🌹اصلاحی باتیں بیان نظمیں🌹 Whatsapp Status Naat Nazam ,Islamic Stories اردو نعت بیان اسلامک سٹیٹس
🌹اصلاحی باتیں بیان نظمیں🌹 Whatsapp Status Naat Nazam ,Islamic Stories اردو نعت بیان اسلامک سٹیٹس
June 20, 2025 at 06:07 PM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺 https://chat.whatsapp.com/JvBrP664f1U6zjqDDaTZ6N 🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹          🇵🇰   *آج کا کیلنڈر*  🌤 🔖 23 ذوالحجہ 1446ھ 💎 🔖 20 جون 2025ء 💎 🔖 06 اھاڑ 2082 ب 💎 🌄 بروز جمعہ Friday 🌄 🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻 سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر 33 غزوۂ خندق کے واقعات عَمروْ کے وار سے حضرت علی ؓ کی پیشانی سے خون بہہ نکلا مگر انھوں نے فوراً جوابی حملہ کیا، عمرو بن عبدِوَد کی گردن کے نچلے حصے پر ان کی تلوار لگی، تلوار ہنسلی کی ہڈی کو کاٹتی چلی گئی، وہ خاک و خون میں لوٹتا نظر آیا، مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، آپ ﷺ نے یہ نعرہ سنا تو جان لیا کہ حضرت علی ؓ نے عمرو کو قتل کردیا ہے، اس کے گرتے ہی جو لوگ اس کے ساتھ آئے ہوئے تھے، واپس بھاگے، حضرت زبیر ؓ نے ان کا پیچھا کیا اور بھاگتے ہوئے ایک کافر پر تلوار کا وار کیا، وہ دو ٹکڑے ہوگیا، حضرت زبیر ؓ کی تلوار اس کے سر سے ہوتی ہوئی کولہے تک پہنچ گئی، اس پر بعض مسلمانوں نے حضرت زبیر ؓ سے کہا: "اے ابا عبداللہ! ہم نے تمہاری تلوار جیسی کاٹ کسی کی نہیں دیکھی... اللہ کی قسم... یہ تلوار کا نہیں ... تلوار چلانے والے کا کمال ہے -" "تمام دن جنگ ہوتی رہی، خندق کے ہر حصے پر لڑائی جاری رہی، اس وجہ سے آپ ﷺ اور کوئی مسلمان بھی ظہر سے عشاء تک کوئی نماز نہ پڑھ سکا، اس صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان بار بار کہتے رہے:" ہم نماز نہیں پڑھ سکے -"یہ سن کر حضور اکرم ﷺ فرماتے:"نہ ہی میں پڑھ سکا" آخر جنگ رکنے پر حضور اکرم ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم دیا انھوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور حضور اکرم ﷺ نے نماز پڑھائی، اس کے فوراً بعد حضرت بلال ؓ نے عصر کی تکبیر پڑھی اور حضور اکرم ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی... اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت قضا پڑھی گئیں - غرض خندق کی لڑائی مسلسل جاری رہی، ایک روز خالد بن ولید نے مشرکوں کے ایک دستے کے ساتھ حملہ کیا، لیکن اس طرف اس وقت حضرت اسید بن حضیر ؓ دوسو سواروں کے ساتھ موجود تھے، جونہی حضرت خالد بن ولید نے اپنے دستے کے ساتھ خندق پار کی، یہ ان کے سامنے آگئے، اس طرح حضرت خالد بن ولید ناکام لوٹ گئے - اس صورتِ حال نے طول پکڑا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوگئے، آخر حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی، اس کے جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالٰی دشمن پر ہوا کا طوفان نازل فرمائے گا، طوفان کے ساتھ اللہ اپنے لشکر(فرشتے ) بھی ان پر نازل کرےگا - رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خبر دےدی، سب نے اللہ کا شکر ادا کیا - رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان قبول ہوئی، آخر سرخ آندھی کے طوفان نے مشرکوں کو آلیا، ان دنوں موسم یوں بھی سرد تھا، اوپر سے انھیں اس سرد طوفان نے گھیرلیا، مشرکوں کے خیمے الٹ گئے، برتن الٹ گئے، ہوا کے شدید تھپیڑوں نے ہر چیز ادھر سے اُدھر کردی، لوگ سامان کے اوپر اور سامان لوگوں پر آگرا، پھر تیز ہوا سے اس قدر ریت اڑی کہ ان میں سے نہ جانے کتنے ریت میں دفن ہوگئے، ریت کی وجہ سے آگ بجھ گئی، چولہے ٹھنڈے ہوگئے، آگ بجھنے سے اندھیرے نے گویا انھیں نگل لیا، یہ اللہ کا عذاب تھا جو فرشتوں نے ان پر نازل کیا، وہ درہم برہم ہوگئے، اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں : "پھر ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسی فوج بھیجی جو تمہیں دکھائی نہیں دیتی تھی اور اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں -"(سورۃ الأحزاب) جہاں تک فرشتوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے خود جنگ میں شرکت نہیں کی، بلکہ اپنی موجودگی سے مشرکوں کے دلوں میں خوف اور رعب پیدا کردیا اور اس رات جو ہوا چلی، اس کا نام بادِصبا ہے، یعنی وہ ہوا جو سخت سرد رات میں چلے، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "بادِصبا سے میری مدد کی گئی اور ہوائے زرد کے ذریعے اس قوم کو تباہ کیا گیا -" ہوائے زرد نے مشرکوں کی آنکھوں میں گردوغبار بھردیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں ، یہ طوفان بہت دیر تک اور مسلسل جاری رہا تھا، ساتھ ہی نبی اکرم ﷺ کو مشرکوں میں پھوٹ پڑنے کے بارے میں پتاچلا، وہ ایسے کہ آپ ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ کون ہے جو ہمیں دشمنوں کی خبر لادے، اس پر سیدنا زبیر ؓ اٹھے اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں جاؤں گا -" آپ ﷺ نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایا، تینوں مرتبہ زبیر ؓ ہی بولے، آخر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کے حواری یعنی مددگار ہوتے ہیں ، میرے حواری زبیر ہیں -" پھر آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا... تھکن کی وجہ سے ان میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ جاسکتے، لیکن حضور اقدس ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی:"جاؤ، اللہ تعالٰی تمہارے سامنے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے تمہاری حفاظت فرمائے اور تم خیریت سے لوٹ کر ہمارے پاس آؤ -" یہ وہاں سے چل کر دشمن کے پڑاؤ میں پہنچ گئے، وہاں انھوں نے ابوسفیان کو کہتے سنا: اے گروہِ قریش! ہر شخص اپنے ہم نشینوں سے ہوشیار رہے اور جاسوسوں سے پوری طرح خبردار رہے -" پھر اس نے کہا: "اے قریش! ہم نہایت برے حالات کا شکار ہوگئے ہیں ، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے ہیں ... بنوقریظہ کے یہودیوں نے ہمیں دغا دیا ہے اور ان کی طرف سے ناخوش گوار باتیں سننے میں آئی ہیں ... اوپر سے اس طوفانی ہوا نے جو تباہ کاری کی ہے، وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو، اس لیے واپس چلے جاؤ، میں بھی واپس جارہا ہوں -" حذیفہ ؓ یہ خبریں لےکر آئے تو نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے دشمن کا حال سنایا، آپ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ ﷺ کے دانت مبارک نظر آنے لگے... جب کفّار کا لشکر مدینہ منورہ سے بدحواس ہوکر بھاگا، تب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "اب یہ آئندہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے -" خندق کی جنگ کے موقع پر کچھ خاص واقعات پیش آئے - جب خندق کھودی جارہی تھی تو اس دوران ایک صحابی بشیر بن سعد ؓ کی بیٹی ایک پیالے میں کچھ کھجوریں لائی، یہ کھجوریں وہ اپنے باپ اور ماموں کے لیے لائی تھی...حضور اکرم ﷺ کی نظر ان کھجوروں پر پڑی تو فرمایا: "کھجوریں ادھر لاؤ -" اس لڑکی نے کھجوروں کا برتن آپ ﷺ کے ہاتھوں میں الٹ دیا، کھجوریں اتنی نہیں تھی کہ دونوں ہاتھ بھر جاتے، آپ ﷺ نے یہ دیکھ کر ایک کپڑا منگوایا، اس کو پھیلا کر بچھایا، پھر پاس کھڑے صحابی سے فرمایا: "لوگوں کو آواز دو... دوڑ کر آئیں -" چنانچہ سب جلد ہی آگئے، آپ ﷺ اپنے ہاتھوں سے کھجوریں اس کپڑے پر گرانے لگے، سب لوگ اس پر سے اٹھا اٹھا کر کھاتے رہے، کھجوریں شروع کرنے سے پہلے سب لوگ بھوکے تھے، بھوک کی حالت میں ان سب نے یہ کھجوریں کھائیں ، سب کے پیٹ بھرگئے... اور آپ ﷺ کے ہاتھوں سے کھجوریں ابھی تک گر رہی تھیں - ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا جابر ؓ کا پیش آیا، انہیں جب آپ ﷺ کی شدید بھوک کا علم ہوا تو گھر گئے، ان کے گھر میں بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور کچھ گندم بھی تھی، انھوں نے کہا کہ "نبی اکرم ﷺ کو بھوک لگی ہے... لہٰذا یہ بکری ذبح کرکے سالن تیار کرلو،، گندم کو پیس کر روٹیاں پکالو، میں اللہ کے نبی ﷺ کو لے کر آتا ہوں -"حضرت جابر ؓ کچھ دیر بعد حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آہستہ آواز میں کہا کہ آپ کے لیے گھر میں کھانا تیار کرایا ہے، یہ سن کر حضور اقدس ﷺ نے کسی سے کہا: "اعلان کردو... جابر کے ہاں سب کی دعوت ہے -" چنانچہ پکار کر اعلان کیا گیا کہ سب لوگ جابر کے گھر پہنچ جائیں ، حضرت جابر ؓ پریشان ہوگئے کہ وہ تھوڑا سا کھانا اتنے لوگوں کو کیسے پورا ہوگا - انھوں نے پریشانی کے عالم میں "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھی اور پھر گھر آگئے... وہ کھانا حضور اقدس ﷺ کے سامنے رکھ دیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ برکت دے -" پھر آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھی، سب نے کھانا شروع کیا، باری باری لوگ آتے رہے اور کھا کر اٹھتے رہے، ان کی جگہ دوسرے لیتے رہے... یہاں تک کہ سب لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اس وقت ان مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی، حضرت جابر ؓ کہتے ہیں : "اللہ کی قسم! جب سب کھانا کھا کر چلے گئے تو ہم نے دیکھا...گھر میں اب بھی اتنا ہی کھانا موجود تھا... جتنا حضور اقدس ﷺ کے سامنے رکھا گیا تھا -" جب آپ ﷺ غزوہ خندق سے فارغ ہوکر گھر آئے تو وہ دوپہر کا وقت تھا...حضور اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز ادا کی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوگئے، آپ ﷺ ابھی غسل فرمارہے تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام سیاہ رنگ کا ریشمی عمامہ باندھے وہاں آگئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک خچر پر سوار تھے، انہوں نے آتے ہی آپ ﷺ سے کہا: "اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں ؟" آپ نے فرمایا: "ہاں ! اتار دیے ہیں -" یہ سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: "لیکن اللہ تعالٰی کے فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے غزوۂ بنی قریظہ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: "اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اسی وقت بنو قریظہ کے مقابلے کے لیے کوچ کریں ، میں بھی وہیں جارہا ہوں -" اس پر حضور اکرم ﷺ نے اعلان کرایا: "ہر اطاعت گزار شخص عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں پہنچ کر پڑھے -" اس اعلان سے مراد یہ تھی کہ روانہ ہونے میں دیر نہ کی جائے، آپ ﷺ نے خود بھی فوراً ہتھیار لگائے، زرہ بکتر پہنی، اپنا نیزہ دست مبارک میں لیا، تلوار گلے میں ڈالی... اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے - آپ ﷺ کے گرد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہتھیار لگائے گھوڑوں پر موجود تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد تین ہزار تھی، ان میں 36 گھڑ سوار تھے، ان میں بھی تین گھوڑے آنحضرت ﷺ کے تھے، اس غزوہ کے موقع پر آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کو مدینہ منورہ اپنا قائم مقام مقرر فرمایا - حضور اکرم ﷺ سے آگے آگے حضرت علی ؓ پرچم لیے ہوئے بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت علی ؓ چونکہ آگے روانہ ہوئے تھے، اس لیے پہلے وہاں پہنچے، انہوں نے مہاجرین اور انصار کے ایک دستے کے ساتھ بنو قریظہ کے قلعے کے سامنے دیوار کے نیچے پرچم نصب کیا، ایسے میں یہودیوں نے حضور ﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کیا، اس پر حضرت علی اور دوسرے صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کو غصہ آگیا، نبی اکرم ﷺ وہاں پہنچے تو حضرت علی ؓ نے انہیں یہودیوں کی بدزبانی کے بارے میں بتایا، آپ ﷺ نے ان کی پوری آبادی کو گھیرے میں لینے کا حکم دے دیا، یہ محاصرہ پچیس دن تک جاری رہا ۔یہودی اس محاصرے سے تنگ آگئے، اور آخر کار آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہوگئے ۔ حضور ﷺ نے انہیں باندھنے کا حکم فرمایا ۔ان کی مشکیں کس دی گئیں ، ان کی تعداد چھ سو یا ساڑھے سات سو تھی، انہیں ایک طرف جمع کردیاگیا ۔یہ سب وہ تھے جو لڑنے والے تھے، ان کے بعد یہودی عورتوں اور بچوں کو حویلیوں سے نکال کر ایک طرف جمع کیا گیا، ان بچوں اور عورتوں کی تعداد ایک ہزار تھی، ان پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کو نگران بنایاگیا ۔اب یہ لوگ بار بار آپ کے پاس آکر معافی مانگنے لگے ۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر رضامند ہو کہ تمہارے معاملے کا فیصلہ تمہارا ہی (منتخب کیا ہوا) کوئی آدمی کردے ‌‌" ‌‌" انہوں نے جواب دیا سعد بن معاذ (رضی الله عنہ) جو فیصلہ بھی کردیں ، ہمیں منظور ہے ۔سعد بن معاذ ؓ مسلمان ہونے سے پہلے ان یہودیوں کے دوست اور ان کے نزدیک قابل احترام شخصیت تھے، حضور اکرم ﷺ نے ان کی یہ بات مان لی، سعد بن معاذ رضی الله عنہ غزوہء خندق میں شدید زخمی ہوگئے تھے، وہ اس وقت مسجد نبوی کے قریب ایک خیمے میں تھے، اب آنحضرت ﷺ کے حکم پر انھیں بنو قریظہ کی آبادی میں لایا گیا، ان کی حالت بہت خراب تھی ۔آخر وہ نبئ اکرم ﷺ وسلم کے پاس پہنچ گئے، انہیں ساری بات بتائی گئی... اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہہ نے کہا: "فیصلے کا حق تو الله تعالیٰ ہی کا ہے یا پھر اللہ کے رسول کو ہے۔" حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "الله ہی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ یہود کے بارے میں فیصلہ کرو۔" اب انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا: "میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، ان کا مال اور دولت مال غنیمت کے طور پر لے لیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بنالیا جائے۔"( حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہہ نے یہودیوں سے اپنی سابقہ دوستی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اتنا سخت فیصلہ اس لیے سنایا تھا کہ ان یہودیوں کا ظلم و ستم اور ان کی فتنہ انگیزی حد سے بڑھ گئی تھی، اگر انہیں یوں ہی زندہ چھوڑ دیا جاتا تو یقینی طور پر یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف بدترین سازشیں کرتے رہتے۔ان کا مزاج بچھو اور سانپ کی مانند ہوچکا تھا، جو کبھی ڈسنے سے باز نہیں آسکتا، اس لیے ان کا سر کچلنا ضروری تھا۔) ان کا فیصلہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " تم نے الله تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ سنایا ہے...اس فیصلے کی شان بہت اونچی ہے... آج صبح سحر کے وقت فرشتے نے آکر مجھے اس فیصلے کی اطلاع دے دی تھی۔" اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بنو قریظہ کی حویلیوں میں جو کچھ مال اور ہتھیار وغیرہ ہیں ، سب ایک جگہ جمع کردیے جائیں ۔" چنانچہ سب کچھ نکال کر ایک جگہ ڈھیر کردیا گیا، اس سارے سامان میں پندرہ سو تلواریں اور تین سو زرہیں تھیں ۔دو ہزار نیزے تھے، اس کے علاوہ بےشمار دولت تھی، مویشی بھی بے تحاشا تھے، سب چیزوں کے پانچ حصے کیے گئے، ان میں سے چار حصے سب مجاہدین میں تقسیم کیے گئے... یہاں شراب کے بہت سے مٹکے بھی ملے، ان کو توڑ کر شراب کو بہادیا گیا، اس کے بعد یہودی قیدیوں کو قتل کردیا گیا، قتل ہونے والوں میں ان کا سردار حئ بن اخطب بھی تھا۔بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈی بنالیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہ غزوۂ خندق میں لگنے والے زخموں کے باعث شہید ہوگئے، ان کے جنازے میں فرشتوں نے بھی شرکت کی، انہیں دفن کیا گیا تو قبر سے خوشبو آنے لگی۔ قیدی عورتوں کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو عورتیں فروخت کی جائیں ، اپنے بچوں سے جدا نہ کی جائیں ( یعنی جہاں ماں رہے، وہیں اس کے بچے رہیں ، جب تک کہ بچہ جوان نہ ہوجائیں )اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو فروخت کرنا چاہے تو اسے اس کے بچے سے جدا نہ کرے۔" اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے قبیلہ بنو ہزیل سے ان کی ناپاک حرکت کا انتقام لینے کا ارادہ فرمایا، بنو ھذیل نے رجیع کے مقام پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو شہید کیا تھا، یہ لوگ خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور درخواست کی تھی کہ ان کے علاقے میں اسلام کی تعلیم کے لیے کچھ حضرات کو بھیج دیا جائے۔چنانچہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دس صحابہ رضی الله عنہہ کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا، ان لوگوں نے انہیں دھوکے سے شہید کردیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کی مظلومانہ شہادت کا بے حد رنج تھا۔چنانچہ ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کو تیاری کا حکم فرمایا... پھر لشکر کو لے کر روانہ ہوئے۔بظاہر تو شام کی طرف کوچ کیا تھا، مگر اصل مقصد بنو ہزیل کے خلاف کاروائی تھی، منزل کو اس لیے خفیہ رکھا گیا تاکہ دشمنوں کو جاسوسوں کے ذریعے پہلے سے معلوم نہ ہو اور مسلمان ان ظالموں پر بے خبری میں جاپڑیں ۔ مدینہ منوره میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا قائم مقام حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم کو مقرر فرمایا۔اس غزوۂ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ کافی تعداد میں صحابہ رضی اللّٰہ عنہم تھے، ان میں سے بیس گھوڑوں پر سوار تھے۔ پہلے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے، جہاں صحابہ کرام رضی الله عنہم کو شہید کیا گیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہاں ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی، ادھر کسی طرح بنو ھزیل کو پتہ چل گیا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں ۔وہ ڈر کے مارے پہاڑوں میں جا چھپے، جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ان کے فرار کا پتہ چلا تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مختلف سمتوں میں روانہ فرمایا... لیکن ان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ آخر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم واپس روانہ ہوئے، اس غزوہ کو غزوہ بنی لحیان کہا جاتا ہے۔ راستے میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ابواء کے مقام سے گذرے، یہاں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی والدہ کو دفن کیا گیا تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو اپنی والدہ کی قبر نظر آگئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی... پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم روئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو روتے دیکھ کر صحابہ کرام رضی الله عنہہ بھی روپڑے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ پہنچے، ابھی چند راتیں ہی گذریں تھیں کہ خبر ملی... عیینہ ابن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ مل کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپا مارا... اس چراگاہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیس اونٹ تھے... اونٹوں کی حفاظت کے لیے حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ کے بیٹے تھے، اور حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی بیوی بھی وہاں تھیں ۔ان حملہ آوروں نے حضرت ابوذر رضی الله عنہ کے بیٹے کو قتل کردیا۔ اس واقعہ کا سب سے پہلے حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ کو پتہ چلا... وہ اپنی کمان اٹھائے صبح ہی صبح چراگاہ کی طرف جارہے تھے، ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا، وہ ان کا، گھوڑا لے کر آیا تھااور لگام سے پکڑ کر اسے ہنکارہا تھا، راستے میں ان کی ملاقات حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کے غلام سے ہوئی۔اس نے حضرت سلمہ رضی الله عنہ کو بتایا کہ عیینہ بن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپہ مارا ہے... اور وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے اونٹوں کو لے گئے ہیں ...چراگاہ کے محافظ کو انہوں نے قتل کردیا... اور ایک خاتون کو اٹھا کر لے گئے ہیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت سلمہ رضی الله عنہ نے اپنے غلام سے کہا: "اس گھوڑے پر بیٹھ کر روانہ ہوجاؤ اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو خبر کردو۔" غلام تو اسی وقت روانہ ہوگی، ساتھ ہی سلمہ رضی الله عنہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر پکارے: "لوگو! دوڑو... کچھ لوگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اونٹ لے اڑے ہیں ۔" یہ اعلان تین بار دہرا کر وہ اکیلے ہی لٹیروں کی طرف دوڑ پڑے۔ جاری ھےان شاء اللہ
❤️ 8

Comments