
Malik Haider Ali
June 19, 2025 at 08:27 AM
*🥀ابو البشر سیدنا آدم عَلَيْهِ السَّلام*
*قسط نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2️⃣*
*حضرت آدم عَلَيْهِ السَّلام کی تخلیق*
*🔹تخلیق آدم کے مختلف مراحل :*
حضرت آدم عليه السلام جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو زمین سے ایک مشت مٹی لی گئی، پھر اس مٹی کو مختلف پانیوں سے گوندھا گیا یہاں تک کہ وہ گارا بن گئی اور چپکنے لگی، پھر وہ گارا سیاہ ہو گیا اور اس میں بو پیدا ہوئی، پھر اس سیاہ رنگ اور بو والی مٹی سے انسان کی صورت بنائی گئی، جب وہ سوکھ کر خشک ہو گئی تو جس وقت ہوا اس میں سے گزرتی تو وہ بجتی اور اس میں آواز پیدا ہوتی تھی۔
تخلیق آدم کے یہ مراحل قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
*إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ*
ترجمہ: بیشک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی
طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا:
ہو جا تو وہ فوراً ہو گیا
*🔹تخلیق آدم کا آغاز :*
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرشتوں سے مشورہ فرمانے کے بعد اللہ تعالی نے حضرت جبریل علیہ السلام کو زمین کی طرف بھیجا تا کہ وہ اس سے مٹی لے کر آئیں تو زمین نے کہا: میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتی ہوں کہ مجھ سے کچھ کم کیا جائے یا میری کوئی چیز خراب کی جائے۔ حضرت جبریل علیہ السلام مٹی لیے بغیر واپس لوٹ آئے اور عرض کی : اے میرے رب ، زمین نے تیری پناہ طلب کی تو میں نے اسے پناہ دے دی۔ پھر الله تعالی نے حضرت میکائیل علیہ السلام کو بھیجا تو ان سے بھی زمین نے وہی کہا اور انہوں نے بھی اسے پناہ دے دی اور لوٹ کر بارگاہ الہی میں وہی عرض کی جو حضرت جبریل علیہ السلام نے کی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کو بھیجا۔ زمین نے ان سے پناہ طلب کی تو انہوں نے فرمایا: میں اس بات سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ اس کا حکم نافذ کیے بغیر واپس لوٹ جاؤں۔ چنانچہ انہوں نے سطح زمین سے مٹی لے لی۔
*🔹تخلیق آدم کے لیے جمع کی گئی مٹی کی نوعیت اور اس کا اثر :*
پوری روئے زمین سے مختلف رنگوں اور مختلف صفات کی حامل مٹی کی ایک مٹھی برابر مقدار جمع فرمائی گئی اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی صورت ، سیرت، نفسیات اور طبیعت بھی مختلف ہے جیسے مٹی کی اقسام و خواص مختلف ہوتے ہیں،
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا کیا جسے اس نے تمام روئے زمین سے لیا، لہذا اولاد آدم زمین کے اندازے کے مطابق آئی (یعنی چونکہ مٹی مختلف قسموں کی تھی اس لیے انسانوں کی صورتیں اور سیرتیں بھی مختلف ہو ئیں) تو ان میں سرخ اور سفید اور کالے اور درمیانے اور نرم و سخت اور خبیث و پاکیزہ ہیں۔
*🔹حضرت آدم علیہ السلام کی مرحلہ وار تخلیق کی حکمت :*
یقینا اللہ تعالی اس بات پر قادر تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی مرحلہ وار تخلیق کرنے کی بجائے ایک ہی وقت میں یکبارگی میں آپ علیہ السلام کی تخلیق کر دیتا لیکن اس نے اپنی حکمت کاملہ کے تحت ایسا نہیں فرمایا بلکہ عالم کبیر یعنی کائنات کی پیدائش کی طرح عالم صغیر یعنی انسان کو بھی مرحلہ وار پیدا فرمایا۔ اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہے کہ ہم بھی اپنے کام اطمینان سے اور مرحلہ وار کیا کریں۔
*🔹حضرت آدم علیہ السلام کی صورت بنانے کا مقام:*
حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی کو مکہ اور طائف کے درمیان مقام نعمان میں رکھا گیا اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد جب اس مٹی میں انسانی صورت قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی تو اسے جنت میں لے جایا گیا جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت بنائی گئی۔
بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی مبارک صورت زمین پر بنائی گئی پھر اسے جنت میں لے جایا گیا جہاں ان میں روح ڈالی گئی۔
*🔹حضرت آدم علیہ السلام کی صورت اور قد مبارک:*
اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق خاص اپنے دست قدرت سے فرمائی ، جیسا کہ ابلیس کے سجدہ نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا:
*يَاِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَىَّ*
ترجمه: اے ابلیس اتجھے کس چیز نے روکا کہ تو اسے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ؟
آپ علیہ السلام کی صورت اور قد مبارک کے بارے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلى الله عليه واله وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا اور ان کے قد کی لمبائی 60 گز تھی۔
نوٹ : اپنی صورت پر پیدا کرنے سے کیا مراد ہے، تو علماء نے فرمایا ہے کہ ”اپنی صورت“ کے لفظ میں اگر ضمیر کا مرجع اللہ تعالی ہے تو اسکا معنی ہے " اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی پسندیدہ صورت پر پیدا فرمایا " یا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صفات پر پیدا فرمایا کہ انہیں علم، تصرف، سمع وبصر اور قدرت وغیرہ سے سرفراز فرمایا۔
نیز یہاں گز “ سے مراد شرعی گز یعنی ایک ہاتھ (ڈیڑھ فٹ) ہے ، یعنی حضرت آدم علیہ السلام 60 ہاتھ (90) فٹ) کے ہی پیدا ہوئے، دوسرے انسانوں کی طرح نہیں کہ پہلے بہت چھوٹے پیدا ہوتے ہیں پھر بڑھتے رہتے ہیں کیونکہ آپ علیہ السلام کی پیدائش ماں باپ سے نہ تھی، اس لیے چھوٹا پیدا کرنے کی حاجت ہی نہ تھی۔ نیز بظاہر اتنا لمبا قد عجیب اور نا ممکن معلوم ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی کی قدرت پر نظر کی جائے تو نہ یہ عجیب ہے اور نہ ہی نا ممکن، کیونکہ اللہ تعالیٰ اتنی لبی قامت والا انسان بنانے پر خوب قادر ہے۔
*🔹اہل جنت کا قد حضرت آدم علیہ السلام کے قد برابر ہو گا*
مذکورہ بالا حدیث پاک کے آخر میں ہے: جو بھی جنت میں جائے گا وہ حضرت آدم علیہ السلام کی صورت پر ہو گا اور اس کا قد 60 گز ہو گا پھر حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اب تک مخلوق ( قد و قامت میں کم ہوتی رہی ہے۔)
*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔*
❤️
1