
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 21, 2025 at 11:36 AM
*اسرائیل ایران جنگ: میڈیا کوریج اور سفارتکاری کے امکانات*
*محمد عمران مسجدی*
اسرائیل و ایران کی ایک دوسرے پر ’محتاط‘ بمباری جاری ہے۔۔۔
اسرائیل نے ایران پر 13جون کو فضائی حملہ کیا جس کے جواب میں ایران نےبھی اسرائیل پر جوابی میزائل فائر کئے اور یہ دوطرفہ ’محتاط‘ اور ’نپی تلی‘ بمباری تاحال جاری ہے۔
اسرائیل اور ایران دونوں ہی ’اسٹیٹ کنٹرولڈمیڈیا' کے حامل ہیں۔ میڈیا کو آزادانہ کوریج کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مگر دوسری طرف امریکی عرب اتحادی قطر میں قائم الجزیرہ نٹورک نےمقبوضہ فلسطین غزہ میں کمزور و نہتے مسلمانوں کے انسانی المیہ اور قتلِ عام کی فل کوریج کرکے عالمِ اسلام میں منفی جذبات اور احساسِ کمتری و محرومی کو بیچنا شروع کررکھا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ کٹر صہیونی وزیر ایتمار بن غفیر جب یہ کہتا ہے کہ ’’الجزیرہ نہ دیکھو ، اس پرپابندی لگادو۔۔‘‘تو دراصل وہ دنیا کویہ پوشیدہ پیغام .subliminal msg دیتا ہے کہ ’’الجزیرہ ہی دیکھو‘‘۔ اس طرح اسرائیل گویامسلمانوں میں اپنی طاقت کا اظہار کرتا اور مسلمانوں کی کمزوری وزوال کی یادداشت پختہ کرتا اور انھیں بے عملی و خود تنقیدی کا مریض بناتا ہے۔
اسرائیل کے وحشیانہ ظلم کے شکار غزہ و غربِ اردن کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا عشرِ عشیر بھی اسرائیل ایران جنگ میں ناپید ہے۔
عالمی میڈیا ہو یا پاکستان کا مقامی میڈیا یا پھر سوشل میڈیا، اسرائیل کے ایران پرحملوں کی کوئی وڈیو بلکہ تصویری جھلک تک نظر نہیں آتی ہاں ایران کے اسرائیل پر حملوں کے وڈیو کلپس عام ہیں، جنھیں خوب سراہا اور کہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔
ان فوٹیج کا ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اسرائیل پر کئے گئے ان ایرانی حملوں سے اسرائیلی عمارتیں زمیں بوس ہونے کے بجائے کسی قدر تباہی یا جزوی نقصان کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ انکے شیشے ٹوٹے ہوئے اور عمارتوں سے پرے گڑھے نظر آتے ہیں۔ ان عمارتوں کے قریب ایک دوسرے سے دور کھڑی گاڑیوں میں آگ بڑھکتی اور کسی عمارت کے پیچھے سے دھواں اٹھتا دِکھتا ہےمگر جائے وقوعہ کی حقیقی صورتحال کا تعین ممکن نہیں کہ یہ واقعی ایرانی میزائل کا حاصل ہے یا کچھ اور۔۔۔ ان رہائشی عمارات، مارکیٹوں اور دیگر ادارں وتحقیقی مراکز پر اور انکے اردگرد بے ترتیب سیکڑوں بیلسٹک و ہائپر سونک میزائل برسے ہیں۔ صہیونیوں کے زخمی و ہلاک نہ ہونے کی ایک وجہ سائرن کا بجنا اور محفوظ مقامات پر منتقلی بتایا جارہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسکی وجہ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر جیسے یہودی نقصان کا عکس ہے کہ جس میں یہودیوں کا جانی نقصان نہ ہونے کے برابر تھا۔ جہاں تک مالی نقصان کا تعلق ہے تو ٹرمپ نے اپنے دورہ خلیجی ریاستوں کے دوران عربوں سے چند دنوں میں اپنی جنگوں کے معاشی دھچکہ کو پورا کروالیا ہے۔
اسکے بالمقابل غزہ میں مچی آہ و بکا، خون ریزی، اٹھتے جنازوں اور تعمیراتی ڈھانچہ کے بے پناہ نقصان کو دیکھا جائے تو ان میں کوئی تقابل ممکن ہی نہیں مگر مسلمان اسی بات پر مطمئن اور خوشیاں مناتے نظر آرہے ہیں کہ ایران نے اسرائیل پر راکٹ باری کردی گویا فلسطین پر اسرائیلی مظالم کا بدلہ لے لیا۔ یہ نفسیاتی و میڈیائی دھوکہ اور ڈھکوسلہ کے سوا کچھ نہیں۔ اسکی مثال کچھ اس طرح بھی دی جاسکتی ہے کہ اصل مسئلہ کو مخاطب کئے یا حل کئے بغیر میڈیا پر کسی کرپٹ سیاستدان یا دشمن ملک کے رہنما کی تضحیک parody کرکے، احتجاج و مظاہرے کرکے، اسکے پُتلے جلا کر عوامی جوش و جذبہ اور ابال کو ٹھنڈہ کردیا جاتا ہے۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ ان دوطرفہ ’محتاط‘ حملوں سے عوامی کیتھارسس کردیا گیا اور ایران کو مسلم دنیا کا نمائندہ اور ہیرو دکھلایا گیا۔ جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اپنے علاقائی حریف اسرائیل کے خلاف اپنی پراکسیز اور مزاحمتوں کی ہر قسم کی مدد کرنے اور انکی پیٹھ ٹھونکنے والا، گویا انھیں آگ میں جھونک کر پیچھے ہٹ آنے والا ایران ہی، اس ساری قتل و غارتگری، نسل کشی اور تباہی و بربادی کے دو فریقوں میں سے ایک فریق ہے۔
جہاں تک اس جنگ کے دوسرے پہلو جنگ بندی اور سفارتکاری کے امکانات کو سوال ہے تو یورپ کے سرکردہ ممالک (برطانیہ، فرانس، جرمنی اور انکی نمائندہ تنظیم یورپی یونین کی فارن پالیسی چیف)کی جانب سے ایران سے گفت وشنید کا آغاز ہوچکا ہے گویا ایرانی رجیم چینج کا اس وقت آپشن زیر بحث نہیں ہے۔
رجیم چینج کے بجائے سفارتکاری اور معاہدہ سے سیز فائر اور تصفیہ تک پہنچنے کے چند مزید شواہد کچھ یوں ہیں:
۱۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے پڑوسی پاکستان کو یہ کریڈٹ دینا کہ ’وہ ایران کو جانتا سمجھتا ہے‘۔ ٹرمپ اور جنرل عاصم کی ڈنر ملاقات میں پاکستان سے ایران پر حملوں کے لئے اڈوں کا مطالبہ کرنے یا ایران پر امریکی حملوں کے بارے میں اعتماد میں لینے کے بجائے پاکستان کو ایران سے گفت و شنید میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نیز فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھی اپنے ملک کے وسیع تر مفاد میں ٹرمپ کو اس جنگ میں نہ کودنے کا مشورہ ہی دیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بار بار نوبیل پرائز دیئے جانے کا مطالبہ کرنے والے خودپسند ٹرمپ کے لئے ’امن‘ کے مذکورہ انعام کی سفارش بھی کی ہے تاکہ وہ اس خطہ میں جنگ کو مزید وسعت دینے کے بجائے اسرائیل کو اسکے جارحانہ اور اشتعال انگیز طرزِ عمل سے روکے۔
۲۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے سب سے بڑے ائیربیس العدید (قطر) سے اپنے ہوائی جہاز، ایران یا اسکی کسی پراکسی تنظیم کے ممکنہ حملے سے حفاظت غرض سے ہٹالیے ہیں۔ جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے بمبار طیارے اور مخصوص بنکر بسٹر بم ایرانی جوہری تنصیبات (فردو) کو تباہ کرنے کے لیے کسی حملے میں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔(امریکا کا B-2 اسٹیلتھ بمبار طیارہ، دنیا کا واحد طیارہ ہے جو GBU-57 بنکر بسٹر بم لے جا سکتا ہے)۔
*یار رہے!* یورپی ممالک برطانیہ، جرمنی، فرانس اور یورپی یونین چیف کی جانب سے ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی سے گزشتہ روز ملاقات کے بعد کسی معاہدہ پر پہنچنے اور سفارتکاری diplomacy کے لئے یہ چار آؤٹ لائنز دیں:
(۱)۔ بیلسٹک میزائل کنٹرول اور انٹرنیشنل اٹامک ایجنسی کی ان تک رسائی کی اجازت دینا۔(۲)۔ یورینیم کی افزودگی صفر کرنا۔ (۳)۔ علاقائی مزاحمتوں کی سرپرستی ختم کرنا۔اور (۴)۔ یرغمالیوں کی رہائی۔
جرمن وزیر خارجہ یوہان وڈیفول نے برطانوی، فرانسیسی اور یورپی یونین کے ہم منصبوں کے ہمراہ بیان میں کہا: ’آج کی ملاقات کا اچھا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس تاثر کے ساتھ کمرے سے نکلے ہیں کہ ایران تمام اہم سوالات پر مزید بات چیت کے لیے تیار ہے۔‘ ایران نے کہا: ’وہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات اس وقت تک دوبارہ شروع نہیں کرے گا جب تک اسرائیل اپنے حملے بند نہیں کر دیتا۔ وہ سفارتکاری پر غور کرنے کے لیے تیار ہے لیکن پہلے جارحیت روکی جائے۔ وہ یورپی ممالک سے بات چیت کے تسلسل کی حمایت کرتا اور مستقبل قریب میں دوبارہ ملاقات کے لیے بھی تیار ہے۔
۳۔ گزشتہ روز اسرائیلی وزیرِ اعظم نے بھی اس بات کو زور دے کر دہرایا کہ ایران میں رجیم چینج اس کا مقصد نہیں ہے۔ نیز ٹرمپ نے اسرائیل و ایران کو جنگ بند کرنے پر اپنی حمایت کے شامل ہونے کا بھی اشارہ دیا ہے۔
گویا ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے بجائے ملتوی کرنا، مزاحمتی و جہادی عناصر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لینا اور خطہ میں اسرائیلی بالادستی کو ایران سے قبول کروانا اسرائیلی جارحیت کے ہدف ہدف ہیں۔
ایک طرف اسرائیل و امریکہ، ایران اور دیگر عرب ممالک پر اسرائیلی جارحیت سے عربوں کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے باز رہنے کا واضح پیغام دے رہے ہیں اور دوسری طرف ایران کی مذہبی حکومت اور جوہری صلاحیتوں کو کسی قدر نقصان پہنچا کر مگر برقرار رکھ کر عربوں کو خائف اور اپنا باجگزار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نیز اس طرح وہ مرعوب عربوں کو اپنی اسلحہ سازی کی صنعت کی مارکیٹ کے طور پر بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔