
Daily Islam
June 20, 2025 at 09:14 AM
*اداریہ: امریکا کی ممکنہ مداخلت، خطے کے استحکام کے لیے خطرہ*
`ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام`
*Follow/Read/Like/Share*
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی عالمی منظرنامے پر تشویش ناک صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ گزشتہ شب بھی ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا، جس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام اب سست پڑتا جا رہا ہے اور اس میں کئی نقائص پیدا ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ایران نے چند نئے میزائل بھی اسرائیل پر برسائے ہیں، جن سے کافی تباہی پھیلی ہے اور ایسی کئی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن میں تل ابیب کو ایرانی میزائلوں کی زد میں دکھایا گیا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے جاری اس جنگ میں تاحال کسی کی فتح و شکست کا فیصلہ واضح نہیں ہوا لیکن ایرانی افواج بڑی بہادری کے ساتھ اپنے وطن کا دفاع کر رہی ہیں اور اسرائیل پر کامیاب میزائل حملوں کی وجہ سے جنگ کسی بھی وقت کوئی نیا موڑ لے سکتی ہے۔ اقوامِ عالم کے لیے تشویش ناک امر یہ ہے کہ بعض ذرائع کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے، اگرچہ حتمی حکم تاحال جاری نہیں کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، ایران کی جوہری تنصیب ’’فردو‘‘ امریکی حملے کا ممکنہ ہدف ہے، جو ایک پہاڑ کے اندر واقع ہے اور عسکری ماہرین کے مطابق اس پر صرف انتہائی طاقتور بم سے حملہ ممکن ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ ابھی کچھ بھی حتمی نہیں ہے اور ایران پر حملہ ممکن بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی، تاہم امریکا ایران کے ساتھ مذاکرات کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کر رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلا ہفتہ اہم ہے اور اگر ایران غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے پر راضی نہ ہوا تو امریکا اس کے تمام جوہری اثاثے تباہ کر دے گا۔
دوسری جانب تاہم ایران کی قیادت فی الحال مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ ایران میں سیکورٹی نظام کو مزید فعال کیا جا رہا ہے اور اسی دوران میں بڑی تعداد میں موساد کے ایجنٹ گرفتار کر لیے گئے ہیں جن میں اکثریت بھارتی اور افغان شہریوں کی ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ایران ہرگز ہتھیار نہیں ڈالے گا اور امریکی فوجی مداخلت کے ناقابل تلافی نتائج برآمد ہوں گے۔ ایرانی نائب وزیر خارجہ مجید تخت روانچی نے بھی واضح کیا کہ ایران جوہری ہتھیاروں پر یقین نہیں رکھتا، اور اگر امریکا اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہوتا ہے تو ایران جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے امریکا یا اسرائیل سے کسی قسم کے مذاکرات کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا اور وہ دھمکیوں کے سائے میں مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ اس دوران روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرانے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کے مطابق ایک ایسا معاہدہ ممکن ہے جس میں ایران کو پُرامن جوہری پروگرام کی اجازت دی جائے اور اسرائیل کے سلامتی کے خدشات کو دور کیا جا سکے۔
امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے اور جوہری توانائی کے حصول کی کوششوں کو ترک کر دینے کے لیے جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے، وہ عالمی طاقتوںکے غیر منصفانہ مزاج اور آمرانہ رویوں کا عکاس ہے۔ یہ صورتحال گویا دنیا میں جاری نوآبادیاتی نظام کے بدلتے چہروں کی ایک تازہ مثال پیش کرتی ہے، جہاں انسانی حقوق کی آڑ میں عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے ممالک کے استحکام کو داؤ پر لگا دیتی ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال ملکوں میں جب بھی انتشار پیدا کرنا مقصود ہو تو ’’مہذب ‘‘ملکوں کا طریق واردات یہی ہوتا ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی پاسداری نہیں ہو رہی۔ سلطنت عثمانیہ سے لے کر آج کے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا تک انسانی حقوق کے مغربی ٹھیکیداروں کا یہی طریقہ کار رہا ہے۔ ایران پر حملوں سے قبل طویل عرصے تک اس کے خلاف ایک منظم ابلاغی مہم چلائی گئی ہے۔ اب دیکھا جائے تو یہ مہم پاکستان کے خلاف بھی شروع کر دی گئی ہے۔ باخبر حلقوں کے مطابق اسرائیل کی عبرانی اور عربی زبان کے صحافیوں، رائٹرز، اینکرز اور سوشل میڈیا کے ماہرین نے پاکستان کے خلاف ایک منظم شرانگیز مہم شروع کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ایران کو میزائل اور ایٹمی ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اس شرانگیز مہم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے فرانس اور برطانیہ کو اسرائیل کا ساتھ دینے پر ایٹمی دھماکوں کی دھمکی دے رکھی ہے۔ گمراہ کن مہم کے شراکت داروں نے اسرائیلی حکومت سے پاکستان کے خلاف فعال اقدامات کا مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر پاکستان کے میزائل ذخائر پر حملے کرنے چاہئیں، نیز ایران کے ساتھ پاک ایران سرحد تک پہنچ کر فضائی اور زمینی حدود کو مکمل کنٹرول میں لے لیا جائے۔ اس وقت اسرائیل میں میڈیا پر یہ پروپیگنڈا جاری ہے۔ مسلم ریاستوں اور کمزور سمجھے جانے والے ممالک کے خلاف اس قسم کی سازشیں بدلتے ہوئے نوآبادیاتی حربوں کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔
ان تمام تر پیچیدہ حالات میں پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات عالمی منظرنامے پر ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے اعزاز ہے کہ وہ فیلڈ مارشل سے ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عاصم منیر کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے جنگ کی طرف قدم نہیں اٹھایا، کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوتیں ہیں۔ ٹرمپ نے اس ملاقات کے دوران ایران، اسرائیل کشیدگی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کو بہتر سمجھتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ایران، اسرائیل جنگ کی وجہ سے خطے میں کشیدگی پھیلی ہوئی ہے، امریکا کی جنگ میں ممکنہ مداخلت کے آثار نے صورت حال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے،پاکستان کے آرمی چیف کی امریکی صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو ایران، اسرائیل جنگ سے متعلق مختلف امکانات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امر عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ ایران، اسرائیل جنگ بندی کے سلسلے میں پاکستان کی کوششوں سے اقوام متحدہ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے جوکہ خوش آیند ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ اس اجلاس میں ایران، اسرائیل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غزہ کے مظلوموں کے لیے بھی کوئی پیش رفت ممکن ہو سکے گی یا نہیں؟