❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 17, 2025 at 12:07 PM
*اسرائیل-ایران جنگ بندی اور امریکہ-ایران معاہدہ* *محمد عمران مسجدی* ٹرمپ ٹیم اس ہفتے ایران کو جوہری معاہدےاور جنگ بندی پر مذاکرات کی باقاعدہ تجویز پیش کرے گا۔۔۔ ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ ایران معاہدہ کرنے پر راضی ہو جائے گااور اس پر دستخط ہو جائیں گے۔ ۔۔اسرائیل کی ایران پر بمباری کا مقصد ’’رجیم چینج‘‘ نہیں بلکہ ایران پر دباؤ ڈال کر ’’امریکی و اسرائیلی ’نامعلوم‘ شرائط منوانا ‘‘اور ایران کی ’’جوہری پیشرفت کو ملتوی‘‘کروانا ہے۔۔۔ مختلف ذرائع کے مطابق، وائٹ ہاؤس ایران کے ساتھ اس ہفتے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوفsteve witkoff اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان ملاقات کے امکان پر بات کر رہا ہے۔ اس کا مقصد ایک سفارتی اقدام پر تبادلہ خیال کرنا ہو گا جس میں ایک جوہری معاہدے اور اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔میٹنگ کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی گئی ہے، لیکن یہ صدر ٹرمپ کی جنگ سے ہٹ کر ڈیل میکنگ کی آخری کوشش کا حصہ ہے۔ایک امریکی آفیشل نے تصدیق کی کہ اس ہفتے ایرانیوں کے ساتھ ایک ملاقات زیر غور ہے۔ *یاد رہے!* جیسا کہ توقع کے مطابق چند روز بعد ہی ایران نے اسرائیل کی سرحد دور ہونے کی وجہ سے فضائی حملوں کے بعد گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ایرانی صدر اور دیگر اعلیٰ حکام کی جانب سے یورینیم افزدوگی کو روکنے کےحوالے سے مذہبی جواز (رہنمائے اعلیٰ علی خامنہ ای کا فتویٰ برائے عدم جواز ایٹمی ہتھیار اور انکی جان کا تحفظ) کے ساتھ ساتھ عراقی صدام کی غلطی (مذاکرات نہ کرنا) کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ’’نظام‘‘ کو بچانے اور ملکی’’تباہی‘‘ سے بچنے کا جواز بھی پیش کیاگیا۔اسکے علاوہ دو ایرانی اور تین علاقائی ذرائع نے گزشتہ روز روئٹرز کو بتایا کہ تہران نے قطر، سعودی عرب اور عمان سے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جوہری مذاکرات میں ایرانی لچک کے بدلے ایران کے ساتھ فوری جنگ بندی ceasefire پر راضی ہوں۔ چند دنوں میں ہونے والی یہ ملاقات اس سوال کے گرد بھی گھومتی ہے کہ ’’آیا امریکہ، ایران کے جوہری پروگرام کو عسکری طور پر ختم کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گا یا نہیں‘‘۔ ٹرمپ نے ایران کی زیر زمین افزودگی کی سہولت فورڈو fordowکے خاتمے کو بھی پیش نظر رکھا ہوا ہے۔نظامِ سرمایہ داری کا سرخیل اور کاروباری ذہنیت رکھنے والا ٹرمپ سودے بازی اور فائدہ اٹھانےکے بارے میں سوچتا ہے۔ ٹرمپ نے اب تک ایران پر اسرائیل کے حملوں میں براہ راست شرکت سے انکار کیا ہےلیکن اس نے بارہا یہ اعلان ہےکیا کہ ایران کو کسی نہ کسی طریقے سے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جانا چاہیے۔یورپی ممالک یہاں تک کہ خطے کے عرب ممالک بھی ایران کے جوہری طاقت نہ بننے کے مسئلہ پر ’فی الوقت‘ اپنی اپنی وجوہات کی بناء پر امریکہ و اسرائیل کے ہمنوا و ہم آواز ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو، امریکہ پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایران کی موجودہ کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکے ساتھ ایران پر حملہ میں شامل ہوجائے اور افزودگی کی سہولت کے انڈرگراؤنڈ سینٹر فورڈو پر بمباری کرے۔مگر ٹرمپ ایران سے سودے بازی اور مذاکرات ومعاہدہ کرنے پر اصرار کررہا ہے۔ مگر دوسری طرف ٹرمپ نے گزشتہ شب کینیڈا میں ہونے والے جی سیون G-7اجلاس میں اپنا دورہ مختصر کرتے ہوئے ایران سے اسکے دارلحکومت تہران کو خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جس سے تہران میں بڑےپیمانے پرنقل و حرکت دیکھنے میں آرہی ہے۔ تاہم یہ ٹرمپ کی ایران کو اپنی مخصوص شرائط و معاہدہ پر راضی کرنے کے لئے دباؤ بڑھانے کی اسٹریٹجی ہوسکتی ہے جیسا کہ بعد ازاں اسکی کابینہ ممبران نے اسکی وضاحت کی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان الیکس فائفر alex pfeiffer نے ان رپورٹس کی تردید کی کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شریک ہوگیا ہے اور وضاحت کی کہ ’’امریکی افواج اپنے دفاعی انداز کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہم امریکی مفادات کا دفاع کریں گے‘‘ سیکرٹری دفاع پیٹ ہیگستھ pete hegseth نے بھی فاکس نیوز پر ایک انٹرویو میں مذکورہ پیغام کا اعادہ کیا اور زور دیا کہ ٹرمپ اب بھی سودے بازی dealکرنے کا خواہاں ہے۔ اس نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو امید ہے کہ امن ہو گا۔ اسی طرح چند روز قبل معروف ایرانی نژاد امریکی دانشور اور امریکی پالیسی ایڈوائزر ولی رضا نصر نے بھی کہاکہ ٹرمپ کی اس وقت ایران کے حوالے سے اسٹریٹجی یہی معلوم ہوتی ہےکہ: ’’جنگ کو ڈپلومیسی کے لئے استعمال کیا جائے۔۔۔ٹرمپ ایرانیوں کو اپنی خواہش کے مطابق نہیں جھکا پایا اسلئے اس نے اسرائیل کو اس حملے کی اجازت دی تاکہ ایران کو زخم خوردہ اور کمزور کرکے اس سے اپنی خواہش کے مطابق مطالبات کو منوایا جاسکے،گفت و شنید کی میز پر دبایا اور مجبور کیا جاسکے ‘‘۔س بات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ٹرمپ ایران کو کہہ رہا ہے کہ اب بھی وقت ہے میری بات مان لو۔ ولی نصر کے مطابق:’’ٹرمپ کی یہ وہی اسٹریٹجی ہے جو وہ اپنی پہلی ٹرم میں ایران پر پابندیاں لگاکر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر حاصل کرنے کی کوشش کرچکاکہ اگر اس پر بہت زیادہ معاشی دباؤ ڈالا جائے تو وہ اوباما ایڈمنسٹریشن کی نسبت بات چیت میں زیادہ بہتر ڈیل کے قابل ہوجائےگا۔اس مرتبہ نے یہ اندازہ لگایا کہ اسرائیل کا حالیہ حملہ اسے اس قسم کی ڈیل پر لے آئے گا جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرسکے کہ یہ اوباما حکومت سے کہیں بڑی ہے‘‘۔اور خود کو امریکہ کا امتیازی صدر ہونے کا اسکا خبط بھی پورا ہوگا۔ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے حلقوں میں یہ خبر گرم ہے کہ پیر کو ایران کے ساتھ ملاقات کی تجویز پر تبادلہ خیال کیاگیاہے۔ ٹرمپ نے G7 اجلاس میں بھی کہا: ’’ہم فون پر بات کر رہے ہیں لیکن ذاتی طور پر بات کرنا بہتر ہے‘‘ ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ ایران معاہدہ کرنے پر راضی ہو جائے گا۔ میرے خیال میں ایک معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے،ایران کا اس پر دستخط نہ کرنا بے وقوفی ہے۔ فرانس کے صدر میکرون نے صحافیوں کو بتایا کہ سربراہی اجلاس کے دوران، ٹرمپ نے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں نے ایرانیوں سے ملاقات کی پیشکش کی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ معلوم یہی ہورہا ہے کہ اسرائیل کی ایران پر بمباری کا اصل مقصد ’’رجیم چینج‘‘ نہیں بلکہ ایران پر دباؤ ڈال کر ’’امریکی و اسرائیلی ’نامعلوم‘ شرائط منوانا ‘‘ اور ایران کی ’’جوہری پیشرفت کو ملتوی‘‘کروانا ہے۔واللہ اعلم

Comments