❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 21, 2025 at 05:01 PM
*’فلسطینی نسل کشی میں ’بی بی سی‘ کا جانب دارانہ کردار صحافتی اصولوں کا قتل عام‘* *مرکزاطلاعات فلسطین* برطانیہ میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم برٹش مسلم کونسل کے زیر انتظام ادارہ "مرکزِ میڈیا مانیٹرنگ” (CfMM) نے ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بی بی سی کی جانب سے غزہ میں جاری قابض اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی نسل کشی پر مبنی جنگ کی رپورٹنگ میں واضح اور منظم جانبداری کو دستاویزی شواہد کے ساتھ بے نقاب کیا گیا ہے۔ یہ تفصیلی تجزیاتی رپورٹ 16 جون سنہ2025ء کو جاری کی گئی، جس کا عنوان "بی بی سی کی غزہ اور اسرائیل کوریج: ایک کہانی، دوہرا معیار” رکھا گیا۔ یہ رپورٹ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے 6 اکتوبر سنہ2024ء کے درمیانی عرصے پر محیط ہے، جس میں بی بی سی کے مختلف پلیٹ فارمز سے نشر و شائع ہونے والے 35 ہزار سے زائد مضامین، ویڈیوز اور پروگرامز کا تجزیہ کیا گیا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اس ایک سالہ عرصے میں قابض اسرائیل کی درندگی کے نتیجے میں فلسطین میں شہداء کی تعداد 42 ہزار سے تجاوز کر گئی، جب کہ اسرائیلی ہلاکتیں صرف 1246 رہیں۔ اس کے باوجود بی بی سی نے اسرائیلی ہلاکتوں کو فلسطینی شہداء کی نسبت 33 گنا زیادہ تحریری مضامین میں اور 19 گنا زیادہ ٹی وی نشریات میں کوریج دی۔ رپورٹ کے مطابق انسانی کہانیوں یا متاثرین کی ذاتی پروفائلز میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ بی بی سی نے فلسطینی شہداء کی 279 کہانیاں شائع کیں، جب کہ اسرائیلی ہلاکتوں کے لیے یہ تعداد 201 رہی، لیکن اسرائیلی متاثرین کی تفصیلات زیادہ ذاتی، تصویری اور ہمدردی پیدا کرنے والی تھیں، جب کہ فلسطینی شہداء کو اکثر نام و شناخت کے بغیر پیش کیا گیا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹنگ میں فلسطینی وزارت صحت کو بار بار "حماس کی وزارت صحت” کہہ کر پیش کیا، جس سے رپورٹ کے مطابق قارئین کو یہ تاثر دیا گیا کہ وہاں سے آنے والے اعداد و شمار ناقابلِ اعتماد یا مشکوک ہیں۔ اس اصطلاح کو رپورٹنگ میں 1155 بار دہرایا گیا۔ لفظوں میں جانبداری رپورٹ کے سب سے چونکا دینے والے انکشافات میں بی بی سی کی استعمال کردہ زبان بھی شامل ہے۔ قابض اسرائیل کے حملوں میں مارے جانے والے اسرائیلیوں کو "brutal”، "massacre”، "slaughter”، "barbaric” اور "murder” جیسے لفظوں سے بیان کیا گیا۔ مثال کے طور پر "massacre” کا لفظ اسرائیلی ہلاکتوں کے لیے 18 بار استعمال ہوا، مگر فلسطینی شہداء کے لیے بمشکل ایک بار بھی نہیں۔ اسی طرح "murder” کا لفظ 220 بار اسرائیلی ہلاکتوں کے تناظر میں آیا، مگر فلسطینی شہداء کے لیے صرف ایک بار۔ یہی امتیازی طرزِ تحریر بی بی سی کے مجموعی بیانیے کو متعصب اور غیر منصفانہ بناتا ہے۔ قیدی یا یرغمالی؟ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بی بی سی نے اسرائیلی قیدیوں کو ہمیشہ "hostage” یعنی یرغمالی کہا کہ جب کہ قابض اسرائیل کی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کو صرف "prisoner” یعنی قیدی کہا، چاہے ان کی گرفتاری بغیر کسی مقدمے یا ثبوت کے ہوئی ہو۔ غزہ میں جاری نسل کشی کے لیے "genocide” یا "war crimes” جیسے الفاظ کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر رہا حالانکہ یہی الفاظ بی بی سی نے یوکرین پر روسی حملے کی رپورٹنگ میں بار بار استعمال کیے۔ اسی طرح بنجمن نیتن یاھو اور دیگر اسرائیلی حکام کی نسل کشی پر مبنی بیانات بھی نظر انداز کیے گئے، جن میں فلسطینیوں کو "عمالیق” کہا گیا، جو توراتی تعبیر کے مطابق مکمل نسل کشی کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اظہارِ رائے میں واضح عدم توازن بی بی سی نے اپنے مختلف پروگرامز میں 2350 اسرائیلیوں سے انٹرویوز کیے، جب کہ فلسطینی نمائندوں کو صرف 1085 بار بولنے کا موقع دیا۔ یہ عدد اسرائیلیوں کو دُگنا نمائندگی دیے جانے کا ثبوت ہے۔ اسی طرح بی بی سی نے اسرائیلی بیانیے کو 2340 بار جگہ دی، جب کہ فلسطینی مؤقف صرف 217 بار نشر کیا گیا۔ غزہ: صرف ایک سکیورٹی مسئلہ؟ رپورٹ کے موازناتی حصے نے بی بی سی کے دوہرے معیار کو اور زیادہ عیاں کیا۔ یوکرین کے معاملے میں بی بی سی نے انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور متاثرین کے جذبات کو مرکزی حیثیت دی، جب کہ غزہ کی جنگ کو محض سکیورٹی یا عسکری تناظر میں پیش کیا، انسانی المیوں کو یا تو چھپا دیا گیا یا معمولی انداز میں بیان کیا گیا۔ قابض اسرائیل کے بیانیے کو بی بی سی نے 75 فیصد رپورٹنگ میں شامل کیا جب کہ روسی مؤقف صرف 17 فیصد میں جگہ پا سکا۔ یہی نہیں قابض اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہونے والے 176 فلسطینی صحافیوں میں سے صرف 6 فیصد کو بی بی سی نے اپنی رپورٹنگ میں جگہ دی، جب کہ یوکرین میں مارے گئے 62 فیصد صحافیوں کو نمایاں کوریج ملی۔ ایڈیٹوریل دباؤ اور سنسر شپ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بی بی سی کی اندرونی پالیسی اکثر فلسطینی مظلوموں کی آواز سنسر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایسے بیانات جو قابض اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں یا فلسطینی شہداء کی کہانیاں جو سامعین کو جھنجھوڑ سکتی ہیں، انہیں اکثر حذف یا غیر اہم بنا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سامنے آیا کہ بی بی سی پر صیہونی لابی کے دباؤ کے تحت کئی بار فلسطینیوں کی آواز دبائی گئی۔ فروری میں غزہ کے بچوں پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم بھی اسی دباؤ کے تحت واپس لے لی گئی، جس پر صحافی، ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان نے شدید ردِعمل ظاہر کیا، مگر بی بی سی نے کوئی پرواہ نہ کی۔ قابض اسرائیل اور امریکہ کی پشت پناہی میں 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں جاری نسل کشی کی اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ 86 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ 11 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔ درجنوں بچے بھوک سے دم توڑ چکے ہیں اور لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس خونی داستان کے باوجود، عالمی میڈیا خصوصاً بی بی سی جیسے بڑے ادارے کا یہ جانبدارانہ کردار نہ صرف صحافت کی توہین ہے بلکہ انسانی ہمدردی کے بنیادی اصولوں کی بھی نفی کرتا ہے۔

Comments