دین و دنیا چینل
June 19, 2025 at 02:04 AM
*حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️*
*قـسـط نــمـبـر 95*
*جس وقت کسریٰ کے محل میں نمازیں پڑھی جا رہی تھیں اس وقت یزدگرد حلوان میں اس حالت میں تھا کہ کسی کے ساتھ بات بھی نہیں کرتا تھا اور زیادہ تر تنہا رہتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ شہنشاہیت سے ہی نہیں بلکہ زندگی سے ہی بیزار ہو گیا ہو۔ اس کے کمرے میں اس کی ماں جاتی تھی یا پوران ۔ کبھی کبھی وہ انہیں بھی کہہ دیا کرتا تھا کہ وہ اسے تنہا چھوڑ دیں ۔*
اُس کی ماں نورین اسے اس کیفیت میں دیکھتی تو بہت روتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے نوجوان بیٹے کو کون سا غم کھائے جا رہا ہے۔
وہ صرف ایک امید دل میں لیے ہوئے تھا۔ اس کا خیال تھا کہ شکست کو فتح میں بدلنا تو ممکن نہیں رہا لیکن جنگ اور مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکا جا سکتا ہے۔ اس نے اپنا ایک وفد مدائن میں اس پیشکش کے ساتھ بھیجا کہ دجلہ کو عرب اور عجم کے درمیان حدِ فاصل بنا دیا جائے اور جنگ بند کر دی جائے۔
’’کیا تمہارے بادشاہ یزدگرد کا دماغ ٹھیک نہیں رہا؟‘‘ _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے یزدگرد کے ایلچی سے کہا ____ ’’کیا وہ بھول گیا ہے کہ وہ پہلے بھی یہ پیشکش کر چکا ہے اور میں اس کی آدھی سلطنت کی پیشکش کو ٹھکرا چکا ہوں۔ اب جب کہ ہم نے مدائن پر بزورِ بازو قبضہ کر لیا ہے اور مالِ غنیمت کی تقسیم بھی ہو رہی ہے تو میں ایسا احمق کیوں بن جاؤں کہ اتنی جدوجہد اور قربانی سے جو چیز حاصل کی ہے وہ میں تمہیں دے دوں …… اور اپنے شہنشاہ سے کہنا کے اُس کے باپ نے ہمارے رسول ﷺ کے پیغامِ حق کی توہین ایسی کی تھی کہ جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
یزدگرد کا وفد مایوس و نامراد واپس چل گیا۔
اور یہ مایوسی حلوان پر سیاہ گھٹا بن کر چھا گئی۔ اس جیسے بادشاہ جب غمگین ہوتے تو حسین و جمیل کنیزوں ، رقص و سرور اور شراب سے دل بہلایا کرتے تھے۔ لیکن یزدگرد تمام کنیزوں اور حرم کی تمام عورتوں کو مدائن میں ہی چھوڑ آیا تھا۔اُن میں سے چند ایک نوجوان لڑکیاں بھاگ گئی تھیں اور جو محل میں ہی رہ گئی تھیں انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں مدینہ بھیج دیا تھا۔ انہیں یقین دلا دیاگیا تھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہو گا جو اس محل میں ہوتا رہا ہے۔ بلکہ انہیں باقاعدہ بیویاں بنایا جائے گا اور معاشرے میں انہیں باعزت مقام حاصل ہو گا۔
یزدگر نے شراب بھی چھوڑ دی تھی۔
"یزدی!‘‘ ____ ایک روز پوران اس کے پاس جا بیٹھی اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ پھر اس کا سر اپنے سینے سے لگا کر کہا ____ ’’میں جانتی ہوں تمہارے سینے میں کیسے کیسے زہریلے سانپ بل کھا رہے ہیں لیکن جوان مرد اپنی یہ حالت نہیں بنا لیا کرتے۔میں بھی وہی محسوس کر رہی ہوں جو تم کر رہے ہو۔‘‘
یزدگرد آخر نوجوان تھا۔ اسے ماں نے اپنے سینے سے لگا کر اور شہر سے دُور گمنام سے ایک گاؤں میں چھپا کر پالا تھا۔ اُسے عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہ تھا۔فنِ حرب و ضرب سے وہ بے بہرہ تھا۔اُس کے پاس جوش و خروش تھا اور اُس کے دل میں سلطنتِ فارس کی محبت تھی۔ پوران نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگایا تو وہ بچوں کی طرح رو پڑا اور روتا ہی گیا۔
’’دُنیا مدائن پر نہیں ختم ہو جاتی یزدی!‘‘ ____پوران نے کہا ____ ’’اور سلطنتِ فارس بھی مدائن پر ختم نہیں ہو گئی۔ اگر تم نے اس طرح حوصلہ ہار دیا تو عرب پورے عجم پر غالب آ جائیں گے ۔‘‘
’’اپنی بد نصیبی پر رونا آتا ہے پوران!‘‘ ____ یزدگرد نے کہا ____ ’’وہ وقت یاد آتا ہے جب لوگ مجھے میری ماں کی مرضی کے خلاف مدائن لائے تھے اور تم میرے حق میں تخت و تاج سے دستبردار ہوئی تھیں۔ لوگوں نے یہ توقع مجھ سے وابستہ کر لی تھی کہ میں عربوں کو تباہ و برباد کر کے فارس کا وقار اور رعب بحال کر دوں گا مگر میں ناکام رہا۔ مجھے اپنی عظیم سلطنت کی تاریخ یاد آتی ہے۔ہمارے آباؤ اجداد نے عراق پر یلغار کر کے یہ اتنا وسیع و عریض اور اتنا سر سبز اور زرخیز علاقہ سلطنتِ فارس میں شامل کر لیا تھا۔ ہم جو بنی ساسان تھے ہم نے ساری دُنیا پر اپنی جنگی طاقت کی دھاک بٹھا دی تھی۔رومی ساسانیوں کے آگے نہ ٹھہر سکے۔یونانی نہ ٹھہر سکے۔ مگر آج معمولی سی ایک قوم نے جس کا کوئی ماضی نہیں ، سلطنتِ فارس کی عظمت کو پامال کر دیا ہے۔آنے والی نسلیں کہیں گی کہ اس شکست کا قصور وار یزدگرد تھا۔‘‘
’’ہم مر تو نہیں گئے یزدی!‘‘ ____ پوران نے کہا _____ ’’ہمارے پاس فوج ہے ، وسائل ہیں۔‘‘
’’مجھے رستم کی پیش گوئی یاد آتی ہے‘‘ ____ یزدگرد نے شکست خوردہ لہجے میں کہا ____ ’’وہ کہتا تھا کہ سلطنتِ فارس کا انجام بہت بُرا ہو گا۔ وہ شاید ٹھیک کہتا تھا۔‘‘
’’رستم مر گیا ہے‘‘ ____ پوران نے جھنجھلا کر کہا _____ ’’اس کی پیش گوئیاں مر گئی ہیں۔یہ اس نے اپنے متعلق کہا تھا کہ اس کا انجام بہت بُرا ہو گا۔ وہ بہت ہی بُرے انجام کو پہنچا۔تم اس انجام سے بچنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’لیکن کیسے؟‘‘ ____ یزدگرد نے پوچھا ____ "فوج کہاں ہے ؟ہمارے بزدل جرنیل کہاں ہیں؟ کچھ تو مارے گئے ہیں باقی چھپتے پھر رہے ہیں۔‘‘
’’فوج بھی ہے ، جرنیل بھی ہیں‘‘ ____ پوران نے کہا ____ ’’سب جلولا میں ہیں۔مہران ، فیروزان ، خرزاد ۔ یہ تینوں جرنیل وہاں موجود ہیں۔وہ فوج کو اکٹھا کر کے منظم کر رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں پوران!‘‘ ____ یزدگرد نے حقارت آمیز لہجے میں کہا ____ ’’ان پر عربوں کا خوف طاری ہو چکا ہے۔ یہ سب میدان کے بھگوڑے ہیں۔اُن پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ میں ایک اور شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر سکوں گا۔‘‘
’’کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ عرب کے یہ مسلمان مدائن میں ہی بیٹھے رہیں گے؟‘‘ _____ پوران نے قدرے غصے سے کہا ____ ’’وہ وہاں تک پہنچیں گے جہاں تم ہو گے۔کیا تم اُن کے آگے بھاگے بھاگے پھرو گے؟ بھاگو گے تو کہاں تک جاؤ گے؟ ہمارے جرنیل اتنے بزدل نہیں جتنے تم ہو گئے ہو؟ تم ڈرپوک ہو یزدی! پوری سلطنت عربوں کو دے کر دم لو گے۔‘‘
’’تم مجھے تنہا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟‘‘ ____ یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا۔
’’تم تنہا رہو۔‘‘ پوران نے اُٹھتے ہوئے کہا ____ ’’میں لڑوں گی۔ میں نے تینوں جرنیلوں سے بات کر لی ہے۔جلولا کو ہم بڑا مضبوط مرکز بنا رہے ہیں اور جرنیلوں نے جلولا کے دفاع کا انتظا م ایسا کیا ہے کہ مسلمان وہاں سر ٹکرا تے رہیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔‘‘
پوران غصے کے عالم میں باہر کو چل پڑی۔
’ٹھہر جاؤ پوران! ‘‘ ____ یزدگرد نے کہا۔
پوران رک گئی اور پیچھے کو مُڑی۔
’’مجھے جلولا لے چلو‘‘ ____ یزدگرد نے کہا۔
پوران اُسی وقت اسے جلولا لے گئی۔
جلولا مدائن سے تقریباً چالیس میل دُور ایک شہر تھا۔ سعد ؓبن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے مدائن میں اپنے لشکر کے ساتھ قیام کر رکھا تھا اور انہوں نے اپنے جاسوس حلوان اور جلولا تک بھیجے ہوئے تھے۔اُن جاسوسوں میں مقامی آدمی تھے۔جن میں وہ عربی تھے جو بڑی لمبی مدت سے عراق میں آباد تھے۔ایک روز دو جاسوس آئے۔
’’جلولا میں فارسیوں نے بہت بڑی فوج جمع کر لی ہے۔‘‘ ____ ان جاسوسوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کو بتایا ____ ’’خرزاد نے جو رستم کا بھائی ہے ، ایسی جنگی تدبیر پر عمل کیا ہے جو مجاہدین کے لشکر کے لئے بہت ہی زیادہ مشکلات پیدا کر دے گی۔شہر کے اردگرد گہری اور اتنی چوڑی خندق کھود دی گئی ہے جسے کوئی طاقتور گھوڑا بھی نہیں پھلانگ سکتا۔شہر کے باہر آنے جانے کے لئے کچھ جگہیں چھوڑی گئی ہیں جہاں خندق نہیں ہے۔خندق کے اردگرد لوہے کے نوکیلے تار بچھا دیئے گئے ہیں۔انہی تاروں سے شہر میں آنے جانے والے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔‘‘
’’شہر کے اندر کیا کیفیت ہے؟‘‘ ____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا ____ ’’لوگوں کے ، فوج کے اور جرنیلوں کے ارادے اور خیالات کیسے ہیں؟ کیا اُن سب پر ہمارا رعب پہلے جیسا طاری ہے یا نہیں؟‘‘
’’یزدگرد اور پوران وہاں پہنچ چکے ہیں۔‘‘ ______ ایک جاسوس نے کہا ____ ’’انہوں نے اپنی فوج کو ایسا گرمایا اور بھڑکایا ہے کہ شہری بھی فوج میں شامل ہو گئے ہیں۔ وہ بھگوڑے جو قادسیہ اور مدائن سے بھاگے تھے وہ سب جلولا میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ہم نے ان کے جرنیلوں کی تقریریں سُنی ہیں۔انہوں نے اپنی فوج سے اور دوسرے لوگوں سے کہا ہے کہ ہم یہاں مقابلے میں جم گئے تو مسلمان محاصرے میں بیٹھے بیٹھے ہی کمزور ہو جائیں گے اور اگر ہم یہاں بھی پیٹھ دکھا گئے تو پھر ہمیں اور ہماری نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔جرنیلوں نے فوج سے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں عربوں سے ہم بڑا ہی زبردست مقابلہ کریں گے۔اگر ہم نے انہیں شکست دیدی تو سلطنت کے وہ تمام علاقے جو مسلمانوں کے قبضے میں چلے گئے ہیں واپس آ جائیں گے، اور یہاں کے لوگ ہمیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔اگر فتح مسلمانوں کی ہوئی تو فارس کے لوگ ہم پر یہ الزام نہیں لگائیں گے کہ ہم لڑے نہیں تھے۔‘‘
’’یزدگرد جلولا میں ہی ہو گا۔‘‘
’’نہیں امیرِ لشکر!‘‘ ____ دوسرے جاسوس نے جواب دیا ___ ’’وہ پوران کے ساتھ جلولا آیا تھا۔پوران بہت ہی جوشیلی عورت ہے۔وہ لوگوں کے گھروں میں جا کر عورتوں اور کم سن لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی جنگ کے لئے تیار کر رہی ہے۔اس کے بولنے کا انداز ایسا پُر اثر ہے کہ جو اسے سُنتا ہے وہ آگ بگولا بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یزدگرد واپس حلوان چلا گیا ہے۔جلولا میں اس قدر اناج پانی اور روز مرہ ضرورت کی تمام اشیاء جمع کر لی گئی ہیں جو فوج کے لئے بھی اور شہریوں کے لئے بھی ایک سال سے زیادہ عرصے کے لئے کافی ہوں گی۔‘‘
’’اور امیرِ لشکر!‘‘ ____ اس جاسوس کے ساتھی نے کہا ___ ’’جرنیلوں نے اور ہر ایک فوجی نے حلف اُٹھا کر عہد کیا ہے کہ عربوں کو جلولا کی دیوار کے باہر ختم کر کے اُن کی لاشیں خندق میں پھینک کر مٹی ڈال دیں گے۔‘‘
’’کیا بھگوڑے فوجی ابھی تک آ رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں امیرِ لشکر!‘‘ ____ جاسوس نے جواب دیا ____ ’’وہ خود بھی آ رہے ہیں اور انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی لایا جا رہا ہے۔جلولا کے لوگ ہر آنے والے فوجی کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور پھر اس سے وہی حلف لیا جاتا ہے جو دوسروں سے لیا گیا ہے۔مدائن سے بھاگے ہوئے شہری جلولا میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔وہ سب لڑنے کے لئے تیار ہیں۔تیغ زنی اور تیر اندازی کی مشق کرتے رہتے ہیں۔‘‘
بعض مؤرخوں نے جلولا کے دفاعی انتظامات اور شہر میں جو فوج تھی اس کی تفصیلات لکھی ہیں۔اتنی زیادہ فوج کے مارے جانے کے باوجود جلولا میں مقیم فوج مسلمانوں کی نسبت کم و بیش تین گنا زیادہ تھی۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کسی بہروپ میں جلولا گئے اور کچھ دُور سے خندق اور خار دار تار دیکھی۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے امیرالمومنین رضی اللّٰہ عنہ کو آتش پرستوں کی ان تیاریوں کی تفصیل لکھی اور یہ بھی لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فارسیوں کا آخری مضبوط مورچہ ہے اور وہ وہاں آخری معرکہ لڑنا چاہتے ہیں۔
امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہ نے فارسیوں کے دفاعی انتظامات اور تیاریوں کی تفصیلات پڑھ کر لکھا کہ ہاشم بن عتبہ کو بارہ ہزار مجاہدین دے کر جلولا بھیجا جائے۔ہر اول میں قعقاع بن عمرو ہوں گے۔دائیں پہلو پر مشعر بن مالک بائیں پہلو پر عمرو بن مالک اور پیچھے والے حصے کے کماندار عمرو بن مرّہ ہوں گے۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اور بھی کچھ ہدایات دی تھیں۔انہوں نے زور دے کر لکھا کہ ایک ہی بار سارا لشکر جلولا کی لڑائی میں نہ جھونک دینا۔مدائن کا دفاع مضبوط رکھنا۔جلولا سے اپنی پسپائی بھی ہو سکتی ہے۔اس صورت میں مدائن کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔اس مشکل کا حل پہلے ہی تیار رکھنا۔
امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہ کا حکم ملتے ہی سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے بارہ ہزار کا لشکر تیار کیا اور اُسے چار حصوں میں تقسیم کر کے اس کے سالار مقر ر کیے اور انہیں بتایا کہ جلولا میں انہیں کیسا دفاع ملے گا۔
’’۔۔۔۔۔ اور یاد رکھ میرے بھائی کے بیٹے!‘‘ _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے بھتیجے ہاشم بن عتبہ سے کہا ____ ’’تو بڑی سخت آزمائش میں جا رہا ہے۔ہمارا خاندان ناکامی اور شکست کے صرف نام سے واقف ہے۔کبھی شکست کھائی نہیں۔ہم کبھی ناکا م نہیں ہوئے۔اگر تو ناکام رہا تو زندہ واپس نہ آنا۔تیری لاش آئی تو میں اسے نہیں دیکھوں گا۔‘‘
’’کیا مجھے کمک کی امید رکھنی چاہیے؟‘‘ ____ ہاشم نے پوچھا ۔۔۔۔
*=== ( ان شآءاللہ جاری ہے )*
کاپی
❤️
1