دین و دنیا چینل
June 16, 2025 at 10:13 AM
حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️
قـسـط نــمـبـر 93
*تاریخ میں ایک اور مجاہد کا ذکر آتا ہے جس کا نام عصمت بن خالد ضبی تھا۔ اُس نے ایک گھوڑا گاڑی کو پکڑا۔ اس میں شاہی محافظ دستے کے تین محافظ سوار تھے۔ اُنہوں نے بغیر مزاحمت کے گاڑی میں رکھا ہوا سامان عصمت بن خالد ضبی کے حوالے کردیا۔ یہ دو بہت بڑے بڑے بکس نما پٹارہے تھے۔ انہیں ان محافظوں سے ہی کھلوایا گیا۔ ان میں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں انہیں دیکھ کر عرب کے یہ مسلمان ایسے حیرت زدہ ہوئے کہ آنکھیں جھپکنا بھول گئے اور اُن کے منہ کُھلے رہ گئے ۔۔۔۔۔*
ایک پٹارے سے سے ایک گھوڑا نکلا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔اس پر چاندی کی زین تھی ساز اور رکابیں بھی چاندی کی تھں اُس پر جو سوار بیٹھا ہوا تھا وہ بھی چاندی کا بنا ہوا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا جو ہیروں اور جواہرات سے مرصع تھا ، بلکہ تاج تھا ہی ہیروں ، جواہرات اور بہت ہی قیمتی پتھروں کا جو روشنی میں چمکتے تھے تو ان میں سے رنگا رنگ شعاعیں نکلتی تھیں۔ اس گھوڑے کا سائز گھوڑے کے قدرتی قد کاٹھ سے آدھا تھا۔ اگر آج کے حساب سے اس گھوڑے اور سوار کی قیمت لگائی جائے تو کم ازکم ایک ارب روپیہ بنتی ہے۔ دوسرے پٹارے میں سے ایک اونٹنی نکلی یہ چاندی کی بنی ہوئی تھی اس کی مہار اور تنگ وغیرہ سونے کے تھے۔ ان میں یاقوت پروئے ہوئے تھے۔ اس پر ایک سوار بیٹھا ہوا تھا جو سونے کا تھا اور سر سے پاؤں تک جواہرات سے مرصع تھا۔
یہ گھوڑا اور اونٹنی بھی سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کو بھیج دی گئی ۔
کسی بھی تاریخ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ شاہی خاندان پہلے ہی مدائن سے نکل گیا تھا تو یہ اتنی قیمتی اور نادر اشیاء شاہی خاندان کے ساتھ کیوں نہ گئیں۔ اب یہ جو آدمی لے جا رہے تھے تھے ، اُنہوں نے بتایا کہ انہیں یہ چیزیں اسی طرح بند دی گئیں اور ایک جرنیل نے حکم دیا تھا کہ انہیں حلوان پہنچانا اور شاہی خاندان کے حوالے کر دینا ہے۔ اس حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ چیزیں راستے میں ہی ضائع ہو گئیں تو ان کے محافظوں کو قتل کر دیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی محافظ دستے کے ان آدمیوں نے عصمت بن خالد سے کہا تھا کہ انہیں جنگی قیدی بنا لیا جائے۔ ان اشیاء کے علاوہ بھی بہت سی قیمتی اشیاء تھیں جو بھاگنے والوں سے ملیں۔
مدائن کے تمام مکان خالی تھے۔ کئی مکانوں سے سونے اور چاندی کے برتن ملے۔ ایسے ریشمی ملبوسات تو بے شمار ملے جن پر سونے کے تاروں کی کڑھائی کی ہوئی تھی۔ دوپٹوں ، چادروں اور سر پر لینے والے بڑے سائز کے رومالوں کے کنارے تاروں کے بنے ہوئے تھے اس کے علاوہ دیگر قیمتی سامان کے انبار مِلے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی رہائش محل میں ہی رکھی۔ ان کی بیوی سلمیٰ ان کے پاس آ گئی۔ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے حکم دیا کہ محل کا تمام قیمتی سامان اور نادر اشیاء ایک جگہ اکٹھی کی جائیں۔
مؤرخ علامہ طبری نے جو اپنے وقت کے بہت بڑے محدث بھی تھے ، مالِ غنیمت کی تفصیلات لکھی ہیں۔ اُس وقت سے صدیوں پہلے یہ علاقہ فرعونوں کے زیرنگیں بھی آیا تھا۔ مدائن کے محل میں فرعونوں کے وقت کے نوادرات بھی موجود تھے۔ کیانی خاندان کی بادشاہی سے لے کر خسرو پرویز تک کے زمانے کے تاج ، تلواریں ، ملبوسات ، فرغل اور عجیب و غریب بےحد قیمتی اشیاء برآمد ہوئیں۔
شاہی محل کے دو اعلیٰ رتبے کے کارندوں کو پکڑا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ کون سی چیز کیا ہے اور کس کی ہے۔ ان میں دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے تحفے بھی تھے۔ مثلًا خاقانِ چین ، ہند کے راجہ داہر ، قیصرِ روم ، نعمان بن منذر ، سیاوش اور بہرام چوبیں کے تحفے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں زرہیں اور ڈھالیں بھی تھیں۔ ان اشیاء میں سونا زیادہ استعمال کیا گیا تھا۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ راجہ داہر کے باپ دادا کی آتش پرستوں کے بادشاہوں کے ساتھ گہری دوستی تھی انہیں ہاتھی داہر کے باپ دادا نے دیے تھے اور اپنے مہاوت اور ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرنے والے آدمی ساتھ بھیجے تھے۔ مسلمانوں نے ان تمام ہاتھیوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔
مدائن کے محل کی کوئی معمولی سی چیز دیکھتے تو اس میں بھی کچھ نہ کچھ مقدار میں سونا یا چاندی ضرور ملی ہوئی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے سلطنتِ فارس میں سونے کی کان تھی لیکن وہاں سونے کی کوئی کان نہیں تھی یہ اس سلطنت کے بادشاہوں کا خزانہ تھا۔ اس خزانے میں رعایا کا خون پسینہ بھی شامل تھا جو محصولات کے ذریعے ان کی ہڈیوں سے نچوڑا جاتا تھا اور اس میں کمزور ملکوں پر فوج کشی کر کے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ رومیوں کے ساتھ جنگ میں فارس کے بادشاہوں نے بے بہا خزانہ اکٹھا کیا تھا۔ اس خزانے نے ان بادشاہوں کو فرعون بنایا تھا۔ اور اب وہ فرعونوں کے انجام کو پہنچ گئے تھے۔ اب ان کی یہ دولت اور منوں سونا اور اربوں درہم و دینار مالیت کے ہیرے ، جواہرات اور نادر پتھر اس قوم کے ہاتھ آ گئے تھے جس کا دُنیا کے خزانوں کے متعلق نظریہ یہ تھا کہ یہ سب اللّٰہ کا مال ہے اور اس پر اللّٰہ کے ہر کلمہ گو بندے کا مساوی حق ہے ، جتنا حصہ خلیفہ کا ہے اتنا ہی ایک عام آدمی کا ہے۔ اسلام کے اس نظریے کی ایک نمایاں مثال ایک قالین کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ قالین محل سے مِلا۔ اس کا نام "بہار" تھا یہ ساٹھ مربع گز تھا اسے "بہار" کا نام اس لیے دیا گیا تھا کہ اسے خزاں کے موسم میں استعمال کیا جاتا تھا۔ استعمال یہ تھا کہ بادشاہ اس پر بیٹھ کر شراب پیا کرتے تھے۔ چُنی ہوئی حسین اور نوجوان کنیزیں شراب پلاتی تھیں۔ اس قالین کی بناوٹ میں "بہار" کے تمام مناظر بنائے گئے تھے۔ درمیان میں سبزے کا چمن تھا۔ چاروں طرف جدولیں تھیں۔ ہر قسم کے درخت اور درختوں میں کونپلیں ، شگوفے اور پھل تھے اور یہ سب کچھ زر و جواہرات کا تھا۔ زمین سونے کے تاروں سے بنی گئی تھی ، سبزہ زمرد کا تھا ، جدولیں پکھراج کی ، درخت سونے چاندی کے ، پتے حریر کے اور پھول جواہرات کے تھے۔
محمد حسنین ہیکل نے اس قالین کی ساخت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے _____ "یہ فرش "قالین" 60 مربع گز تھا اور شاہانِ آلِ ساسان اسے موسمِ بہار گزر جانے کے بعد شدتِ سرما میں استعمال کرتے تھے۔ اس پر سلطنت کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ اس کی زمین سونے کی تھی جس پر موتیوں کی نہریں بنی ہوئی تھیں۔ کناروں پر چمن تھے جن میں سبز رنگ کے درخت بنائے گئے تھے۔ ان درختوں کے تنے سونے کے ، پتے ریشم کے اور پھل جواہرات کے تھے۔"
اسلام کے نظریے کو ہم اس قالین کی مثال سے پیش کر رہے تھے اس لئے اس قالین کی کہانی پہلے ہی سُنا دینا بہتر ہے۔
اتنا زیادہ اور اس قدر قیمتی مالِ غنیمت ایک جگہ اکٹھا کیا گیا تو سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا کہ خمس یعنی خلیفۃ المسلمین کو بھیجنے والا حصہ پہلے ہی الگ کر لیا جائے۔
"میرے رفیقو" ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ نے سالاروں اور قبیلوں کے سرداروں سے کہا ____ "کیوں نہ ہم مدینے والوں کے لیے ایسی چیزیں بھیجیں کہ وہ حیرت زدہ ہو جائیں۔"
"بیشک ، بیشک" ____ سعد رضی اللّٰہ عنہ کی تائید میں آوازیں اُٹھیں ____ "سب سے زیادہ قیمتی اور حیرتناک اشیاء امیرالمومنین کو بھیجی جائیں۔"
"اور یہ قالین" _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا _____ "یہ میرے لئے ایک مسئلہ ہے۔ اس پر ہر ایک کا حق ہے لیکن ہر ایک کو اس کا حق کس طرح دیا جائے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ اس میں سے ہیرے جواہرات اور پتھر وغیرہ نکال کر تقسیم کر دے جائیں؟ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اتنی خوبصورت چیز کو ضائع کرنے کی بجائے اسے خُمس کا حصہ قرار دے کر مدینہ بھیج دیا جائے۔؟"
"ہاں سپاہ سالار!" ____ ہاشم بن عتبہ نے کہا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا ۔ قالین ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور مدینہ والوں کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہو گا۔"
اتفاقِ رائے سے فیصلہ ہوا کہ یہ قالین خمس میں شامل کر کے مدینہ بھیج دیا جائے۔
مالِ غنیمت مدینہ پہنچا اور امیرالمومنین رضی اللّٰہ عنہ نے تقسیم کیا لیکن یہ قالین وہاں بھی ایک مسئلہ بن گیا۔ یہ فیصلہ کرنا ناممکن تھا کہ اسے کس طرح تقسیم کیا جائے۔
"مجھے رائے دو" ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ "میں اس قالین کو کس طرح تقسیم کروں!"۔
فاتح سپہ سالار نے یہ آپ کو دیا ہے۔" ____ کسی نے کہا ____ "مجاہدین کی طرف سے یہ آپ کے لیے تحفہ آیا ہے۔"
"ہاں امیر المومنین!" ____ کسی اور نے کہا ____ "یہ صرف آپ کے لئے ہے۔ اس میں کسی اور کا حصہ نہیں۔"
اس رائے کی تائید میں کئی آوازیں اُٹھیں۔
"نہیں" _____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ "اللّٰہ کی قسم ، میں وہ چیز ہرگز نہ لوں گا جس کے حصہ دار اور بھی ہوں ۔۔۔۔۔ اور میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ اس قالین کو کیسے تقسیم کروں ۔۔۔۔۔ کیا تو کوئی رائے نہیں دے گا علی ؓ؟
"ابن الخطاب!" ____ حضرت علی نے کہا ____ "اللّٰہ نے تجھے علم دیا ہے ، یہ علم ہے جہل نہیں ۔ اللّٰہ نے تجھے یقین کی طاقت دی ہے ، یہ یقین ہے شک نہیں ۔ اپنے علم سے سوچ اور اپنی سوچ پر شک نہ کر ۔۔۔۔۔ دُنیا میں وہی چیز تیری ہے جو تو اپنی مرضی سے کسی کو دے دے یا پہن کر پرانا کر دے یا کھا کر ختم کردے۔ یہ قالین وہ چیز ہے جو تُو کسی کو دے نہیں سکتا ، جو پہن کر پھاڑ نہیں سکتا ، جو کھا کر ختم نہیں کر سکتا ۔ ایک روز تُو دنیا میں نہیں رہے گا ، یہ قالین رہ جائے گا اور اُس کی ملکیت میں جا سکتا ہے جو اِس کا مستحق نہیں ہو گا۔ چیز اتنی قیمتی ہے کہ اس کی ملکیت کے کئی دعویدار ہوں گے پھر یہ قالین فتنہ و فساد کا باعث بن جائیگا۔ آج تو دیانتدار اور ایمان والا ہے ، کون کہہ سکتا ہے کہ تیرے بعد آنے والے بھی تجھ جیسے دیانت دار ہوں گے یا نہیں۔ زر و جواہرات بھائی کو بھائی کا دُشمن بنا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس قالین کو تقسیم کر دے اے خطاب کے بیٹے!"
"اللّٰہ کی قسم ابنُ ابی طالب!" ____ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے کہا ____ "تُو نے سچ کہا ہے ۔ یہ قالین تقسیم ہو گا۔" حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے حکم سے اُسی وقت قالین سے سونے اور چاندی کے تار ، ہیرے ، قیمتی پتھر اور موتی نوچ لیے گئے۔ پیچھے تھوڑا سا جو کپڑا رہ گیا تھا ، اس کے بھی کئی ٹکڑے کیے گئے پھر یہ تمام اشیاء تقسیم کر دی گئیں۔
یورپی مؤرخوں نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے اس فیصلے کا مذاق اُڑایا اور لکھا ہے کہ عرب اتنی خوبصورت اور نادر چیز کی قدر نہ کر سکے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ عرب کے مسلمانوں کا ذوق بہت ہی پست تھا۔ یورپ کے یہ مؤرخ سمجھ نہیں سکے اور وہ سمجھنا چاہتے بھی نہیں تھے کہ مسلمان دُنیاوی لالچ سے آشنا نہیں تھے۔ وہ ﷲ کی خوشنودی اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔
اب ہم مدائن چلتے ہیں جہاں مجاہدین مالِ غنیمت لا لا کر سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کے آگے ڈھیر کرتے جا رہے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کہ مدائن کی فتح کے حالات بیان کرتے ہوئے مؤرخین نے مالِ غنیمت کے معاملے میں مجاہدین کی دیانتداری کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہ کا کردار بیان ہو چکا ہے۔ اتنا زیادہ قیمتی قالین جس میں آج کے حساب سے اربوں روپے کے ہیرے ، جواہرات اور سونے کے تار لگے ہوئے تھے، انہیں پیش کیا گیا۔ اُن کے ساتھیوں ، مشیروں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کہا کہ امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہ ، یہ تحفہ صرف آپ کے لئے ہے ۔ اس میں کسی اور کا حصہ نہیں ، لیکن حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نےانکار کر دیا۔
اُدھر محاذ پر قعقاع بن عمرو اور عصمت بن خالد ضبّی کے ہاتھ جو خزانہ لگا تھا ، اس میں سے وہ کچھ نہ کچھ رکھ سکتے تھے۔ شہر سے دُور ویرانے میں دیکھنے والا کون تھا۔ لیکن انہیں جو ملا وہ انہوں نے سپہ سالار کے آگے لا کر رکھ دیا۔ قعقاع نے مختلف بادشاہوں کی تلواریں ، زرہیں اور ڈھالیں پیش کی تھیں۔
’’ابنِ عمرو!‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے قعقاع سے کہا ____ ’’ان چیزوں میں سے تمہیں جو پسند ہیں وہ لے لو۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ قعقاع نے بجائے اس کے کہ کوئی بہت ہی قیمتی چیز لیتا جس میں سونے اور ہیروں کی بہتات ہوتی ، اُسے روم کے بادشاہ ہرقل کی تلوار اچھی لگی ، اور انہوں نے وہ لے لی۔
مشہور مؤرخوں ____ طبری ، ابنِ اثیر ، ابنِ خلدون اور ابنِ کثیر نے ایک نہایت معمولی سے مجاہد کا واقعہ لکھا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کا نام نہیں لکھا۔ یہ گمنام مجاہد ایک ڈبہ لایا جو جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ ڈبے میں بڑے قیمتی ہیرے بھی تھے۔ اُس وقت تک ایک خزانچی مقرر کر دیا گیاتھا ، جو مالِ غنیمت وصول کرتا تھا۔ اُس کی مدد کیلئے چار پانچ مجاہدین اس کے ساتھ رہتے تھے۔
گمنام مجاہد نے یہ ڈبہ خزانچی کو دیا۔ خزانچی نے ڈبہ کھولا تو اُس نے یوں بدک کر سر پیچھے کر لیا جیسے ڈبے میں سانپ ہو۔ اس کے ساتھیوں کا ردِ عمل بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔
’’کیا تجھے معلوم ہے اس ڈبے میں کتنی مالیت کا خزانہ ہے؟‘‘ _____ خزانچی نے گمنام مجاہد سے پوچھا ۔۔۔۔۔
*==== ( ان شآءاللہ جاری ہے )*
کاپی
❤️
👍
2