دین و دنیا چینل
June 20, 2025 at 10:31 AM
--- *راہِ حق کی تلاش* حضرت ابوذر صحابی کا بیان ہے کہ میرا بھائی انیس ایک مرتبہ مکہ معظمہ گیا۔ اس نے واپس آ کر مجھے بتایا کہ مکہ میں ایک شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ بھائی نے کہا کہ کوئی انہیں شاعر کہتا ہے، کوئی کاہن بتلاتا ہے، کوئی جادوگر کہتا ہے۔ میرا بھائی انیس خود بڑا شاعر اور کہانت وغیرہ سے واقف آدمی تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیا، لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں۔ ان کا کلام نہ شعر ہے، نہ کہانت ہے، نہ مجنونانہ کلمات ہیں، بلکہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا اور مسجد حرام میں آ کر ٹھہر گیا۔ تین روز میں نے اس طرح گزارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا۔ اس تمام عرصے میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف محسوس ہوئی، نہ کوئی ضعف محسوس کیا۔ (خصائص، صفحہ: ۱۱۶، جلد: ۱) واپس گئے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے روم اور فارس کے فصحاء و بلغاء کے کلام بہت سنے ہیں، اور کاہنوں کے کلمات اور جمیروں کے مقالات بھی بہت سے سنے ہیں۔ محمد ﷺ کے کلام کی مثال میں نے آج تک کہیں نہیں سنی۔ تم سب میری بات مانو اور آپ کا اتباع کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے سال میں ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ (خصائص، صفحہ: ۱۱۶، جلد: ۱) اسلام اور آنحضرت ﷺ کے سب سے بڑے دشمن، ابو جہل اور اخنس بن شریق وغیرہ بھی لوگوں سے چھپ کر قرآن سنا کرتے، اور اس کے عجیب و غریب، بے مثل و بے نظیر اثرات سے متاثر ہوتے تھے۔ مگر جب قوم کے کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ جب تم اس کلام کو ایسا بے نظیر پاتے ہو تو اسے قبول کیوں نہیں کرتے؟ تو ابو جہل کا جواب یہ تھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بنی عبد مناف اور ہمارے قبیلے میں ہمیشہ سے رقابت اور معاصرانہ مقابلہ چلتا رہتا ہے۔ وہ جس کام میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم بھی اس کا جواب دیتے ہیں۔ اب جب کہ ہم اور وہ دونوں برابر حیثیت کے مالک ہیں، تو وہ یہ کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے۔ اب ہم اس میں کیسے ان کا مقابلہ کریں؟ میں تو کبھی اس کا اقرار نہ کروں گا۔ (خصائص)

Comments