سبق آموز تحریریں ♥️
June 19, 2025 at 01:11 AM
.
*سبق نمبر 4:*
یہود کے اندر یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو ورق ورق کر دیا تھا۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ، وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
(سورۃ الأنعام: آیات 91-92)
*ترجمہ* :
اور انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا، جب انہوں نے کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ کہو (اے محمد ﷺ): وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ لے کر آئے تھے؟ جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی، جس کو تم نے ورق ورق کر کے رکھا ہوا ہے۔ کچھ کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سا چھپا لیتے ہو، اور تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ کہہ دو: اللہ (ہی نے نازل کیا تھا)! پھر چھوڑ دو انہیں کہ وہ اپنی بحثوں میں کھیلتے رہیں۔
اور یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا، بابرکت ہے، تصدیق کرتی ہے اس کی جو اس سے پہلے آئی، اور تاکہ تم خبردار کرو مکہ والوں کو اور اس کے ارد گرد والوں کو۔ اور جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔
*تشریح* :
جب رسول اللہ ﷺ کی دعوت مکہ کے لوگوں کے سامنے پیش ہوئی تو ان میں سے بعض نے یہود سے سوال کیا کہ: "تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا محمد ﷺ پر واقعی اللہ کا کلام نازل ہوا ہے؟"
یہود نے جواب دیا: "اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے!"
یہ بات بظاہر بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہود تو خود انبیاء کو ماننے والے تھے، اور اس طرح گویا وہ خود بھی اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ کا کلام انسانوں پر نازل ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص مخالفت میں اندھا ہو جائے تو وہ مخالفت کے جوش میں اپنی ہی مانی ہوئی باتوں کا انکار کرنے لگتا ہے۔
یہود کے اندر یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ وہ اللہ کی تعلیمات کا کچھ حصہ لوگوں کے سامنے لاتے، اور باقی کو چھپا لیتے۔ مثلاً وہ ان آیات کا خوب چرچا کرتے جن میں انعامات کا ذکر ہوتا، اور ان آیات کو نظرانداز کرتے جن میں انعامات کے مستحق بننے والے اعمال بیان کیے گئے ہیں۔
وہ ان آیات پر زور دیتے جن سے ان کی شور و غل والی سیاست کو تقویت ملتی، اور خاموش اصلاح سے متعلق احکام کو نظر انداز کر دیتے۔ وہ ان آیات پر زور دیتے جن میں لفظی موشگافیوں کے مواقع ہوتے، اور ان آیات سے سرسری گزر جاتے جن میں دین کے ابدی اور بنیادی حقائق بیان کیے گئے ہوتے۔
وہ ان آیات کا تذکرہ کرتے جن سے ان کی فضیلت ظاہر ہوتی تھی، اور ان آیات کو چھپا لیتے جن میں ان کی ذمہ داریاں بیان کی گئی تھیں۔
ایسے لوگ جو اللہ کی کتاب کو اس طرح ورق ورق کر دیں، ان میں لازمی طور پر ڈھٹائی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ غیر سنجیدہ گفتگو کرتے ہیں، متضاد بیانات دیتے ہیں، اور ان سے کسی حقیقی تعاون کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جو لوگ اللہ کی کتاب کے ساتھ انصاف نہ کریں، وہ بندوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر سکتے۔
دین کی دعوت اصل میں لوگوں کو ہوشیار کرنے کی دعوت ہے۔ ایسی دعوت خواہ کتنا ہی کامل انسان دے، وہ سننے والے کے دل میں اس وقت اثر کرے گی جب سننے والے کے دل میں آخرت کا خوف اور سنجیدگی ہو۔ اگر یہ ابتدائی مادہ ہی نہ ہو، تو سنانے والا چاہے کتنا بھی واضح انداز میں بات کرے، وہ اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔
👍♥️🌼🌸
❤️
👍
✨
❤
🇲🇶
🕋
🙏
🤲
🫀
43