❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 21, 2025 at 04:02 PM
*ایران نے ٹرمپ کے بعض مطالبات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے : مغربی سفارت کار* ایران اور اسرائیل کے درمیان فوجی تصادم اپنا پہلا ہفتہ مکمل کر چکا ہے، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں کے اندر ایران سے متعلق اپنا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ امریکی مطالبات پر تبادلہ خیال ان حالات کے دوران، ایک مغربی سفارت کار نے اخبار "اسرائیل ٹوڈے" کو بتایا کہ ایران نے واشنگٹن کو کچھ امریکی مطالبات پر رضامندی کا جواب بھیجا ہے۔ اس کے مطابق تہران نے مکمل انکار کی پوزیشن سے ہٹتے ہوئے اب "انتہائی لچک دار" انداز میں ان مطالبات پر گفتگو کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم اس کے باوجود، ایران اب بھی اسرائیلی جنگ بندی کو کسی بھی مذاکرات سے قبل ایک لازمی شرط قرار دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق بعض دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا آغاز فوجی کارروائیوں کے جاری رہنے کے باوجود ہو سکتا ہے۔ ادھر واشنگٹن کے اندر بھی ایران کی فردو جوہری تنصیب پر ممکنہ حملے کے بارے میں اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ ایران کو معاہدہ کرنا ہو گا یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں اسرائیل و ایران تنازع اور ممکنہ امریکی مداخلت سے متعلق صحافیوں کے سوالات کے جواب دیے۔ انھوں نے زور دیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ حتمی فوجی فیصلے سے پہلے سفارتی کوششوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور یہ کہ ایران کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں یورینیم کی افزودگی شامل نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ایران کو لازماً یہ معاہدہ کرنا ہو گا۔ کیرولائن لیویٹ نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں کے دوران یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری اس تصادم میں مداخلت کرے گا یا نہیں۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کے پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "اس بنیاد پر کہ مستقبل قریب میں ایران کے ساتھ مذاکرات کی بڑی گنجائش ہے ... جو ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی، میں آئندہ دو ہفتوں میں فیصلہ کروں گا کہ مداخلت کرنی ہے یا نہیں۔" انھوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔ لیویٹ نے یہ بھی وضاحت کی کہ کسی بھی معاہدے میں ایران کو یورینیم کی افزودگی سے روکنا ہو گا اور اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہو گا۔ انھوں نے مزید کہا "صدر ہمیشہ سفارتی حل میں دل چسپی رکھتے ہیں... اس لیے اگر سفارت کاری کا کوئی موقع ملا، تو صدر اسے ضرور اپنائیں گے... لیکن وہ طاقت کے استعمال سے بھی نہیں گھبراتے۔" تاہم، لیویٹ نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ آیا صدر ٹرمپ ایران پر کسی ممکنہ حملے کے لیے کانگریس سے اجازت طلب کریں گے یا نہیں۔ یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب تین سفارت کاروں نے انکشاف کیا کہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان گزشتہ ہفتے اسرائیلی حملوں کے آغاز سے اب تک متعدد مرتبہ ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی ہے، تاکہ بحران کا سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔ ان مذاکرات میں مئی کے آخر میں ایران کو پیش کی گئی ایک امریکی تجویز پر مختصر تبادلہ خیال بھی ہوا، جس کا مقصد ایران کے باہر یورینیم افزودگی کے لیے ایک علاقائی کنسورشیم قائم کرنا تھا.... تاہم ایران اس پیشکش کو اب تک مسترد کرتا رہا ہے۔ سفارت کاروں نے برطانوی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ عراقچی نے کہا ہے کہ ایران اُس وقت تک مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کرے گا جب تک اسرائیل 13 جون سے جاری حملے بند نہیں کرتا۔ تصادم جاری امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے بدھ کی شام با خبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی کہ صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کے لیے امریکی منصوبوں کو "گرین سگنل" دے دیا ہے، تاہم حتمی حکم اس لیے مؤخر کر دیا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ آیا تہران اپنا جوہری پروگرام ترک کرتا ہے یا نہیں۔ لیکن امریکی صدر نے جمعرات کو اس خبر پر رد عمل دیتے ہوئے کہا: "انھیں میرے خیالات کا ذرا بھی اندازہ نہیں۔" یہ صورت حال ایسے وقت میں ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تصادم ساتویں دن میں داخل ہو چکا ہے۔ اسرائیل نے13 جون سے اب تک ایران کے مختلف علاقوں میں متعدد حملے کیے، جن میں فوجی مراکز، میزائل لانچنگ پلیٹ فارم اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران اسرائیل نے درجنوں اعلیٰ ایرانی فوجی کمانڈروں اور کم از کم 10 جوہری سائنس دانوں کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔ اس کے جواب میں تہران نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں، اور مزید کارروائیوں کی دھمکی بھی دی ہے۔

Comments