
🌹اصلاحی باتیں بیان نظمیں🌹 Whatsapp Status Naat Nazam ,Islamic Stories اردو نعت بیان اسلامک سٹیٹس
June 19, 2025 at 07:10 PM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺
https://chat.whatsapp.com/JvBrP664f1U6zjqDDaTZ6N
🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤
🔖 22 ذوالحجہ 1446ھ 💎
🔖 19 جون 2025ء 💎
🔖 05 اھاڑ 2082 ب 💎
🌄 بروز جمعرات Thursday 🌄
🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻
سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ
قسط نمبر 32
آسمانی گواہی
حضور ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی توچہرۂ مبارک پر تکلیف کے آثار ظاہر ہوتےتھے-یہ بات محسوس کرتے ہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آپ ﷺ کو کپڑااوڑھادیااور آپ ﷺ کے سر کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا-سید عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
میں نے جب آپ ﷺ پر وحی کے آثار دیکھےتومیں نے کوئی گھبراہٹ محسوس نہیں کی، کیونکہ میں بے گناہ تھی، البتہ میرے ولدین پر بے تحاشہ خوف طاری تھا..،،
آخر آپ ﷺ سے وحی کے آثار ختم ہوئے، اس وقت آپ ﷺ ہنس رہےتھےاور آپ ﷺ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہےتھے دوقطرے موتیوں کی طرح نظر آرہے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے جو پہلا جملہ فرمایا، وہ یہ تھا:
عائشہ! اللہ تعالی نے تمہیں بری کردیاہے-،،
اللہ تعالی نے اس موقع پر سورۃ نور کی آیٰت نازل فرمائی تھیں :
ترجمہ: جن لوگوں نے یہ طوفان برپاکیاہے( یعنی تہمت لگائی ہے)اے مسلمانوں ! وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے، تم اس( طوفان)کو برانہ سمجھو، بلکہ یہ انجام کےاعتبار سے تمہارےحق میں بہتر ہی بہتر ہے، ان میں سے ہر شخص نےجتنا کچھ کہاتھا، اسے اسی کے مطابق گناہ ہوا اور ان میں سے جس نے اس طوفان میں سب سے زیادہ حصہ لیا( عبد اللہ بن ابی)اسے( زیادہ)سخت سزاملے گی-جب تم لوگوں نےیہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنے آپس والوں کےساتھ نیک گمان کیوں نہ کیا اور زبان سے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے-یہ الزام لگانے والے اپنے قول پر چار گواہ کیوں نہ لائے، سو قاعدے کےمطابق یہ لوگ چار گواہ نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک یہ جھو ٹے ہیں اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل نہ ہوتا تو جس کام میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب واقع ہوتا-جب کہ تم اس جھوٹ کو اپنی زبانوں سے نقل درنقل کر رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کر رہے تھے، جس کی تمہیں کسی دلیل سے قطعا خبر نہیں تھی اورتم اس کی ہلکی بات( یعنی گناہ واجب نہ کرنے والی)سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات ہے-اور تم نے جب( پہلی بار)اس بات کوسناتو یوں کیوں نہ کہا کہ ہمیں زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے نکا لیں -معاذاللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے-اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر ایسی حرکت مت کرنا، اگر تم ایمان والے ہو- اللہ تم سے صاف احکام بیان کرتاہے اور اللہ جاننے والا، بڑاحکمت والاہے-جولوگ( ان آیٰت کے نزول کے بعد بھی )چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچاہو، ان کے لئے دنیا وآخرت میں سزادرد ناک مقرر ہےاور( اس بات پر سزاکا تعجب مت کرو، )کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے-اور اے توبہ کرنے والو! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ کا فضل وکرم ہے( جس نے تمہیں توبہ کی توفیق دی)اور یہ کہ اللہ تعالیٰ بڑا شفیق،بڑارحیم ہے( توتم بھی وعید سے نہ بچتے)( سورہ نور آیات11تا20)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ان آیات کہ نزول سے پہلےمیں نے خواب دیکھاتھا، خواب میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا، کیابات ہے، آپ کیوں غمگین رہتی ہیں ، میں نے اسے بتایاکہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، میں اس کی وجہ سے غمگین ہوں -تب اس نوجوان نے کہا کہ آپ ان الفاظ میں دعاء کریں :
ترجمہ: اے نعمتوں کی تکمیل کرنے والے اور آئے غموں کو دور کرنے والے، پریشانیوں کو دور کرنے والے، مصیبتوں کے اندھیرے سے نکالنے والے، فیصلوں میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے اور ظالم سے بدلہ لینے والے، اور اے اوّل اور اے آخر! میری اس پریشانی کو دور فرما دے اور میرے لیے گلو خلاصی کی کوئی راہ نکال دے۔"
دعاء سن کر میں نے کہا، بہت اچھا، اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی، میں ان الفاظ میں دعاء کی، اس کے بعد میرے لیے برأت کے دروازے کھول دیئے گئے۔
الزام لگانے والوں میں مسطح ؓ بھی
تھے، حضرت ابو بکر صدیق ؓ ان کی خبر گیری کرتے تھے، انہوں نے ہی انکی پرورش کی تھی…لیکن یہ بھی الزام لگانے والوں میں شامل ہوگئے،جب اللہ تعالی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بری فرما دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے مسطح ؓ کو اپنے گھر سے نکال دیا اور ان سے کہا:
"اللہ کی قسم آئندہ میں کبھی بھی تم پر اپنا مال خرچ نہیں کروں گا،نا تمہارے ساتھ کبھی محبت اورشفقت کابرتاؤ کروں گا۔"
اس پر اللہ تعالی نے سورۃ النور کی یہ آیت نازل فرمائی :
ترجمہ:"اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی اور (دنیاوی) وسعت والے ہیں ،وہ قرابت داروں کو اور مسکینوں کو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں ، بلکہ چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں ،کیا تم یہ بات نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہارے قصور معاف کردے،بے شک اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔"
اس آیت کے نزول پر حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا:
"کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کردے؟"
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا: "اللہ کی قسم! میں یقینا چاہتا ہوں کہ میری مغفرت ہوجائے۔"
پھر وہ مسطح رضی اللہ عنہٗ کے پاس گئے ان کا جو وظیفہ بند کر دیا تھا اس کو پھر سے جاری کردیا…نہ صرف جاری کر دیا بلکہ دوگنا کردیا اور کہا"آئندہ میں کبھی مسطح کا خرچ بند نہیں کروں گا۔"
انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ بھی ادا کیا۔
اسی غزوہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار دو مرتبہ گم ہوا تھا،پہلی بار جب ہار گم ہوا تو اس کی تلاش کے سلسلے میں سب لوگ رکے رہے، اسی دوران صبح کی نماز کا وقت ہو گیا،اس وقت مسلمان کسی چشمے کے قریب نہیں تھے،اس لیے پانی کی تنگی تھی،جب لوگوں کو تکلیف ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ڈانٹا، اس وقت اللہ کے رسول ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر رکھ کر سو رہے تھے،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
"تم نے رسول اللہ ﷺ اور سب لوگوں کی منزل کھوٹی کر دی،نہ یہاں لوگوں کی پاس پانی ہے، نہ قریب میں کوئی چشمہ ہے۔"
یہ کہنے کے ساتھ ہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بیٹی کی کمر پر ٹوکے بھی مارے،ساتھ ہی وہ کہتے جاتے تھے:
"لڑکی! تو سفر میں تکلیف کا سبب بن جاتی ہے،لوگوں کے پاس ذرا سا بھی پانی نہیں ہیں ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس موقع پر میں اپنے جسم کو حرکت سے روکے رہی، کیونکہ حضور اکرم ﷺ میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے،جب آپ ﷺ سوئے ہوتے تھے تو کوئی شخص آپ ﷺ کو بیدار نہیں کرتا تھا،آپ ﷺ خود ہی بیدار ہوتے تھے،کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نیند میں آپ ﷺ کے ساتھ کیا ہورہا ہے، آخر آپ ﷺ نماز کے وقت بیدار ہوگئے، آپ ﷺ نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو بتایا گیا کہ پانی نہیں ہے، اس وقت اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی -
اس پر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا:
"بیٹی! جیسا کہ تم خود بھی جانتی ہو، تم واقعی مبارک ہو -"
آپ ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا:
"عائشہ! تمہارا ہار کس قدر مبارک ہے -"
حضرت اسید بن حضیر ؓ نے کہا:
"اے آلِ ابی بکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دیتے ہیں -"
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :
"ہار کی تلاش کے سلسلے میں ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا، جس پر میں سوار تھیں تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا -"
مطلب یہ کہ اس واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں کو تیمم کی سہولت عطا ہوئی، اس سے پہلے مسلمانوں کو تیمم کے بارے میں معلوم نہیں تھا -
اس واقعہ کے بعد جب آگے سفر ہوا تو منافقین کی سازش کا وہ واقعہ پیش آیا جو آپ نے پیچھے پڑھا -
اسی سال چاند کو گرہن لگا، آپ ﷺ نے نماز خسوف پڑھائی یعنی چاند گرہن کی نماز پڑھائی، جبکہ یہودی اس وقت زور زور سے ڈھول بجارہے تھے اور کہہ رہے تھے چاند پر جادو کردیا گیا ہے۔
غزوہ خندق
بنی نضیر کے یہودیوں کو مدینہ منورہ میں ان کے علاقے سے نکال دیا گیا تھا، اسی وجہ سے ان کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ گئے... قریش کو ساری تفصیل بتائی اور قریش کو دعوت دی کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لیے میدان میں آئیں ، انہوں نے قریش کو خوب بھڑکایا اور کہا:
جنگ کی صورت میں ہم تمہارے ساتھ ہوں گے، یہاں تک کہ محمد(ﷺ) اور ان کے ساتھیوں کو نیست و نابود کردیں گے، مسلمانوں سے دشمنی میں ہم تمہارے ساتھ ہیں -"
یہ سن کر مشرکین کے سردار ابوسفیان نے کہا:
"ہمارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ شخص وہ ہے، جو محمد(ﷺ) کی دشمنی میں ہمارا مددگار ہو، لیکن ہم اس وقت تک تم پر بھروسہ نہیں کریں گے جب تک کہ تم ہمارے معبودوں کو سجدہ نہ کرلو... تاکہ ہمارے دل مطمئن ہوجائیں -"
یہ سنتے ہی یہودیوں نے بتوں کو سجدہ کرڈالا، اب قریش نے کہا:
"اے یہودیو! تم اہل کتاب ہو اور تمہاری کتاب سب سے پہلی کتاب ہے، اس لیے تمہارا علم بھی سب سے زیادہ ہے، لہٰذا تم بتاؤ... ہمارا دین بہتر ہے یا محمد(ﷺ) کا -"
یہودیوں نے جواب میں کہا:
"تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے اور حق و صداقت میں تم لوگ ان سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے ہو -"
یہودیوں کا جواب سن کر قریش خوش ہوگئے، نبی اکرم ﷺ سے جو انھوں نے جنگ کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی انھوں نے قبول کرلیا... چنانچہ اسی وقت قریش کے پچاس نوجوان نکلے، انھوں نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر اس کو اپنے سینے سے لگا کر یہ حلف دیا کہ وقت پر ایک دوسرے کو دغا نہیں دیں گے، جب تک ان میں سے ایک شخص بھی باقی ہے، محمد(ﷺ) کے خلاف متحد رہیں گے -
اب قریش نے جنگ کی تیاری شروع کردی، یہودیوں نے بھی اور قبائل کو ساتھ ملانے کی کوشش جاری رکھیں ، اس طرح ایک بڑا لشکر مسلمانوں کے خلاف تیار ہوگیا -
آنحضرت ﷺ کو کفار کی تیاریوں کی اطلاعات موصول ہوئیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشورہ کے لیے طلب کرلیا، آپ ﷺ نے انہیں دشمن کی جنگی تیاریوں کے بارے میں بتایا، پھر ان سے مشورہ طلب فرمایا کہ ہم مدینہ منورہ میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں یا باہر نکل کر کریں -
اس پر حضرت سلمان فارسی ؓ نے مشورہ دیا:
"اے اللہ کے رسول! اپنے ملک فارس میں جب ہمیں دشمن کا خوف ہوتا تھا تو شہر کے گرد خندق کھودلیا کرتے تھے -"
حضرت سلمان فارسی ؓ کا یہ مشورہ سبھی کو پسند آیا، چنانچہ مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے کا کام شروع کردیا، سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خندق کی کھدائی میں حصہ لیا... خود حضور نبی کریم ﷺ نے بھی خندق کھودی، خندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھوک نے ستایا، وہ زمانہ عام تنگ دستی کا تھا -
کھدائی کے دوران ایک جگہ سخت پتھریلی زمین آگئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جگہ کھدائی نہ کرسکے، آخر حضور اکرم ﷺ کو خبر کی گئی، آپ ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور اس جگہ ماری، ایک ہی ضرب میں وہ پتھریلی زمین ریت کی طرح بھربھرا گئی -
ضرب لگانے کے دوران روشنی کے جھماکے سے نظر آئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ روشنی کے جھماکے کیسے تھے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"پہلے جھماکے میں اللہ تعالٰی نے مجھے یمن کی فتح کی خبر دی ہے، دوسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالٰی نے مجھے شام اور مغرب پر غلبہ عطا فرمانے کی اطلاع دی اور تیسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالٰی نے مشرق کی فتح مجھے دکھائی ہے -"
غرض جب اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خندق کی کھدائی سے فارغ ہوئے تو اس وقت قریش اور اس کے حامیوں کا لشکر مدینہ منورہ کے باہر پہنچ گیا، اس جنگ میں کافروں کی دس ہزار تعداد کے مقابلے میں مسلمان صرف تین ہزار تھے، مشرکوں کا لشکر مدینہ منورہ کے گرد خندق دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، وہ پکار اٹھے:
""خدا کی قسم! یہ تو بڑی زبردست جنگی چال ہے، عرب تو اس جنگی تدبیر سے واقف نہیں تھے -"
مشرکوں کے دستے بار بار خندق تک آتے رہے اور واپس جاتے رہے... مسلمان بھی اچانک خندق تک آتے اور کافروں کی طرف تیر برساتے، پھر واپس لوٹ جاتے، کافروں میں سے نوفل بن عبداللہ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر خندق کو عبور کرنے کی کوشش کی... لیکن اس کا گھوڑا خندق کے آرپار نہ پہنچ سکا اور سوار سمیت خندق میں گرا - نوفل کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی - ایک روایت میں ہے یہ بھی ہے کہ حضرت علی ؓ نے خندق میں اتر کر اسے قتل کردیا تھا -
کافروں اور مسلمانوں کے درمیان بس اس قسم کی چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی... کافر دراصل خندق کی وجہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے قابل نہیں رہے تھے -
لڑائی سے پہلے عورتوں اور بچوں کو ایک چھوٹے سے قلعہ میں پہنچا دیا گیا تھا - یہ جگہ حضرت حسان بن ثابت ؓ کی تھی - خود حضرت حسان ؓ بھی وہیں تھے - ان عورتوں میں آنحضرت ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی بطور محافظ تھیں - ایک یہودی جاسوسی کے لیے اس طرف نکل آیا - حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی نظر اس یہودی پر پڑی تو انھوں نے حضرت حسان ؓ سے کہا:
"اے حسان! یہ شخص دشمن کو اس قلعہ میں عورتوں اور بچوں کی موجودگی کی خبر کردے گا... اور دشمن اس طرف سے حملہ آور ہوسکتے ہیں ، لہٰذا تم نیچے اتر کر اسے قتل کردو -"
اس پر حضرت حسان ؓ نے کہا:
"تمہیں معلوم ہے، میں اس کام کا آدمی نہیں ہوں -"
حضرت حسان ؓ دراصل شاعر تھے اور جنگ کے طریقوں سے واقف نہیں تھے... پھر ان کی عمر بھی بہت زیادہ تھی، بوڑھے اور کمزور تھے اس لیے انھوں نے ایسی بات کہی تھی - حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ حسان ؓ یہ کام نہیں کریں گے تو تو انھوں نے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھالیا اور نیچے اتر آئیں - خاموشی سے اس کے پیچھے گئیں اور اچانک اس پر حملہ آور ہوئیں ... انھوں نے ڈنڈے کے کئی وار اس پر کیے، یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا - پھر تلوار سے اس کا سر کاٹ کر ان یہودیوں کی طرف اچھال دیا جو اس کے پیچھے آرہے تھے - وہ سب خوف زدہ ہوکر بھاگ نکلے -
ادھر مشرکوں میں سے چند لوگ آگے بڑھے - انھوں نے خندق عبور کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کو دور لے جاکر خوب دوڑایا اور جس جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی، اس جگہ سے لمبی چھلانگ لگاکر آخر خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگئے - ان لوگوں میں عمرو بن عبدِ وَد بھی تھا... وہ عرب کا مشہور پہلوان تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بہادر ہے اور اکیلا ایک ہزار آدمیوں کے لیے کافی ہے - خندق عبور کرتے ہی وہ للکارا:
"کون ہے جو میرے مقابلے میں آتا ہے؟"
اس کی للکار سن کر حضرت علی ؓ آگئے - انھوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا:
"اللہ کے رسول! اس کے مقابلے پر میں جاؤں -"
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"بیٹھ جاؤ... یہ عمرو بن عبدِ وَد ہے -"
ادھر عمرو نے پھر آواز دی - حضرت علی ؓ پھر اٹھ کھڑے ہوئے - آپ ﷺ نے انہیں پھر بٹھادیا... اس نے تیسری بار پھر مقابلے کے لیے آواز لگائی - آخر آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اجازت دےدی - حضرت علی ؓ یہ شعر پڑھتے ہوئے میدان میں آئے -
"جلدی نہ کر، تیری للکار کو قبول کرنے والا تیرے سامنے آگیا ہے - جو تجھ سے کسی طرح عاجز اور کمزور نہیں ہے -"
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اپنی تلوار ذوالفقار عطا فرمائی، اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اور اللہ سے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی -
حضرت علی ؓ نے مقابلے سے پہلے اسے اسلام کی دعوت دی اور بولے:
"میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاتا ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں -"
اس نے انکار کیا اور کہا:
"بھتیجے! میں تمہیں قتل کرنا نہیں چاہتا... واپس لوٹ جاؤ -"
جواب میں حضرت علی ؓ نے فرمایا:
"لیکن میں تو تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں -"
یہ سن کر عمرو بن عبدِ وَد کو غصہ آگیا - وہ اس وقت پوری طرح لوہے میں غرق تھا - چہرہ بھی خود میں چھپا ہوا تھا - وہ گھوڑے سے کود پڑا اور تلوار سونت کر ان کی طرف بڑھا - اس کی تلوار سے خود کو بچانے کے لیے حضرت علی ؓ نے فوراً ڈھال آگے کردی - عمرو کی تلوار ڈھال پر پڑی، ڈھال پھٹ گئی، تلوار حضرت علی ؓ کی پیشانی تک پہنچ گئی پیشانی پر زخم آگیا۔
جاری ھےان شاء اللہ
❤️
😂
6