❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 18, 2025 at 10:53 AM
*ایران- اسرائیل جنگ: ایرانی ماہرین کی نظر سے*
*(حکمت عملی اور مستقبل کے منظرنامے)*
*تحریر: مسعود صدر محمدی*
*ترجمہ: محمد عمران مسجدی*
اس جنگ میں اسرائیل کا حتمی مقصد یا تو ایران کے سیاسی رویے کو بدلنا، ایرانی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنا یا ایران میں حکمران سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ۔۔ ایران کی فوجی قوتوں کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ اعلیٰ سطح کے کمانڈروں کے خاتمے کے بعد بھی اس نظام کی آپریشنل کارکردگی کو شدید نقصان نہیں پہنچے گا(ایرانی ماہر)۔۔۔ اسرائیل کے پلان بی کا مقصد عام لوگوں پر دباؤ ڈالنا ہے، اور انہیں حکمرانی میں تبدیلی لانے کی کوشش میں حکمران نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنا ہے۔۔۔ اکتوبر 2023 کے آپریشن طوفان الاقصیٰ نے مشرق وسطیٰ کو ایک پیچیدہ اور انتہائی کشیدہ مرحلے میں داخل کردیاجس نے بہت سی پیشرفت کی راہ ہموار کی۔۔۔حزب اللہ کے کمزور ہونے، لبنان میں سیاسی توازن میں تبدیلی اور تہران-بغداد-دمشق-بیروت کے درمیان اسٹریٹجک راہداری کے خاتمے نے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو محدود کر دیا اور مؤثر علاقائی مشغولیت کے لیے ایران کی صلاحیت کو عملی طور پر کم کر دیا۔۔۔ اس جنگ میں امریکہ کا کردار مرکزی اور ناقابل تردید ہے، اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس تنازع میں براہ راست امریکی مداخلت کا امکان بھی موجود ہے۔۔۔ یہ تنازعہ دو سے تین ہفتے جاری رہنے کا امکان ہے اورجنگ کا نتیجہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے مستقبل کا تعین کرے گا بلکہ اس کی ابھرتی ہوئی علاقائی ترتیب میں ایران کی پوزیشن بھی طے کرے گی۔ ۔۔
حالیہ دنوں میں ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور ملک کے اعلیٰ ترین کمانڈروں کے قتل کے بعد شروع ہونے والا تنازع اب بھی جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ان جھڑپوں کا اسکیل بڑھتا جا رہا ہے، اور ایران اور اسرائیل ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف گزشتہ چار دنوں میں ایران کی کارکردگی قابل ذکر رہی وہاں اسکی کارروائیوں میں نمایاں کمزوریاں بھی واضح ہیں۔ اسرائیل پر ایران کے بھاری میزائل حملوں نے ملک کی میزائل صلاحیتوں میں ایک نیا مرحلہ متعارف کرایا ہے اور مبصرین کی نظروں میں اسرائیل کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔
اس مسئلے پر ایرانی نقطہ نظر کا جائزہ لینے کی کوشش میں کچھ ایرانی ماہرین کے ساتھ انٹرویو کیا گیا:
۱۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک معروف تجزیہ کار صابر گولن باریsaber golanbari کا خیال ہے کہ ایران پر اسرائیل کے حملوں کے پہلے دو دنوں کے حوالے سے: ’’یہ مشترکہ حملے، جو ڈرونز پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، کچھ معاملات میں روس کی سرزمین پر یوکرین کے حالیہ 'ویب' آپریشن سے مختلف نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے کہ وہ حملہ آوروں پر کیے گئے حیرت انگیز حملے بھی تھے۔ حزب اللہ کے رہنماؤں اور سینئر کمانڈروں کے خلاف لبنان کی جنگ کے پہلے دن اگرچہ اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات کو حملوں کا ہدف قرار دیا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حملوں کے ابتدائی مرحلے میں، بنیادی توجہ فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے اور جوہری سائنسدانوں اور فوجی کمانڈروں کو قتل کرنے پر مرکوز تھی۔ جس کا مقصد ایران کی مسلح افواج کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچانا تھا۔
وہ ایران کی ابتدائی ناکامیوں کو ٹرمپ کے اسٹریٹجک فریب سے منسوب کرتے ہیں: "حملوں کی تفصیلات اور ایران کے ردعمل سے قطع نظر، ایران پر اسرائیل کے حملوں سے دو دن قبل واضح اشارے سامنے آنے کے باوجود، جو کہ اسرائیلی جارحیت میں اضافہ کی نشاندہی کرتے ہیں، یہ حملہ 'تزویراتی فریبstrategic deception' کا نتیجہ تھا، جو ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ تین مہینوں میں بنارکھاتھا۔ بیانات اور بظاہر سنجیدگی سے معاہدے اور مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اسرائیل کے حملے قریب نہیں ہیں۔ ڈیڈ لائن آج کے حملوں کی منصوبہ بندی میں ان کے اور ان کی انتظامیہ کے کردار کے بارے میں کوئی شک نہیں چھوڑتی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں، کیا یہ ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھیں گے، اور کیا ایران کی فضائی حدود اور سرزمین شام اور لبنان کے حالات سے مشابہت رکھتی ہے؟ گولن باری کہتے ہیں: ’’ایسا لگتا ہے کہ فی الحال، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ایران کے ردعمل کی سطح کیا ہےاور وہ کس حد تک اسرائیل کے تاثر کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ حملوں سے حالات معمول پر آسکتے ہیں لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو فریقِ مخالف کے حملے مسلسل اور اپنی ترجیحات کے مطابق ہو سکتے ہیں۔یہ سب پر عیاں ہے کہ مشرق وسطیٰ کا مستقبل اور خطے میں ایک نئے نظام کی تشکیل کا براہ راست تعلق ایران اور اسرائیل کے درمیان اس تنازع کے نتیجے سے ہے۔‘‘
۲۔ علی رضا مجیدیalireza majidi،جو کہ مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک معروف ماہر اور خطے کے سیکورٹی کے اپنے تجزیوں کے لیے پہچانے جاتے ہیں، کا خیال ہے کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف اپنی جنگ کے ابتدائی دنوں میں چار اہم مقاصد پر توجہ مرکوز کی تھی، وہ کہتےہیں:
پہلا مقصد فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنانا تھا، جس مقصد پر اسرائیل نے جنگ کے پہلے ہی دن عمل کرنا شروع کیا،
دوسرا مقصد جوہری اور فوجی مراکز پر اس طرح حملہ کرنا تھا کہ جوہری مراکز کو ابتدائی مرحلے میں ہی ختم کر دیا جائے اور فوجی مراکز کو یہ پیغام دینے کے لیے نشانہ بنایا جائے کہ ان کا جاری رہنا اسرائیل کی مرضی پر منحصر ہے۔
تیسرا مقصد ایران کے تمام فضائی دفاعی نظام کو تباہ کرنا تھا۔
چوتھا مقصد ایران کی جارحانہ صلاحیتوں کو کمزور کرنا تھا۔
بنیادی طور پر ایران کی فوجی قوتوں کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ اعلیٰ سطح کے کمانڈروں کے خاتمے کے بعد بھی اس نظام کی آپریشنل کارکردگی کو شدید نقصان نہیں پہنچے گا۔ ایران کی میزائل لانچنگ کی صلاحیتوں کو کم سے کم کرنے کے لیے اس مرحلے کا موثر دورانیہ تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہے گا، جس کے بعد اسرائیل اپنے پلان بی کی طرف بڑھے گا۔
وہ پلان بی کو ایران کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ سمجھتا ہے جس سے ایران میں زندگی انتہائی مشکل ہو جائے گی۔ ان کے خیال میں، اس جنگ میں اسرائیل کا حتمی مقصد یا تو ایران کے سیاسی رویے کو بدلنا ہے، ایرانی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنا ہے، یا ایران میں حکمران سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہے۔
اسرائیل کے نقطہ نظر سے، ایران کے سیاسی رویے میں تبدیلی، کافی اعتبار نہیں رکھتی کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ایران کی صلاحیتوں کی وجہ سے، ایران اپنے پرانے طرز عمل کو خفیہ طور پر قبول کر سکتا ہے، چاہے وہ اپنی پالیسیوں کو قبول کر لے۔ مثلاً اگر ایران اپنے جوہری پروگرام کو امریکی نگرانی میں رکھنے پر راضی ہو جائے تو اس بات کا ہمیشہ امکان رہتا ہے کہ ایران کسی اور جگہ پر چھپی ہوئی تنصیبات کو اسرائیل کی صلاحیتوں سے ہم آہنگ نہیں کر سکتا۔
اسرائیل کے پلان بی کا مقصد عام لوگوں پر دباؤ ڈالنا ہے، اور انہیں حکمرانی میں تبدیلی لانے کی کوشش میں حکمران نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنا ہے۔ اس مرحلے میں، اسرائیل ممکنہ طور پر بجلی اور گیس کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے، درآمدی اور برآمدی راستوں پر حملہ کرنے اور روزمرہ کی زندگی میں خلل ڈالنے والے اور لوگوں کو حکومت کے خلاف بغاوت کی طرف دھکیلنے جیسے اقدامات کرنے کی کوشش کرے گا۔ وسیع پیمانے پر عدم تحفظ اور شہریوں کا قتل، اس طرح کہ کوئی بھی خود کو محفوظ نہ سمجھے، اس مرحلے میں اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہوگا۔
ایسی صورت حال میں ایران کو کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے اس کے بارے میں مجیدی نے کہا:
"ایران کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے تحفظ کے ماحول کو اتنا مشکل بنا دے کہ عوامی دباؤ اسرائیلی حکومت کو جنگ کے خاتمے پر مجبور کر دے۔ اسرائیل کا تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ اسے حاصل کرنا ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں ممکن نہیں ہو گا، اور اسرائیل بھی اس پہلے ہفتے کے دوران کوشش کر رہا ہے کہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لیے اپنے دباؤ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکے‘‘۔
۳۔ ایرانی صحافی اور خارجہ پالیسی کے ماہر تجزیہ کار عارف دیہغاندر aref dehghandarبھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اکتوبر 2023 کے بعد کے سیاسی ماحول کو سمجھنا موجودہ جنگ کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے،کہتے ہیں:
’’اکتوبر 2023 میں الاقصیٰ طوفان کے آپریشن کے بعد، مشرق وسطیٰ میں معادلہ equationایک پیچیدہ اور انتہائی کشیدہ مرحلے میں داخل ہو گئی جس نے بہت سی پیشرفت کی راہ ہموار کی۔ گرے زون کی جنگ سے ایران -اسرائیل کے مابین براہ راست تصادم کی طرف منتقل ہونا اس واقعہ کے نتائج میں سے ایک تھا۔
حزب اللہ کے کمزور ہونے، لبنان میں سیاسی توازن میں تبدیلی اور تہران-بغداد-دمشق-بیروت کے درمیان اسٹریٹجک راہداری کے خاتمے نے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو محدود کر دیا اور مؤثر علاقائی مشغولیت کے لیے ایران کی صلاحیت کو عملی طور پر کم کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے ایران پر نمایاں انٹیلی جنس برتری سے فائدہ اٹھاتے اور امریکہ سے وسیع پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری کرتے ہوئے خود کو ایران کے ساتھ براہ راست تصادم کے لیے تیار کیا۔ مہینوں تک، تجزیہ کاروں نے دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپوں میں اضافے کے امکانات کی پیش گوئی کی تھی۔ خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2025 میں اقتدار میں آنے کے بعد، جسکی نیتن یاہو کی حمایت نے ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کی راہ ہموار کی۔
جمعہ کے دن اوائل میں اسرائیل نے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کیے، مؤثر طریقے سے ایک مکمل جنگ کا آغاز کیا جس میں ماضی کی ایران-اسرائیل جھڑپوں کی محدود، ’جیسے کو تیسا‘ جھڑپوں سے کوئی مماثلت نہیں تھی۔
دیہغاندر نے ایران کے خلاف اس جنگ میں اسرائیل کے مقاصد کا اندازہ اس طرح کیا:
’’'اس وسیع اسرائیلی آپریشن کا مقصد ایران کی دفاعی اور جوہری صلاحیتوں کو کمزور کرنا تھا، وسیع پیمانے پر اہداف پر محیط تھا: فوجی اڈوں اور جوہری تنصیبات سے لے کر سینیئر فوجی کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کے ہدفی قتل تک۔ آپریشن کا پیمانہ ماضی کے مقابلے میں نمایاں طور پر بڑا تھا، جس کے بعد ایران کا تزویراتی صبر ناممکن تھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت نے اس جارحیت کو سابقہ واقعات کے برعکس جنگ کا آغاز قرار دیا اور اس بار ایران کا ردعمل، محدود 'وعدہ صادق۱ ۔اور ۲۔' کارروائیوں کے برعکس وسیع اور فیصلہ کن تھا۔ گذشتہ چند راتوں میں مقبوضہ علاقوں میں اہداف پر ایران کے جوابی حملوں نے اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کی تہران کی صلاحیت کو ظاہر کیا اور ثابت کیا کہ اسرائیلی سرزمین کے اندر کوئی بھی جگہ ایرانی افواج کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اسرائیل کے کثیر پرت والے دفاعی نظام، جن کی حمایت امریکہ اور اردن جیسے ممالک نے کی ہے، میں میزائلوں کاداخلہ محدود ہے۔ تاہم ایران پھر بھی اپنے میزائلوں کی ایک بڑی تعداد کو مقبوضہ علاقوں کے حساس علاقوں میں گرانے میں کامیاب رہا۔
ایرانی خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار کا خیال ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کا کردار مرکزی اور ناقابل تردید ہے۔ 'امریکہ کی طرف سے لاجسٹک، فوجی اور سفارتی مدد - بشمول بنکر تباہ کرنے والے بموں کی فراہمی - نے اس حملے کو عملی طور پر تہران کے خلاف واشنگٹن کی زیر قیادت پراکسی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے بھی واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے اقدامات سے پہلے سے آگاہ تھا۔
اسرائیل کے لیے امریکی حمایت واشنگٹن کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے کہ جوہری مذاکرات میں ایران کو رعایت دینے کے لیے دباؤ ڈالا جائے اور ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس تنازع میں براہ راست امریکی مداخلت کا امکان بھی موجود ہے۔
دیہغاندر کے مطابق:ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے علاوہ، اسرائیل مزید اہداف حاصل کرنا چارہا ہے جیسے کہ داخلی عدم استحکام، افراتفری، اور یہاں تک کہ ایران کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ یہ حملوں کی نوعیت اور رہائشی علاقوں اور اہم اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کے اثاثوں کو نشانہ بنانے سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔یہ جارحیت غالباً ایران کی جوہری حکمت عملی کو بدل دے گی اور تہران کو اپنے دفاعی نظریے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گی۔ یہ تنازعہ چند دنوں کے بجائے دو سے تین ہفتے جاری رہنے کا امکان ہے۔ کشیدگی میں اضافے کو روکنے اور اپنی علاقائی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ایران کے پاس فیصلہ کن اور زیادہ خطرے والے حملے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس جنگ کا نتیجہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے مستقبل کا تعین کرے گا بلکہ اس کی ابھرتی ہوئی علاقائی ترتیب میں ایران کی پوزیشن بھی طے کرے گی۔
اس سیاسی تجزیہ کار کے نقطہ نظر سے اس جنگ نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کی نزاکت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایران نے اپنے ردعمل کے ذریعے اپنی دفاعی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے لیکن اگر جنگ جاری رہی تو اس تصادم کی معاشی، انسانی اور سیاسی قیمت دونوں فریقوں کو بھاری پڑے گی۔ حتمی نتیجہ جو بھی ہو، اس کے علاقائی نظام پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
۴۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے پہلے تین دنوں کے واقعات کی روشنی میں معروف ایرانی سیکیورٹی اور عسکری امور کے تجزیہ کار صائب ماجدی saeb majdiکا خیال ہے کہ
ایران کو تین اہم حکمتِ عملیوں پر عمل کرنا ہوگا:
سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے دشمن کے اندرونی نیٹ ورک کا پتہ لگانا اور اسے ختم کرنا،
فعال اور غیر فعال دفاعی نظام کو مضبوط کرنا اور
آخر میں، صرف طاقتور جارحانہ کارروائیوں کے لیے اسرائیل کے خلاف موثر کارروائی کا آغاز کرنا۔
مختلف تنظیموں، خاص طور پر مسلح افواج کے اندر دراندازوں کو بے نقاب کرنے اور گرفتار کرنے کی کوششوں کے علاوہ، جہاں پہلے ہی کئی کامیاب گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد کی شناخت کے لیے وسیع کوششیں جاری ہیں۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو حملے شروع کرتے ہیں، انکی رہنمائی کرتے ہیں، انٹیلی جنس کی اطلاع دیتے ہیں، تخریب کاری کی کارروائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ نیز دہشتگردی کی اہم رپورٹوں یا عوامی سطح پر دہشت گردی کی رپورٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وسیع پیمانے پر عوامی بیداری کی مہمات، اور اس کے ساتھ ساتھ متعدد چیک پوائنٹس نے حالیہ کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔دوسری جانب ایران پر اسرائیل کے حملے کے پہلے دن پہنچنے والے نقصانات کے بعد ایران کی فضائی دفاعی صلاحیتوں بالخصوص مغربی علاقوں میں بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ مزید برآں، دیگر غیر فعال دفاعی اقدامات، جیسے کہ طیاروں کو منتشر کرنا، جاری ہے۔ اس کا مقصد حساس تنصیبات کو مزید نقصان سے بچانا ہے۔ اس طرح کے اقدامات equation کو نمایاں طور پر تبدیل کر سکتے ہیں — لڑاکا طیاروں کو گرانے اور پائلٹوں کی گرفتاری جیسے واقعات ڈرامائی طور پر جنگ کا رخ بدل دیں گے اور دشمن کے اندرونی محاذ کو نفسیاتی جھٹکا دیں گے۔
کل دوپہر سے، ایسا لگتا ہے کہ دشمن ایران کے فضائی دفاع کی بحالی سے حیران ہے اور اس نے ابتدائی طور پر ڈرونز اور بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوں کے وسیع استعمال کے ذریعے اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی کوشش کی، اس کے بعد لڑاکا طیاروں کی تعیناتی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کی جارحانہ صلاحیتوں کو تیزی سے بحال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ مزید برآں، دشمن کے ممکنہ اگلے منظرناموں کے لیے تیاری بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، تشخیص کے مطابق، دشمن مخصوص مقامات پر امریکی تعاون سے ہیلی بورن آپریشنز (ہیلی کاپٹرز کے ذریعہ فوج اتارنا۔۔)کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے حالیہ حملوں میں ہمارے کچھ زمینی یونٹوں کو نشانہ بنایا ہے۔"
مجدی نے اسرائیل کے خلاف ایران کی جارحانہ حکمت عملی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ایک مضبوط حملے کے لیے کم از کم مضبوط داخلی دفاع کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میزائل حملوں کی اکثریت موبائل لانچرز پر منحصر ہوتی ہے، لیکن جب دشمن زمین اور فضا دونوں پر حاوی ہو جاتا ہے، تو جو بھی موبائل لانچر نکلتا ہے، اسے پہلے سے نشانہ بنایا جاتا ہے، کیوں کہ اس کو نشانہ بنایا جائے گا۔" میزائل لانچز اب تک محدود ہیں—موبائل ایکسٹرنل لانچرز کو استعمال کرنے کی محدود صلاحیت اور فارورڈ بیسز کو پہنچنے والے نقصان دونوں نے اس حد میں حصہ ڈالا ہے۔
مجدی نے امریکہ کو جنگ میں لانے کی اسرائیل کی کوششوں پر روشنی ڈالی اور کہا:
’’مسلح افواج کو اب اپنی صلاحیتوں کا ایک حصہ تعینات کرنا چاہیے، لیکن اہم طبقہ کو بدتر صورت حال کے لیے مختص کرنا چاہیے، جیسا کہ براہ راست امریکی مداخلت۔ پچھلی موسم گرما سے، اسرائیل کی تمام بڑی کامیابیاں وائٹ ہاؤس کے ساتھ مل کر ان کے سیاسی عمل کو ناکام بنانے کے لیے ہیں۔ CENTCOM کی طرف سے میدان میں تعاون اور موساد اور اسرائیلی فضائیہ کے عملدرآمدکے بارے میں سمجھنا ضروری ہے کہ 'جنگ میں امریکہ کی عدم شمولیت' جھانسہ بھی ہوسکتا ہے تاکہ اسلامک ریپبلک کے رویئے کو کنٹرول کیاجاسکے۔اس کے باوجود، یہ واضح ہے کہ دو دشمنوں کا سامنا کرنے کے بجائے ایک سے ہی مڈبھیڑ بہتر ہے۔
اس لیے ہمیں جھوٹے فلیگ آپریشنز اور من گھڑت حیلوں سے چوکنا رہنا چاہیے۔ ٹرمپ آگ میں قدم رکھنے پر آمادہ ہوسکتا ہے، لیکن کیا امریکی ووٹرز، ٹیکس دہندگان اور معاشرہ ایک نئی جنگ کی حمایت کے لیے قائل ہو جائیں گے؟ یقینی طور پر، امریکہ کی شمولیت سے گریز کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑھنے سے گریز کیا جائے۔ اس کے برعکس، سینٹکام کو لگنے والے دھچکے کا ایک حصہ اب ظاہری طور پر پہنچایا جانا اور صیہونیوں پر آزمایا جانا چاہیے۔
جنگ میں امریکی شمولیت کی ممکنہ شکل کے بارے میںمجیدی وضاحت کرتے ہیں:
’’سب سے زیادہ امکان یہ ہے کہ امریکہ اپنے بحری بیڑے پر مختلف مقامات پر انحصار کرے گا، خاص طور پر بحر ہند، اور اپنی فضائیہ پر فائر وال اور دفاعی پٹی بنانے کے لیے، جب کہ صہیونی افواج اندرونی کارروائیاں جیسے کرائے کے حملے mercenary attacks، دہشت گردانہ سرگرمیاں اور تخریب کاری کی کارروائیاں کرسکتی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کا ٹویٹ کہ ایرانی تہران کو خالی کردیں اسرائیل سے ہر ممکنہ تعاون اور نفسیاتی جنگ کو ظاہر کرتاہے تاکہ اس مرحلے پر ایرانی عوام میں خوف پھیلایا جاسکے، تاہم گزشتہ چند دنوں کے دوران لوگوں نے اسرائیل کے کسی مطالبے کی تعمیل نہیں کی ہے۔
مجدی نے موجودہ جنگ کے بارے میں ایران کے نقطہ نظر کو یوں بیان کیا ہے:
’’ایسا لگتا ہے کہ ایران کا موجودہ نقطہ نظر اس سمجھ پر مبنی ہے کہ ہم قلیل المدتی جنگ میں ہیں جس میں دشمن نقصان پہنچانے کے لیے اندرونی دہشت گردی کے آلات استعمال کر رہا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے تمام براہ راست فوجی وسائل (تکنیکی چیلنجوں کے علاوہ جن کا ہمیں سامنا ہے) کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے، کچلنے، آنکھ کے بدلے آنکھ اور ملکی محاذ پر حملہ کرنے کے لیے ہمیں زمینی اٹل حقائق کے ساتھ اپنے تمام براہ راست فوجی وسائل کو استعمال کرنا چاہیے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Iranian Experts Analyze the Ongoing Iran-Israel War (Tactics, Strategies, and Future Scenarios) By Masoud Sadrmohammadi