
Urdu AI Studio
55 subscribers
About Urdu AI Studio
Iftikhar uddin Anjum ( Writer)
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*صفر کا موجد کون تھا؟* ایک طالب علم جو روس میں زیرِ تعلیم ہے، بیان کرتا ہے: روس میں اکثر امتحانات کے لیے بلند ترین درجہ بندی "5" ہے۔ اگر کوئی طالب علم کسی سوال کا جواب نہ دے اور اپنا پرچہ بالکل خالی لوٹا دے، تو بھی اسے پانچ میں سے "2" نمبر دیے جاتے ہیں۔ جب میں نے ماسکو یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا، تو اس نظام سے ناواقف تھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، اور میں نے ڈاکٹر تئودور مدراف سے پوچھا: "کیا یہ انصاف ہے کہ کوئی طالب علم جو ایک بھی سوال کا جواب نہ دے، اسے آپ ۲ نمبر دیتے ہیں؟ آپ اسے صفر کیوں نہیں دیتے؟ کیا یہ درست طریقہ ہے؟" انہوں نے جواب دیا: "ہم کسی انسان کو صفر کیسے دے سکتے ہیں؟ ہم کیسے اس طالب علم کو صفر دے سکتے ہیں جس نے صبح سات بجے بیدار ہو کر تمام لیکچرز میں شرکت کی؟ ہم کیسے اس کو صفر دیں، جب کہ وہ سخت سردی میں، عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کر کے وقت پر امتحان گاہ پہنچا اور کوشش کی کہ سوالات حل کرے؟ ہم اس کی ان راتوں کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں جو اس نے تعلیم کی نذر کیں، اپنی آمدنی سے کاپی قلم خریدے، مطالعہ کے لیے کمپیوٹر لیا؟ ہم اس کو صفر کیسے دیں، جب کہ اس نے زندگی کی دیگر آسائشیں چھوڑ کر طالب علمی کی راہ اپنائی تاکہ وہ اپنے علم کو آگے بڑھا سکے؟ بیٹا! ہم صرف اس وجہ سے کہ اس نے جوابات نہیں دیے، اسے صفر نہیں دیتے۔ ہم کم از کم اس حقیقت کا احترام کرتے ہیں کہ وہ ایک انسان ہے۔ اس کے پاس عقل، شعور اور سوچنے کی صلاحیت ہے۔ اس نے کوشش کی، سعی کی۔ ہمارا یہ نمبر صرف سوالات کے جواب کا عکاس نہیں بلکہ اس انسان کی سعی کی قدردانی کا اظہار ہے۔ یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ انسان، انسان ہے، اور وہ کسی نہ کسی درجہ میں مقام اور نمرے کا مستحق ہے۔ میں یہ سن کر بے اختیار رو پڑا، اور میرے پاس جواب دینے کو کوئی لفظ نہ رہا۔ اسی لمحے میں نے پہلی بار *اپنی انسانی قدر* کو محسوس کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ "صفر" کا عدد طالب علم کے حوصلے پست کر دیتا ہے۔ وہ فوراً شکست خوردگی کا شکار ہو سکتا ہے اور علم سے مکمل کنارہ کشی کر سکتا ہے۔ جب کسی کی کارکردگی پر "صفر" کا داغ لگ جائے، تو اس کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ وہ خود کو ناکارہ سمجھنے لگتا ہے اور یہ خیال اسے جکڑ لیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں۔ یہ پیغام ہر معلم، ہر استاد اور ہر وہ فرد جو تعلیم و تربیت میں کوئی کردار ادا کرتا ہے، تک ضرور پہنچنا چاہیے: آیئے! ہم دوبارہ غور کریں کہ ہم اپنے طالب علموں کو کس پیمانے سے پرکھتے ہیں۔۔۔ ہر انسان، خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو، اپنی زندگی کے مقصد کے لیے مشقت کرتا ہے: مثلاً ایک خاتون خانہ کھانے پکانے کے لیے کوشش کرتی ہے، ایک باپ گھر کا خرچ چلانے کے لیے، مزدور اور ملازم اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے، سب اپنی بساط بھر محنت کرتے ہیں۔ اگر ان کی کوششیں مطلوبہ معیار پر پوری نہ بھی اتریں تو یہ بے انصافی ہوگی کہ ہم ان کی محنت کو بالکل نظرانداز کر دیں۔

کہتے ہیں یہ تخت طاؤس ہے۔ یہ کوئی عام تخت نہ تھا۔ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے قیمتی اور شاہانہ تخت تھا — "تختِ طاؤس۔ سن 1628... مغل بادشاہ شاہجہان—جس نے تاج محل جیسا عجوبہ تعمیر کرایا—نے ایک اور ناقابلِ تصور خواب دیکھا: ایک ایسا تخت بنایا جائے جو زمین پر جنت کا منظر پیش کرے۔ شاہجہان نے حکم دیا، اور سلطنت کے بہترین سنار، جواہرات تراشنے والے، اور فنکاروں کو یکجا کر لیا گیا۔ سات سال کی شب و روز محنت کے بعد، وہ شاہکار وجود میں آیا، جسے دنیا "تخت طاؤس" کے نام سے جانتی ہے۔ یہ تخت خالص 1150 کلوگرام سونے سے ڈھالا گیا۔ اس پر 230 کلوگرام کے قریب ہیرے، یاقوت، زمرد، نیلم، اور موتی جڑے گئے۔ تخت کے پیچھے دو مور (طاؤس) کی شکلیں بنی تھیں، جن کے پروں میں سینکڑوں جواہرات چمکتے تھے۔ ان ہی موروں کے باعث اس کا نام "تختِ طاؤس" پڑا۔ یہ تخت صرف طاقت کی علامت نہ تھا، یہ خود ایک خزانہ تھا۔ شاہجہان جب اس تخت پر بیٹھتا، تو ایسا لگتا جیسے کسی آسمانی تخت پر فرشتہ بیٹھا ہو۔ ہر درباری، ہر سفیر، اور ہر دشمن اس کی جھلک پا کر سہم جاتا۔ تاریخ دان کہتے ہیں: "یہ کوئی شاہی کرسی نہیں تھی، یہ ایک اعلان تھا—مغل سلطنت کی شان و شوکت کا اعلان۔" پھر آیا وہ منحوس سال — 1739۔ ایران کا فاتح نادر شاہ، جس نے فارسی سرزمین کو خون سے رنگا تھا، دہلی کی جانب بڑھا۔ کرنال کی جنگ میں مغل افواج کو شکست ہوئی، اور نادر شاہ دہلی میں داخل ہو گیا۔ تاریخ کہتی ہے: "دہلی کا ہر کوچہ نعرۂ 'نادر شاہ زندہ باد' سے گونج رہا تھا... لیکن یہ نعرے نہیں، نوحے تھے۔" نادر شاہ نے صرف خزانہ نہیں لوٹا، اس نے تخت طاؤس کو فتح کی علامت بنا کر ایران لے گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کوهِ نور اور دریاۓ نور جیسے عظیم ہیروں کو بھی چھین لیا، جو آج بھی بھارت، ایران، اور برطانیہ کے تاریخی تنازعات کا مرکز ہیں۔ 1999 میں عالمی ماہرین آثارِ قدیمہ نے تخت طاؤس کی قدری قیمت کا تخمینہ لگایا: تقریباً ساڑھے چار ارب پاکستانی روپے — اور یہ 1999 کی بات ہے۔ آج کی قیمت؟ اگر اس میں شامل جواہرات، سونا اور تاریخی قدر کو شامل کیا جائے، تو یہ رقم ممکنہ طور پر 1.5 ارب ڈالر (یعنی 400 ارب روپے) سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ افسوس کہ یہ تخت وقت کے ہاتھوں بکھر گیا۔ نادر شاہ کے بعد ایران میں سیاسی انتشار نے اس خزانے کو ٹکڑوں میں بکھیر دیا۔ آج تخت طاؤس اپنی اصل حالت میں کہیں موجود نہیں، لیکن اس کی چمک تاریخ کے صفحات پر اب بھی جگمگا رہی ہے۔ تخت طاؤس صرف ایک بادشاہی کرسی نہیں تھی، یہ اس دور کی طاقت، فن، دولت، غرور، اور انجام کی مکمل داستان تھی — جو ہمیں بتاتی ہے کہ "دنیا کی کوئی بھی عظمت، اگر تکبر سے بھر جائے، تو اسے زوال ضرور آتا ہے!"

انیس برس بعد برف میں جمی ہوئی پراسرار کروز شپ کی دریافت — ’اوcean Dream‘ کی حیرت انگیز واپسی انٹارکٹیکا، اپریل 2025 — ایک حیران کن دریافت نے ماہرین، مورخین اور اسرار کے شوقین افراد کو دنگ کر دیا: سال 2000 میں لاپتا ہونے والی ایک کروز شپ برف کے دو دیو ہیکل تودوں کے درمیان منجمد حالت میں پائی گئی، وہاں جہاں اس کے ہونے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ یہ ہولناک دریافت ایک بار پھر برمودا ٹرائی اینگل کے پراسرار رازوں کو تازہ کر گئی ہے اور سمندر کی گہرائیوں میں چھپے ان دیکھے اسرار کو نئی زندگی بخش دی ہے۔ بھوت کروز کا معمہ دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ’اوcean Dream‘ نامی کروز شپ کو بغیر کسی سراغ کے سمندر میں گم شدہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ جہاز موسمِ گرما 2000 میں میامی سے کیریبین کے لیے روانہ ہوا، لیکن برمودا ٹرائی اینگل سے گزرنے کے فوراً بعد راڈار سے غائب ہو گیا — بغیر کسی ایمرجنسی سگنل کے۔ اس وقت سے اب تک ہزاروں قیاس آرائیاں گردش کرتی رہیں: تکنیکی خرابی، قزاقی، اچانک طوفان، یا پھر خلائی مخلوق کا اغوا۔ لیکن کسی نے یہ تصور بھی نہ کیا تھا کہ یہ جہاز جنوبی قطب کے برف زاروں میں منجمد ملے گا — بالکل ویسا ہی جیسے وقت وہیں رک گیا ہو۔


*موت کے بعد انسان 5 حصّوں میں تقسیم ہو جاتا ہے* *1. روح ملک الموت لے جائے گا۔* *2* . *مال وارث لے جائیں گے ۔* *3. گوشت جسے کیڑے کھا جائیں گے۔* *4. ہڈیاں مٹی کھا جائےگی ۔* *5* *باقی رہ جائے گا "ایمان"جسے فرشتے رب کے حضور لے جائیں گے اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔* *آمین ثم آمین یا ربّ العالمین🤲*

ایک دن ایک طالب علم نے شرارتاً اپنے ہم جماعت کی پیٹھ پر چپکے سے ایک کاغذ چپکا دیا جس پر درج تھا: *"I’m Stupid"* (میں بیوقوف ہوں)۔ پھر اُس نے باقی لڑکوں کو چپ رہنے کا اشارہ دیا کہ وہ اُس لڑکے کو کچھ نہ بتائیں۔کلاس میں قہقہے بکھر گئے۔ سب چپکے چپکے اُس پر ہنسنے لگے، سوائے اُس کے، جو اپنی دنیا میں بے خبر بیٹھا رہا۔دوپہر کو جب ریاضی کا درس شروع ہوا تو استاد نے تختۂ سیاہ پر ایک پیچیدہ مسئلہ لکھا، جس نے تمام طلبہ کو خاموش کر دیا۔سب پریشان نظر آنے لگے، سوائے اُس لڑکے کے، جس کی پیٹھ پر مذاق کا نشان چسپاں تھا۔وہ اعتماد سے اٹھا، بورڈ تک پہنچا، اور لمحوں میں سوال کو حل کر کے واپس پلٹا۔ استاد نے خوش ہو کر پوری جماعت سے کہا: "اس ہونہار طالب علم کے لیے بھرپور تالیاں بجاؤ!" پھر وہ اُس کی پشت سے وہ کاغذ آہستگی سے اتار کر ہاتھ میں لیتے ہیں، اور نرمی سے مخاطب ہوتے ہیں: "لگتا ہے تمہیں علم نہ تھا کہ تمھارے پیچھے یہ کاغذ لگا دیا گیا ہے۔" پھر اُن کی نگاہیں پوری جماعت پر گھومتی ہیں، اور وہ گہری سنجیدگی سے گویا ہوتے ہیں: "اس سے پہلے کہ میں کسی کو سزا دوں، میں تم سب کو دو اہم باتیں بتانا چاہتا ہوں: اول، زندگی بھر لوگ تمھاری راہوں میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے تم پر مختلف برے القابات اور لیبل چسپاں کرتے رہیں گے۔ مگر اگر یہ لڑکا اس مذاق سے باخبر ہوتا تو شاید اعتماد کے ساتھ آگے نہ بڑھتا اور مسئلہ حل نہ کرتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جماعت میں کوئی ایک بھی ایسا دوست نہ تھا جو اُس کے پیچھے لگی ہوئی تحقیر کو چھپا کر اُس کا ساتھ دیتا۔ یاد رکھو، یہ ضروری نہیں کہ تمہارے بہت سے دوست ہوں — اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ تمہارے دوست کتنے وفادار اور مخلص ہیں۔ زندگی میں کبھی بھی دوسروں کے چسپاں کردہ لیبلز کو اپنی شناخت نہ بننے دینا۔ اگر تمھارے ارد گرد ایسے لوگ نہیں جو تمھاری غیر موجودگی میں بھی تمھاری عزت کریں، تمھارے لیے آواز اٹھائیں تو تنہا رہنا اُن سے بہتر ہے جو صرف ہجوم بڑھاتے ہیں، ساتھ نہیں دیتے۔

مانسا موسٰی تاریخ کے سب سے امیر آدمی ۔ جب ہم تاریخ کے سب سے امیر شخص کا تصور کرتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں فوراً جدید دور کے ارب پتیوں کے نام آتے ہیں جیسے ایلون مسک، جیف بیزوس، بل گیٹس یا جاگ ما۔ لیکن اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں، تو ایک ایسا نام سامنے آتا ہے جس کی دولت ان سب کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے، حتیٰ کہ ان چاروں کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ۔ اس شخص کا نام ہے مانسا موسٰی۔ یہ کہانی نہ صرف دولت کی ہے، بلکہ عقلمندی، سخاوت، اور ایک عظیم ورثے کی ہے جو آج بھی زندہ ہے۔ مانسا موسٰی کون تھا؟ مانسا موسٰی 14ویں صدی میں مالی کی سلطنت کا حکمران تھا۔ اس کی دولت اتنی بے پناہ تھی کہ مورخین اور ماہرین معاشیات آج بھی اس کی صحیح قیمت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ جدید معیارات کے مطابق، مانسا موسٰی کو تاریخ کا سب سے امیر شخص مانا جاتا ہے، جس کی دولت کا تخمینہ 400 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ مالی کی سلطنت مغربی افریقہ میں ایک وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی، جو اس وقت قارے کی سب سے طاقتور سلطنتوں میں سے ایک تھی۔ دولت کا راز: سونا اور تجارت مانسا موسٰی کی بے پناہ دولت کا سب سے بڑا ذریعہ سونا تھا۔ اس کے دور میں مالی کی سلطنت دنیا کے نصف سے زیادہ سونے کے ذخائر کی مالک تھی۔ مانسا موسٰی کے پاس ان سونے کے کانوں پر مکمل کنٹرول تھا، جس نے اسے دنیا کی سب سے قیمتی شے پر ایک طرح سے اجارہ داری عطا کی۔ لیکن سونا اس کی دولت کا واحد ذریعہ نہیں تھا۔ مالی کی سلطنت صحارا کے پار تجارت کے اہم راستوں پر بھی قابض تھی۔ شمالی اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والی تمام تجارت ان راستوں سے گزرتی تھی، اور مانسا موسٰی اس پر ٹیکس عائد کرتا تھا۔ اس کے علاوہ، مانسا موسٰی نے اپنی دولت کے ذرائع کو متنوع بنانے کا فن خوب جانا تھا۔ سونے کے ساتھ ساتھ، اس نے نمک کی تجارت پر بھی قبضہ کیا، جو اس وقت افریقہ میں سونے جتنی ہی قیمتی شے سمجھا جاتا تھا۔ یہ حکمت عملی اسے جدید معاشی تصورات سے پہلے ہی ایک کامیاب "سرمایہ کار" بناتی تھی، جیسے کہ آج ہم وول سٹریٹ کے کاروباری ماڈلز میں دیکھتے ہیں۔ سخاوت کی قیمت: مکہ کا سفر مانسا موسٰی کی سب سے مشہور کہانی اس کے 1324 میں مکہ کے سفر سے جڑی ہے۔ وہ ایک عظیم الشان قافلے کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوا، جس میں ہزاروں افراد، سینکڑوں اونٹ، اور ٹنوں کے حساب سے سونا شامل تھا۔ اس سفر کے دوران، مانسا موسٰی نے ہر اس شہر میں جہاں سے وہ گزرا، غریبوں میں سونا تقسیم کیا۔ لیکن اس سخاوت کا نتیجہ حیران کن تھا۔ جب وہ قاہرہ پہنچا، تو اس نے اتنا سونا تقسیم کیا کہ مقامی معیشت تباہ ہو گئی۔ سونے کی قیمت گر گئی، مہنگائی بے قابو ہو گئی، اور اس اثرات سے بحالی میں کئی سال لگ گئے۔ مانسا موسٰی نے لفظی طور پر سونے کی اتنی بڑی مقدار مارکیٹ میں ڈال دی کہ اس نے معاشی توازن بگاڑ دیا۔ اس سفر نے اسے ایک افسانوی شخصیت بنا دیا، اور مالی کا نام 1375 میں یورپ کے "کیٹالان ایٹلس" نامی نقشے پر درج ہوا، جہاں مانسا موسٰی کو ایک بڑی سونے کی ڈلی پکڑے ہوئے دکھایا گیا۔ دولت سے آگے: علم و ثقافت کا ورثہ مانسا موسٰی کی میراث صرف دولت تک محدود نہیں تھی۔ وہ ایک متقی مسلمان تھا جس نے اپنی دولت کو اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کیا۔ مکہ سے واپسی کے بعد، اس نے تمبکتو شہر کو علم و ثقافت کا عالمی مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے وہاں مساجد اور یونیورسٹیاں تعمیر کیں، جن میں سے سنکور مسجد اور یونیورسٹی آج بھی موجود ہے۔ اس کے دور میں تمبکتو میں تقریباً دس لاکھ مخطوطات کا ذخیرہ جمع ہوا، جن میں سے کئی آج بھی محفوظ ہیں۔ مانسا موسٰی نے تمبکتو کو اسلامی دنیا میں علمی مرکز کے طور پر متعارف کرایا، جہاں دنیا بھر سے علماء اور طلبہ جمع ہونے لگے۔ اس کے بنائے ہوئے تعلیمی اداروں نے افریقہ کی تاریخ میں علم و تحقیق کی ایک نئی روایت قائم کی۔ ایک مذہبی رہنما مانسا موسٰی ایک سخی اور متقی مسلمان تھا۔ اس نے اپنی دولت سے زکوٰۃ ادا کی اور اپنی سلطنت کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بے پناہ کام کیے۔ اس کی سخاوت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ اس کے دور میں مالی کی سلطنت نہ صرف معاشی طور پر مضبوط تھی، بلکہ مذہبی اور ثقافتی طور پر بھی ترقی یافتہ تھی۔ دولت کے ساتھ نیکی کا پیغام مانسا موسٰی کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دولت کا اصل مقصد صرف جمع کرنا نہیں، بلکہ اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ "صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا" اور "ہر شخص قیامت کے دن اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا"۔ مانسا موسٰی نے اپنی دولت کو صدقے کے طور پر استعمال کیا، جس سے نہ صرف اس کے لوگوں کی زندگیاں بہتر ہوئیں، بلکہ اس کا نام تاریخ میں امر ہو گیا۔ نتیجہ مانسا موسٰی کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ دولت، اگر صحیح طریقے سے استعمال کی جائے، تو معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی سلطنت کو معاشی طور پر مضبوط کیا، بلکہ علم، ثقافت، اور مذہب کے فروغ کے لیے بھی تاریخی کردار ادا کیا۔ آج ہمیں اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ سخاوت، نیکی، اور علم کی قدر کرنے سے ہی ایک انسان اپنی زندگی کو بامقصد بنا سکتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنی زندگی میں کامیابی، جنت، یا اچھی اولاد چاہتے ہیں، تو صدقہ کریں، کیونکہ صدقہ ہر مشکل کا حل ہے۔

کمپیوٹر چپ بنانے والی کمپنی Nvida کا سی ای او پندرہ سال کی عمر میں ڈش واشر تھا۔ بعد میں ترقی پا کر ویٹرز کا انچارج بھی بنا لیکن اس دوران اس نے محنت جاری رکھی الیکٹرک انجینرنگ میں ماسٹرز کیا اور پھر Nvida کی بھی بنیاد رکھی۔ دوہزار چودہ تک Nvida ایک کمپیوٹر چپ بنانے والی کمپنی کے طور پہ مشہور تھی مگر پھر آرٹیفیشل انٹیلی جنس آنا شروع ہوئی تو اس نے بھی اپنی کمپیوٹر چپ کو مزید ایڈوانس کرنا شروع کر دیا۔ آج اس کمپنی کی کمپیوٹر چپ مائیکروسافٹ اور اوپن اے آئی سمیت ہر کمپنی استعمال کر رہی ہے اور یہ ان کے سافٹ وئیر کو چلنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ اس اے آئی کے انقلاب کے بعد Nvida کا سورج عروج پر ہے۔ اور آج اس کے اسٹاک کی قیمت ہزار ڈالر سے اوپر ہو چکی ہے۔ اور اگر آپ نے آج کی قیمت کے حساب سے ہزار ڈالر کے سٹاک ۱۹۹۹ میں خریدے ہوتے تو آج ان کی مالیت 2.8 ملین ڈالر ہونا تھی اور اگر آپ دس ہزار ڈالر کے سٹاک خریدتے تو آج وہ دس ہزار ڈالر اٹھائیس ملین ڈالر کے مساوی ہونا تھے۔ Nvida کمپیوٹر چپ بنا کر اس وقت (2024 تک) سالانہ 60.92 ارب ڈالر کما رہی تھی۔ جبکہ اس کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 2.6 کھرب ڈالر تھی۔ اور اس کے سی ای او کی دولت 91.1 ارب ڈالر ہے۔ یہ پوسٹ ایک سال پرانی ہے جبکہ اس سال کمپنی کی آمدن 114.2% بڑھ کر 130.497 ارب ڈالر اور مالیت 3.201 کھرب ڈالر جبکہ جینسن کی دولت 117 ارب ڈالر ہو چکی ہے امریکہ کی ترقی کا راز بھی یہیں ہے یہاں پر ہر شخص کو اپنا ذہن کھول کر اپنے آئیڈیا مساوی ماحول میں بتانے کا موقع ملتا ہے۔ Nvida کا سی ای او جینسن تائیوان سے ہے۔ اور تائیوان امریکہ کا کبھی بدترین دشمن ہوا کرتا تھا لیکن آج اسی دشمن ملک کا شہری امریکہ میں کھرب پتی بن کر پوری دنیا کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا مستقبل طے کر رہا ہے۔

اَرب پتی صنعت کار، ایک مچھیرے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا جو مچھلیاں پکڑنے کی بجائے اپنی کشتی کنارے سگریٹ سُلگائے بیٹھا تھا۔ صنعت کار: تم مچھلیاں کیوں نہیں پکڑ رہے؟ مچھیرا: کیونکہ آج کے دن میں کافی مچھلیاں پکڑ چکا ہوں۔ صنعت کار: تو تم مزید کیوں نہیں پکڑ رہے؟ مچھیرا: میں مزید مچھلیاں پکڑ کر کیا کروں گا؟ صنعت کار: تم زیادہ پیسے کما سکتے ہو، پھر تمہارے پاس موٹر والی کشتی ہوگی جس سے تم گہرے پانیوں میں جاکر مچھلیاں پکڑ سکو گے, تمہارے پاس نائیلون کے جال خریدنے کے لئے کافی پیسے ہوں گے, اس سے تم زیادہ مچھلیاں پکڑو گے اور زیادہ پیسے کماؤ گے۔ جلد ہی تم ان پیسوں کی بدولت دو کشتیوں کے مالک بن جاؤ گے۔ ہوسکتا ہے تمہارا ذاتی جہازوں کا بیڑا ہو۔ پھر تم بھی میری طرح امیر ہو جاؤ گے۔ مچھیرا: اس کے بعد میں کیا کروں گا؟ صنعت کار: پھر تم آرام سے بیٹھ کر زندگی کا لُطف اُٹھانا۔ مچھیرا: تمہیں کیا لگتا ہے، میں اس وقت کیا کر رہا ہوں..؟