Voice of People
June 21, 2025 at 07:12 AM
دیارِ حُسن میں تجدیدِ عاشقی کے لیے
ہم ایسے لوگ ضروری ہیں ہر صدی کے لیے
علامہ طالب جوہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج - 21؍جون پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف عالمِ دین، مسلم اسکالر، فلسفی، مؤرخ اور شاعر ”علامہ_طالبؔ_جوہری کا یومِ وفات ہے۔
نام طالب_جوہری اور تخلص طالبؔ تھا۔
27؍اگست 1929ء کو بھارت کی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔
علامہ طالبؔ جوہری 10؍جون 2020ء سے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور انہیں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا تھا۔
21؍جون 2020ء کو 91 سال کی عمر میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ سپرہائی وے پر واقع وادی حسین قبرستان میں آسودہِ خاک ہیں۔
#بحوالہ_ویکیپیڈیا
پیشکش : شمیم ریاض انصار
معروف شاعر علامہ طالبؔ جوہری کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت....
دھوپ جب تک سر پہ تھی زیر قدم پائے گئے
ڈوبتے سورج میں کتنی دور تک سائے گئے
آج بھی حرف تسلی ہے شکست دل پہ طنز
کتنے جملے ہیں جو ہر موقع پہ دہرائے گئے
اس زمین سخت کا اب کھودنا بے کار ہے
دفن تھے جو اس خرابے میں وہ سرمائے گئے
دشمنوں کی تنگ ظرفی ناپنے کے واسطے
ہم شکستوں پر شکستیں عمر بھر کھائے گئے
اب درندہ کھوجیوں کی دسترس میں آ گیا
نہر کے ساحل پہ پنجوں کے نشاں پائے گئے
آج سے میں اپنے ہر اقدام میں آزاد ہوں
جھانکتے تھے جو مرے گھر میں وہ ہمسائے گئے
ان گلی کوچوں میں بہنوں کا محافظ کون ہے
کسب زر کی دوڑ میں بستی سے ماں جائے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یں دیار قاتلاں کا ایک تنہا اجنبی
ڈھونڈھنے نکلا ہوں خود اپنے ہی جیسا اجنبی
آشناؤں سے سوال آشنائی کر کے دیکھ
پھر پتہ چل جائے گا ہے کون کتنا اجنبی
ڈوبتے ملاح تنکوں سے مدد مانگا کیے
کشتیاں ڈوبیں تو تھی ہر موج دریا اجنبی
مل جو مجھ کو عافیت کی بھیک دینے آئے تھے
کس سے پوچھوں کون تھے وہ آشنا یا اجنبی
بے مروت شہریوں نے فاصلے کم کر دیے
ورنہ پہلے شہر کو لگتا تھا صحرا اجنبی
یہ منافق روپ کب سے میری عادت بن گیا
میرے چہرے سے ہے کیوں میرا سراپا اجنبی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہت کو بے جہتی کے ہنر نے چھین لیا
مری نگاہ کو میرے ہی سر نے چھین لیا
ہے کس کے دست کرم میں مہار ناقۂ جاں
سفر کا لطف غم ہم سفر نے چھین لیا
میں اپنی روح کے ذرے سمیٹتا کیوں کر
یہ خاک وہ تھی جسے کوزہ گر نے چھین لیا
بھٹک رہے ہیں جوانی کے نارسا لمحات
بہت سے گھر تھے جنہیں ایک گھر نے چھین لیا
بقول غالبؔ دانا گزر ہی جاتی یہ عمر
مگر اسے بھی ترے رہ گزر نے چھین لیا
شکارگاہ شکاری کے خوں سے رنگیں ہے
زمیں کا رزق کسی جانور نے چھین لیا
سفر کی روح تھا وہ ذوق جستجو طالبؔ
جسے چراغ سر رہ گزر نے چھین لیا
بشکریہ_ریختہ_ڈاٹ_کام

❤️
👍
3