دین و دنیا چینل
June 19, 2025 at 02:04 AM
حـجـاز کـی آنـدھـی ⛰️ قـسـط نــمـبـر 96 *’’۔۔۔۔۔ اور یاد رکھ میرے بھائی کے بیٹے!‘‘ _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے بھتیجے ہاشم بن عتبہ سے کہا ____ ’’تو بڑی سخت آزمائش میں جا رہا ہے۔ ہمارا خاندان ناکامی اور شکست کے صرف نام سے واقف ہے۔ کبھی شکست کھائی نہیں۔ ہم کبھی ناکا م نہیں ہوئے۔ اگر تو ناکام رہا تو زندہ واپس نہ آنا۔ تیری لاش آئی تو میں اسے نہیں دیکھوں گا۔‘‘* *’’کیا مجھے کمک کی امید رکھنی چاہیے؟‘‘ ____ ہاشم نے پوچھا ۔۔۔۔* ’’میں تیری پیٹھ پیچھے رہوں گا‘‘ _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’میں خود محسوس کر لوں گا کہ تجھے کمک کی ضرور ت ہے اور وقت سے پہلے تجھے کمک مل جائے گی۔ قعقاع بن عمرو تیرے ساتھ ہے اور تیرے ماتحت دوسرے جو سالار جا رہے ہیں، وہ امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہ کے منتخب کیے ہوئے ہیں۔ اُن میں سے کوئی بھی تجھے دھوکا نہیں دے گا۔ ایسا نہ ہو کہ تو ہی انہیں دھوکا دے جائے۔ یہ بھی سُن لے۔ آگ کے پجاریوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ ہمیں خندق کے باہر ہی تباہ کر کے لاشیں خندق میں پھینک دیں گے۔‘‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے ہاشم بن عتبہ کو بتایا کہ فارس کی فوج کا محصور ہو کر لڑنے کاانداز یہ ہے کہ اس کے دو چار دستے باہر آ کر زور دار حملہ کرتے اور قلعے میں واپس چلے جاتے ہیں۔ ’’میں فارسیوں سے ہی لڑتا آ رہا ہوں‘‘ ____ہاشم نے کہا ____ ’’اگر میں قادسیہ اور بُہرشیر کی لڑائی میں بزدل نہیں رہا تو اب بھی بزدل نہیں بنوں گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ میں جلولا کی طرف چل پڑوں؟‘‘ ’’ہاں میرے بھائی کے بیٹے!‘‘ _____ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے کہا ____ ’’ﷲ حافظ۔ تو ہر جگہ ﷲ کو اپنے ساتھ پائے گا۔‘‘ ہاشم بن عتبہ کا لشکر فجر کی نماز پڑھ کر چلا اور سورج غروب ہونے سے پہلے جلولا پہنچ گیا۔ ہاشم اور اس کے سالاروں کو بتا دیا گیا تھا کہ جلولا کے دفاعی انتظامات کیا ہیں۔ لیکن انہوں نے وہاں جا کر یہ انتظامات دیکھے تو پریشان ہوگئے۔وہاں تو محاصرے میں بیٹھنے والی بات تھی۔ دیوار تک پہنچنا ہی ناممکن تھا۔اتنی چوڑی خندق اور جہاں تین چار جگہوں پر خندق نہیں راستے تھے ، وہاں لوہے کے نوکیلے تاروں کے گچھے تھے ۔ شہر کی دیوار پر شہری اور فوجی کھڑے قہقہے لگا رہے تھے اور آوازے کَس رہے تھے۔ دو دروازے کھلے اور بہت سے لوگ خندق کے دو راستوں تک دوڑے آئے۔انہوں نے بہت تیزی سے اُن راستوں سے تار ہٹا دیئے۔ فوراً ہی شہر کے کھلے ہوئے دروازوں سے گھوڑ سواروں کا سیلاب نکلا اور ان دونوں راستوں سے ہی باہر آ کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔مسلمان ابھی ایسی ناگہانی آفت کے لئے تیار نہیں تھے۔پھر بھی انہوں نے ان سواروں کا مقابلہ کیا۔ ’’اُن کی واپسی کے راستے روک لو‘‘ ____ یہ قعقاع بن عمرو کی گرجدار آواز تھی، جو بار بار گرجتی تھی۔ مجاہدین نے بھی ’’اُن کے راستے روک لو‘‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔فارسی سواروں نے ضرب لگاؤ اور بھاگو کے اصول پر حملہ کرنا، زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اور واپس چلے جانا تھا۔ ان کے کانوں میں جب یہ للکار پڑی کہ ان کے واپسی کے راستے بند کر دو تو ان کا دھیان آگے کے بجائے پیچھے کو ہو گیا۔ وہ زندہ سلامت واپس جانے کی کوشش کرنے لگے۔ مسلمان راستے تو بند نہ کر سکے لیکن تیر انداز مجاہدین نے انہیں بہت نقصان پہنچایا۔راستے تنگ تھے اور ہر سوار دوسروں سے پہلے واپس چلے جانے کی کوشش میں تھا۔اس لیے سوار ان تنگ راستوں میں پھنس گئے۔ مجاہدین نے تلواروں اور برچھیوں سے بھی انہیں بہت نقصان پہنچایا۔ مجاہدین کا نقصان معمولی تھا۔ راستے پھر نوکیلی تاروں سے بند کر دیئے گئے۔ مجاہدین نے مرے ہوئے فارسیوں کو خندق میں پھینکنا شروع کر دیا۔ زخمی گھوڑوں کو بھی خندق میں دھکیل دیا۔ تصور میں لائیں کہ مجاہدین کی تعداد صرف بارہ ہزار تھی اور جلولا ایک بڑا شہر تھا۔ اس کے محاصر ے میں بارہ ہزار مجاہدین بالکل نا کافی تھے۔ اندر سے حملہ آنے کی صورت میں مجاہدین کو اکٹھا ہونا پڑتا تھا ، جس سے محاصرہ ٹوٹ جاتا تھا۔شہر کے ایک طرف محاصرہ ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس طرف پہاڑی تھی اور اس میں سے ایک راستہ شہر میں آتا تھا۔یہ راستہ حلوان اور جلولا کو ملاتا تھا۔اس سے فارسیوں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ کمک اور رسد آسانی سے بھیج سکتے تھے۔پہلے حملے میں جلولا کے جتنے فوجی مارے گئے حلوان سے اس سے زیادہ فوجی جلولا بھیج دیئے گئے۔ ٭یہی معمول بن گیا۔دو دن گزرتے تھے تو جلولا سے سوار نکلتے اور اسی طر ح حملہ کرتے جس طرح انہوں نے پہلا حملہ کیا تھا۔ہر حملے میں بہت سے فارسی گھوڑ سوار اور پیادے ہلاک یا زخمی ہو کر پیچھے رہ جاتے اور باقی واپس چلے جاتے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے زخمیوں کو مدائن لے جانے اور ان کی جگہ تازہ دم مجاہدین کو جلولا بھیجنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ مدائن سے انہیں گھوڑا گاڑیاں اور بیل گاڑیاں مل گئی تھیں۔ دو مہینے گزر گئے۔پہلے دن سے ہی پوران نے اپنا یہ معمول بنا لیا تھا کہ جلولا کے اندر فوجیوں کو اکٹھا کر کے بڑی ہی جذباتی اور جوشیلی تقریر کرتی ، جس سے فوجیوں کے حوصلوں میں نئی جان پیدا ہو جاتی اور ان کے جذبے بیدار ہو جاتے۔وہ شہریوں کو بھی اسی طرح تقریریں کر کے مشتعل کرتی رہتی تھی۔ دو مہینوں میں جلولا والوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان ہو چکا تھا ، جو شہریوں کیلئے نا قابلِ برداشت تھا۔فوجیوں کے ساتھ شہر کے لوگ بھی باہر آ کر مسلمانوں پر حملے کرتے اور مارے جاتے یا زخمی ہوتے تھے۔زخمیوں کو پیچھے ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔انہیں مسلمان مدائن بھیج دیتے تھے۔یہ جنگی قیدی تھے جنہیں مدینے جا کر غلاموں کی طرح فروخت ہونا تھا۔ ایک روز پوران حسبِ معمول شہر کے گشت کے لئے نکلی تو ایک جگہ بہت سی عورتوں نے اسے گھیر لیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ پوران کو بولنے کا موقع نہ ملا۔عورتوں نے اسے دیکھتے ہی ہنگامہ بپا کر دیا۔جوں جوں عورتوں کا شور و غل بڑھتا جا رہا تھا۔عورتوں کے ہجوم میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ عورتیں بھول گئی تھیں کہ پوران ملکہ تھی یا شہنشاہِ فارس کی سوتیلی بہن ہونے کی وجہ سے اب بھی اس کا درجہ ملکہ جیسا ہے اور یہ وہ شاہی خاندان ہے، جو قتل کو یوں سمجھتا ہے جیسے دو چار مکھیاں مار ڈالی ہوں۔ ’’پوران تو ماں ہوتی تو تجھے اُن ماؤں کے دلوں کی حالت معلوم ہوتی، جن کے جوان بیٹے تو نے باہر بھیج کر مروا دیئے ہیں۔‘‘ ’’تو نے شادی نہیں کی تو بیوہ ہوتی تو ……‘‘ ’’تیرا کوئی بھائی نہیں مرا پوران‘‘ ’’تو ملکہ ہے‘ تجھے کیا غم‘‘ ’’ہماری دولت یہی لڑکے تھے جنہیں تو نے مروا دیا ہے۔‘‘ عورتیں واویلا بپا کیے جا رہی تھیں۔اُن کے بیٹے بعض کے بھائی باپ اور خاوند پوران کی للکار پر جوش میں آ کر فوج میں شامل ہو گئے تھے اور گزشتہ دو مہینوں میں فوج سے مل کر شہر سے باہر مسلمانوں پر حملے میں شامل ہوتے رہے اور مارے جاتے رہے تھے۔ ’’کیا تم اپنے ملک کے لئے کوئی قربانی دینا نہیں چاہتیں؟‘‘ ____ پوران کو بڑی مشکل سے یہ کہنے کا موقع ملا ____ ’’کیا تم نہیں جانتیں کہ اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو تمام جوان لڑکیوں کو یہ وحشی عرب اپنی لونڈیاں اور کنیزیں بنا لیں گے۔‘‘ ’’تم اپنے بھائی کو باہر کیوں نہیں نکالتیں؟‘‘ ____ ایک عورت نے کہا _____ ’’یہ ملک ہمارا نہیں یہ یزدگرد اور اس کے خاندان کا ملک ہے۔یہ بزدل اور عیاش فوج کا ملک ہے۔بیٹے ہمارے مرواتی ہو ،عیش و عشرت تمہارا خاندان کرتا ہے۔‘‘ وہاں تو بغاوت جیسی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔اُن حالات میں کہ شہر محاصرے میں تھا اور فوج کی خاصی نفری ماری گئی تھی، اُن لوگوں کو جبر و تشدد سے دبانا خطرناک تھا۔پوران دیکھ رہی تھی کہ پہلے صرف عورتیں پھر مرد بھی جمع ہونے لگے تھے۔اُن میں سے بعض نے مدائن کے طعنے بھی دیئے۔ پوران تو دب کے رہ گئی۔اُس نے عورتوں کو تسلی دلاسا دیا۔اپنے مخصوص اور پر اثر انداز میں بول کر اس نے مردوں کو بھی ٹھنڈا کر دیا ، مگر خود اتنی مضطرب اور پریشان ہو گئی کہ گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے چلی تو اس کا سر اوپر نہیں اُٹھ رہا تھا۔ اُس نے ایک جگہ جرنیلوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ سب حلوان پہنچیں۔وہ خود بھی حلوان پہنچ گئی۔ مہران، فیروزان اور خرزاد اس کے پیچھے پیچھے حلوان پہنچے۔پوران انہیں یزدگرد کے پاس لے گئی۔ ’’معلوم ہوتا ہے جلولا کی شکست بھی ہماری قسمت میں لکھ دی گئی ہے‘‘ ____پوران نے کہا ____ ’’آج جلولا کی عورتوں نے مجھے جو طعنے دیئے ہیں وہ تم سُنتے تو دجلہ میں ڈوب مرنے کے لئے چل پڑتے۔لیکن تم دجلہ میں ڈوب مرنے کے حق سے بھی محروم کر دیئے گئے ہو۔دجلہ اب تمہارا نہیں رہا۔‘‘ ’’کیا تم تینوں جرنیل بتا سکتے ہو کہ ہماری فوج میں کس چیز کی کمی ہے؟‘‘ ____ یزدگرد نے اپنے جرنیلوں سے پوچھا ۔ ’’حوصلے کی۔‘‘ ____ مہران نے جواب دیا ____ ’’عربوں کی تعداد دس سے بارہ ہزار تک ہے لیکن ان کا حوصلہ مضبوط ہے۔وہ شکست کھانے کے بجائے مر جانے کو بہتر سمجھتے ہیں۔پے بہ پے فتوحات نے بھی ان کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں۔ہماری فوج پر ان کا خوف غالب آ گیا ہے۔جب سے انہوں نے گھوڑوں کی پیٹھ پر دجلہ پار کیا ہے ہماری فوج میں یہ بات پورے یقین سے تسلیم کر لی گئی ہے کہ مسلمان جن بھوت ہیں یا اُن کے پاس کوئی جادو ہے۔ہم نے انہیں بہت سمجھایا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت نہیں لیکن ہمارے سپاہی جب ان کے سامنے جاتے ہیں تو بھاگنے کا راستہ پہلے دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ ’’شہنشاہِ فارس!‘‘ _____ فیروزان نے کہا ______ ’’مسلمان اپنے عقیدے کے پکے ہیں۔‘‘ ’’اُن باتوں کا ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔‘‘ _____ پوران نے کہا _____ ’’میں نے تمہیں یہ رائے دینے کے لئے نہیں بلایا کہ عقیدہ کس کا پکا اور کس کا سچا ہے۔میں تم سب کو یہ بتا رہی ہوں کہ ہم نے جلولا کا محاصرہ توڑ کر عربوں کو پسپانہ کیا تو جلولا کے شہری ہمارے قابو سے نکل جائیں گے۔وہ باغی ہو جائیں گے تو اپنی فوج کے لئے ایک مُصیبت بن جائیں گے۔وہ دروازے کھول کر باہر نکل جائیں گے اور خندق کے رستوں سے تار ہٹا دیں گے ۔۔۔۔۔ تم بھی غور کرو یزدی! ہمیں کچھ کرنا چاہیے اور بہت جلدی کرنا چاہیے۔‘‘ ’’یہ میں پہلے ہی سوچ چکا ہوں۔‘‘ ____ مہران نے کہا ____ ’’ہمیں اپنی پوری فوج سے عربوں پر حملہ کرنا چاہیے۔ محاصرے کو پچھتر دن گزر گئے ہیں۔ہم بہت جانی نقصان اُٹھا چکے ہیں۔مجھے پوری امید ہے کہ میں ایک بھی عربی کو زندہ واپس نہیں جانے دوں گا۔میں پوری فوج سے حملہ نہیں کروں گا۔حملہ آدھی فوج سے ہو گا۔یہ دستے تھکنے لگیں گے تو آہستہ آہستہ پیچھے آنا شروع کر دیں گے اور باقی آدھی فوج جو شہر میں تیار ہو گی، وہ باہر آ جائے گی اور لڑائی جاری رہے گی ۔۔۔۔۔ عرب اتنی کم تعداد میں ہیں کہ لڑائی جاری نہیں رکھ سکیں گے۔‘‘ ’’یہ حملہ کب ہو سکے گا؟‘‘ _____ یزدگرد نے پوچھا۔ ’’تین چار دنوں بعد۔‘‘ ____ مہران نے جواب دیا _____ ’’میں اور فیروزان فوج کے ساتھ باہر جائیں گے۔ہم ساتھ ہوں گے تو فوج جم کر لڑے گی۔‘‘ ’’جاؤ!‘‘ ____ یزدگرد نے کہا _____ ’’ابھی تیاری شروع کر دو۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ *==== ( ان شآءاللہ جاری ھے )* کاپی
❤️ 👍 6

Comments