
سبق آموز تحریریں ♥️
June 20, 2025 at 01:19 AM
۔
*فاتحِ اندلس، موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه،*
قسط: 05
اندلس پر مسلمانوں کا پہلا حملہ:
اسلام کا آفتابِ عالمتاب فاران کی پہاڑیوں سے طلوع ہوا اور پھر وہ اس قدر تیزی اور سرعت کے ساتھ چمکا کہ تمام دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوکر رہ گئیں۔ اس زمانہ کی دو سپر پاورز سلطنتِ ایران اور سلطنتِ روما اس آفتاب کی روشنی کو برداشت نہ کر سکیں اور ان کے جاہ و جلال کے ستارے جھلملانے لگے۔
اسلام کے آفتاب عالمتاب کی کرنوں کی روشنی پھیلی اور پھیلتی چلی گئی، یہاں تک کہ وادیٔ نیل کی فضا بھی رومی گرد و غبار سے پاک وصاف ہوگئی۔ ایرانی سلطنت کا تو چند ہی سالوں میں خاتمہ ہوگیا، البتہ بازنطینی سلطنت نے کچھ سالوں تک قدم جمائے رکھے، لیکن پھر اس کو بھی دم توڑنا پڑا۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے خلافتِ فاروقی میں مصر سے رومی سلطنت کے اقتدار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا، لیکن رومی حکومت نے مصر سے نکل کر افریقہ میں اپنے قدم جمالیے، مگر والیٔ مصر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عقبہ بن نافع فہری کو افریقہ کی سمت بھیجا۔
وہ افریقہ کی چوکیوں رذیلہ اور برقہ کو اسلامی حدود میں لے آئے اور آگے بڑھ کر طرابلس پر حملہ کیا۔ جب سیدنا عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عہدِ عثمانی میں مصر کے گورنر بنائے گئے تو انہوں نے رومی حاکمِ افریقہ بطریق جرجیر سے مقابلہ کیا، وہ ایک لاکھ بیسں ہزار فوج لے کر میدان میں آیا تھا۔ چالیس روز تک زور کا رن پڑا، لیکن جنگ کا کوئی فیصلہ نہ ہوا۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ یرموک اور قادسیہ کے بعد یہ سب سے زبر دست جنگ تھی جو مسلمانوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں لڑی۔ صبح سے ظہر تک ہر روز لڑائی ہوتی، لیکن ظہر تک کوئی فیصلہ نہ ہوتا۔ کفر اسلام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہ تھا اور اسلام بھی باطل کے سامنے دبنے والا نہ تھا۔ جب لڑائی نے طول کھینچا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبدالله بن عمرو بن عاص، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عبداللہ بن جعفرطیار اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہم کو سیدنا حضرت عبدالله بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے روانہ کیا۔
یہ حضرات محاذ جنگ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس اثناء میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک تیسرا لشکر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی زیر قیادت بطور کمک روانہ فرمایا اور انہیں تاکید کی کہ نہایت سرعت اور عجلت کے ساتھ محاذ جنگ پر پہنچیں۔ چنانچہ یہ لشکر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ منزلوں پر منزلیں طے کرتا محاذ جنگ پر پہنچا۔ ادھر محاذ جنگ پر جس قدر فوج تھی وہ طویل جنگ سے کچھ تھک چکی تھی، لہذا جب انہیں اس تازہ دم فوج کی آمد کی اطلاع ملی تو لشکر اسلام کے سپاہیوں نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے۔ ان کی تھکاوٹ دور ہوگئی۔
اگلے روز جب جنگ شروع ہوئی تو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنی تازہ دم فوج کے ساتھ میدان جنگ میں گئے۔ آپ نے اپنے لشکر میں منادی کرادی کہ جو کوئی جرجیر کا سر کاٹ کر لائے گا اسے مال غنیمت میں سے ایک لاکھ دینار اور جرجیر کی لڑکی حوالے کردی جائے گی۔ اور خود فوراً عقب لشکر سے قلب لشکر میں پہنچ کر بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھانے شروع کر دیے۔ جرجیر نے جب اس منادی کی بابت سنا تو سخت گھبرایا۔(ابن اثیر، جلد: 3، ص: 45)
دوسرے روز جب لڑائی شروع ہوئی تو ایک طرف رومی اور بربر اسلامی لشکر کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے اور دوسری طرف سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی نگاہیں جرجیر کو ڈھونڈنے لگیں۔ وہ اپنی فوج کے عقب میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور لڑکیاں اسے مورچھل سے سایہ کیے ہوئے تھیں۔ چنانچہ ابن زبیرؓ چند جنگجو سپاہیوں کے ساتھ اس کے سر پر جا پہنچے، اس نے بھاگنے کی پوری پوری کوشش کی، لیکن سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے قریب پہنچ کر اس کے سر پر اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ زمین پر گر پڑا، پھر ابن زبیر نے نہایت مستعدی اور سرعت کے ساتھ اس کو اپنی تلوار پر لے لیا اور ایک ہی وار میں اس کا سرکاٹ کر اپنے نیزے پر چڑھا لیا۔ اس طرح افریقہ فتح ہوگیا۔
افریقہ کی جنگوں سے فراغت کے بعد اب اندلس کی طرف رخ کیا گیا۔ اندلس براعظم یورپ میں واقع ہے۔ گویا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے زمانے میں اور جناب رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے صرف 17 سال بعد مسلمان یورپ کے براعظم تک پہنچ گئے، افریقہ کی فتح کے بعد امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عبداللہ بن نافع بن حصین فہری اور عبداللہ بن نافع بن عبدالقیس کو فوری طور پر اندلس بھیجیں اور اسے جلد از جلد فتح کریں۔ وہ دونوں حضرات سمندر کے راستے اندلس پہنچے اور مجاہدین اسلام ان کے ساتھ اندلس گئے، سیدنا عثمان نے انہیں لکھا:
”اما بعد! بے شک قسطنطنیہ اندلس کے راستہ سے فتح ہوگا۔ جب تم اندلس کو فتح کرلوگے تو تم لوگ ان مجاہدین کے ساتھ اجر و ثواب میں شریک ہوگے جو قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔ والسلام۔“ (البدایہ والنہایہ، جلد: 7، ص: 152، ابن اثیر، جلد: 3، ص: 47)
یہ دونوں حضرات سمندر کے راستہ سے اندلس میں داخل ہوئے۔ اس فوج میں افریقہ کے نو مسلم بربروں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد تھی، اس زمانہ میں اندلس میں عیسائی حکومت قائم تھی۔ مسلمانوں کا لشکر جب اندلس کے ساحل پر اترا تو عیسائی حکومت نے اسلامی لشکر کی سخت مزاحمت کی، لیکن عیسائی فوجیں اسلامی لشکر کے مقابلہ میں ٹک نہ سکیں اور جلد ہی اندلس کا ایک ساحلی علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا اور انہیں سرزمین اندلس میں قدم جمانے کا ایک ٹھکانہ مل گیا۔ گویا اندلس اور براعظم یورپ پر لشکر اسلام کا یہ پہلا حملہ تھا جو خلافتِ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں کیا گیا۔
اندلس کی زرخیز اور سرسبز زمین پر شتربان عربوں نے سمندر کی تلاطم خیز موجوں سے کھیلتے ہوئے پہلی مرتبہ عہد عثمانی میں قدم رکھا۔ پھر طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْهما جیسے جانباز مجاہدوں اور بہادر جرنیلوں نے یہاں فتح و ظفر کے اسلامی پرچم لہرائے اور عربوں اور بربروں کے مختلف قبائل نے یہاں کی سرسبز و شاداب وادیوں میں مستقل سکونت اختیار کر کے اس کے ایک وسیع و عریض خطہ کو اسلامی مملکت کا جزو بنالیا۔ پھر چشم آفتاب اور دنیا کی نگاہوں نے یہ نیرنگی بھی دیکھی کہ دولتِ بنی امیہ کا آفتابِ اقبال مشرق میں غروب ہوکر مغرب میں طلوع ہوا اور اس کی تابانی اور درخشانی سے قریباً آٹھ سو سال مغرب کا یہ افق روشن رہا اور اس نے تمام مغربی ممالک کو روشن اور درخشاں کر دیا۔
============> جاری ہے ۔۔۔
مأخوذ از کتاب: موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه
🌼👍♥️🌸
❤️
👍
♥
❤
1️⃣
✅
🌼
💞
🙏
🫡
47