❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 17, 2025 at 04:44 PM
*اسرائیل کو کیسے شکست دی جاسکتی ہے؟* *ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری* ایران پر جون ۲۰۲۵ء کے اسرائیلی حملوں سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اسرائیل طویل المدت جنگ لڑنے پر آمادہ ہے اور اس جنگ کے پھیلاؤ کے نتیجے میں پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کے قیام کےلئے کام کر رہا ہے لہٰذا مشرق وسطیٰ میں جنگ کے اصل فریقین وہاں کی اسلامی قوتیں اور امریکا ہیں، ہم نے حال ہی میں امریکا کو افغانستان سے نکالا ہے تو ہم امریکا کو مشرق وسطیٰ سے کیوں نہیں نکال سکتے، امریکا یہ جنگ اپنے پٹھو کے ذریعے لڑ رہا ہے، یہ ایک پراکسی جنگ ہے جس میں امریکا کے حربی اتحاد میں صرف اسرائیل نہیں کئی عرب ممالک (مصر، لبنان، اردن اور عرب امارات) بھی شامل ہیں، ایران کا براہ راست مقابلہ اسرائیل سے ہے اور اس ملک کی عسکری کمزوریوں سے واقفیت ہماری فوری ضرورت ہے __ امریکا کی عسکری کمزوریاں اسرائیل ایک نسبتاً چھوٹا ملک ہے اور اس کی بڑی جنگ لڑنے کی استطاعت محدود ہے لہٰذا اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کا زیادہ انحصار فضائی جنگ پر ہوتا ہے، ایران کی بری فوج اگر اسرائیل میں داخل ہو جائے تو آئی ڈی ایف کو بآسانی شکست دی جاسکتی ہے، اس راہ میں رکاوٹ امریکی حلیف ممالک ہیں جو اپنے ملک سے ایرانی فوج کو گزرنے نہیں دیں گے، اس جنگ کو ایک زمینی جنگ میں تبدیل کرنے کےلئے ضروری ہے کہ اردن، شام، عراق کی اسلامی قوتیں عوامی دباؤ کے ذریعے ان ممالک کی حکومتوں کو ایرانی فوج کے گزرنے کی اجازت دلوائیں، کل تک لبنان میں یہ ممکن تھا، آج اردن اور شام میں اس کی کوشش کی جاسکتی ہے، ہمیں اسرائیل کے اندر گھس کر یہ جنگ لڑنی ہے، حماس کی عدیم المثال فراست سے ثابت ہوا کہ آئی ڈی ایف اپنے ملک اور مقبوضہ علاقے میں جنگ لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتی، یہ بات آئی ڈی ایف کی غزہ میں ناکامی سے ثابت ہے، اسرائیل اور مغربی ساحل کی اسلامی قوتوں کےلئے ضروری ہے کہ وہ حماس سے سبق سیکھیں، جنگ کو یروشلم اور تل ابیب کی گلیوں اور محلوں تک وسیع کرنے کی کوشش کریں، یہ بالکل ممکن ہے اور اس ضمن میں لاطینی امریکی گوریلوں کی مزاحمت سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، حماس کے اسرائیل میں پھیلے ہوئے زیر زمین نیٹ ورک کو وسیع اور مضبوط کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، آئی ڈی ایف کی شہری جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی نہایت محدود ہے __ اسرائیل کے اندر کار فرما جمہوری نظام کو بھی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جنگ سے اکتاہٹ کے اشارے نمایاں ہیں اور کم از کم حزب اختلاف کے بیش تر دھڑے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل یہ جنگ جیت نہیں سکتا اور یہ جنگ نیتن یاہو اپنی حکومت بچانے کےلئے لڑ رہا ہے لہٰذا جمہوری نظام کو استعمال کر کے نیتن یاہو کی حکومت کو گرانا بھی اسلامی قوتوں کا ایک ہدف ہونا چاہیے، ایران کے جوابی حملے سے ثابت ہو گیا ہے کہ امریکی تعاون کے باوجود اسرائیل کی تکنیکی برتری فیصل نہیں اور اسلامی حکومت کو اس طریقہ سے شکست نہیں دی جا سکتی لہٰذا جلد یا بہ دیر وہ اس جنگ کو مصالحت کی بنا پر ختم کرنے پر آمادہ ہو جائے گا، ہمارے لئے اہم بات یہ ہے کہ یہ مصالحت ایران کی نیو کلیئر استطاعت میں اضافے پر ایسے سمجھوتے پر نہ ہو جو اس ملک کےلئے نیو کلیئر ہتھیاروں کے حصول کو مشکل یا ناممکن بنا دے، جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ ایران کا نیو کلیئر پروگرام تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اسے جلد یا بہ دیر نیو کلیئر ہتھیار حاصل کر لینا چاہیے، یہ اس کی ملکی سالمیت اور علاقے میں اسلامی غلبے کےلئے ضروری ہے، اس ضمن میں پاکستان کی اسلامی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کو اس بات پر راضی یا مجبور کریں کہ وہ ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو تحفظ فراہم کرے، بھارتی امریکی عسکری تعاون کے حالات میں یہ ایک موثر قدم ہو سکتا ہے جو ملکی سالمیت کے تحفظ کےلئے اٹھایا جانا چاہئے، ہماری جنگی حکمت عملی کا مقصد فضائی جنگ کو بری جنگ میں تبدیل کرنا ہے جو اسرائیل کے اندر لڑی جائے گی اور طویل مدت جاری رہے گی، اس کا اختتام اس وقت ہوگا جب اسرائیلی ریاست تحلیل ہوگی، اس حکمت عملی کو کار فرما کرنے کی استطاعت صرف اسلامی ایران میں ہے۔ علاقے کی تمام اسلامی قوتوں کو ایران کا پشت پناہ ہو جانا چاہئے __ امریکا سے مقابلہ امریکا یہ لڑائی ایران کے اندر بھی لڑ رہا ہے، موساد کا تخریب کاری کا جال نہایت وسیع ہے اور ایرانی فوجی اطلاعاتی نظام کو گھیرے ہوئے ہے، اس کے علاوہ اسلام دشمن قوتیں عوامی سطح پر بھی موجود اور متحرک ہیں، ایران میں ایک بڑی تعداد یہودیوں کی بھی ہے جو تخریب کاری میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، ان عناصر کی نشان دہی اور ان کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے، عین ممکن ہے کہ امریکا اور اسرائیل عوامی سطح پر اسلامی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک برپا کرنے کی کوشش کریں، اس قسم کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے عوامی تحرک کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے، ہر کڑے وقت میں ایرانی عوام نے اسلامی حکومت کی پشت پناہی کی ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اس مرحلہ میں بھی ایرانی عوام پر اعتماد جہاد کے حمایتی ثابت ہوں گے، جہاد کو جاری رکھنے کے حق میں عوامی مہم مستقلاً چلانے کی بھی اشد ضرورت ہے، ہمیں یہ جہاد اس وقت تک جاری رکھنا ہے جب تک اسرائیل کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ نہ جائے، ایران اور حماس نے اس عظیم کام کا بیڑا اٹھایا ہے، یہ جہاد مختلف مرحلوں میں داخل ہو سکتا ہے لیکن اس کا اختتام اسرائیلی ریاست کو فنا کر کے ہی ہو گا، یہ لڑائی امریکا پوری مسلم دنیا میں لڑ رہا ہے اور اسلامی ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاد میں حصہ لیں، افسوس کی بات ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلم ممالک کے عوام اس جہاد سے لاتعلق ہیں، اس لاتعلقی کو ختم کرنے کےلئے اسلامی قوتوں کو مندرجہ ذیل اقدام کرنے چاہئیں __ (۱) ایران کے حق میں ملک گیر مظاہروں کا تواتر سے سلسلہ شروع کیا جائے جس میں شیعہ سنی اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے اور حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ایران کی عملی حمایت کرے۔ (۲) ان مظاہروں اور دیگر مہمات میں امریکا کی اسلام دشمنی واضح کی جائے۔ (۳) واضح کیا جائے کہ امریکا کا اصل مقصد مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے بالخصوص ایران کے بعد پاکستان، سعودی عرب اور مصر نشانے پر ہیں، ان ممالک کی خود مختاری چھین لی جائے گی۔ (۴) امریکی مخالفت کو اسلامی سیاست کا کلیدی محور بنایا جائے۔ (۵) عوامی سطح پر مسلم ممالک میں قائم امریکی اڈوں کا مستقل گھیراؤ کیا جائے جائے۔ (۶)امریکی در آمدات کا بائیکاٹ موثر انداز میں کیا جائے۔ (۷) امریکا سے معاشی، تجارتی، صنعت کاری انقطاع کی مہم جاری کی جائے اور ان بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں سے انخلا کی مہم چلائی جائے جو امریکا کے زیر تسلط ہیں۔ (۸) امریکا سے مواصلت بالخصوص تارکین وطن کی آمد و رفت پر پابندی لگانے کی مہم چلائی جائے اور جو نوجوان مسلم ممالک چھوڑ کر امریکا میں رہائش اختیار کر رہے ہیں انہیں ملک کا غدار قرار دیا جائے۔

Comments