعنوان حریف ہے یا ایک بدخواہ دشمن۔ وہ نہ ان کا دوست ہے، نہ کوئی قابل اعتماد حلیف۔ بلکہ ایک دیرینہ متنازع طاقت ہے جو ان کی داخلی و خارجی سلامتی کے لیے ایک مستقل خدشہ بنی رہی ہے۔ اس کے باوجود، ان ریاستوں کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل کو ایران پر کھل کر کاری ضرب لگانے دی گئی، تو اگلا نشانہ وہ خود ہوں گے۔
یہ تصور ایک مشہور تمثیل سے اخذ کیا گیا ہے: "ثورِ سفید" (سفید بیل) — کہ اگر طاقتور دشمن اسے کھا گیا، تو دوسرے بیل (یعنی مسلمان ممالک) بھی باری باری اس کے پیچھے نگلے جائیں گے۔ اس خطرے کا شعور ان ریاستوں کو اس وقت ہورہا ہے جب دشمن نے تمام عالمی ضوابط، اخلاقی حدود، اور بین الاقوامی معاہدات کو روند دیا ہے اور اب طاقت و استبداد کو اپنا واحد قانون بنا لیا ہے۔
تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ایران خود "ثورِ سفید" نہیں۔ بلکہ وہ تو ایک خود غرض طاقت ہے جو ہمیشہ اپنے مفادات کو اولین ترجیح دیتا ہے، چاہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہو یا کسی اور مظلوم کی مدد۔ اگر حقیقت میں کوئی "ثورِ سفید" ہے، تو وہ غزہ، القدس اور فلسطین ہے — جسے سب نے تنہا چھوڑ دیا، حتیٰ کہ عرب و اسلامی دنیا کی حکومتیں بھی۔
اگر ترکی، پاکستان، طالبان یا ایران، حزب اللہ اور دیگر علاقائی قوتیں وقت پر غزہ کے حق میں کھڑے ہو جاتیں تو نہ آج یہ صورتحال ہوتی، نہ دشمن یوں بے خوف ہوتا۔ یہ اسرائیل کا جرأت و جسارت کا اصل سبب ہے: مردوں کا خلا اور قیادت کی خاموشی۔
یہ بات واضح ہے کہ ایران کی موجودہ عسکری حرکت صرف اس وقت سامنے آئی جب اسرائیلی حملے براہِ راست اس کے نظام، افواج، اور شخصیات کو نشانہ بنانے لگے۔ نہ یہ غزہ کے لیے ہے، نہ اہل فلسطین یا اہل سنت کے لیے، اور نہ ہی کسی "عقیدہ برادری" کے جذبے سے۔ ایران کی سردمہری خود اس کی پالیسیوں کی عکاس ہے — اس نے نہ اہل غزہ کی مدد کی، نہ اپنے حلیفوں کی، اور نہ ہی لبنان یا یمن کے محاذوں پر کوئی جاندار عملی قدم اٹھایا، جب تک خطرہ اس کی دہلیز پر نہ آن پہنچا۔
پس، جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ صرف مفادات کا ٹکراؤ ہے، نہ کہ اصولی یا نظریاتی جنگ۔ یہی وقت ہے کہ مسلم دنیا حقیقت کو تسلیم کرے، اور اتحاد، فراست اور قوت ارادی کے ساتھ ایک نئی صف بندی کرے — ورنہ دشمن سب کو تنہا کرے گا، ایک ایک کر کے۔
اور آخر میں، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
"والله غالب على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون"
(اللہ اپنے فیصلے پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)