
مرغوب المسائل چینل
26 subscribers
About مرغوب المسائل چینل
https://telegram.me/margubulmasail تحقیقی مسائل اور فقہ حنفی کا مدلل مجموعہ جس میں آپ حضرات کو الحمدللہ فقہاء کی عبارت سے مزین مسائل روزانہ بطور استفادہ حاصل ہونگے۔۔ منتظم:محمدمرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

حضرت مولانا علی میاں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب (ناظم ندوة العلماء) کے حکم سے ۱۳۵۱ھ میں دیوبند تشریف لائے۔اور حضرت مدنی کے حلقہٴ درس میں بیٹھ کر چار ماہ بخاری و ترمذی پڑھی۔ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے فقہ اور قاری اصغر علی صاحب سے روایت حفص کے مطابق تجوید کا درس لیا۔ مولانا ایک موقع پر اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: ”میں اس سعادت و توفیق پر اللہ تعالی کے سامنے سجدہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے دارالعلوم دیوبند، حضرت شیخ الاسلام مدنی کی زندگی میں طالب علمانہ اور نیاز مندانہ حاضری اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں اس کو اپنے لیے سرمایہٴ سعادت سمجھتا ہوں اور اس سے اللہ تعالی کے یہاں بڑی امیدیں رکھتا ہوں۔میں اس بات پر جتنا فخر کروں کم ہے۔“ (۱۰) پاجا سراغ ِ زندگی، ص ۱۲۶) حضرت مولا نا نے اکابر دیوبند سے کیا حاصل کیا؟ حضرت مولانا کے علم و ادب کی تاریخ تو سراسر ندوة العلماء سے وابستہ ہے۔ لیکن آپ کی روحانی ، فکری، اور اخلاقی تاریخ کا سہرا اکابر دیوبند کے سر ہے۔ اسی لیے یہ بات پورے وثوق اور اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت مولانا کی تاریخ اکابر دیوبند کے ذکر کے بغیر ادھوری در ادھوری ہے۔آپ کی فکر میں انقلابی سوز وساز، قلم میں زبردست تسخیری طاقت اور مزاج میں عزیمت و استقلال اور توازن و اعتدال پیداکرنے میں اکابر دیوبند کا ہاتھ ہے، جس سے آپ مقبول عام اور مشہور آفاق ہوئے؛ کیوں کہ شہرت و مقبولیت کی بنیاد زبان و ادب سے کہیں زیادہ فکر کی گہرائی ، نگاہ کی بلندی اور خیالات کی پرواز پر ہوتی ہے۔ خود حضرت مولانا نے پوری اخلاقی جرأت کے ساتھ اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے: ”میری زندگی میں وہ بڑا مبارک دن اور بڑی سعید گھڑی تھی جب مولانا احمد علی صاحب لاہوری امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ لاہور سے نیاز حاصل ہوا۔ میری زندگی کے دو بڑے موڑ ہیں جہاں سے زندگی نے نیا راستہ (اور جہاں تک میرا خیال ہے بہتر اور مبارک راستہ) اختیار کیا۔ پہلا موڑ جب مولانا احمد علی صاحب سے تعلق پیدا ہوا۔ دوسرا موڑ اس وقت آیا جب خدا نے مولانا محمد الیاس صاحب کے پاس پہنچایا ۔ اگر مولانا احمد علی صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تو میری زندگی اچھی یا بری ، بہر حال موجودہ زندگی سے بہت مختلف ہوتی، اور شاید اس میں ادب و تاریخ اور تصنیف و تالیف کے سوا کوئی ذوق اور رجحان نہ پایا جاتا۔ “ (پرانے چراغ، جلد اول، ۱۳۴) حضرت مولانا احمد علی لاہوری حضرت شیخ الہند کے شاگرد حدیث اور دارالعلوم دیوبند کے مجاہد جلیل مولانا عبیداللہ سندھی کے انقلابی افکار کے سب سے بڑے وارث وامین تھے۔اسی طرح حضرت مولانا محمد الیاس صاحب خوانِ شیخ الہند کے خوشہ چیں اور قاسم العلوم ولخیرات حضرت نانوتوی کی بے چین روح کی زندہ تصویر تھے۔حضرت مولانا علی میاں نے دونوں سے بھرپور استفادہ کیا اور خود مولانا ہی کے بقول آپ کی زندگی میں یہیں سے انقلاب برپا ہوا۔ حضرت مولانا نے اپنی مختلف تحریروں میں علمائے دیوبند کی علمی و دینی خدمات اور ان کے تجدید و احیائے دین کے عظیم الشان کارناموں کا جو اعتراف فرمایا ہے وہ اس مختصر مضمون کے دائرہ سے باہر ہے۔حضرت شیخ الاسلام مدنی، مولانا احمد علی لاہوری، اور مولانا محمد الیاس، حضرت مولانا عبد القادر رائپوری کے علاوہ علمائے دیوبند کی ایک طویل فہرست ہے جن سے مولانا مرحوم کے انتہائی قریبی، نیازمندانہ و ارادتمندانہ یا محبانہ و دوستانہ تعلقات تھے۔حضرت مولانا نے جن حضرات سے اپنے تعلق و محبت اور نیاز مندی و ارادت کا کھل کر تذکرہ کیا ہے ان میں حکیم الامت حضرت تھانوی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب، سلطان القلم حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی،مصلح الامت حضرت مولانا وصی اللہ ،حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب اور مولانا سعید احمد اکبرابادی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔دارالعلوم دیوبند کے مایہٴ ناز فرزند حضرت مولانا منظور احمد نعمانی سے آپ کے قدیمی محبانہ و مخلصانہ تعلقات تو کسی ایسے شخص سے مخفی نہ ہوں گے جسے آپ کی شب و روز کی سرگرمیوں کا قدرے بھی علم ہوگا۔مولانا نعمانی آپ کے یار غار تھے، جذبہ و فکر کے اتحاد اور دعوتی مزاج و مذاق نے آپ دونوں کو باہم اس طرح وابستہ کردیا تھا جیسے گلاب کے ساتھ خوشبو۔(تفصیل کے لیے دیکھیں: سوانح حضرت مولانا شاہ عبد القادر، پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۰۵، ۱۱۹، ۶۲،۹۳،پرانے چراغ سوم ۱۳۱،۱۴۳) دار العلوم دیوبند اور ندوة العلماء لکھنوٴ حضرت مولانا ایک جگہ رقمطراز ہیں : ” دارالعلوم دیوبند محض ایک دینی درسگاہ ہی نہیں جس کو ازہر ہندکہنا ہر طرح درست ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے وہ جامعہ ازہر مصر سے بھی فائق ہے۔ اصلاح عقائد اور اشاعت کتاب وسنت کی تاریخ سازدعوت ہے ،وہ درحقیقت خاندان ولی اللہی کے تجدید ی کارنامے کاامتداد او رتسلسل ہے“۔ (کاروان زندگی،جلد دوم ، ۳۰۰) حضرت مو لانا نے اپنی ایک کتاب میں ہندوستان کی دینی تحریکوں اور تجدیدی کارگاہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے نمبر پر دارالعلوم دیوبند کا تعارف کر اتے ہوئے لکھا ہے : ”اس تحریک او راس کے قائدین نے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر دین کی محبت شریعت کے مقابلے میں زبردست استقامت وصلابت پیداکر دی (جوکسی اور ایسے ملک میں دیکھنے کو نہ ملی جس کا مغربی تہذیب اورمغر بی اقتدار سے واسطہ پڑاہو ) دیوبند اس رجحان کا علم برادار اور ہندوستان میں قدیم اسلامی ثقافت وتہذیب وتربیت کا سب سے بڑامرکزتھا۔“ (مسلم ممالک میں اسلامیت ومغربیت کی کش مکش، ص۹۰) حضرت مولانا بڑے ہی وسیع الظرف اور معتدل مزاج تھے، انھوں نے نظریاتی اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر حقائق کا اظہار و اعتراف کیا ہے۔ ندوہ اور دیوبند میں نظریہٴ تعلیم اور طرز فکر کے اختلاف کے علاوہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے جیسا کہ گذشتہ سطور سے اندازہ ہوتا ہے۔ بعض حقیقت ناشناس اور متعصب و تنگ نظر یہ سمجھتے ہیں کہ ندوہ اور دیوبند دو الگ الگ مکتبِ فکراور مختلف فکری دھاروں کانام ہے، مگر حضرت مولانا نے دونوں کو ایک ہی شمع کی روشنی ، ایک ہی دل کی آواز اور ایک ہی مقصد کا حامل قرار دیاہے۔ایک تقریر میں آپ طلبہٴ دیوبند سے خطاب فرمارہے ہیں: ”ملک میں تجدید و احیائے دین کا جو کچھ کام ہوا ہے وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان کا کارنامہ ہے۔ کیا دیوبند کیا سہارن پور، کیا دہلی ،کیا لکھنوٴ؟ ہم سب انھیں کے خوان نعمت کے ریزہ چیں ہیں۔ عزیزو! مولانامحمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوة العلماء کو کس چیز نے تڑپایا ؟ ایک کو یہاں دوسرے کو وہاں۔ میں ان دونوں میں کچھ فرق نہیں سمجھتا،ایک ہی نور باطن اور ایک ہی فراست ایمانی دونوں میں کام کرہی ہے۔“ (پاجا سراغِ زندگی) *حضرت مولانا علی میاں ندوی اور دیوبند (بالاختصار)* *جولائی 17, 2010admin *محمد اللہ خلیلی قاسمی*، *دارالعلوم دیوبند*

ایک باپ نے اپنی بیٹی سے کہا تم نے اعزاز کے ساتھ گریجویشن کی ہے، یہ ایک کار ہے جو میں نے کئی سال پہلے خریدی تھی۔ اب کچھ پرانی ہو گئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں یہ آپ کو دے دوں، اسے کسی استعمال شدہ کار ڈیلر کے پاس لے جاؤ اور اس کی قیمت لگواؤ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کو اس کی کتنی پیشکش کرتے ہیں۔ بیٹی استعمال شدہ کار ڈیلر کے پاس گئی، اپنے والد کے پاس واپس آئی، اور کہا، "انہوں نے مجھے $1,000 کی پیشکش کی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ کافی پرانی لگ رہی ہے۔" باپ نے کہا اب اسے کباڑئیے کی دکان پر لے چلو۔ بیٹی کباڑئیے کی دکان پر گئی، اپنے والد کے پاس واپس آئی، اور کہا، " کباڑئیے نے صرف 100 ڈالر کی پیشکش کی ہے کیونکہ یہ ایک پرانی گاڑی ہے۔" باپ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اب کسی بڑے کار کلب میں جائے اور انہیں گاڑی دکھائے۔ بیٹی اس کے بعد گاڑی ایک بڑے کار کلب لے گئی، واپس آئی اور اپنے والد سے کہا، "کلب کے کچھ لوگوں نے اس کے لیے $100,000 کی پیشکش کی ہے کیونکہ یہ نسان اسکائی لائن R34 ہے، یہ ایک مشہور کار ہے اور بہت سے پرآنی کاروں کو جمع کرنے والے اس کی تلاش میں تھے۔" اب باپ نے اپنی بیٹی سے کہا، "صحیح جگہ آپ کی صحیح قدر کا تعین کرتی ہے،" اگر آپ کی قدر نہیں کی جاتی ہے تو ناراض نہ ہوں، اس کا مطلب ہے کہ آپ غلط جگہ پر ہیں۔ جو لوگ آپ کی قدر جانتے ہیں وہی آپ کی قدر کرتے ہیں...... کبھی ایسی جگہ مت ٹھہرو جہاں آپ کی قدر نہ ہو ۔ اپنے آپ کو وہاں رہنے پر مجبور نہ کریں جہاں آپ کا احترام نہیں کیا جاتا... جہاں آپ کی قدر ہو وہیں رہیں.

*🌻داعی کی ضرورت تین چیزیں* *1️⃣﴿رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ﴾* اے ﷲ ! جو بات میں سمجھانا چاہتا ہوں میرے اوپر کھول دے، بات مجھے اچھی طرح سمجھ آئے تاکہ مجھے سمجھانے میں دقت نہ ہو۔ داعی کی ضرورت یہ ہے کہ جو بات دوسروں کو سمجھانا چاہتا ہے وہ خود اچھی طرح سمجھے، آپ عقیدہ سمجھانا چاہتے ہیں تو پہلے خود سمجھیں، درس قرآن دینا چاہتے ہیں تو پہلے خود سمجھیں، پھر آدمی کو سمجھانے کا لطف آتا ہے۔ *2️⃣ ﴿وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ﴾* اے ﷲ ! مجھے اسباب عطا فرمادے۔ داعی کی دوسری ضرورت اسباب ہیں۔اسباب ہوں تو کام کرنا بہت آسان ہوتا ہے، اسباب نہ ہوں تو کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اسباب میں بنیادی اسباب دو ہیں: پہلا افراد اور دوسرا اموال۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو مانگا اور بطور وزیر مانگا کہ مجھے یہ دے دیں تو مجھے کام میں آسانی ہوگی۔ *3️⃣﴿وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ﴾* اے ﷲ ! مجھے فصیح زبان عطا فرما دیں، زبان کی لکنت ختم ہوجائے تاکہ میں بات کھل کر بتا سکوں۔ تو داعی کی یہ تین ضرورتیں ہیں۔ اور یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ فصیح زبان کا مطلب لفاظی نہیں ہے، فصیح زبان کا مطلب یہ ہے کہ اتنی عام فہم اور سادہ سی بات ہو کہ مخاطب کے دماغ میں اتر جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ تین چیزیں کیوں مانگی ہیں؟ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی: ﴿یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ﴾ تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔موسیٰ علیہ السلام نے یہ دعا نہیں مانگی کہ وہ میری بات کو مان لیں بلکہ فرمایا کہ وہ میری بات کو سمجھ جائیں۔ داعی کے ذمہ بات منوانا نہیں ہے، بات سمجھانا ہے۔ آج ہمارے ہاں لڑائی اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ہم بات سمجھانے کے بجائے منوانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے ذمہ سمجھانا ہے۔ آپ سمجھا دیں، مخاطب مانتا ہے تو ٹھیک اور اگر نہیں مانتا تو نہ سہی، اس کی مرضی۔ اس طرح کام کریں تو پھر لڑائی اور جھگڑے نہیں ہوتے۔ *📚حوالہ؛* دروس القرآن جلد 02 صفحہ 419-420

*علامہ اقبال* *نے تقریبا 80 سال پہلے لکھی تھی یہ باتیں کتنی سچ ہیں* *کل مذہب پوچھ کر بخش دی تھی جان میری* *آج فرقہ پوچھ کر اس نے ہی لے لی جان میری*.... *مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو* *نماز تو ان کی بھی ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے* *تم ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑ نے پر بحث میں لگے رہو* *اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی شازش میں لگے ہیں* *زندگی کے فریب میں ہم نے ہزاروں سجدے قضا کر ڈالے* *ہمارے جنّت کے سردار نے تو تیروں کی برسات میں بھی نماز قضا نہیں کی* *سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے* *خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے* *لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے* *ایسا لگتا ہے کوئ قرض لیا ہو رب سے* *تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں* *تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے* *کوئ جنّت کا طالب ہے تو کوئ غم سے پریشان ہے* *ضرورت سجدہ کرواتی ہے عبادت کون کرتا ہے* *کیا ہوا تیرے ماتھے پر ہے تو سجدے کا نشاں* *کوئ ایسا سجدہ بھی کر جو چھوڑ جاۓ زمیں پر نشاں* *پھر آج حق کیلٸے جاں فدا کرے کوئ* *وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئ* *نماز چودہ سو سالوں سے انتظار میں ہے* *کہ مجھے صحابہ کی طرح ادا کرے کوئ* *اک خدا ہی تو ہے جو سجدوں میں مان جاتا ہے* *ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتا* *دے دی اذاں مسجدوں میں حی الصلوہ حی الفلاح* *اور لکھدیا باہر تخت پر اندر نہ آۓ فلاں اور فلاں*... *خوف ہوتا ہے شیطان کو بھی آج کے مسلمان کو دیکھ کر* *نماز بھی پڑھتا ہے تو مسجد کا نام دیکھ کر* *مسلمانوں کے ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر کہا*.... *اک کافر ہی ہے جو اس نے ہم سب کو مسلمان کہا*...... منقوووول