
ھیواد نیوز
June 14, 2025 at 11:29 AM
ایران اسرائیل معرکہ: 24 گھنٹوں میں تصویر کیسے بدل گئی؟
اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر کیے گئے حملے کے محض چوبیس گھنٹے بعد مشرق وسطیٰ کی جنگی تصویر یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ ابتدائی طور پر مغربی میڈیا اور اسرائیلی حکام کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ ایران کو شدید نقصان پہنچا ہے، اس کی عسکری صلاحیتیں مفلوج ہو چکی ہیں، اور وہ کسی ردعمل کی پوزیشن میں بھی نہیں رہا ہے۔ مگر 13 اور 14 جون 2025 کی درمیانی رات ایران کی طرف سے جوابی میزائل حملوں نے یہ تمام قیاس آرائیاں خاک میں ملا دیں۔
ایرانی حملے صرف علامتی نہیں بلکہ حقیقی، مہلک اور اسٹریٹجک تھے۔ ان حملوں نے اسرائیلی دفاعی نظام، عسکری قیادت، اور عوامی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب عالمی میڈیا کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے یہ یکطرفہ حملہ ہرگز نہیں ہے۔
ایران کے جوابی حملے نے اسرائیل کو حیران کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق، ایران نے تقریباً 100 بیلسٹک میزائل داغے، جن میں سے درجنوں میزائل اسرائیلی دفاعی نظام کو چکما دے کر اپنے اہداف تک پہنچے۔ تل ابیب کے شہری علاقے اور فوجی تنصیبات خاص طور پر نشانہ بنے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی دفاعی فورسز (IDF) نے اب تک 4 ہلاکتوں اور80 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے، جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔ تاہم، اصل نقصانات کا اندازہ لگانا ابھی باقی ہے کیونکہ اسرائیل مکمل تفصیلات جاری کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات میں کم از کم 20 ہلاکتوں اور 150 سے زیادہ شدید زخمیوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ہلاکتوں، زخمیوں اور املاک کے نقصانات اپنی جگہ۔ لیکن ایرانی حملے کا سب سے اہم اور حیران کن پہلو تل ابیب میں واقع اسرائیلی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر، کریا کمپاؤنڈ (Kiriya Compound) پر کامیاب حملہ تھا۔ یہ کمپاؤنڈ اسرائیل کا پینٹاگون سمجھا جاتا ہے، یہاں اسرائیلی فوج کا جنرل اسٹاف ہیڈکوارٹر، انٹیلیجنس و کمانڈ مراکز اور دفاعی فیصلہ سازی کا مرکز ہے۔ اسے انتہائی اسرائیل کا سب سے محفوظ مقام تصور کیا جاتا تھا۔ اس پر براہ راست ایرانی میزائلوں کا گرنا اسرائیل کے لیے ایک سنگین دفاعی ناکامی ہے۔ اگرچہ اسرائیلی حکام نے اس حملے کے مکمل نتائج کو پوشیدہ رکھا ہے، تاہم سیٹلائٹ امیجز اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں کمپاؤنڈ کے اطراف دھماکوں اور دھوئیں کے بادل دیکھے گئے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس حملے سے اسرائیلی دفاعی ڈھانچے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو قابل ذکر نقصان پہنچا ہو۔ یہ حملہ نہ صرف اسرائیل کی دفاعی صلاحیت پر ایک سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ ایران کی بڑھتی ہوئی میزائل ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کا بھی مظہر ہے۔ اور اسرائیل کے لیے بہت بڑی نفسیاتی شکست بھی۔
ایرانی حملے کے دوران، ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کئی اسرائیلی طیاروں کو بھی مار گرایا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے ان دعووں کی تصدیق نہیں کی ہے، تاہم ترک اور یورپی ذرائع ابلاغ نے یہ تصدیق کی کہ ایک F‑35 حملے کے دوران کریش ہوہے ہیں۔ یہ اسرائیلی ایئر فورس کی برتری کے زعم کو شدید دھچکا ہے، تو ایران دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے امریکہ ساختہ ففتھ جنریشن لڑاکا طیارہ F-35 کو جنگی حالت میں مار گرایا ہے۔ یہ پیش رفت عسکری تاریخ میں ایک نئی مثال کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، کیونکہ F-35 کو جدید ترین ریڈار چکمہ دینے، اسٹیلتھ، اور ایکوسسٹم سپورٹ کے لحاظ سے ناقابلِ شکست سمجھا جاتا تھا۔ یہ اسرائیل کے لیے جنگ کا ایک نیا اور خطرناک پہلو ہے جہاں اس کی فضائی بالادستی کو چیلنچ کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل اپنے دفاعی نظام کی بحالی اور مضبوطی پر زور دے رہا ہے۔ تاہم، ایران کا یہ جواب، جس میں اس نے 'آئرن ڈوم' اور 'ڈیوڈ سلنگ' جیسے جدید ترین دفاعی نظاموں کو کامیابی سے عبور کیا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کا دفاعی نظام جتنا مضبوط سمجھا جاتا تھا، اتنا مضبوط نہیں ہے۔ مزید برآں، ایران کی جانب سے وقفے وقفے سے ڈرون اور میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے، جو آئرن ڈوم اور ڈیوڈ سلنگ جیسے دفاعی نظاموں کو مسلسل متحرک رکھیں گے۔ یہ دفاعی نظام نہایت مہنگے اور تھکا دینے والے ہیں، اور ان کو مسلسل فعال رکھنا اسرائیلی معیشت اور فوج کے لیے ایک بڑا بوجھ بن سکتا ہے۔ ہر انٹرسیپٹر (میزائل شکن) کی لاگت لاکھوں ڈالر میں ہوتی ہے، اور ان کا مسلسل استعمال اسرائیل کے دفاعی بجٹ پر نمایاں اثر ڈالے گا۔
جنگ کی نئی صورتحال اسرائیل کی عوامی زندگی پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ پروازیں منسوخ ہو رہی ہیں، کاروبار متاثر ہو رہے ہیں، اور سیاحت ٹھپ ہو چکی ہے۔ اسکول بند کر دیے گئے ہیں اور صنعت بھی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ شہری مسلسل خوف اور بے یقینی کی کیفیت میں ہیں، جس سے ان کی ذہنی صحت اور سماجی استحکام متاثر ہو رہا ہے۔ تل ابیب جیسے بڑے شہروں میں ہنگامی سائرن اور میزائل حملوں کے خوف سے زندگی کی رفتار رک سی گئی ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کے لیے ایک نیا چیلنج ہے، جہاں اسے نہ صرف فوجی بلکہ نفسیاتی اور معاشی محاذ پر بھی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ یہ طویل المدتی دباؤ اسرائیل کی اندرونی ہم آہنگی اور حکومتی پالیسیوں پر بھی سوال اٹھا سکتا ہے۔
مجموعی طور پر، ایران کی جوابی کارروائی نے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے قواعد کو بدل دیا ہے۔ یہ صرف ایک فوجی حملہ نہیں تھا بلکہ ایک نفسیاتی اور اسٹریٹجک اقدام تھا جس نے اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے تاثر کو زک پہنچائی ہے۔ یہ صورتحال خطے کو ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف دھکیل رہی ہے جہاں مزید کشیدگی اور غیر متوقع واقعات کا امکان بڑھ گیا ہے۔