Ammar Shah Punjabi
Ammar Shah Punjabi
June 18, 2025 at 02:12 PM
قومِ بنی اسرائیل: احسان فراموشی کی داستان تحریر: عمار شاہ پنجابی اسلامی دنیا نے اسرائیل کو نہیں گھیر رکھا، بلکہ اسرائیل نے مغرب کے ساتھ مل کر پوری اسلامی دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ غزہ میں ہزاروں نہتے فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، اور آدھی سے زیادہ مسلم ریاستیں یا تو اسرائیل سے خائف ہیں، یا ان کی خاموش حلیف بن چکی ہیں۔ یہ وہی قوم ہے جسے ایرانی بادشاہ سائرس کبیر (Cyrus the Great) نے غلامی سے نجات دلائی تھی۔ 539 قبل مسیح میں اس نے یہودیوں کو بابلی اسیری سے آزاد کروایا اور یروشلم میں واپس آ کر اپنا عبادت خانہ تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ یہ واقعہ بائبل کی کتاب "Ezra" میں بھی درج ہے: “Thus says Cyrus king of Persia: The Lord God of heaven... has charged me to build Him a house at Jerusalem.” (Ezra 1:2) یہاں ایک نکتۂ تدبر بھی ہے — بہت سے مسلم مفسرین اور مؤرخین نے قرآنِ مجید کی سورۃ الکہف میں مذکور شخصیت ذوالقرنین کو سائرس کبیر ہی قرار دیا ہے۔ ذوالقرنین کون تھے؟ مشہور مفسر امام الطبری، ابو الکلام آزاد، اور جدید اسکالر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت کئی علما اس بات کے قائل رہے کہ ذوالقرنین دراصل کوروش اعظم ہی تھے، جن کے کردار میں: مشرق و مغرب کی فتوحات، عدل و رحم، اور یاجوج ماجوج سے تحفظ کی دیوار کی تعمیر جیسے اعمال شامل تھے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا: > "ہم نے ذوالقرنین کو زمین میں اقتدار دیا تھا اور اسے ہر کام کا ذریعہ عطا کیا تھا۔" (سورۃ الکہف، آیت 84) یہ وہی ذوالقرنین تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کو قید و غلامی سے نجات دی، مگر وہی قوم تاریخ میں بار بار اپنے محسنوں کی ناشکری کرتی رہی۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں، جب وہ طور پر گئے تو ان کی غیر موجودگی میں بنی اسرائیل نے سامری کے بہکاوے میں آ کر سونے کے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ قرآن گواہ ہے: > "اور موسیٰ تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر بھی تم نے ان کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا، اور تم ہو ہی ظالم!" (سورۃ البقرہ، آیت 92) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: > "اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی، اور یہ کہ میں نے تمہیں جہانوں پر فضیلت دی۔" (سورۃ البقرہ، آیت 47) مگر یہی قوم، جسے اللہ نے کبھی منتخب اور برتر کہا، بعد میں اس کے دین سے انحراف کر گئی۔ وہ تورات میں تحریف کرتے رہے، نبیوں کی تکذیب کرتے رہے، اور آخرکار اپنے اخلاقی زوال کی انتہا پر پہنچے۔ آج وہی قوم نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا خون بہا رہی ہے — اور ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا تضاد ہے: جسے سائرس جیسے عادل بادشاہ نے عزت دی، جسے رب ذوالجلال نے فضیلت دی، اس نے نہ اپنے رب کی قدر کی، نہ اپنے محسنوں کی۔ نتیجہ: احسان فراموشی صرف اخلاقی کمزوری نہیں — یہ قوموں کے زوال کی سب سے پہلی علامت ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کا یہ زوال ہمیں ایک واضح پیغام دیتا ہے: جس قوم میں سچ کو جھٹلایا جائے، انصاف کو روند ڈالا جائے، اور طاقت کو ظلم کا آلہ بنا لیا جائے — وہ قوم دنیا میں جتنی بھی طاقتور ہو، آخرکار رسوا ہوتی ہے!
❤️ 1

Comments