
Urdu AI Studio
May 24, 2025 at 12:29 PM
کہتے ہیں یہ تخت طاؤس ہے۔
یہ کوئی عام تخت نہ تھا۔ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے قیمتی اور شاہانہ تخت تھا — "تختِ طاؤس۔
سن 1628... مغل بادشاہ شاہجہان—جس نے تاج محل جیسا عجوبہ تعمیر کرایا—نے ایک اور ناقابلِ تصور خواب دیکھا: ایک ایسا تخت بنایا جائے جو زمین پر جنت کا منظر پیش کرے۔ شاہجہان نے حکم دیا، اور سلطنت کے بہترین سنار، جواہرات تراشنے والے، اور فنکاروں کو یکجا کر لیا گیا۔
سات سال کی شب و روز محنت کے بعد، وہ شاہکار وجود میں آیا، جسے دنیا "تخت طاؤس" کے نام سے جانتی ہے۔
یہ تخت خالص 1150 کلوگرام سونے سے ڈھالا گیا۔ اس پر 230 کلوگرام کے قریب ہیرے، یاقوت، زمرد، نیلم، اور موتی جڑے گئے۔
تخت کے پیچھے دو مور (طاؤس) کی شکلیں بنی تھیں، جن کے پروں میں سینکڑوں جواہرات چمکتے تھے۔ ان ہی موروں کے باعث اس کا نام "تختِ طاؤس" پڑا۔
یہ تخت صرف طاقت کی علامت نہ تھا، یہ خود ایک خزانہ تھا۔
شاہجہان جب اس تخت پر بیٹھتا، تو ایسا لگتا جیسے کسی آسمانی تخت پر فرشتہ بیٹھا ہو۔ ہر درباری، ہر سفیر، اور ہر دشمن اس کی جھلک پا کر سہم جاتا۔
تاریخ دان کہتے ہیں: "یہ کوئی شاہی کرسی نہیں تھی، یہ ایک اعلان تھا—مغل سلطنت کی شان و شوکت کا اعلان۔"
پھر آیا وہ منحوس سال — 1739۔
ایران کا فاتح نادر شاہ، جس نے فارسی سرزمین کو خون سے رنگا تھا، دہلی کی جانب بڑھا۔ کرنال کی جنگ میں مغل افواج کو شکست ہوئی، اور نادر شاہ دہلی میں داخل ہو گیا۔
تاریخ کہتی ہے: "دہلی کا ہر کوچہ نعرۂ 'نادر شاہ زندہ باد' سے گونج رہا تھا... لیکن یہ نعرے نہیں، نوحے تھے۔"
نادر شاہ نے صرف خزانہ نہیں لوٹا، اس نے تخت طاؤس کو فتح کی علامت بنا کر ایران لے گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ کوهِ نور اور دریاۓ نور جیسے عظیم ہیروں کو بھی چھین لیا، جو آج بھی بھارت، ایران، اور برطانیہ کے تاریخی تنازعات کا مرکز ہیں۔
1999 میں عالمی ماہرین آثارِ قدیمہ نے تخت طاؤس کی قدری قیمت کا تخمینہ لگایا:
تقریباً ساڑھے چار ارب پاکستانی روپے — اور یہ 1999 کی بات ہے۔
آج کی قیمت؟ اگر اس میں شامل جواہرات، سونا اور تاریخی قدر کو شامل کیا جائے، تو یہ رقم ممکنہ طور پر 1.5 ارب ڈالر (یعنی 400 ارب روپے) سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔
افسوس کہ یہ تخت وقت کے ہاتھوں بکھر گیا۔
نادر شاہ کے بعد ایران میں سیاسی انتشار نے اس خزانے کو ٹکڑوں میں بکھیر دیا۔
آج تخت طاؤس اپنی اصل حالت میں کہیں موجود نہیں، لیکن اس کی چمک تاریخ کے صفحات پر اب بھی جگمگا رہی ہے۔
تخت طاؤس صرف ایک بادشاہی کرسی نہیں تھی، یہ اس دور کی طاقت، فن، دولت، غرور، اور انجام کی مکمل داستان تھی — جو ہمیں بتاتی ہے کہ
"دنیا کی کوئی بھی عظمت، اگر تکبر سے بھر جائے، تو اسے زوال ضرور آتا ہے!"