❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 19, 2025 at 06:13 PM
*غزہ کی آبادی پیاسی مر رہی ہے اور پانی نسل کشی کا ہتھیار بنا دیا گیا* غزہ میں اب جان لینے کے لیے راکٹوں کی ضرورت نہیں۔ یہاں موت کا سامان پانی بن چکا ہے۔ پانی جو کبھی زندگی کی علامت تھا، اب زندگی کا گلا گھونٹنے والا خاموش ہتھیار بن چکا ہے۔ یہ علاقہ جو کئی ماہ سے مسلسل دھماکوں، فضا میں گونجتی چیخوں اور آنسوؤں کے درمیان جی رہا ہے وہاں اب انسانی بحران نے دو ملین سے زائد بے گناہ نفوس کی گردن پر قہر کا شکنجہ کس دیا ہے۔ بجلی ہے، نہ خوراک اور سب سے ہولناک حقیقت یہ ہے کہ… پانی بھی نہیں۔ یہ محض ایک معمولی بحران یا وسائل کی کمی نہیں۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ پیاس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ایک وحشیانہ کوشش۔ یہ ایک خاموش جنگ ہے، جو زندگی کے ہر گوشے پر حملہ آور ہے۔ "موت کا ذائقہ لیے پانی”… آگ کے سائے میں پیاس کی کہانیاں غزہ کے مغربی علاقے النصر میں ابو حسن النجار اپنے خالی پانی کے ٹینک کے سامنے خاموش کھڑے ہیں۔ اس میں بچی ہوئی چند بوندوں کو وہ ایسے تک رہے ہیں جیسے ایک مریض اپنی آخری سانسوں کو۔ "ہم دگنے نرخوں پر پانی خریدنے پر مجبور ہیں، وہ بھی ایسا پانی جو پینے کے قابل نہیں۔ اس میں کڑواہٹ ہے، بالکل ہماری زندگی جیسی”۔ ابو حسن کی آواز میں کرب جھلکتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ "بلدیاتی پانی کی سپلائی بیس ماہ سے بند ہے، اقوام متحدہ کے صاف پانی والے ٹینکر غائب ہو چکے ہیں۔ اب ہم نہانے، پینے اور کھانا پکانے کے لیے ایک ہی پانی استعمال کرتے ہیں… اگر دستیاب ہو۔” یہ صرف ابو حسن کی کہانی نہیں۔ ایک قریبی گلی میں، نوجوان لڑکی شہد العطل خالی گیلنوں کے پاس بیٹھی اپنی باری کی منتظر ہے۔ وہ پانی کی تقسیم کے ایک مرکز پر آئی ہے، جو اکثر اوقات بند رہتا ہے۔ "ہم گھنٹوں انتظار کرتے ہیں، کئی بار خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے”، وہ تھکی ہوئی آواز میں کہتی ہے۔ "ایک ہی پانی بار بار استعمال کرنا پڑتا ہے… نہانے کے لیے، کھانے کے لیے، پینے کے لیے۔ اور اگر نہ کریں، تو یا پیاس مارے یا زہر۔” یہ روزمرہ کی اذیت بھری داستانیں ہیں، جو غزہ میں ہزاروں بار دہرائی جاتی ہیں۔ پانی تک رسائی اب ایک معرکہ بن چکا ہے، جسے سکولوں، پناہ گاہوں، گلیوں اور کیمپوں میں عورتیں اور بچے روز لڑتے ہیں۔ یہاں نہ بنیادی سہولیات بچی ہیں، نہ زندگی۔ قابض اسرائیل پیاس کو ہتھیار بنا چکا ہے غزہ میں پانی اور ماحولیاتی تحفظ کی اتھارٹی کے مطابق، سنہ2023ء کے اکتوبر سے اب تک پانی کی ترسیل اور نکاسی آب کے 90 فیصد سے زائد ڈھانچے مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں۔ ماہر ماحولیات ڈاکٹر منذر سالم کہتے ہیں، "ایک شخص کے لیے روزانہ پانی کا استعمال 120 لیٹر سے کم ہو کر 10 لیٹر سے بھی کم ہو گیا ہے۔ یہ مقدار بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔” "لوگ اب غیر محفوظ اور آلودہ پانی پر گزارا کر رہے ہیں، جس سے اسہال، آنتوں کے انفیکشن اور جلدی امراض پھیل رہے ہیں”، وہ خبردار کرتے ہیں۔ یہ المیہ صرف قلت تک محدود نہیں رہا۔ بجلی کی بندش، ایندھن کی عدم دستیابی نے پانی صاف کرنے والے پلانٹس کو بند کر دیا ہے۔ پمپنگ اسٹیشن تباہ ہو چکے ہیں، اور سیوریج کا پانی کچھ علاقوں میں سڑکوں پر بہتا ندی بن چکا ہے۔ پیاس زدہ زمین سے گواہیاں: "ہمیں زندہ رہنے کی سزا دی جا رہی ہے” عبدالکریم السلی جق ایک ٹینکر ڈرائیور ہیں انسانی ہمدردی کے تحت پانی کی ترسیل میں مصروف تھے، بتاتے ہیں کہ قابض اسرائیل نے پانی کے ٹینکروں اور پمپنگ اسٹیشنز تک کو نشانہ بنایا ہے۔ "اب جو پانی بچا ہے، ہم وہ بھی نہیں پہنچا سکتے۔ نہ ایندھن ہے، نہ سڑکیں سلامت ہیں، نہ اجازت نامے باقی۔ سب کچھ بکھر گیا ہے”، ان کی آواز میں ٹوٹا ہوا حوصلہ بولتا ہے۔ بلدیہ غزہ کے ترجمان، عاصم النبیہ، خبردار کرتے ہیں کہ اگر ایندھن کی قلت جاری رہی تو اجتماعی پیاس کا قہر پھوٹ سکتا ہے، خصوصاً جب لاکھوں بے گھر شہری مختصر علاقوں میں ٹھونس دیے گئے ہیں اور گرمی انتہا کو پہنچی ہے۔ "یہ حالات ایک مہلک وبا کے دھماکے کا پیش خیمہ ہیں”، وہ کہتے ہیں۔ "سیوریج نظام بیٹھ چکا ہے، پانی آلودہ ہے، صفائی ناپید ہے… یہ سب مل کر ایک خاموش مگر قاتل تباہی کا منظر پیش کرتے ہیں۔” انسانی حقوق کے ادارے چیخ اٹھے: غزہ میں پیاس، قدرتی آفت نہیں… مجرمانہ منصوبہ ہے مرکزِ فلسطینی برائے انسانی حقوق کے مطابق، غزہ میں پانی کا بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ادارے کی سخت زبان میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کو ہتھیار بنانا ایک دانستہ جرم ہے، جو جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے، اور یہ قتلِ عام کے مترادف ہے۔ خاص طور پر جب ایک قوم کو مہینوں تک پانی سے محروم رکھا جائے، اور اس کی بنیادی تنصیبات کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا جائے۔ "دو ملین سے زائد انسان روزانہ خشک سالی اور بیماریوں کے خطرے میں ہیں”، رپورٹ میں خبردار کیا گیا۔ "دنیا کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے۔ انسانی راہداری کھولی جائے تاکہ پانی، طبی آلات اور ایندھن مہیا کیا جا سکے۔ ورنہ یہ انسانی بحران ایک خاموش قتل عام میں بدل جائے گا”۔ پانی ایک آسائش نہیں… یہ زندگی کا نام ہے غزہ میں اب پانی پینا عیاشی بن چکا ہے، نہانا خواب ہو چکا ہے، صفائی ایک نایاب شے بن گئی ہے… اور حیات کی بقا ایک فرض بن چکی ہے۔ جو بھی غزہ کی حالت کو دیکھے، وہ سمجھ جائے گا کہ یہ پیاس محض ایک اذیت نہیں بلکہ ایک سفاکانہ منصوبہ ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو ارادوں کو توڑتا ہے، روحوں کو تھکاتا ہے، جسموں کو برباد کرتا ہے۔ مگر غزہ جو بمباری اور محاصرے میں بھی سرخرو رہا وہ پیاس کے سامنے بھی ہار نہیں مانے گا۔

Comments