
MG News
June 17, 2025 at 04:59 PM
خیبر پختونخوا میں ہراسمنٹ کے بڑھتے واقعات: ایک اور نرس نے زندگی کا چراغ گل کر دیا
اسلام اباد ( بیورو رپورٹ )
خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف ہراسمنٹ کے واقعات میں مسلسل اضافہ ایک لمحہ فکریہ بنتا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر ہسپتالوں تک، خواتین خصوصاً طالبات، نرسز اور دیگر خواتین عملہ ہراسانی کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم دلچسپی نے ان واقعات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
بنو کی نرس نے زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی
حالیہ واقعہ بنوں کے ایک مقامی سرکاری ہسپتال میں پیش آیا جہاں نرسنگ اسٹاف سے وابستہ ایک نوجوان خاتون نے مبینہ طور پر زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق متوفیہ نرس کو واٹس ایپ کے ذریعے مسلسل ہراساں کیا جا رہا تھا۔ ابتدائی انکوائری شروع کر دی گئی ہے، تاہم تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی جس پر لواحقین اور انسانی حقوق کے حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
مالاکنڈ یونیورسٹی کیس: رپورٹ دبانے کی کوشش؟
اس واقعے سے قبل مالاکنڈ یونیورسٹی میں بھی ایک سنگین ہراسمنٹ کیس رپورٹ ہو چکا ہے، جہاں ایک پروفیسر پر طالبہ کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ طالبہ کی درخواست پر ایف آئی آر درج ہوئی اور پروفیسر کو وقتی طور پر گرفتار بھی کیا گیا، لیکن مبینہ طور پر معاملے کو اندرونی انکوائری کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔ متاثرہ طالبہ نے بالآخر وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) سے رجوع کیا۔
اداروں کی بے حسی یا ملی بھگت؟
ایسے تمام واقعات ایک بڑے سوالیہ نشان کو جنم دیتے ہیں کہ خواتین کو اداروں میں تحفظ کب ملے گا؟ سرکاری ادارے نہ صرف متاثرہ خواتین کو انصاف دینے میں ناکام ہو رہے ہیں بلکہ کئی مواقع پر ملزمان کو بچانے کی کوششیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ متاثرین کو اکثر خاموش رہنے یا صلح کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت اور پولیس کی مجرمانہ خاموشی
نہ تو متعلقہ ہسپتال کے منتظمین نے واضح موقف اختیار کیا، اور نہ ہی محکمہ صحت نے کوئی باضابطہ بیان جاری کیا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی کوئی سنجیدہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا دعویٰ کرتے ہیں کہ خواتین کے تحفظ کو ترجیح دی جائے گی، مگر عملی اقدامات کا فقدان واضح ہے۔
خواتین کہاں جائیں؟
پے در پے واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی خواتین، خواہ وہ تعلیم حاصل کر رہی ہوں یا خدمتِ خلق کے شعبے میں کام کر رہی ہوں، محفوظ نہیں۔ ہسپتال جیسے مقدس ادارے اگر ہراساں کرنے والوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں آخر کہاں جائیں؟
🖐
😞
2