
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 19, 2025 at 01:02 PM
امارت اسلامی نے اَف‑چین 25 سالہ معاہدہ کیوں منسوخ کیا؟
تحریر: کابل ڈائری / @KabulDiary
معاہدے کی منسوخی بارے مختلف نکات کو واضح کرتی تحریر
طالبان کی ایمان داری، عوام سے معاشی اخلاص اور آزاد و خود مختار اقتصادی پالیسی جیسے اصولوں پر مبنی توقع کے عین مطابق ایک خبر میں افغان وزارتِ معدنیات و پیٹرولیم نے اعلان کیا ہے کہ ‘دریائے آمو کے تیل بردار بلاک کا 25 سالہ معاہدہ ‘اَف‑چین کمپنی’ کے ساتھ یکسر ختم کر دیا گیا ہے۔’
وزارت کے ترجمان ہمایون افغان کے مطابق ‘یہ فیصلہ کمپنی کی بار بار کی خلاف ورزیوں اور وعدوں سے انحراف کے باعث لیا گیا ہے۔’
اہم بات یہ ہے کہ مشترکہ کمیٹیوں نے نہ صرف کمپنی کی طرف سے سرمایہ کاری میں تاخیر کا نوٹس لیا، بلکہ واجب الادا رائلٹیز کی عدم ادائیگی، جزوی سیزمک سروے اور مقامی انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کے التوا جیسے سنگین قصور بھی سامنے لائے ہیں۔
‘چینی سرکاری اثاثہ’ سمجھی جانے والی اس کمپنی سے اب کابل کی حکومت نے صاف کہہ دیا ہے کہ ‘اگر وعدوں کی پاس داری نہیں ہو گی تو معاہدے کی تحریر محض کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گی اور پھر یہی ہوا!’
اس کے ساتھ ہی افغانستان کی زیرِ زمین دولت پر ‘بیرونی دسترس’ کے تذکرے نے ایک بار پھر ‘معاشی قبضے’ کے خدشات کو ہوا دے دی ہے۔
معاہدے سے برخاست کی گئی کمپنی کا تعارف:
‘چین سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کارپوریشن لمیٹڈ’ (CAPEIC) سال 2001 میں ‘چائنہ نیشنل پٹرولیم کارپوریشن’ (CNPC) کی ذیلی شاخ کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ اس کے پاس تقریباً 10 بلین ڈالر کے عالمی اثاثے اور دو ہزار سے زائد ملازمین ہیں۔
‘چین – سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کارپوریشن لمیٹڈ’ کا ہیڈکوارٹر چین کے صوبہ سنکیانگ میں ہے۔ البتہ اس کی توجہ مرکزی طور پر شمالی افغانستان کے دریائے آمو بیسن پر مرکوز رہی ہے، جہاں جنوری 2023 میں امارت اسلامی کے ساتھ 25 سالہ معاہدے کے تحت صوبہ سرِپل، جوزجان اور فاریاب میں تیل نکالنے کا پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ اگرچہ کمپنی نے ابھی ترکمانستان، تاجکستان اور ازبکستان جیسے پڑوسی بیسن ممالک میں براہِ راست آپریشنز نہیں کیے، مگر اس کی جغرافیائی دل چسپی انہی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے، جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے۔
اسی اثنا میں اس کی مرکزی کمپنی CNPC دنیا بھر میں 33 ممالک میں سرمایہ کاری اور توانائی کے منصوبے چلا رہی ہے، جس سے CAPEIC کو ایک وسیع عالمی نیٹ ورک کا سہارا اور فائدہ ملتا ہے۔
لہذا افغان حکومت کے ساتھ معاہدے کا اصل پارٹنر چین کی سرکاری کمپنی China National Petroleum Corporation (CNPC) کی ذیلی شاخ Central Asia Petroleum & Gas Co., Ltd. (CAPEIC) ہے۔
چوں کہ افغان قوانین کے مطابق بڑے معدنیاتی منصوبوں کے لیے کمپنی کو ملک میں رجسٹرڈ ہونا ضروری تھا۔ لہٰذا CAPEIC نے مقامی طور پر ایک مشترکہ وینچر رجسٹر کرائی، جس کا رسمی نام ‘Afghan–China Petroleum & Gas Company’ رکھا گیا۔ اس طویل انگریزی نام کو مقامی بول چال اور پریس میں آسانی کے لیے ‘Af‑China (اَف‑چین) کمپنی’ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
معاہدے کا پسِ منظر:
یہ تب کی بات ہے، جب امارت اسلامی نے سال 2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالا اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی تلاش شروع کی تھی۔ چناں چہ 6 جنوری 2023 کو کابل میں ایک اہم پیش رفت ہوئی، جب امارت اسلامی نے چین کی کمپنی ‘سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی’ (CAPEIC) کے ساتھ دریائے آمو کے تیل کے ذخائر نکالنے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ امارت کے اقتدار کے بعد، بلکہ افغانستان کی تاریخ میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر مبنی سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔
چناں چہ تب کابل میں سرکاری اطلاعات و میڈیا سینٹر میں منعقد کی گئی تقریب میں امارتِ اسلامی کے نائب وزیرِ اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر اور چین کے سفیر وانگ یو کی موجودگی میں افغان وزیرِ کان کنی و پٹرولیم شیخ شہاب الدین دلاور اور چینی کمپنی CPEIC کے سربراہ نے دریائے آمو تیل زون سے تیل کے اخراج کے لیے 25 سالہ مدت کے معاہدے پر دستخط کیے۔ تقریب میں امارتِ اسلامی کی کابینہ کے ارکان، متعلقہ وزارتوں کے سیکریٹریز اور چینی سفارت خانے کے نمائندے بھی موجود تھے۔
شیخ شہاب الدین دلاور نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ‘گزشتہ پچاس سال میں افغانستان کا کسی بیرونی ملک سے اتنا بڑا اقتصادی معاہدہ نہیں ہوا۔’ اُنہوں نے بتایا کہ ‘امیرالمؤمنین کی ہدایت، رئیسِ الوزرا کی رہنمائی، اقتصادی سیکریٹری کی نگرانی اور کابینہ کے فیصلے کی بنیاد پر یہ معاہدہ طے پایا ہے۔’
دریائے آمو بیسن کے اس پروجیکٹ کا دائرہ سرِپل، جوزجان اور فاریاب کے تینوں صوبوں میں پھیلا ہوا 4,500 مربع کلومیٹر رقبہ ہے۔
وزیرِ کان کنی و پٹرولیم کے مطابق ‘معاہدے کے تحت تیل کے پانچ شواہد یافتہ مقامات میں سے قشقری کے ذخائر 87 ملین بیرل کے تخمینے میں آئے ہیں۔ کمپنی تین سال میں مکمل سروے، تیل کی دریافت اور اخراج کے تمام مراحل مکمل کرے گی۔ پہلے سال کے لیے 150 ملین ڈالر اور ابتدائی تین سالوں کے دوران مجموعی طور پر 540 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا عہد کیا گیا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں روزانہ 200 ٹن سے بڑھ کر 1,000 ٹن تیل کے اخراج کی توقع ہے۔’
شہاب الدین دلاور نے مزید بتایا کہ ‘معاہدے میں افغانستان کا حصہ فی الحال 20 فیصد ہے، جسے مرحلہ وار بڑھا کر 75 فیصد تک پہنچانے کا تصور ہے۔ جب کہ 15 فیصد پیداواری رائلٹی بھی ریاست کو ملی ہے۔ معاہدے کے تحت تقریباً 3,000 افغان شہریوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔’
جب کہ ملا عبدالغنی برادر نے معاہدے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس سے ہماری معیشت مستحکم ہوگی اور توانائی کے شعبے میں خود انحصاری ممکن ہو گی۔’ انہوں نے افغانستان کو معدنیات کی دنیا کے مال دار ترین ممالک میں سے ایک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ‘افغان-تاجک سرحد، دریائے آمو، ہرات، ہلمند اور کٹواز میں مجموعی طور پر تقریباً 1.8 ارب بیرل تیل کے ذخائر ہیں۔’ ملا برادر نے کمپنی کو یقین دلایا کہ افغان حکومت ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی اور سرِپل کے رہائشیوں کو سماجی سہولیات یقینی بنوانے کا مطالبہ بھی کیا۔
جب کہ کابل میں تعینات چین کے سفیر وانگ یو نے تقریب سے اپنے خطاب میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ‘کمپنی معاہدے کی تمام شقوں پر معیاری انداز میں عمل درآمد کرے گی۔’
انہوں نے اسے افغانستان کی اقتصادی ترقی اور خود انحصاری کی جانب اہم قدم قرار دیا اور منصوبے کی کامیابی کے لیے فریقین کی مزید ہم آہنگی اور یک جہتی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ‘چین افغانستان کے اقتصادی استحکام کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔’
سابق وزیرِ معدنیات و پیٹرولیم شیخ شهاب الدین دلاور اور CAPEIC کے عہدے دار کے درمیان طے پانے والا معاہدہ اب موجودہ وزیرِ معدنیات و پیٹرولیم ہدایت اللہ بدری کی طرف سے کمپنی کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر معطل کر دیا گیا ہے۔
بنیادی طور پر یہ معاہدہ سال 2012 میں امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے ساتھ چین کی ملکیتی کمپنی CNPC کے کیے گئے معاہدے کا تسلسل تھا، جس میں دریائے آمو بیسن کے تیل کے ذخائر کا تخمینہ 87 ملین بیرل لگایا گیا تھا۔
سال 2022 کے اندازوں کے مطابق تب افغانستان میں صاف شدہ پیٹرولیم کی یومیہ داخلی کھپت تقریباً 27,000 بیرل تھی۔ یوں اس کی سالانہ کھپت تقریباً 9.9 ملین بیرل بنتی ہے۔
لہذا 87 ملین بیرل کے تخمینہ شدہ ذخائر افغانستان کو اسی رفتارِ استعمال پر تقریباً 8 سے 9 سال تک خودکفیل رکھ سکتے ہیں۔ تاہم اگر تیل کی طلب میں اضافہ ہوا یا معاہدے کے تحت پیداوار محدود رہی تو یہ دورانیہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔
اسی فارمولے کی بنیاد پر دیکھا جائے کہ اگر ملا برادر کے بیان کے مطابق ‘افغان-تاجک سرحد، دریائے آمو، ہرات، ہلمند اور کٹواز میں مجموعی طور پر تیل کے تقریباً 1.8 ارب بیرل کے ذخائر موجود ہیں’ تو یوں 27 ہزار بیرل یومیہ کی کھپت کی بنیاد پر تقریباً 1.8 ارب بیرل کا یہ ذخیرہ افغانستان کو آئندہ کے تقریباً 183 سال تک خودکفیل رکھ سکتا ہے۔
کمپنی کی خلاف ورزیاں:
‘اَف‑چین (Af‑China) کمپنی’ کی مشترکہ کمیٹیوں کی تفصیلی تحقیقات سے سامنے آیا ہے کہ مذکورہ چینی کمپنی نے اپنے وعدوں کے برعکس ہر مرحلے پر شفافیت اور ذمہ داری کو پامال کیا ہے۔
سب سے پہلے ابتدائی سال میں کم از کم 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے فوری کام شروع کرنے کا جو عہد تھا، وہ تاخیر کا شکار ہوا اور منصوبے کا آغاز مقررہ وقت سے کئی ماہ بعد کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی دستخطی بونس اور پیداواری رائلٹیز کی مد میں افغان حکومت کو واجب الادا کم از کم 68 ملین ڈالر بھی ادا نہیں کیے گئے، جس نے خزانے کو شدید دباؤ میں ڈال دیا۔
(یاد رہے کہ پیداواری رائلٹیز وہ فیس یا واجب الادا حق ہے، جو تیل، گیس یا معدنیات نکالنے والی کمپنی متعلقہ حکومت یا وارننگ رکھنے والے مالک کو دیتی ہے۔ یہ عام طور پر پیدا ہونے والی مقدار یا حاصل ہونے والی آمدنی کا طے شدہ فیصد ہوتا ہے، تاکہ قدرتی وسائل کے استعمال پر ریاست یا مالک کا حصہ محفوظ رہے۔)
اسی طرح سروے کے مراحلے میں بھی صورتِ حال کسی سے چھپی نہ رہی۔ کمپنی کے ذمے زیرِ زمین ذخائر کی صحیح نشان دہی کے لیے طے شدہ جیوفزیکل اور سیزمک سروے یا تو نامکمل رہے یا غیر تسلسل کے ساتھ کیے گئے، جس سے پروجیکٹ کی بنیاد ہی کمزور پڑ گئی۔
(واضح رہے کہ ‘سیزمک سروے’ زمین کے اندر چھپی ہوئی تیل یا گیس جیسی معدنیات کی تلاش کرنے کا ایک سائنسی طریقہ ہے۔ اس میں زیر زمین لہروں (شاک ویوز) کا استعمال کیا جاتا ہے، جو زمین کی تہوں سے منعکس ہو کر واپس آتی ہیں۔ ان لہروں کا تجزیہ کرکے معلوم کیا جاتا ہے کہ زیر زمین کیا موجود ہے اور اس کی ساخت کیسی ہے۔ یہ عمل زمین کا نقشہ بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔)
اسی طرح معاہدے کی بنیاد پر کمپنی کے ذمے لگائے گئے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے وعدے، سڑکیں کھولنے، پاور لائنز بچھانے اور پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبے بس کاغذوں تک محدود رہے۔ کمپنی کی طرف سے عملی دنیا میں نہ ان منصوبوں کی شروعات ہو سکی اور نہ ہی کوئی پیش رفت نظر آئی۔
مقامی روزگار اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے معاملات بھی معاہدے کے مطابق عمل میں نہیں لائے گئے۔ تین ہزار افغانوں کو تربیت اور روزگار فراہم کرنے کا وعدہ محض چند سو افراد تک محدود رہا، جب کہ ماحولیاتی ضوابط کا احترام بھی نظر انداز کیا گیا۔ فُضلے کے مناسب انتظام اور پانی کے استعمال پر نگرانی جیسی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں کی گئیں۔ جب کہ کمپنی کی طرف سے روزانہ کی پیداوار، اخراجات اور دیگر اہم اعداد و شمار کی شفاف رپورٹنگ میں کوتاہی سے افغان حکومت کو ضروری فیصلے کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا رہا۔
اب وزارتِ معدنیات و پٹرولیم دوبارہ بولی کے عمل یا ملکی سرمایہ کاروں کو ترجیح دینے کے متبادل پر غور کر رہی ہے، تاکہ آئندہ ایسے بڑے معاہدوں میں شفافیت اور خودمختاری کو یقینی اور محفوظ بنایا جا سکے۔
طالبان کیا کہتے ہیں:
البتہ جب اس حوالے سے ایک کابل کے ایک معروف تعلیمی ادارے اور خارجہ تعلقات سے منسلک طالبان پروفیسر ‘محمد یوسف’ سے بات کی گئی کہ ‘کیا ممکن ہے کہ چینی سرکاری ملکیتی کمپنی سے معاہدہ منسوخ ہونے سے افغان چین سرکاری تعلقات میں رخنہ پیدا ہو جائے؟’
اس کے جواب میں طالبان پروفیسر محمد یوسف نے واضح کیا کہ ‘اگرچہ یہ کمپنی چینی سرکاری ملکیتی ہے، مگر یہ کمپنی براہِ راست ‘چینی سرکار’ نہیں ہے۔ جب کہ یہ بھی واضح ہے کہ اگر دو طرفہ سرکاری سطح پر اس معاہدے کی منسوخی کا ذکر ہو تو بجائے خود چینی سرکار معاہدے کی شرائط، اُن پر عمل درآمد اور پیش رفت میں آنے والے خلل سے یقیناً واقف ہو گی۔ ایسا تو دنیا میں ہوتا رہتا ہے کہ کسی ملک کی حکومت کا کوئی سرکاری فرد یا وفد سرکاری عہدے کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مقامی یا عالمی سطح پر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے تو اس غلطی کو ہر ممکن کوشش کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں خرابی کا باعث نہیں بننے دیا جاتا۔ اس میں ظاہر ہے کہ جب چینی کمپنی اپنے وعدوں پر عمل پیرا نہیں ہوئی تو بجائے خود یہ کمپنی کی ساکھ کا سوال ہے، جس کے لیے خود چینی سرکار کو اپنی کمپنی سے باز پُرس کرنا مناسب ہے! لہذا یہ واضح ہے کہ معاہدے کی اس منسوخی سے افغان چین تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔’
جب کہ کابل کے ایک رہائشی نے مذکورہ چینی کمپنی کی افغانستان میں غیر مفید موجودگی کو ‘اژدھے کے منہ میں اپنی دولت پھینکنے’ کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘ایسی کمپنیاں نہ صرف معاشی استحصال کا باعث ہوں گی، بلکہ افغان خودمختاری کو بھی مجروح کریں گی۔’
آخری بات:
افغان حکومت کی طرف سے چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ منسوخ کرنے کی خبر پر کچھ حلقوں میں یہ تاثر اُبھرا ہے کہ ‘اس معاہدے کی منسوخی کے پیچھے بیرونی دباؤ یا ترجیحات کا ٹکراؤ اور کسی بیرونی طرف جھکاؤ کارفرما ہے۔’
تاہم اس لایعنی مفروضے سے ہٹ کر حقیقت یہ ہے کہ ہر معاہدہ دو فریقوں کے باہمی احترام اور باقاعدہ ذمہ داریوں پر ٹکا ہوتا ہے۔ افغان حکومت نے جہاں ایک جانب یہ حق استعمال کیا ہے کہ ‘اگر کوئی شراکت دار اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری نہ کرے تو معاہدہ ختم کیا جا سکتا ہے’، وہیں دوسری جانب یہ اقدام اپنے عوام کے معاشی مفادات کے تحفظ کی خاطر کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ دراصل معاہدے کے عملی نفاذ میں شفافیت اور احتساب کے عہد کو پورا کرنے کا ثبوت ہے نہ کہ کسی غیر ملکی دباؤ یا داخلی کمزوری کا اشارہ ہے۔ چوں کہ کسی بھی ملک کی حکومت معیاری سطح کی مقامی یا عالمی کمپنیوں کے ساتھ آزادانہ طور پر معاہدے کر سکتی ہے، اس لیے اصل سوال یہ ہے کہ چینی کمپنی نے کیوں بارہا اصول توڑے اور اپنے اُن وعدوں پر عمل نہیں کیا، جن میں افغان حکومت و عوام سمیت خود چینی کمپنی کی معاشی بھلائی پوشیدہ تھی؟!
بالآخر معاہدے کی منسوخی نے افغان حکومت کی خود مختاری اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا ہے۔ اس کے ذریعے یہ واضح ہوا ہے کہ طالبان حکومت کے فیصلے بڑی عالمی سرمایہ کاری یا طاقتوں کے دباؤ کے تابع نہیں ہیں، بلکہ یہاں ہر قدم ملکی شفافیت اور اقتصادی خودداری کو یقینی بنانے کی غرض سے اٹھایا جاتا ہے۔
تحریر کا ویب لنک:
alemarahurdu.af/?p=84032