دور حاضر کے فتنے
June 18, 2025 at 12:58 PM
یہ تصویر صرف ایک یادگار لمحے کو نہیں بلکہ پوری ایک سازش، سیاست، اور مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے دھارے کو بدلنے والے فیصلوں کی نمائندہ ہے۔ ذیل میں اس منظر کی تفصیل، پس منظر، اور اس میں شامل تین اہم شخصیات کے بارے میں عام فہم، مستند اور مدلل انداز میں پیش کیا جا رہا ہے: 🌍 ایک لمحہ جو تاریخ بنا: یہ تصویر اپریل 1921ء کی ہے جو عمان (اردن) میں کھینچی گئی۔ تین شخصیات تصویر میں نمایاں ہیں: 1. مرکز میں: ہربرٹ صموئیل (Herbert Samuel) پس منظر: برطانوی سیاست دان اور یہودی نسل سے تعلق رکھنے والے شخص، جو 1916ء کے بعد برطانیہ میں یہودی مفادات کے سب سے بڑے نمائندے کے طور پر ابھرا۔ اہمیت: وہ پہلا یہودی تھا جسے برطانوی کابینہ میں وزیر مقرر کیا گیا۔ صہیونی تحریک (Zionism) کا پرزور حامی تھا، اور اس نے کابینہ میں بیٹھ کر فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی حمایت کی۔ اس کے خیالات ہی وعدہ بالفور (Balfour Declaration) 1917ء کی بنیاد بنے، جس میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔ 1920ء تا 1925ء وہ فلسطین میں برطانیہ کا پہلا ہائی کمشنر (مندوب سامی) مقرر ہوا۔ اس نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی راہ ہموار کی، اور عربوں میں بے چینی کی بنیاد رکھی۔ ماخذ: Encyclopaedia Britannica, Herbert Samuel Benny Morris, "Righteous Victims", 2001 2. دائیں جانب: لیفٹیننٹ کرنل ٹی۔ ای۔ لارنس (T. E. Lawrence) خطاب: "لارنس آف عربیہ" (Lawrence of Arabia) پس منظر: برطانوی فوجی افسر، جاسوس اور ماہر آثارِ قدیمہ۔ کردار: پہلی جنگ عظیم کے دوران شریف حسین کے بیٹوں (فیصل اور عبد اللہ) کے ساتھ مل کر سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کو منظم کیا۔ عربوں کو آزادی کا وعدہ کیا لیکن پسِ پردہ سائیکس پیکو معاہدہ (1916) کے تحت برطانیہ اور فرانس نے عرب علاقوں کو آپس میں بانٹنے کی سازش کر لی۔ لارنس کی شخصیت کو برطانیہ نے ایک ہیرو اور عرب دوست کے طور پر پیش کیا، مگر وہ حقیقت میں سامراجی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ ماخذ: T. E. Lawrence, "Seven Pillars of Wisdom" Scott Anderson, "Lawrence in Arabia", 2013 3. بائیں جانب: عبداللہ بن حسین (بعد میں: شاہ عبداللہ اول) نسب: شریف حسین بن علی (شریفِ مکہ) کا بیٹا کردار: عثمانی خلافت کے خلاف عرب بغاوت میں برطانیہ کے ساتھ اتحادی بنے۔ 1921ء میں برطانیہ نے اسے مشرقی اردن (Transjordan) کا امیر مقرر کیا، جس کا دارالحکومت عمان تھا۔ بعد ازاں وہ اردن کے بادشاہ بنے اور ہاشمی سلطنت کے بانی کہلائے۔ انہیں برطانوی حمایت سے اقتدار ملا، لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا کردار مبہم اور بعض اوقات متنازع رہا۔ ماخذ: Avi Shlaim, "Lion of Jordan: The Life of King Hussein in War and Peace" Kedourie, Elie, "The Chatham House Version", 1970 🔍 اس تصویر کی تاریخی اہمیت: یہ تصویر انگریزوں کے مشرقِ وسطیٰ میں سامراجی منصوبے کا عکس ہے۔ ہربرٹ صموئیل یہودی وطن کے قیام کا سفیر تھا۔ لارنس وہ کردار تھا جس نے عربوں کو خواب دکھا کر ان سے اپنی لڑائی لڑوائی۔ عبداللہ بن حسین وہ عرب رہنما تھے جنہیں انگریزوں نے بغاوت کے بدلے علاقائی اقتدار دیا، مگر فلسطین ان کے ہاتھ نہ آیا۔ 📜 تاریخی تناظر: وعدہ بالفور سے ہاشمی سلطنت تک: 1917ء: برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی حمایت کرتا ہے (وعدہ بالفور)۔ 1918-1920: عرب بغاوت کامیاب ہوئی، عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1921ء: انگریزوں نے عرب علاقوں کو بانٹ دیا۔ عراق میں فیصل، اردن میں عبداللہ اور فلسطین پر براہ راست قبضہ۔ یہ تقسیم وہی تھی جس پر سائیکس پیکو معاہدے کے تحت پہلے ہی سازش ہو چکی تھی۔ یہ تصویر نہ صرف ایک یادگار لمحہ ہے بلکہ ایک عرب دھوکہ، ایک سامراجی منصوبہ، اور ایک صہیونی ایجنڈے کی علامت بھی ہے۔ اس میں ہمیں: عربوں کی سادگی، انگریزوں کی چالاکی، اور صہیونیوں کی منصوبہ بندی واضح نظر آتی ہے۔
Image from دور حاضر کے فتنے: یہ تصویر صرف ایک یادگار لمحے کو نہیں بلکہ پوری ایک سازش، سیاست، اور مش...

Comments