HARF (حرف)📗 / Urdu, Stories, Poetry, Status, Knowledges, News, Delhi, Rajasthan, Up, Haryana, Panjab
HARF (حرف)📗 / Urdu, Stories, Poetry, Status, Knowledges, News, Delhi, Rajasthan, Up, Haryana, Panjab
June 16, 2025 at 05:25 AM
*سفر نامہ:* *﴿ دو روز اہلِ علم کے دیار میں ﴾* *بقلم:اویس احمد قاسمی گولپوری* *حسب الحکم: حضرت مولانا سلیم احمد* *صاحب قاسمی سوڑاکا* *حفظہ اللہ ورعاہ* *(مدیر اعلیٰ مجلہ "رہنمائے میوات" )* "رہنمائے میوات" ایک ایسا دوماہی دینی و اصلاحی مجلہ ہے، جو کئی برسوں سے علمی روشنی، فکری پختگی ، اور دینی تعلیم کو عام کرنے میں مصروفِ عمل ہے ، یہ مجلہ قرآن و سنت کے پرنور پیغام کو دلنشین انداز میں پیش کرتا ہے، تاکہ دلوں میں بیداری، ذہنوں میں شعور، اور کردار میں تبدیلی آسکے ـ گاہ بہ گاہ مجلہ کسی خاص شخصیت پر مکمل اشاعت بھی پیش کرتا ہے ایسی اشاعت کہ جس میں ان کی پوری زندگی ، خدمات ، اور فکر کو جامع انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اب تک ایسی تین اشاعتیں شائع ہو چکی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اب مجلہ اپنی چوتھی اشاعتِ خاص کی تیاری کر رہا ہے جو میوات کی ایک بزرگ اور باوقار علمی شخصیت حضرت مولانا محمد سعید امینیؒ صاحب (ساکن مالب سابق صدر مجلس تحفظ ختم نبوت ہریانہ متحدہ پنجاب وسابق سرپرست مجلہ رہنمائے میوات) کی یاد میں شائع کی جا رہی ہے۔ اس اشاعت میں حضرت کا سوانحی خاکہ،ان کی خدمات ، اور تدریسی و تعلیمی سرگرمیاں نسل نو کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ اگرچہ اس اشاعت کا فیصلہ کچھ عرصہ پہلے ہو چکا تھا لیکن حال ہی میں ۱۲/ ذی الحجہ /۱۴۴۶ھ مطابق ۹ /جون/ ۲۰۲۵ء بہ روز پیر "جامع مسجد سوڑاکا" میں مجلہ کی مشاورتی نشست ہوئی جس میں سبھی اراکین نے اس کام کو فوری طور پر شروع کرنے کا پختہ ارادہ کیا۔ اور یہ طے پایا کہ میوات کے اہلِ علم حضرات سے مضامین لئے جائیں اور ان تک دعوت نامے پہنچا کر ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے دو وفد بنائے گئے۔ ایک وفد کو شاہراہ دہلی الور کے دائیں جانب علاقے کی ذمہ داری سونپی گئی، اور دوسرے وفد کو بائیں طرف کا علاقہ دیا گیا۔ جس وفد " کو بائیں طرف کا علاقہ دیا گیا خوش قسمتی سے راقم الحروف بھی اس کا ایک فرد تھا بہر کیف ہمارا وفد اپنے متعینہ علاقے کے سفر پر روانہ ہوا، جس کے امیر مفتی زہیر صاحب حفظہ اللہ ریٹھوڑا (استاذ فقہ و حدیث معدن العلوم جھمراوٹ) تھے، اور رفقاء میں مولانا عمران صاحب قاسمی ادام اللہ فیوضہ (سابق ناظم تعلیمات دار العلوم مہتابیہ نگینہ،موجودہ ناظم تعلیمات جامعة الشیخ محمد قاسم رحمہ اللہ ٹوڈی)، مولانا سلیم صاحب قاسمی (مدیر اعلی رسالہ رہنمائےمیوات) ، مولانا آصف صاحب قاسمی- اطال اللہ حیاتہ - (مہتمم جامعہ عبد اللہ بن عباس سوڑاکا) ،مولانا راشد صاحب قاسمی سوڑاکا، اور راقم الحروف شامل تھے۔ چنانچہ رہبر سفر حضرت مولانا آصف صاحب قاسمی اپنی گاڑی"ارٹگا " کے ساتھ امیر سفر مفتی زہیر صاحب کی امارت میں پورے سفر بحسن وخوبی ڈرائیونگ کے فرائض انجام دیتے رہے ، سب سے پہلے ہمارا قافلہ "گولپوری" پہنچا ، جہاں ہماری ملاقات حضرت مولانا اصغر صاحب گولپوری سے ہوئی۔ ایک ایسے عالم دین جو خاموشی اور سادگی میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن دل میں علم کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ آپ حضرت مولانا صدیق صاحب اٹاوڑیؒ کے شاگرد ہیں اور "مدرسہ صدیقیہ" میں تقریباً چالیس برس سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی گفتگو میں ٹھہراؤ، چہرے پر متانت، اور ناشتہ میں خلوص نے ہمارے دل موہ لیے۔ بعدہ "مٹھے پور" پہنچے، جہاں حضرت مولانا رحیم الدین صاحب کاشفی کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ 1939 میں پیدا ہوئے، اور مدرسہ کاشف العلوم نظام الدین سے 1959 میں فارغ ہوئے، آپ گزشتہ 64 سال سے جامع مسجد مٹھے پور کے امام ہیں۔ آپ کے چہرے پر نور، طبیعت میں حلم، اور انداز میں شفقت تھی۔ آپ نے ہماری بات انتہائی توجہ سے سنی، قیمتی مشورے دئے اور دعاؤں سے نوازکر محبت کے ساتھ رخصت کردیا۔ اگلا پڑاؤ "مال پوری" تھا، جہاں حضرت مولانا انوار صاحب مفتاحی سے ملاقات ہوئی ، آپ مفتی اعظم میوات حضرت مفتی عبدالرشید صاحبؒ کے بھائی اور مولانا عبداللہ صاحب مالپوریؒ کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں۔ گرمی کی شدت کے باوجود آپ نے محبت سے استقبال کیا اور فرمایا: "آپ حضرات اتنی گرمی میں یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، بہت بڑی قربانی ہے۔" آپ کے حوصلہ افزا کلمات نے ہم میں نئی روح پھونکی اور دعاؤں کے ساتھ ایک مختصر ہدیہ دے کر نہایت محبت سے آپ نے ہمیں رخصت فرمایا۔ مالپوری سے ہمیں حضرت مولانا انوار صاحب کی رہنمائی میں "کھلوکا" جانا نصیب ہوا جہاں حضرت مولانا نور محمد صاحب کے دولت خانہ پر حاضری ہوئی۔ آپ 1943 میں پیدا ہوئے اور 1967 میں مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد سے فارغ ہوئے۔ اور گزشتہ چالیس سال سے گاؤں گراکسر میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا مسیح اللہ خانصاحب رحمۃ اللہ علیہ جلال آبادی، مولانا عبدالحنانؒ اور مولانا عبد المنان رحمۃاللہ میواتی جیسے بزرگ شامل ہیں بالکل سادہ طبیعت ، تکلف و تصنع سے کوسوں دور ، میواتی بزرگوں والا لباس، " نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہوتو دیکھ ان کو ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں " بہر کیف آپ سے گفتگو کی سعادت حاصل کرنے کے بعد آپ کو دعوت نامہ پیش کیا۔ اور اگلی منزل "کوٹ" کی جانب روانہ ہوگئے، جہاں حضرت مولانا یوسف صاحب سے ملاقات مقصود تھی لیکن کسی عذر کی وجہ سے یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی آپ بستر علالت پر تھے اور شاید سفر پر بھی جا رہے تھے آپ سے صرف فون کے ذریعے رابطہ ہو پایا اور آپ کا دعوت نامہ حافظ عبداللطیف صاحب (فرزند،مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوٹ ) کے سپرد کیا گیا حافظ صاحب نہایت خوش اخلاق لطیف مزاج اور مہمان نواز شخصیت ہیں ، حافظ صاحب نے فرمایا : میرے پاس تو کچھ خاص نہیں ہے البتہ مولانا عزیز الرحمن صاحب (مدرس، مدرسہ عالیہ فتحپوری و مدرسہ امینیہ) یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں ان سے ضرور ملاقات کیجئے چنانچہ ہم نے حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب سے ملاقات کی ، آپ مولانا عبدالسبحان صاحب نوراللہ مرقدہ میواتی کے نبیرہ، اورمولانا عبدالغفار صاحب رحمۃ اللہ علیہ میواتی کے فرزند ہیں نیز میوات کے جید علماء میں شامل ہیں آپ کی گفتگو میں علم و تقوی ، درد و سادگی تھی آپ نے بے لوث نصیحتیں کیں جو ہمارے دلوں میں نقش ہو گئیں۔ اب قافلے کی اگلی منزل " اٹاوڑ " تھی جہاں مولانا عثمان صاحب سے ملاقات ہوئی، آپ اٹاوڑ کے بڑے علماء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سادگی اور وقار آپ کی شخصیت کا حصہ ہے آپ سے مختصر گفتگو ہوئی ، گرمی کی شدت کے سبب جلد سے آپ کو دعوت نامہ دیا اور فردڑی روانہ ہوئے، جہاں مولانا حکیم الدین صاحب ناٹولی کے مدرسے میں حاضری ہوئی۔ حضرت مولانا خود تو موجود نہ تھے، البتہ آپ کے صاحبزادے ملے، جنہیں دعوت نامہ تھما کر" پونہانہ" کی طرف بڑھے۔ "پونہانہ" میں مولانا عبدالرشید صاحب جیونت سے ملاقات کا ارادہ تھا جو دعوت و تبلیغ کے بڑے ذمے دار ہیں ، لیکن وہ موجود نہ تھے ،اس لئے ان کے بیٹے مولانا عبد الرحیم صاحب کو دعوت نامہ دے کر "سنگار" پہنچے، جہاں حضرت مولانا ابراہیم صاحب سنگار سے ملاقات ہوئی۔ آپ نوّے برس کی عمر میں بھی علم و عمل کے پیکر ہیں "نظام الدین" کے اکابر علماء کے شاگرد، اور سراپا علم و اخلاص ہیں۔ آپ کی گفتگو ایمان افروز تھی آپ نے بہت قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں اور بھرپور مہمان نوازی کی ، یہیں پر آپ کے بیٹے مفتی طیب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو جے پور میں حکمت کا کام کرتے ہیں دونوں حضرات کو پرخلوص دعوت نامہ پیش کر کے "ترواڑہ" کا رخ کیا "ترواڑہ" میں حضرت مولانا یحییٰ کریمی صاحب- اطال اللہ حیاتہ وادام اللہ فیوضہ (سابق صدر و موجودہ جرنل سیکریٹری جمیعت علماء ہند متحدہ پنجاب ) سے ملاقات ہوئی جو انتہائی محبت و انکساری سے ملے، آپ نے بہت قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں ، دعائیں دیں، ہدیہ پیش کیا، اور محبت سے رخصت کیا۔ اسی گاؤں میں "شاہی مسجد" کی زیارت بھی نصیب ہوئی، جو 1945 کی تعمیر شدہ ہے ۔ مسجد کے امام خود مولانا یحییٰ صاحب ہیں، اور مولانا بتلایا کہ مسجد کے کاریگر 1947 میں پاکستان ہجرت کر گیے تھے۔ اس کے بعد "گنڈ گاؤں" پہنچے، جہاں مولانا الیاس صاحب روسیاکا سے ملاقات ہوئی، جو دارالعلوم میوات، گنڈگاؤں کے مہتمم،مولانا راشد صاحب (میل کھیڑلا)کے درسی ساتھی اور خاص دوست ہیں۔دعوت نامہ پیش کرنے پر آپ نے فرمایا کہ مولانا سعید امینیؒ صاحب سے کوئی خاص تعلق تو نہیں رہا، صرف زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے اس لیے کچھ تفصیل سے نہیں لکھ پاؤں گا، لیکن کوشش ضرور کروں گا۔ پھر یہاں سے "کاماں" شہر کے مشہور مدرسہ کاشف العلوم روانہ ہوئے لیکن تلاش بسیار کے بعد بھی مدرسہ کے اندر کوئی نہ مل سکا ، اس لئے جلد سے قافلہ قصبہ" دھرم شالہ" کی طرف روانہ ہوا ، ایک ایسی سڑک کے سہارے جو اس قدر خستہ حال تھی کہ پریشان ہوکر مولانا عمران صاحب قاسمی فرمانے لگے : کہ بھائی ہین سڑک میں کھڈا نا ہیں کھڈان میں سڑک ہے ،بہر کیف خرابئ سڑک کے باعث منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرکے آخر "دھرم شالہ" پہنچ گئے، ، جہاں استاذ محترم حضرت مولانا علی محمد صاحب (ناظم تعلیمات، جامعہ ریاض العلوم اکیڈمی) سے ملاقات ہوئی۔ آپ نہایت عاجز، صالح، اور مخلص عالم دین ہیں۔ نمازِ مغرب آپ ہی کے پاس ادا کی اس کے بعد آپ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے اور آپ سے رسالے کے مختلف پہلوؤں پر بھی گفتگو ہوئی وہیں پر مولانا ارشد صاحب دھرمشالہ (سابق مدرس، مدرسہ فیض العلوم مالب) سے بھی ملاقات ہوئی اس لئے انہیں بھی دعوت نامہ دیا پھر "کیتھواڑہ" روانہ ہو گئے۔ "کیتھواڑہ" میں حضرت مولانا عثمان صاحب امینی سے ملاقات ہوئی ، مولانا کیتھواڑہ کی جامع مسجد کے امام ہیں، اپنے وقت کے معروف پہلوان رہے ہیں ، اور اب بھی اکھاڑہ چلاتے ہیں۔ مولانا بڑی محبت سے پیش آئے ، ناشتے کی دعوت بھی دی، مگر وقت کی قلت کے سبب معذرت کرنی پڑی۔ اور محبت بھرا دعوت نامہ پیش کر کے "گلپاڑہ" کا رخ کیا ، جہاں حضرت مفتی عبدالشکور صاحب کاشفی کی خدمت میں حاضری نصیب ہوئی۔ آپ ایسے بزرگ ہیں جو علم و یادداشت کا خزانہ ہیں۔ آپ کو حضرت شیخ زکریاؒ سے دو مرتبہ اور حضرت مولانا انعام الحسنؒ صاحب کاندھلوی سے ایک مرتبہ بخاری شریف پڑھنےکا شرف حاصل ہے ، نیز حضرت جی مولانا یوسف صاحب کاندھلویؒ سے مؤطا امام مالک و ابوداؤد شریف پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے تقریباً بیس ہزار اشعار اردو، عربی، فارسی کے یاد ہیں، اور قرآن مجید پانچ ماہ میں حفظ کرنے کی دولت نصیب ہے۔" آپ کی گفتگو سراپا علم و اخلاص تھی، جو دل کو چھو گئی آپ نے بہت ساری قیمتی نصیحتیں بھی ارشاد فرمائیں جو طوالت کے خوف سے قلمبند نہیں کی جاسکتیں رات کا قیام خطۂ پاہٹ واڑہ میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں (اوڑکی دلہ) میں قائم استاذ محترم حضرت مفتی عبد الحمید صاحب کے مدرسے میں ہوا۔ یہاں قیام کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن رات زیادہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً قیام کرنا پڑا حضرت مفتی صاحب کے فرزند مولانا عمران صاحب قاسمی کی مہمان نوازی، پرتکلف کھانے نے دن بھر کی تھکن اتار دی۔ صبح مفتی عبدالحمید صاحب سے ملاقات ہوئی، جو "دارالعلوم دیوبند" سے افتاء کی سند حاصل کرنے والے میوات کے اولین مفتیوں میں سے ہیں۔ آپ نے طویل عرصہ ازہر میوات مدرسہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا میں درس وتدریس کا کام کیا ، اور اب اپنے قائم کردہ مدرسے میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی گفتگو میں حکمت تھی، اور آپ کی دعائیں ہمارے لئے زادِ راہ بنیں آپ نے اور بھی بہت ساری قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں جب دوسرے دن‌صبح کا اُجالا پھیلنے لگا، تو ہم اپنی گاڑی میں سوار ہو کر دل میں نئی تازگی اور نیت میں اخلاص کی تجدید لئے اپنے بابرکت مقصد کی طرف بڑھے ، ہمارا پہلا پڑاؤ " نگر " شہر کے اندر واقع مدرسہ "دارالعلوم رسولیہ" میں تھا جہاں ہماری ملاقات ایک محنتی اور دردِ دل رکھنے والے شخص حافظ افتخارالدین احمد صاحب سے ہوئی۔ آپ فی الحال سخت علیل ، لیکن روحانی طور پر انتہائی پختہ، پرشفقت اور محبت سے لبریز تھے آپ کی گفتگو میں خلوص، علم، اور تاریخ کی مہک تھی۔ آپ نے بتایا کہ آپ کے والد محترم مولانا رسول خان صاحبؒ، میوات کے اکابر علما میں شمار ہوتے تھے۔ جن کے اساتذہ میں حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب میواتیؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیات شامل تھیں۔ اور بتلایا کہ حضرت مولانا عبد السبحان صاحب میواتی کی سرپرستی میں والد صاحب نے درسِ نظامی کے دوران ہی مختصر المعانی کے سال سے تدریس کا آغاز کر دیا تھا۔ اور میوات کی عظیم ہستیاں مولانا صدیق صاحب اٹاوڑیؒ اور مولانا عبد المنان صاحب میواتیؒ جیسے نفوس قدسیہ والد صاحب کے ہم درس تھے حافظ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اپنی سوانح حیات کا کچھ حصہ تو والد صاحب خود تحریر کر گئے ، اور مزید سوانح پر کام جاری ہے ، بہر کیف اس علمی، تاریخی، اور روحانی گفتگو کے بعد قافلے نے حافظ صاحب اور وہاں موجود دیگر علما کو دعوت نامے پیش کیے اور محبت و دعاؤں کے ساتھ آگے کا ارادہ باندھا۔ اس کے بعد دفعتاً شرعی مجلس کے کسی رکن کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ گاؤں "رائے پور" بیاری میں "شرعی مجلس " کا نوٹس پہنچانا ہے ، پیغام موصولہ میں سونپی گئی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے میوات کے عظیم عالم دین اور اکابر کی صحبت یافتہ شخصیت مفتی عبدالشکور صاحب کو لیکر ہم رائےپور پہنچے لیکن جس نوجوان کا معاملہ تھا، وہ خود موجود نہ تھا۔ البتہ فون کے ذریعے اس سے بات کی گئی، اور والد صاحب و دیگر اہلِ خانہ کو تسلی دی گئی، شرعی نقطۂ نظر سے بھی واقفیت بخشی گئی اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر مفتی عبد الشکور صاحب کو گاؤں گلپاڑہ چھوڑ کر سیکری روانہ ہوئے ، جہاں استاذ محترم مولانا ادریس صاحب دامت برکاتہم العالیہ (سرپرست مجلہ رہنمائے میوات)تشریف فرما تھے ، حضرت دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں شیخ الحدیث ، نہایت باوقار، متواضع، سادگی پسند، خاموش طبیعت اور شہرت سے کوسوں دور شخصیت ہیں۔ آپ سے ملاقات کے دوران آپ کی عاجزی، مزاج کی لطافت، اور علم و حکمت کی انکساری لب و لہجے نے ہمیں بہت متاثر کیا۔ اللہ آپ کی عمر میں برکت عطاء فرمائے۔ بعد ازاں ازہر میوات مدرسہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا پہنچے جہاں استاذ محترم جناب حضرت مولانا محمد راشد صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ ( شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا وجامعۃ الشیخ محمد قاسم ٹوڈی وصدر جمیعت علماء ہند راجھستان) اور استاذ جناب حضرت مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی دامت برکاتہم (ناظم تعلیمات دار العلوم محمدیہ میل کھیڑلا) سے ملاقات مقصود تھی، مگر دونوں حضرات اس وقت قیلولہ فرما رہے تھے اس لئے ان‌سے تو ملاقات نہ ہوسکی۔ البتہ ان کے چھوٹے بھائی مولانا امجد صاحب سے ملاقات ہوئی، انہیں کے ہاتھ دعوت نامہ دیکر وہاں سے رخصت ہوئے اگر چہ بعد میں مولانا راشد صاحب کا پیغام آیا کہ میں قیلولہ میں تھا، اور فون سائلنٹ موڈ پر تھا، اس لیے خبر نہ ہو سکی۔ اللہ آپ کے سفر کو آسان فرمائے اور آپ کے مقصد کو پورا کرے۔" بعدہ کارواں منزلوں کو طے کرتا ہوا پہاڑی پہنچا جہاں ایک مدرسہ میں قاری دلشادنامی شخص سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بڑی محبت سے مہمان نوازی کی کوشش کی، لیکن چونکہ اس دن مسلسل ضیافتیں ہو چکی تھیں، اس لئے معذرت کر لی۔ اور جلد سے ان کو اور دیگر علما کو دعوت نامے دیکر اگلی منزل مدرسہ" اشرف الإمداد کامینڈہ " کا رخ کیا ، جہاں حضرت مولانا نعمان صاحب (سابق مہتمم مدرسہ اشرف الامداد کامیڈہ ) ، اور مولانا زکریا صاحب سے ملاقات ہوئی، مولانا زکریا صاحب ۷۰ برس کے ہوچکے ہیں اور ۵۰ سال سے مدرسہ اشرف الامداد میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، اللہ تعالی حضرت کی عمر میں برکت عطا فرمائے! پھر گاؤں "اکھناکا" پہنچے ،جہاں‌ ایک مدرسے کے مہتمم قاری ارشاد صاحب نے اپنے سادہ سے ادارے میں قافلے کے لیے عمدہ اور لذیذ کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ کھانے کا ذائقہ، محبت کی گرمی اور ان کی خلوص بھری گفتگو اب بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ ظہر کی نماز یہیں پر ادا کی اتفاق سے مفتی خورشید صاحب قاسمی( سابق مدرس دارالعلوم مہتابیہ نگینہ و موجودہ مدرس مدرسہ افضل العلوم مہوں) سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہاں سے فیروز پور ہوتے ہوئے گاؤں" ساکرس" کی طرف روانہ ہوئے جہاں دارالعلوم حبیبیہ میں مولانا یوسف صاحب سے ملاقات ہوئی۔ آپ مولانا حبیب اللہ صاحبؒ کے فرزند ہیں، مولانا حبیب اللہ صاحب کا شمار میوات کے جلیل القدر اکابر میں ہوتا ہے۔ آپ سے مختصر گفتگو ہوئی اور قلت وقت کے سبب جلد سے آپ کو دعوت نامہ دیا نیز آپ ہی کی ذریعے مولانا طیب صاحب ساکرس کو بھی دعوت نامہ پہنچایا گیا۔ اس کے بعد گاؤں "مہوں " پہنچے جہاں ماسٹر قاسم صاحب (ابن مفتی ظفر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ مہوں) سے ملاقات ہوئی ، جو مدرسہ افضل العلوم کے مہتمم ہیں، نیز علماء کی قدر کرنے والے، علماء کی خدمت کو سعادت سمجھنے والے اور دین کے کاموں میں ہمیشہ آگے رہنے والے انسان ہیں۔ یہاں موجود مولانا سلیم صاحب ساکرس کو بھی دعوت نامہ پیش کیا گیا۔ پھر قدم رنجہ ہوئے میوات کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ معدن العلوم جھمراوٹ میں، جہاں مولانا محمد الیاس صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی ، حضرت مولانا نہایت بااخلاق، خاموش مزاج اور علم و تقویٰ سے بھرپور شخصیت ہیں آپ مدرسہ معدن العلوم جھمراوٹ کے مہتمم اور ہریانہ متحدہ پنجاب کے امیر شریعت ہیں۔ آپ نے کئی تاریخی واقعات سنائے، بہت ساری قیمتی باتیں کیں، لیکن طوالت کی باعث یہاں ان کا تذکرہ مناسب نہیں۔ آپ نے محبت، خلوص اور دعا کے ساتھ ہمیں رخصت کیا ، علاوہ ازیں یہاں کے کئی اساتذہ کو بھی دعوت نامے دیے گئے۔ اس کے بعد گاؤں خانپور میں مکتب کے ذمہ دار مولانا نور محمد صاحب کو دعوت نامہ تھما کر شہر پنگواں پہنچے۔ دعوت نامے ختم ہو چکے تھے، اس لیے ان کی 15 فوٹو کاپیاں نکلوانی پڑیں۔ بعدہ مولانا عابد صاحب گنگوانی (سابق، ناظم تعلیمات مدرسہ فیض العلوم مالب )سے بازار میں ملاقات ہوئی، انہیں دعوت نات پیش کیا نیز مولانا شریف صاحب گنگوانی اور مولانا فجر الدین صاحب گنگوانی کے ددعوت نامے بھی موصوف کو دیکر بھوریا کی مدرسہ میں عصر کی نماز ادا کی یہاں حافظ ابراہیم صاحب سے ملاقات مقصود تھی جو بھوریاکی مدرسہ کے مہتمم ہیں لیکن ان سے ملاقات ممکن نہ ہو سکی پھر گاؤں چاندنکی روانہ ہوگئے۔ جہاں مولانا رستم صاحب سے ملاقات ہوئی، جو انتہائی مخلص، منکسر المزاج، اور بے تکلف انسان ہیں۔ آپ نے مختصر مہمان نوازی کی، اور کئی حضرات کے دعوت نامے آپ ہی کے سپرد کرکے گاؤں جیونت کا رخ باندھا جہاں حضرت مولانا علاؤ الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی زیارت نصیب ہوئی، مولانا علاؤ الدین صاحب مرکز نظام الدین کے اکابرین میں سے ہیں، اور تبلیغی جماعت میں عظیم خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ اس وقت علیل ہیں، اس لیے ہم نے مختصر ملاقات کی اور آپ کے لیے شفایابی کی دعا کرکے رفیقِ سفر حضرت مولانا عمران صاحب قاسمی کے گاؤں گھسینگا پہنچے، جہاں مغرب کی نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور بطورمہمان نوازی حضرت مولانا کی طرف سے پیش کردہ آب زم زم کی برکت بھی حاصل ہوئی پھر ہم گاؤں راولکی کی طرف روانہ ہوئے، جہاں مفتی ثنا اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی، جو میوات کے جانے پہچانے مفتی اور مجلہ رہنمائے میوات کے اہم رکن ہیں۔آپ ہمارے ساتھ وفد میں بھی شامل تھے لیکن قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت آپ کا انگوٹھا زخمی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھے،اور رفیق سفر نہ بن سکے آپ سے مختصر ملاقات کے بعد کئی دعوت نامے آپ ہی کے ذریعے دیگر علما تک پہنچانے کی درخواست کی۔ روالکی سے آتے ہوئے راستے میں گاؤ جے سنگ پور سے گزر ہوا تو ایک ساتھی نے بتلایا کہ یہاں میوات کے بڑے عالم مولانا سراج الدین صاحب موجود ہیں ان کو بھی دعوت نامہ دینا چاہیے چونکہ رات زیادہ ہو چکی تھی اس لیے ان سے تو ملاقات نہ ہو سکی البتہ وہاں موجود کچھ بزرگ حضرات کو دعوت نامہ دیکر آخر میں گاؤں نوشیرہ پہنچے جہاں امیر سفر مفتی زہیر صاحب کے متعلقین میں سے ایک عورت وفات پاچکی تھی جو مولانا کرامت خان صاحب (صحبت یافتہ مولانا سعید صاحب امینی رحمۃ اللہ علیہ) صاحب کی والدہ نکلی قافلے نے بہت ہی خوب طریقے سے تعزیت کی اور وہاں موجود مرحومہ کے لڑکوں کو سمجھایا کہ اپنے والد کی قدر کریں،ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں چونکہ اب آپ کی والدہ دنیا میں نہیں رہی ہے اس لیے یہ آپ کے زیادہ محتاج ہیں۔ یہاں سے یہ مبارک قافلہ اپنے اپنے گاؤں روانہ ہوا۔ راقم الحروف کو ایک ساتھی نے اپنی بائیک کے ذریعے راقم الحروف کے گاؤں گولپوری پہنچا دیا، جبکہ باقی دیگر حضرات گاڑی میں سوار ہو کر سوڑاکا پہنچے۔ یوں یہ دن بھی اللہ تعالیٰ کے فضل، علماء کرام کی دعاؤں، اور علم و دین کی محبت سے لبریز ہو کر مکمل ہوا۔ ہم تھکے ضرور تھے، لیکن روحانی سکون نے ساری تھکن کو مٹا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سفر کو قبول فرمائے، ان تمام علماء، اہل مدارس، اور دیگر معزز حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ جنہوں نے محبت سے استقبال کیا، دعوت نامے قبول کئے، اور رہنمائے میوات کی اس کوشش میں ہمارے شریکِ سفر بنے۔ اللهم تقبل منا إنك أنت السميع العليم وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم
👍 😢 11

Comments