سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
June 21, 2025 at 05:03 AM
۔ *فاتحِ اندلس، موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه،* قسط: 06 اندلس پر مسلمانوں کا دوسرا حملہ: جس طرح سسلی کے مسلمانوں نے اٹلی کی سرزمین کو اپنی آماجگاہ بنائے رکھا، اسی طرح اندلس کے مسلمانوں نے دو صدیوں تک فرانس کی سرزمین میں سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھا اور موجودہ اسپین، پرتگال اور فرانس کے کئی علاقے اسلامی حدود میں داخل رہے اور اندلس میں مسلمانوں کی علمی، تمدنی، تہذیبی، عمرانی اور روحانی ترقیوں کی جو شمع روشن ہوئی اس سے تمام مغربی ممالک نے روشنی پائی اور یورپ کے نئے علوم وفنون اور سائنسی تمدن کے مینارے انہی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ سنہ 27ھ میں مسلمان بربری مجاہدین کے ساتھ اندلس پر حملہ آور ہوئے اور اس کے بعض شہروں پر قابض ہوگئے اور افریقہ کے بربری قبائل سے انہیں ہر قسم کی مدد ملتی رہی، لیکن جب ابتداًء بربری قبائل مرتد ہوگئے تو پھر اندلس اور افریقہ کی تعلق داری منقطع ہوگئی اور جو مجاہدینِ اسلام اندلس میں موجود تھے وہ وہیں رہ گئے اور ان کے تعلقات کا سلسلہ اسلامی حکومت سے منقطع ہو گیا۔ (ابن اثیر، جلد: 3، ص: 72) مسلمانوں کے اس حملہ کے بارہ میں گبن نے اپنے عیسائی ہونے کا مکمل ثبوت دیتے ہوئے لکھا ہے: "عثمان (رضی اللہ عنہ) ہی کے زمانہ میں ان کے غارت گروں کی جماعت نے اندلیسیا کے ساحل کو تاراج کیا تھا۔" (The Decline and fall of the Roman Empire) اس کے لکھنے کے اس انداز سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب یہاں آئے اور تاخت وتاراج کرکے واپس چلے گئے۔ یہ اسی طرح ہی ہے جیسے موجودہ زمانہ میں بش صدر امریکہ اور اس کے حواری اسامہ بن لادن، ملا عمر اور الظواہری اور ان کے مجاہدین کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ اندلس پر مسلمانوں کا دوسرا حملہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس وقت کیا گیا جب حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ افریقہ کے گورنر تھے، لیکن اس حملہ کی تفصیلات تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتیں۔ مگر جیساکہ بتایا گیا ہے کہ بربری قبائل دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوگئے تھے، جن کی وجہ سے اندلس میں مقیم مسلمان وہاں پھنس گئے اور مزید فتوحات کا سلسلہ بند ہوگیا۔ اس کا تدارک سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ وہاں ایک چھاؤنی تعمیر کی، جس میں مستقل طور پر اسلامی فوجوں کو مقیم رکھا۔ یہ چھاؤنی بعد میں قیروان نامی شہر کی صورت اختیار کرگئی۔ اس شہر کی وجۂ تعمیر تاریخ کے اوراق میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه افریقہ کے گورنر تھے۔ اس سے قبل حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ نے افریقہ کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا تھا اور یہاں کی بربر قوم کو مطیع و منقاد بنایا تھا۔ اہل اسلام کی زبردستی کو دیکھ کر بربر قبائل زیردست ہوگئے اور وقتی طور پر انہوں نے اسلام کا حلقہ بھی اپنی گردن میں ڈال لیا، لیکن جونہی مسلمانوں کا لشکر وہاں سے ہٹتا تو وہ سارے لوگ جو مسلمان ہوتے تھے اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو جاتے اور اسلامی لشکر کے رہے سہے مسلمانوں کو تاخت و تاراج کرنا شروع کر دیتے۔ حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه وہاں کے گورنر مقرر ہوئے، انہوں نے بربروں کی اس آئے دن کی غارت گری سے اہل اسلام کو بچانے کے لیے وہاں ایک چھاؤنی قائم کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن جس جگہ شہر اور چھاؤنی بنانا مقصود تھا وہاں میلوں میں گھنا جنگل تھا اور اس میں نہایت موذی قسم کے سانپ اور جنگلی درندے رہتے تھے اور انسانی فکر میں یہ ممکن نہیں تھا کہ ان سانپوں اور درندوں سے اس گھنے جنگل کو خالی کروا کر وہاں کوئی شہر آباد کیا جا سکے۔ اور جب جنگل کے سانپ اور خونخوار درندے اپنے بچے چمٹائے جنگل سے انخلاء کرنے لگے: بربر قبائل مسلمانوں کے اس منصوبے کو حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی تکمیل کو بالکل ناممکن خیال کرتے تھے۔ ایک روز سیدنا عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه گورنر افریقہ نے جنگل کے ایک کنارے پر کھڑا ہوکر جنگلی جانوروں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”ايتها الحيات والسباع! نحن اصحاب رسول اللهم ارحلوا عنا فانا نازلون، ومن وجدنا بعد ذالك قتلناه۔“ (ابن اثیر، جلد: 3، ص:231 ) "اے سانپوں اور درندوں! ہم رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، تم یہاں سے نکل جاؤ، کیوں کہ ہم اس جنگل کو اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتے ہیں اور اس کے بعد ہم جس جانور کو اس جنگل میں دیکھ لیں گے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔" اس روز ایک نہیں ہزاروں لوگوں نے دیکھا کہ جنگل کے سانپ اور درندے اور دوسرے موذی جانور اپنے بچوں کو چمٹائے اس جنگل کو چھوڑ رہے تھے اور اسی روز وہ جنگل ان موذی جانوروں سے یک قلم خالی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر بربروں کی ایک کثیر تعداد خلوص دل سے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ (ابن اثیر، جلد: 3، ص: 231۔ معجم البلدان حموی، جلد: 7، ص: 194۔ البدایہ والنہایہ، جلد: 8، ص: 35۔ ہسٹری آف سیرسنز، ص: 79۔ از سید امیر علی) (سیدنا عقبہ بن نافع ؒ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ یہ صحابی نہیں بلکہ تابعی تھے، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سیدنا عمرو بن العاصؓ کی طرح انہیں بھی بے شمار صفات سے نوازا تھا۔ یہ نہایت قابل اور تجربہ کار جرنیل تھے۔ صرف دس ہزار مجاہدین کو لے کر بلادِ افریقہ میں گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایک وسیع و عریض علاقہ فتح کرکے قلمرو اسلامی میں داخل کیا۔ جس میں سوڈان، برقہ اور بربروں کا علاقہ بھی شامل ہے۔ ایک خالہ زاد بھائی سیدنا عمرو بن العاص فاتح مصر تھے تو دوسرے بھائی عقبہ بن نافع الفہری رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه فاتح بلاد افریقہ تھے۔ ذالك فضل الله يوتيه من يشاء) جنگل خالی ہونے کے بعد وہاں قیروان نامی ایک شہر آباد کیا گیا اور جامع مسجد تعمیر کی گئی۔ لوگوں نے بھی اپنے مکانات تعمیر کیے اور اپنے محلوں میں مساجد بنائیں۔ اور ایک چھاؤنی قائم کی گئی۔ شہر کی وضع اس طرز کی تھی کہ شہر کے عین وسط میں دار الامارہ تھا اور اس کے اردگرد چاروں طرف مسلمانوں کے محلے بنائے گئے۔ اس شہر کی تکمیل سنہ 55ھ میں ہوئی۔ یہ شہر صرف اس لیے بسایا گیا تھا تاکہ افریقی بربروں کو مطیع و منقاد رکھا جاسکے، کیوں کہ وہ ایک ایسی قوم تھے کہ جب تک ان کے سروں پر فوجی طاقت مسلط نہ رہتی وہ بغاوت سے باز نہ آتے۔ اس شہر نے بعد میں اس قدر ترقی کی کہ یہ شمالی افریقہ کا ایک بہت بڑا شہر بن گیا۔ ============> جاری ہے ۔۔۔ مأخوذ از کتاب: موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه
❤️ 👍 🌼 👌 🙃 🙏 34

Comments