
مرغوب المسائل چینل
June 22, 2025 at 01:17 AM
حضرت مولانا علی میاں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب (ناظم ندوة العلماء) کے حکم سے ۱۳۵۱ھ میں دیوبند تشریف لائے۔اور حضرت مدنی کے حلقہٴ درس میں بیٹھ کر چار ماہ بخاری و ترمذی پڑھی۔ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے فقہ اور قاری اصغر علی صاحب سے روایت حفص کے مطابق تجوید کا درس لیا۔ مولانا ایک موقع پر اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: ”میں اس سعادت و توفیق پر اللہ تعالی کے سامنے سجدہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے دارالعلوم دیوبند، حضرت شیخ الاسلام مدنی کی زندگی میں طالب علمانہ اور نیاز مندانہ حاضری اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں اس کو اپنے لیے سرمایہٴ سعادت سمجھتا ہوں اور اس سے اللہ تعالی کے یہاں بڑی امیدیں رکھتا ہوں۔میں اس بات پر جتنا فخر کروں کم ہے۔“ (۱۰) پاجا سراغ ِ زندگی، ص ۱۲۶)
حضرت مولا نا نے اکابر دیوبند سے کیا حاصل کیا؟
حضرت مولانا کے علم و ادب کی تاریخ تو سراسر ندوة العلماء سے وابستہ ہے۔ لیکن آپ کی روحانی ، فکری، اور اخلاقی تاریخ کا سہرا اکابر دیوبند کے سر ہے۔ اسی لیے یہ بات پورے وثوق اور اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت مولانا کی تاریخ اکابر دیوبند کے ذکر کے بغیر ادھوری در ادھوری ہے۔آپ کی فکر میں انقلابی سوز وساز، قلم میں زبردست تسخیری طاقت اور مزاج میں عزیمت و استقلال اور توازن و اعتدال پیداکرنے میں اکابر دیوبند کا ہاتھ ہے، جس سے آپ مقبول عام اور مشہور آفاق ہوئے؛ کیوں کہ شہرت و مقبولیت کی بنیاد زبان و ادب سے کہیں زیادہ فکر کی گہرائی ، نگاہ کی بلندی اور خیالات کی پرواز پر ہوتی ہے۔ خود حضرت مولانا نے پوری اخلاقی جرأت کے ساتھ اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے: ”میری زندگی میں وہ بڑا مبارک دن اور بڑی سعید گھڑی تھی جب مولانا احمد علی صاحب لاہوری امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ لاہور سے نیاز حاصل ہوا۔ میری زندگی کے دو بڑے موڑ ہیں جہاں سے زندگی نے نیا راستہ (اور جہاں تک میرا خیال ہے بہتر اور مبارک راستہ) اختیار کیا۔ پہلا موڑ جب مولانا احمد علی صاحب سے تعلق پیدا ہوا۔ دوسرا موڑ اس وقت آیا جب خدا نے مولانا محمد الیاس صاحب کے پاس پہنچایا ۔ اگر مولانا احمد علی صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تو میری زندگی اچھی یا بری ، بہر حال موجودہ زندگی سے بہت مختلف ہوتی، اور شاید اس میں ادب و تاریخ اور تصنیف و تالیف کے سوا کوئی ذوق اور رجحان نہ پایا جاتا۔ “ (پرانے چراغ، جلد اول، ۱۳۴)
حضرت مولانا احمد علی لاہوری حضرت شیخ الہند کے شاگرد حدیث اور دارالعلوم دیوبند کے مجاہد جلیل مولانا عبیداللہ سندھی کے انقلابی افکار کے سب سے بڑے وارث وامین تھے۔اسی طرح حضرت مولانا محمد الیاس صاحب خوانِ شیخ الہند کے خوشہ چیں اور قاسم العلوم ولخیرات حضرت نانوتوی کی بے چین روح کی زندہ تصویر تھے۔حضرت مولانا علی میاں نے دونوں سے بھرپور استفادہ کیا اور خود مولانا ہی کے بقول آپ کی زندگی میں یہیں سے انقلاب برپا ہوا۔
حضرت مولانا نے اپنی مختلف تحریروں میں علمائے دیوبند کی علمی و دینی خدمات اور ان کے تجدید و احیائے دین کے عظیم الشان کارناموں کا جو اعتراف فرمایا ہے وہ اس مختصر مضمون کے دائرہ سے باہر ہے۔حضرت شیخ الاسلام مدنی، مولانا احمد علی لاہوری، اور مولانا محمد الیاس، حضرت مولانا عبد القادر رائپوری کے علاوہ علمائے دیوبند کی ایک طویل فہرست ہے جن سے مولانا مرحوم کے انتہائی قریبی، نیازمندانہ و ارادتمندانہ یا محبانہ و دوستانہ تعلقات تھے۔حضرت مولانا نے جن حضرات سے اپنے تعلق و محبت اور نیاز مندی و ارادت کا کھل کر تذکرہ کیا ہے ان میں حکیم الامت حضرت تھانوی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب، سلطان القلم حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی،مصلح الامت حضرت مولانا وصی اللہ ،حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب اور مولانا سعید احمد اکبرابادی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔دارالعلوم دیوبند کے مایہٴ ناز فرزند حضرت مولانا منظور احمد نعمانی سے آپ کے قدیمی محبانہ و مخلصانہ تعلقات تو کسی ایسے شخص سے مخفی نہ ہوں گے جسے آپ کی شب و روز کی سرگرمیوں کا قدرے بھی علم ہوگا۔مولانا نعمانی آپ کے یار غار تھے، جذبہ و فکر کے اتحاد اور دعوتی مزاج و مذاق نے آپ دونوں کو باہم اس طرح وابستہ کردیا تھا جیسے گلاب کے ساتھ خوشبو۔(تفصیل کے لیے دیکھیں: سوانح حضرت مولانا شاہ عبد القادر، پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۰۵، ۱۱۹، ۶۲،۹۳،پرانے چراغ سوم ۱۳۱،۱۴۳)
دار العلوم دیوبند اور ندوة العلماء لکھنوٴ
حضرت مولانا ایک جگہ رقمطراز ہیں : ” دارالعلوم دیوبند محض ایک دینی درسگاہ ہی نہیں جس کو ازہر ہندکہنا ہر طرح درست ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے وہ جامعہ ازہر مصر سے بھی فائق ہے۔ اصلاح عقائد اور اشاعت کتاب وسنت کی تاریخ سازدعوت ہے ،وہ درحقیقت خاندان ولی اللہی کے تجدید ی کارنامے کاامتداد او رتسلسل ہے“۔ (کاروان زندگی،جلد دوم ، ۳۰۰)
حضرت مو لانا نے اپنی ایک کتاب میں ہندوستان کی دینی تحریکوں اور تجدیدی کارگاہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے نمبر پر دارالعلوم دیوبند کا تعارف کر اتے ہوئے لکھا ہے : ”اس تحریک او راس کے قائدین نے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر دین کی محبت شریعت کے مقابلے میں زبردست استقامت وصلابت پیداکر دی (جوکسی اور ایسے ملک میں دیکھنے کو نہ ملی جس کا مغربی تہذیب اورمغر بی اقتدار سے واسطہ پڑاہو ) دیوبند اس رجحان کا علم برادار اور ہندوستان میں قدیم اسلامی ثقافت وتہذیب وتربیت کا سب سے بڑامرکزتھا۔“ (مسلم ممالک میں اسلامیت ومغربیت کی کش مکش، ص۹۰)
حضرت مولانا بڑے ہی وسیع الظرف اور معتدل مزاج تھے، انھوں نے نظریاتی اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر حقائق کا اظہار و اعتراف کیا ہے۔ ندوہ اور دیوبند میں نظریہٴ تعلیم اور طرز فکر کے اختلاف کے علاوہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے جیسا کہ گذشتہ سطور سے اندازہ ہوتا ہے۔ بعض حقیقت ناشناس اور متعصب و تنگ نظر یہ سمجھتے ہیں کہ ندوہ اور دیوبند دو الگ الگ مکتبِ فکراور مختلف فکری دھاروں کانام ہے، مگر حضرت مولانا نے دونوں کو ایک ہی شمع کی روشنی ، ایک ہی دل کی آواز اور ایک ہی مقصد کا حامل قرار دیاہے۔ایک تقریر میں آپ طلبہٴ دیوبند سے خطاب فرمارہے ہیں: ”ملک میں تجدید و احیائے دین کا جو کچھ کام ہوا ہے وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان کا کارنامہ ہے۔ کیا دیوبند کیا سہارن پور، کیا دہلی ،کیا لکھنوٴ؟ ہم سب انھیں کے خوان نعمت کے ریزہ چیں ہیں۔ عزیزو! مولانامحمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوة العلماء کو کس چیز نے تڑپایا ؟ ایک کو یہاں دوسرے کو وہاں۔ میں ان دونوں میں کچھ فرق نہیں سمجھتا،ایک ہی نور باطن اور ایک ہی فراست ایمانی دونوں میں کام کرہی ہے۔“ (پاجا سراغِ زندگی)
*حضرت مولانا علی میاں ندوی اور دیوبند (بالاختصار)*
*جولائی 17, 2010admin
*محمد اللہ خلیلی قاسمی*، *دارالعلوم دیوبند*