Usfoorat-ul-Mutaal || Managed By Team Darulmutaal ||
Usfoorat-ul-Mutaal || Managed By Team Darulmutaal ||
June 19, 2025 at 07:58 AM
میں سوچا کرتا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا احسان (یعنی بھلائی کرنے کا وصف) آخر کس راز کی بنیاد پر تھا، جب کہ بچپن ہی سے اُنہوں نے زندگی کا صرف سخت رُخ دیکھا؟! وہ ان تمام کٹھن حالات کے باوجود ہمیشہ بھلا کرنے والے کیسے رہے؟ اور قصے کے اختتام پر، میرا گمان ہے کہ میں نے اس راز کو اُن کے ایک جملے میں پا لیا: "اور اُس نے مجھ پر احسان فرمایا" (وقد أحسن بي) انہوں نے ان تمام آزمائشوں میں صرف اللہ کی مہربانی اور اُس کے لطف کو ہی دیکھا۔ انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ: "میں مظلوم ہو کر جیل میں کیوں ڈالا گیا؟" بلکہ یوں کہا: "اُس نے مجھ پر احسان کیا جب اُس نے مجھے قید سے نکالا" انہوں نے یہ نہیں شکوہ کیا کہ: "میرے بھائیوں نے میرے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟" بلکہ کہا: "اور وہ تمہیں صحرا سے لے آیا، اُس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈالا" اور حتیٰ کہ عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ فتنے میں بھی، جس چیز نے اُنہیں بچائے رکھا وہ اللہ کے احسان کا شعور تھا: "میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، وہ (میرا آقا) ہے جس نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا" ہر آزمائش، ہر تکلیف میں، انہوں نے صرف اللہ کی عطا اور بھلائی کو محسوس کیا۔ ایسا دل جو اپنی زندگی کی ہر تفصیل میں اللہ کی نرمی، کرم، اور فضل کو دیکھے اور محسوس کرے، جو ہر مصیبت کے اندر بھی اللہ کی مہربانی کو پا لے، ایسا دل لازماً شکر گزار ہوتا ہے، روشنی سے لبریز ہوتا ہے، اور وہ روشنی دوسروں تک بھی پہنچتی ہے۔ پس جب اللہ نے اُن پر احسان کیا، تو بھلا وہ خود محسن بندہ کیوں نہ ہوتے؟ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب اللہ کے احسان میں ڈوبے ہوئے ہیں… اگر ہم غور کریں۔ پس، اے اللہ! تیرے ہی لیے سب تعریف اور شکر ہے۔ — ڈاکٹر مصطفیٰ محمود ÚSFooRATulMUTAAL
❤️ 🌸 🫀 12

Comments