
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 20, 2025 at 04:44 PM
*القاعدہ کا گیارہ ستمبر اور حماس کا سات اکتوبر*
*محمد عمران مسجدی*
سلفی الفکر جنگجو گروہ ’القاعدہ‘اور اسکے بیانیہ کی حامی جہادی تنظیمیں عالمی طاقتوں (امریکہ و یورپ) کے لئے اور ’اخوان الفکر حماس‘ اور اسکے بیانیہ کی حامی جہادی تنظیمیں ابھرتی علاقائی طاقت (اسرائیل) کے لئے خطرہ ہیں۔۔۔ طالبان کے افغانستان پر ’مغربی عتاب‘ کی وجہ ان کی روایتی اسلام کے نفاذ کی جدوجہد اور اینٹی کیپٹلسٹ بلاک (رشیا اینڈ چائنا) کی جانب جھکاؤ جبکہ اسکے برخلاف الشرع کے شام پر ’مغربی عنایتوں‘ کی وجہ اسکے نام نہاد ماڈریٹ اسلام کے نفاذ کی جدوجہد، اینٹی کمیونسٹ بلاک (ویسٹ) کی جانب جھکاؤ میں ہمنوائی کے علاوہ ملک کا نظام و انصرام اور قدرتی و معدنی وسائل پر ان کے اداروں کے تسلط کو قبول کرلینا ہے۔۔۔ سات اکتوبر کے ’حماس آپریشن‘ کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر مغربی بلاک کی مسلط کردہ جنگوں کا ہدف کوئی ملک نہیں بلکہ ’’مزاحمتی تنظیمیں‘‘ مثلاً حماس و حزب اللہ و حوثی وغیرہ ہیں۔۔۔
مغربی ممالک کی رواں صدی کے آغاز میں القاعدہ کے ’’نائن الیون حملہ‘‘ کے بعد اسلام و مسلم مخالف اکثر منصوبوں اور سرگرمیوں کا مرکزی ہدف، وہ ’’اسلامی جنگجو تنظیمیں‘‘ رہی ہیں جن کے اہداف، عالمی اور بڑی استعماری طاقتوں کو عالمِ اسلام پر ظلم و جبر (مثلاً مسئلہ فلسطین)سے باز رکھنا یا انھیں انکی بے انصافیوں کی سزا دینا، رہا۔ان جنگجو تنظیموں کے خلاف نام نہاد ’دہشتگردی کے خاتمے‘ کے نام پر بیخ کنی کی کاروائیاں، دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی اپنی قومی و ملکی وجوہات کی بناء پر کی جارہی ہیں۔
*یاد رہے!* شامی مجاہد احمد الشرع کی جنگجو تنظیم ’ہیئۃ التحریر الشام‘ کا کوئی عالمی ہدف نہیں تھا۔احمد الشرع کا مقصدشام کو اینٹی ویسٹ بلاک (روس و ایران) کے حمایت یافتہ الاسد خاندان سے چھٹکارہ دلانا اور شام کو ’ماڈرن‘ اور ’پرو ویسٹ نیشن اسٹیٹ‘ میں بدل دینا ہے ،جو اسرائیل و امریکہ کے منصوبہ کے عین مطابق ہے ۔لہذا ’الشرع کا شام‘ اور ’نیتن یاہو کا اسرائیل‘ اکثر اہداف و مقاصد میں باہم حریف ہمسایہ ریاستیں نہیں بلکہ حلیف ہیں۔ لہذا الشرع کا شام، صہیونی اسرائیل کے داخلی معاملات ’حریت پسند فلسطینی نمائندہ مزاحمتوں کی بیخ کنی، انکی نسل کشی اور تعمیرات کی مسماری‘ میں مداخلت نہیں کرے گابلکہ اسکے برعکس اپنےملک میں موجود اینٹی اسرائیل اینڈ امریکہ، مزاحمتی عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں ان کا ہر ممکن ساتھ دینے کی کوشش کرے گا۔جبکہ امارتِ اسلامیہ افغانستان پر برسرِ اقتدار آنے والے جنگجو گروہ طالبان کا بھی کوئی عالمی ایجنڈا نہیں اور یہی انکی ریاستی پالیسی بھی ہے۔وہ امریکہ سے کئے معاہدہ میں اس بات کا اقرار اور بارہا اظہار کرچکے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ’جنگجو تنظیم‘ کے لئے جارحانہ زمین offensive groundبننے اور اپنے کسی پڑوسی اور مغربی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان کے افغانستان پر ’مغربی عتاب‘ کی وجہ ان کی روایتی اسلام کے نفاذ کی جدوجہد اور اینٹی کیپٹلسٹ بلاک (رشیا اینڈ چائنا) کی جانب جھکاؤ جبکہ اسکے برخلاف الشرع کے شام پر ’مغربی عنایتوں‘ کی وجہ اسکے نام نہاد ماڈریٹ اسلام کے نفاذ کی جدوجہد، اینٹی کمیونسٹ بلاک (ویسٹ) کی جانب جھکاؤ میں ہمنوائی کے علاوہ ملک کا نظام و انصرام اور قدرتی و معدنی وسائل پر ان کے اداروں کے تسلط کو قبول کرلینا ہے۔
اسی طرح سات اکتوبر کے اسرائیل مخالف ’’حماس آپریشن‘‘ کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر مغربی بلاک (اسرائیل و امریکہ و یورپ)کی مسلط کردہ جنگوں کا ہدف کوئی قومی و مذہبی ریاست یا بادشاہت یعنی "ملک" نہیں بلکہ بلاواسطہ اسرائیل اور بالواسطہ امریکہ مخالف ’’مزاحمتی تنظیمیں‘‘ مثلاً حماس و حزب اللہ و حوثی وغیرہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل و امریکہ، شام و لبنان اور یمن میں مخصوص شخصیات، گروہوں اور ان سےمتعلقہ تنصیبات کو نشانہ بنارہے ہیں مگر ایران کے استثنیٰ کے ساتھ،جسکی وجوہات آگےبیان کی جارہی ہیں۔
*یاد رہے!* سلفی الفکر جنگجو گروہ ’القاعدہ‘اور اسکے بیانیہ کی حامی جہادی تنظیمیں اپنے عالمی اہداف کی وجہ سے امریکہ و یورپ کے لئے اور ’اخوان الفکر حماس‘ اور اسکے بیانیہ کی حامی جہادی تنظیمیں، پرو یسٹ علاقائی ممالک (مصر، اردن، شام و لبنان اور دیگر عرب بادشاہتوں) اور خاص طور پر فلسطین پر قابض اسرائیل کے لئے خطرہ ہیں۔سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کی جماعتِ اسلامی کی سیاسی فکر میں ’مزاحمت و جہاد‘ کی تعلیم و ترغیب تو موجود ہے مگر وہ آزاد عمل کی طاقتور مثالیں پیش کرنے سے قاصر رہی۔ نیز جماعت،نیشن اسٹیٹ کے لبرل و سیکولر فریم ورک کے اندر رہ کر اور اسکے مطالبات کو عملی طور پر اسلامی ترجیحات میں ڈھالنے (اسلامیانے)کو اپنا مشن بناچکی۔
خطہ شرقِ اوسط middle eastمیں جہاں کی علمی بُنت ،تاریخی تسلسل،سماجی اساسیات،معاشی سرگرمیوں اور دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی میں ’سیاست اور جہاد و قتال‘ کوئی الگ ولاتعلق یا معیوب سرگرمی نہیں بلکہ مکمل اسلامی دائرے کے لازم و ملزوم جزو و عناصر ہیں لہذااس خطہ میں وہی گروہ اور ملک، سرغنہ و لیڈر کا مقام اور اتھارٹی حاصل کرسکتا ہے جو سیاسی و عسکری میدان میں دیگر تمام کو پچھاڑ ڈالے۔ پہلے عربوں کے مقابلہ میں ایران، اس خطہ کا چوہدری تھا اب اسرائیل کو یہ مقام دیا جانا مقصود ہے۔لہذا
اگر ایران،’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے مقابلہ میں ’’گریٹر ایران‘‘ کے اپنے ’استعماری‘ منصوبے سے دستبردار ہوجائے اور اسکے عسکری و سیکیورٹی ذرائع:
۱۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور
۲۔ جنگجو تنظیموں اور مزاحمتوں کی پشت پناہی
کو ترک کردے تو مغربی طاقتوں (امریکہ و یورپ) اور اسکے مشرقِ وسطیٰ میں ہرکارے اسرائیل کو اسکی مذہبی حکومت و شناخت سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا ۔ جیسا کہ عرب حکومتوں سے اسے کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ اس کے برعکس مستقبل میں 'شیعی ایران' ماضی کی طرح ان سامراجی طاقتوں کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ان کے غیر اعلانیہ اتحادی کا کردار ایک بار پھر بخوبی نبھاسکتا ہے۔
انھی علاقائی حاکمیتی مقاصد (سلطنتِ عثمانیہ کےاحیاء) کو حاصل کرنے کے دعویٰ دار ترکیہ کو، ایران کے بعد اسرائیل، اپنا اگلا ’استعماری حریف‘ قرار دیتا ہے۔نظریاتی حریف پاکستان کا نمبر اسکے بعد ہے۔