اردو تحـــــــاریــــــر💌 📚📝
June 22, 2025 at 12:21 AM
"جب دوسروں کے بچے ہر وقت دکان کی چیزیں کھاتے ہیں، تو اپنا بچہ بھی ضد کرنے لگتا ہے... ایسے میں کیا، کیا جائے.. ؟" https://whatsapp.com/channel/0029Va7OLGd1Hspvf0pbwx3K یہ سوال کسی ایک ماں کا نہیں، آج ہر اُس ماں کا سوال ہے جو چاہتی ہے کہ اس کا بچہ مصنوعی چیزوں سے بچ جائے، مگر ماحول ایسا ہے کہ بچہ کب کس کے ساتھ جا کر کیا کھا لے، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایسے میں کیا حکمتِ عملی اپنائی جائے؟ کیا راستہ ہے جو بچے کو سمجھا بھی دے اور اس کی طبیعت میں ضد بھی نہ رہے؟ سب سے پہلی بات، بچہ وہی سیکھتا ہے جو ماں باپ کرتے ہیں۔ جب آپ بازار جائیں، بچے کو ساتھ لے جائیں۔ اسے گروسری، سبزی، ترکاری، پھلوں کی خریداری کا حصہ بنائیں۔ اسے کہیں، "بیٹا، آج اپنی پسند کی دو تین سبزیاں خود چن لو۔" پھر جب وہ خوش ہو کر پیاز، ٹماٹر، گاجر یا بھنڈی پسند کرے، تو گھر آ کر اسے دھونا، صاف کرنا، اور کسی نہ کسی شکل میں بنانے میں شامل کریں۔ جب بچہ خود کچھ بناتا ہے، چاہے سادہ سی دال یا بھنڈی ہو، تو خوشی خوشی کھاتا بھی ہے۔ یہ ضد کم کرنے کا پہلا راز ہے۔ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ گھر میں صحت مند چیزیں نہ صرف موجود ہوں بلکہ خوبصورت جاروں، مرتبانوں میں سجی ہوں۔ جیسے بھنے ہوئے چنے، مونگ پھلی، تل کے لڈو، کھجور، کشمش، اخروٹ، بادام، مکھن میں بھنے ہوئے مکئی کے دانے، دیسی گڑ کے ٹکڑے۔ یہ سب چیزیں جب سامنے ہوں گی تو بچہ دکان کے پیکٹ والی چیزوں کو بھول جائے گا۔ بچے کی نفسیات کہتی ہے کہ جو چیز آنکھوں کے سامنے ہو، ہاتھ میں آئے، وہی دل کو بھاتی ہے۔ بازار کی چیزیں آنکھوں سے دور اور گھر کی نعمتیں سامنے رکھیں۔ تیسری تدبیر یہ ہے کہ بچے کو کہانیوں کے ذریعے سکھائیں۔ اسے بتائیں کہ ہمارے دادا دادی کیا کھاتے تھے۔ ان کی ہڈیاں کیسے مضبوط تھیں۔ وہ کیا پیتے تھے، کیا ناشتہ کرتے تھے۔ مثلاً مکھن لگی گرم روٹی، دودھ، کھجور، بھنے چنے، ستو، ککڑی، گاجر، کچومر، ساگ، دیسی انڈہ۔ بچے کہانیوں سے زیادہ سیکھتے ہیں، نصیحتوں سے کم۔ چوتھی بات، دکان کی چیزوں کی حقیقت بچے کو خود بتائیں۔ لیکن ڈرانے کے انداز میں نہیں، پیار سے۔ اسے کہیں کہ بیٹا یہ رنگ برنگی ٹافی یا چاکلیٹ چالاکی سے بیچی جاتی ہے، یہ پیٹ کا دشمن ہے، خون کو گندا کرتی ہے۔ جب بچہ یہ بات بار بار سنے گا تو اس کے دل میں خود بخود ان چیزوں سے بے رغبتی پیدا ہوگی۔ یہ کام روز کا ہے، ایک دن کا نہیں۔ پانچویں اور آخری تدبیر، جو بہت کارگر ہے... جب کبھی بچے کی ضد ہو کہ میں بھی وہی کھاؤں جو فلاں دوست یا مہمان کھا رہا ہے... تو پیسے دے کر کہہ دیجئے کہ "بیٹا، یہ پیسے لو، لیکن ان سے اپنی پسند کی کوئی اچھی چیز مثلاً ، پھل یا میوہ خریدنا۔" بچہ جب خود جا کر کچھ صحت مند خریدے گا تو اس کی ضد بھی پوری ہو جائے گی اور صحت کا نقصان بھی نہ ہوگا۔ یقین مانیں... بچوں کو سکھانے کا سب سے خوبصورت طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنی زندگی میں شامل کیا جائے۔ بازار جانا، خریداری، صفائی، کھانا بنانا... سب میں۔ جب بچہ یہ سیکھ لے گا تو نہ ضد کرے گا، نہ باہر کی مضر چیزیں مانگے گا۔ آپ کی حکمت عملی اور صبر ہی بچے کی اصل تربیت ہے۔ اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
❤️ 🤲 7

Comments