
سبق آموز تحریریں ♥️
June 22, 2025 at 03:08 AM
۔
*فاتحِ اندلس، موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه،*
*قسط: 07*
اندلس پر مسلمانوں کا تیسرا حملہ:
سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اندلس پر مسلمانوں کا دوسرا حملہ ہوا، جس کی تفصیل کتابوں میں نہیں ملتی۔ تیسرا حملہ اسلامی تاریخوں کے مطابق اس وقت ہوا جب عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه کو یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے افریقہ کی گورنری پر دوبارہ بھیجا۔ عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه پیش قدمی کرکے طنجہ تک پہنچے، کاؤنٹ جولین (یولیاں) جس نے بعد میں اندلس کے معاملات اور اس کی فتح میں ایک نمایاں کردار ادا کیا، ان دنوں یہاں کا حکمران تھا۔ اس نے عقبہ کی اطاعت قبول کرلی۔
اس کے بعد عقبہ نے جولین سے اندلس کی طرف بڑھنے کا مشورہ کیا۔ یہ بات اسے شاق گزری تو انہوں نے اس سے بربر قبائل کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا: "وہ عیسائی نہیں ہیں بلکہ کافر ہیں۔ اب وہ کتنے ہیں؟ ان کی تعداد کا علم اللہ تعالی ہی کو ہے۔ ان کی زیادہ تر آبادی سوس ادنیٰ کی طرف ہے۔ اس طرف پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ عقبہ اس موقع پر جولیس کے مشورہ کے مطابق طنجہ سے اندلس کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجائے مغرب کی سمت سوس کی طرف نکل گئے۔ (ابن اثیر جلد 4 ص 89)
بہر حال یہ اندلس پر ابتدائی حملے تھے۔ ان کو حقیقی معنوں میں اندلس پر فوج کشی نہیں کہا جا سکتا۔ صحیح حملہ اور فتح کی نیت سے صحیح معنوں میں فوج کشی طارق بن زیاد رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه ہی نے کی اور اس حملہ کے بعد مسلمانوں نے اندلس کو اپنا وطن بنا کر اپنی فتوحات کا دائرہ روز بروز وسیع کیا اور پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ پورے اندلس پر مسلمانوں کی حکومت تھی، اس زمانہ میں شمالی افریقہ میں خلافت امویہ دمشق کی سیادت میں موسیٰ بن نصیر جیسا بیدار مغز حکمران تھا۔ اس نے چند برسوں میں شمالی افریقہ کو نئے سرے سے مطیع و منقاد کرلیا اور اسلامی دستوں کو بحر روم کے مختلف جزیروں میں چھاپے مارنے کے لیے بھیجتا رہتا تھا۔
وہ سبتہ پر بھی دو مرتبہ پیش قدمی کر چکا تھا، لیکن کاؤنٹ جولین نے پوری طاقت اور قوت سے اس کی مدافعت کی تھی۔ ان دنوں طارق بن زیاد طنجہ کا والی اور حکمران تھا۔ کاؤنٹ جولین نے اس سے مراسم پیدا کیے اور اسلامی حکومت کی اطاعت اور اس کو اندلس پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ طارق بن زیاد نے جولین سے کہا کہ تم براہ راست موسیٰ بن نصیر سے بات کرو، چنانچہ اس نے موسیٰ سے براہ راست مراسلت کی، جولین نے موسیٰ کو اپنی اطاعت قبول کرنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی سبتہ آنے کی دعوت دی جس کو موسیٰ نے قبول کرلیا، کیوں کہ جولین کی یہ پیش کش بڑی خوش آئند تھی۔ چنانچہ وہ سنہ 90ھ میں خود قیروان سے سبتہ آیا (لیکن بعض تو اریخ میں ہے کہ جولین خود سبتہ سے قیروان آیا) جولین نے نہایت خندہ پیشانی سے موسیٰ کا خیر مقدم کیا اور اس کو حملہ آور ہونے کی ترغیب دی اور اس کو اندلس کی زرخیزی اور شادابی، میوؤں اور زرعی فصلوں کی بہتات، دریاؤں کی کثرت، پانی کی شیرینی اور سیاسی حالات کے سلسلہ میں یہاں کے باشندوں اور مختلف گروہوں کے باہمی اختلافات اور ایک غیر شاہی خاندان کے قائد اور سربراہ کے برسر اقتدار آ جانے کی تفصیلات بیان کیں اور اس مہم میں اپنی طرف سے پوری پوری امداد فراہم کرنے کا یقین دلایا۔
موسی بن نصیر نہایت دور بین اور گہری سوچ کا مالک تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ جولین اس کے ساتھ کوئی دھوکہ اور فریب کر رہا ہو۔ اس لیے موسیٰ نے نہایت غور و فکر سے اس کی اس تجویز کا جائزہ لیا، وہ اس کی اس تجویز پر عمل کرنے سے پہلے جولین کو پورے طور پر آزما لینا چاہتا تھا۔ موسیٰ نے جولین سے کہا کہ پہلے وہ خود کسی مختصر لشکر سے حکومت اندلس سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ اس سے موسیٰ کا مقصد یہ تھا کہ جولین کے اندلس کی حکومت سے تعلقات کھلے طور پر خراب ہو جائیں اور آئندہ اس کے انحراف اور غداری کا کوئی موقع باقی نہ رہ جائے۔
جولین نے موسیٰ کی اس تجویز کو نہایت خوشی سے منظور کر لیا اور ایک مختصر لشکر تیار کر کے اس کو دو جہازوں پر سوار کر کے اندلس کے ساحلی شہر جزیرہ خضراء بھیجا، جہاں اس لشکر نے معمولی چھیڑ چھاڑ کی اور لوٹ مار کرکے واپس سبتہ آ گیا۔ جب جولین کے اس حملہ کی اطلاع موسیٰ بن نصیر کو ملی تو وہ بہت خوش ہوا، کیوں کہ اسے جولین کے اخلاص اور اس کی سچائی میں اب کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔
اب موسیٰ نے خلیفۃ المسلمین ولید بن عبد الملک کو ان تمام حالات سے باخبر کر کے اس سے اندلس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی۔ ولید نے جواب دیا کہ: ”بغیر تجربہ کے مسلمانوں کو متلاطم سمندر کے خطرات میں پھنسانا مناسب نہیں ہے۔ لہذا سب سے پہلے وہاں کے مکمل حالات معلوم کرو۔“ موسیٰ نے جواب دیا: "متلاطم سمندر نہیں بلکہ ایک معمولی خلیج ہے۔ اس پار سے اس پار کی تمام چیزیں صاف نظر آتی ہیں۔ اس اطلاع پر ولید نے اجازت دے دی۔ لیکن یہ تاکید کی کہ فی الحال کسی بڑی لشکر کشی سے باز رہا جائے اور کسی چھوٹے دستہ کو بھیج کر آزمائش اور تجربہ کر لیا جائے، کیوں کہ چھوٹے دستہ کی صورت میں اگر نقصان بھی ہوا تو کم ہوگا۔ موسیٰ کو بھی ولید کی یہ بات اچھی لگی، چنانچہ موسیٰ نے فرمان خلافت کی تعمیل میں مسلمانوں کا ایک مختصر سا دستہ جس کی تعداد پانچ سو تھی، سنہ 91ھ میں اپنے ایک غلام طریف بن مالک نخعی کی زیر قیادت اندلس پر حملہ آوری کے لیے روانہ کیا۔
بعض روایات میں لشکر کی تعداد چار سو ہے، یہ لوگ چار کشتیوں پر سوار ہوکر روانہ ہوئے اور جنوب مغربی اندلس کے ایک شہر میں جا کر اترے جس کا نام بعد میں جزیرہ طریف پڑا۔ یہ لوگ وہاں حملہ آور ہوئے اور پھر اندلس کے ساحلی شہر جزیره خضراء میں اترے، یہاں بھی انہوں نے حملہ کیا اور بہت سا مال غنیمت اور تنومند قیدیوں کو اپنے ہمراہ لے کر رمضان المبارک سنہ 91ھ میں بخیر و عافیت واپس آگئے۔ (نفح الطيب، جلد: 1، ص: 106 افتتاح الاندلس ابن قوطیہ قرطبی ص: 8)
طریف بن مالک کی اس مہم کی کامیابی نے اہل اسلام میں ایک خوشی اور مسرت کی لہر دوڑا دی۔ ان کے حوصلے بلند ہو گئے اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس غزوہ میں شرکت پر آمادہ ہو گئی۔ خود موسیٰ کو بھی اندلس کی راہ کی آسانیاں نظر آنے لگیں اور اس نے اندلس پر حملہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑے لشکر کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چنانچہ جلد ہی ایک عظیم لشکر طارق بن زیاد کی سرکردگی میں تیار ہوگیا۔ طارق ایک نہایت قابل اعتماد قائد اور سپہ سالار تھا، اسی قائد اور جرنیل نے آگے چل کر فاتح اندلس کا لقب حاصل کیا۔
============> جاری ہے ۔۔۔
مأخوذ از کتاب: موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه
❤️
👍
13