
Muhammad Rihan Raza Mustafai
June 21, 2025 at 01:37 PM
`محافظ ناموسِ رسالت ﷺ کی یاد میں ایک درد بھرا پیغام`
آج حضرت قمر غنی عثمانی صاحب کو جیل میں قید ہوئے تین سال، چار مہینے اور بائیس دن گزر چکے ہیں۔ ایک ایسا وقت گزر رہا ہے جو تاریخ میں امتِ مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے — مگر افسوس! ہم ابھی بھی خاموش ہیں، بے حس ہیں، اور غفلت کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔
کیا قمر غنی عثمانی صاحب نے کوئی جرم کیا تھا؟
کیا وہ کسی زمین، مکان یا جائیداد کے جھگڑے میں جیل گئے؟
نہیں! ہرگز نہیں!
وہ صرف اور صرف ناموسِ رسالت ﷺ کی حفاظت کے جرم میں قید ہیں۔
یہ وہی عاشقِ رسول ہیں جنہوں نے ہر موقع پر، تنِ تنہا میدان میں آ کر، رسولِ اکرم ﷺ کی عزت پر حملہ کرنے والوں کو قانون کے دائرے میں رہ کر جواب دیا۔
چاہے تریپورہ کا مسئلہ ہو، یا جنتر منتر کا، یا کسی اور جگہ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت کی گئی ہو — قمر غنی عثمانی صاحب ہمیشہ پیش پیش رہے۔
ہمیشہ قانونی اقدام کیا، احتجاج کیا، ایف آئی آر درج کروائی، اور قوم کو جگانے کی کوشش کی۔
لیکن آج وہی عاشقِ رسول ﷺ…
اسی قوم کی غفلت اور بے حسی کا شکار ہو کر،
بغیر کسی سنوائی کے، نہایت کمزور، بیمار اور سسکتی حالت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
ان کے پاؤں سوج چکے ہیں،
نہ صحیح طریقے سے بیٹھ سکتے ہیں، نہ سو سکتے ہیں،
نہ استنجا کے قابل ہیں، نہ نماز ادا کرنے کے قابل۔
کیا یہ وہ امت ہے جسے امام مالکؒ نے کہا تھا:
> "اگر نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی ہو اور امت خاموش رہے… تو ایسی امت کو مر جانا چاہیے۔"
حضرت قمر غنی عثمانی صاحب جیل سے بھی یہی کہتے ہیں:
> "میں چاہے عمر بھر جیل میں رہوں، مجھے گوارا ہے… لیکن جب تک میری آنکھیں سلامت ہیں، میرے کان سنتے ہیں، اور زبان بولتی ہے، کوئی میرے آقا ﷺ کی شان میں گستاخی کرے… یہ میں برداشت نہیں کروں گا۔"
آج ہم ہر پیر، ہر شخصیت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ اگر کسی نے ہمارے بزرگ کی شان میں کوئی لفظ کہا، تو ہم سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں تک طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔
لیکن اگر آقائے دو جہاں ﷺ کی شان میں کوئی زبان درازی کرے، تو ہم خاموش ہو جاتے ہیں۔
ہم نے نبی کریم ﷺ کا کلمہ پڑھا ہے، تو پھر یہ کیسا کلمہ ہے، جو ہمیں ان کی عزت کے لیے آواز اٹھانے سے روک دیتا ہے؟
آج قمر غنی عثمانی صاحب کا صرف ایک پیغام ہے:
> "گستاخوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاؤ، چاہے قیمت کچھ بھی ہو۔"
انہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال بھی کی، صرف اس لیے کہ کسی شہر میں ایک گستاخ کی تقریب کی تاریخ طے ہوئی تھی۔
وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے:
> "اگر میرے نبی ﷺ کی توہین ہوئی، تو میں کھانا پینا چھوڑ دوں گا، جان دے دوں گا۔"
اور ہم…؟
ہم اپنی زندگیوں میں مشغول ہیں۔
ہم نے انہیں فراموش کر دیا۔
ہمیں فکر ہے اپنے گھروں، اپنے کاموں، اپنے رہنماؤں کی — لیکن اس عاشقِ رسول ﷺ کے لیے نہیں جو صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے میدان میں نکلا تھا۔
حضرت قمر غنی عثمانی صاحب نے جو کارنامے تین سالوں میں کر دکھائے، وہ برسوں پرانی تنظیمیں بھی نہ کر سکیں۔
انہوں نے للٰہیت سے، خلوصِ نیت سے کام کیا — اور اسی خلوص کا صلہ یہ ملا کہ آج وہ جیل کی کوٹھری میں بیماری اور کمزوری سے لڑ رہے ہیں… صرف اس لیے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی عزت پر سیاست نہیں کی… سودا نہیں کیا۔
آئیے!
اب بھی وقت ہے۔
آئیے ہم متحد ہوں۔
ہم قمر غنی عثمانی صاحب کے لیے آواز اٹھائیں۔
ہم تحریک فروغِ اسلام کا ساتھ دیں،
ہم ان کے رفقاء کی حوصلہ افزائی کریں،
ہم ہر شہر، ہر قصبے، ہر تھانے میں گستاخانِ رسول ﷺ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں۔
ہم قمر غنی عثمانی کے جذبے کو زندہ رکھیں۔
کیونکہ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی…
تو یاد رکھئے، کل کو کوئی اور عاشقِ رسول ﷺ اُٹھے گا بھی نہیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت قمر غنی عثمانی صاحب کو صحت کاملہ عطا فرمائے، انہیں باعزت رہائی عطا فرمائے، اور ہمیں حضور ﷺ کی سچی محبت عطا فرمائے۔۔
عبد الامین برکاتی
احمدآباد گجرات

😢
💔
3