
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 18, 2025 at 01:49 PM
سیاسی تشیع، عقائدی تشیع کا دروازہ ہے… اور یہی سب سے بڑا خطرہ ہے!
اوّل: سیاسی تشیع کیا ہے؟
سیاسی تشیع کا مطلب یہ ہے کہ مزاحمت، آزادی، امریکہ و اسرائیل کی مخالفت، اور مظلوموں کی حمایت جیسے نعروں کا استعمال کیا جائے — لیکن ان نعروں کا مقصد اصل مسائل کی مدد کرنا نہیں ہوتا، بلکہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا اور ان کی ہمدردی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، ایران نے ابتدا میں عرب دنیا میں فوجی مداخلت نہیں کی، بلکہ "قدس"، "غزہ"، اور "شیطانِ اکبر" جیسے جذباتی اور ابلاغی نعروں کے ذریعے داخل ہوا۔
دوم: سیاسی تشیع کس طرح عقائدی تشیع میں بدلتا ہے؟
1. مرحلۂ ہمدردی:
لوگ "مزاحمت" کے نام پر ہمدردی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور اس کا پرچم اٹھانے والوں کا دفاع کرنے لگتے ہیں، چاہے ان کے پیچھے انحراف کی کتنی ہی نشانیاں ہوں۔
2. مرحلۂ جواز تراشی:
وہ لوگ بہت سی عقائدی گمراہیوں کو محض "معمولی فقہی اختلاف" یا "مشترکہ دشمن" کے نام پر جواز دینا شروع کر دیتے ہیں۔
3. مرحلۂ قبولیت:
پھر وہ ان کی کتابیں پڑھنا اور ان کے علما کو سننا شروع کرتے ہیں، اور یہیں سے باطل عقائد دل میں اتارے جاتے ہیں:
صحابہ کرام پر سب و شتم، نبی ﷺ کے اہل بیت پر طعن، ائمہ کو خدائی صفات دینا، قرآن میں تحریف کا عقیدہ وغیرہ۔
4. مرحلۂ منتقلی:
کچھ عرصے بعد انسان مکمل طور پر عقائدی شیعہ بن چکا ہوتا ہے — اور ممکن ہے اسے خود بھی اس تبدیلی کا شعور نہ ہو!
سوم: خطرہ کہاں ہے؟
سیاسی تشیع لوگوں کو شیعہ منصوبے سے محبت دے دیتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ ان کے عقائد کو جانیں، چنانچہ عقائد کی دراندازی خاموشی سے ہو جاتی ہے۔
شروع میں وہ کہتا ہے: "ہم تمہارے ساتھ ہیں غزہ میں…" پھر کچھ برس بعد کہتا ہے: "کیا تم جانتے ہو کہ مہدی پیدا ہو چکا ہے اور اب بھی سرداب میں زندہ ہے؟"
کہتا ہے: "امریکہ ہمارا دشمن ہے…" پھر تمہیں کتبِ کافی اور بحار الأنوار میں لے جاتا ہے، جہاں تمہارے ایمان کی بنیادوں کو مسمار کیا جاتا ہے!
اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات: وہ شعور کو سُلا دیتا ہے، اور سنّی نوجوان بے خبری میں شیعہ عقائد کی ترجمانی کرنے لگتا ہے۔
چہارم: حقیقی مثالیں
امت کے بہت سے نوجوانوں نے حزب اللہ کے ذریعے ایران سے محبت شروع کی، اور انجام یہ ہوا کہ وہ حضرت معاویہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما پر لعنت بھیجنے لگے!
وہ حسین رضی اللہ عنہ کی محبت میں داخل ہوئے، اور انجام یہ ہوا کہ خود کو زنجیروں سے مارنے لگے اور "یا حسین" کا نعرہ لگانے لگے بجائے "یا اللہ" کے!
انہوں نے سمجھا کہ "سنّی و شیعہ کا اختلاف معمولی ہے"، اور دیر سے انہیں معلوم ہوا کہ وہ صحابہ کو مرتد سمجھنے لگے ہیں!
پنجم: پیغام
اے وہ شخص جو مزاحمت کے نعروں سے دھوکہ کھا رہا ہے! جان لے کہ دین بندوقوں سے نہیں، بلکہ قرآن و سنت سے حاصل ہوتا ہے۔
دشمن سے لڑنا؟ ہاں، ضرور!
لیکن کسی ایک دشمن سے لڑنے کو، دوسرے دشمن (جو تمہارے دل اور عقیدہ میں سرایت کرتا ہے) کے داخلے کا راستہ نہ بننے دو۔
شیخ ولید عرب سنی مناظر
❤️
👍
2