محبین دار العلوم دیوبند Darul Uloom Deoband
June 21, 2025 at 06:07 AM
*وجودِ باری تعالٰی*
*دلائل عقلیہ و واقعاتی دلائل کی روشنی میں !*
*✍🏻راقم ۔۔۔(عبدالرحمن ابن عبدالباسط القاسمی حضورابادی)*
*_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_*
وجودِ باری تعالٰی کا ثبوت جسطرح دلائلِ شرعیہ سے ملتا ہے بعینہ اسیطرح دلائل عقلیہ سے بھی ملتا ہے ۔
انسانی فطرت خود اس بات کو قبول کرتی ہے کہ انسان خود بخود وجود میں نہیں آیا بلکہ کوئی ہے جو اسکا خالق ہے ۔
*اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کائنات کا وجود خود بخود متحقق ہوگیا ہے ؟ یا اسکا کوئی خالق و موجد ہے ؟*
اگر اسکا کوئی یہ جواب دے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آئی ہے تو انسانی عقل خود اس جواب کو تسلیم نہیں کرتی کیوں کہ نہ اسکا امکان پہلے تھا نہ اب ہے اور نہ ہی آگے رہے گا۔ اس لئے کہ جو چیز پہلے سے معدوم تھی ( جو پہلے تھی ہی نہیں) تو وہ خود بخود وجود میں بھلا کیسے آسکتی ہے ۔ مثلاً کہیں خالی میدان ہے وہاں پہلے مکان تھا ہی نہیں لیکن بعد میں کچھ دنوں بعد وہاں مکان پایا گیا تو اب کیا انسانی عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ وہاں مکان کا وجود تعمیر کرنے والے کے تعمیر کئے بغیر ہی خود بخود وجود میں آگیا ہے ؟
کیا خدا کے وجود کے منکرین اسکو تسلیم کرتے ہیں ؟
نہیں ہرگز نہیں ؛ نہ وہ اسکو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی بقیہ انسانی عقلیں اسکو تسلیم کرتی ہیں۔ کیوں کہ چو چیز پہلے سے موجود ہی نہیں تھی ، اسکا وجود ہی نہیں تھا ، تو وہ کیسے بغیر کسی بنانے والے کے وجود میں آسکتی ہے ؟
اگر آپ خود منکرین وجودِ باری تعالٰی سے سوال کریں کہ اگر کوئی شخص ان سے آکر یہ کہے کہ یہ ہوائی جہاز ہے اسمیں ہزاروں لوگ ہیں اور یہ خود بخود اڑ رہا ہے نہ کوئی اسکو چلانے والا ہے اور نہ ہی کوئی منتظم ، تو کیا انکی بھوسی عقلیں اس بات کو قبول کرے گی ؟
نہیں کریں گی ؛ بلکہ وہ خود اس کہنے والے کو پاگل اور بیوقوف کہیں گے ۔
جب اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے متعلق یہ عقیدہ ہوکہ یہ چیزیں خود بخود وجود میں نہیں آسکتی ہیں بلکہ اسکے وجود میں آنے کے لئے کسی ایسے شخص کا ہونا
ضروری ہے جو اسکو بنانے والا ہو ورنہ اسکے برعکس عقل اسکو محال قرار دے گی ، تو یہ جو دنیوی نظام ہے ، رات کا آنا دن کا چلا جانا اور دن کا آنا رات کا چلا جانا ، سورج کا مشرق سے نکلنا اور مغرب میں ڈوبنا ، بارش کا برسنا ، ہواؤں کا چلنا ، موسموں کا بدلنا ، گرمی کا ہونا ، سردی کا ہونا ، یہ ایسی حسی چیزیں ہیں کہ جنکو انسان صبح شام محسوس کرتا ہے اسی کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اتنا خوبصورت اور بڑا نظام کیسے خود بخود وجود میں آسکتا ہے کیسے بغیر کسی کے چلائے اتنا بڑا نظام چل سکتا ہے ۔ جبکہ ایک چھوٹی سی گاڑی جسکی اس دنیوی نظام کے سامنے بالکل کوئی حیثیت نہیں ہے وہ بغیر کسی کے چلائے نہیں چل سکتی تو یہ اتنا بڑا نظام کیسے چل سکتا ہے ؟۔ جب عقل اس پر غور کرے گی تو خود بخود اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوجائے گی کہ ضرور کوئی نا کوئی ہے جس نے اس دنیا کو پیدا کیا اور اسکو چلا رہا ہے ۔ اور وہ اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے ۔
*(جب جب بھی ہمارے اکابرین کے سامنے اس طرح کے دہریہ لوگ آئے ، منکرین وجودِ باری تعالٰی سے انکا آمنا سامنا ہوا تو ایسے ہی عقلی دلائل سے انہیں زیر کرکر ایسا مسکت جواب دیا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ واقعتاً کوئی صانع ہے جس نے اس دنیا کو بنایا بھی ہے اور اس دنیوی نظام کو چلا بھی رہا ہے ۔)*
اب اس موضوع کو کچھ واقعاتی دلائل سے اور واضح کریں گے ۔
*====== چنانچہ======*
ایک مرتبہ امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ مسجد میں تشریف فرما تھے دہریوں کے خلاف آپ ننگی تلوار تھے ، ایک دن دہریہ لوگ اپنی تلواریں تان کر اس منصوبے سے نکلے تاکہ امامِ اعظم کو قتل کریں ۔ وہ لوگ ایک دن امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے پاس آ دھمکے اور وجودِ باری تعالٰی کے متعلق سوال کیا : تو آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت ایک بڑی سوچ میں ہوں ، لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ایک بڑی کشتی جس میں مختلف قسم کا تجارتی سامان ہے مگر نہ کوئی اسکا کپتان ہے نہ ہی کوئی منتظم ہے مگر اسکے باجود وہ چل رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خودبخود چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے جہاں رکنا ہے وہاں رک جاتی ہے پھر خود بخود آگے بڑھتی ہے ، نہ کوئی کپتان ہے نہ کوئی ملاح ، تو سوال کرنے والے دہریوں نے کہا کہ آپ کس سوچ میں پڑگئے ہیں ؟ ایک عقلمند آدمی ایسے کیسے سوچ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اپنے آپ بغیر منتظم و ملاح کے چلے گی ۔ تو اس وقت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کہ افسوس ہے تمہاری عقلوں پر کہ ایک کشتی بغیر چلانے والے کے نہیں چل سکتی تو اتنا بڑا دنیوی نظام ، آسمان و زمین کی تمام چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی ہیں اور اسکا صانع مالک و خالق کوئی نہ ہو ؟ یہ جواب سن کر وہ دہریہ لوگ دنگ رہ گئے اور لا جواب ہوگئے اور اپنی تلواروں کو نیچے کیا اور توبہ کرکر اسلام لے آئے ۔ *( تفسیرِ کبیر ، ص333، جلد نمبر 1 ) ۔*
*_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_-_*
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ بھی ہے ۔
ایک مرتبہ امامِ مالک رحمۃ اللہ علیہ سے وجودِ باری تعالٰی کے متعلق ہارون رشیدنے پوچھا کہ اللہ کے وجود کی کیا دلیل ہے ؟
تو امامِ مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کہ زبانوں کا مختلف ہونا ، آوازوں کا مختلف ہونا ۔ *( تفسیرِ کبیر ، ص، 334 ، جلد نمبر 1) ۔* یعنی ہر جگہ اپنی اپنی الگ زبانیں ہیں ، ہر انسان کی آواز دوسرے سے الگ ہے ، ہر ایک کا لب و لہجہ دوسرے سے الگ ہے ، تو پتہ چلا کہ یہ سب اختلافات قدرتی نظام کے تحت ہے اور اسکا کوئی نہ کوئی مالک و خالق ہے اور وہی اللہ رب العالمین ہے ۔
ایک دوسری مرتبہ امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے وجودِ باری تعالٰی پر دلیل پوچھی گئی تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے فرمایاکہ تم نے یہ نہیں دیکھا کہ والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ انکو لڑکا پیدا ہو لیکن انکے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے اور وہ کبھی چاہتے ہیں کہ لڑکی پیدا ہو لیکن لڑکا پیدا ہوتا ہے ۔ تو پتہ چلا کہ کوئی ایسی ذات ہے جو والدین کی خواہشات کی تکمیل میں مانع ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے یہ وہی ذات ہے جسکو ہم اللہ کہتے ہیں ۔ *( تفسیرِ کبیر ، ص 333 کے اخیر سطر ، جلد نمبر 1) ۔*
یہ ہوئے وہ تمام واقعاتی دلائل جو وجودِ باری تعالٰی پر واضح طور پر دلالت کرتے ہیں ۔ اور ایسے واقعات ہیں کہ جو صرف واقعہ کی حد تک نہیں بلکہ ہمارے لئے ایک ایڈیل اور نمونہ ہے کہ جب جب ہمارا وجودِ باری تعالٰی کے منکرین سے سامنا ہو تو ہم بھی ہمارے اکابرین و اسلاف کیطرح عقلی دلائل کے ذریعے سے لاجواب کرکر وجودِ باری تعالٰی کو پرزور طریقے سے ثابت کریں ۔ اور یہ ایسے دلائل ہیں جسکو جان کر بہت سے لوگوں نے صحیح راستہ پایا ہے انہوں نے انہیں عقلی دلائل سے خدا کے وجود کا اقرار کیا ہے ۔
یہ ہوئی وہ تمام بحث جو وجودِ باری تعالٰی کے متعلق مدلل ذکر کی گئی ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہمارے اکابرین کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے آمین ثم آمین ۔
❤️
👍
😂
8