الجمعیت
الجمعیت
June 20, 2025 at 03:45 AM
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا قومی اسمبلی میں پراثر خطاب تحریری صورت میں 19 جون 2025 نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد جناب اسپیکر! پچھلی مرتبہ جب میں نے ایوان میں کچھ گزارشات پیش کی تھی ظاہر ہے یہاں پر ایوان میں ملک کو ڈسکس کیا جاتا ہے، داخلی معاملات ڈسکس ہوتے ہیں، خارجہ تعلقات پر بات ہوتی ہے اور اپوزیشن ہمیشہ ان کمزوریوں کا تذکرہ کرتی ہے، حکومت کو متوجہ کرتی ہے، اصلاحات کی طرف متوجہ کرتی ہے لیکن خدا جانے ایوان جو بالادست ہے اور سپریم ہے اور آپ اس کے کسٹوڈین ہیں، اگر ہماری کوئی تقریر حکمران حلقوں کو ناگوار گزرتی ہے تو پھر اس کا بلیک اؤٹ کر دیا جاتا ہے، تمام چینلز پر اس کی نشریات بند کر دی جاتی ہیں، سب سے پہلے تو میں اس پر احتجاج بھی نوٹ کراؤں گا اور آپ کی طرف سے باقاعدہ رولنگ جانی چاہیے کہ کسی بھی ممبر اسمبلی کی تقریر کو اگر اس کا حق ہے کہ قوم ان کو سنے اور اس کی آواز قوم تک پہنچے، اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ جناب سپیکر! بجٹ پہ بات ہو رہی ہے، میں معیشت کا ماہر نہیں ہوں لیکن 1988 سے اسی ایوان کے اندر بجٹ سن رہا ہوں، بجٹ پر بحث ہو رہی ہوتی ہے، وہ سب ہم سن رہے ہوتے ہیں اور ہر حکومت کو یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم معیشت میں ترقی کریں گے، اپنے پیش کی ہوئی بجٹ کو ہر گورنمنٹ پاکستان دوست، عوام دوست، معیشت کی طرف ایک کامیاب قدم قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے اپنی معیشت کا تجزیہ کریں کیا ہم مجموعی طور پر نیچے ارہے ہیں یا ہم مجموعی طور پر اوپر جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے اس ملک میں وہ بجٹ بھی دیکھے ہیں جب ہمارا جی ڈی پی گروتھ منفی پہ چلا گیا تھا اور گزشتہ سال جو آپ نے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف ہمیں بتایا تھا اس کا پچاس فیصد بھی وہ ہدف ہم حاصل نہیں کر سکے ہیں اور مزید بھی کوئی بڑے اصلاحات اور بڑی امید ہم قوم کو نہیں دے سکے ہیں۔ جناب اسپیکر! ہم اخبارات پڑھتے ہیں، ہم الیکٹرانک میڈیا پر لوگوں کی تجزیے سنتے ہیں، مختلف مجالس میں ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر جب بجٹ کو ڈسکس کرتے ہیں تو میرا مشاہدہ یہ ہے کہ کسی ایک گوشے سے بھی اس بجٹ کی کوئی تحسین نہیں کی گئی اور ہر طرف سے اس پر تنقید کی گئی ہے۔ اس کو کمزور بجٹ قرار دیا گیا ہے۔ اب آپ میرے اس مشاہدے کے بعد مجھ سے یہ توقع کیسے رکھیں گے کہ میں اس بجٹ کی تحسین کروں، اس سے امیدیں وابستہ کروں، اس کو ملکی معیشت کے لیے کوئی پیشرفت سمجھوں، بہتری کی طرف اس کو پیشرفت سمجھوں، تو ظاہر ہے کہ جو عمومی رائے سامنے آرہی ہے وہ اس بجٹ کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے بلکہ مسلسل تنقید پر مشتمل اس قسم کی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ جناب اسپیکر! کسی بھی ملکی معیشت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پرامن ماحول ملے، ہمارے ملک میں نائن الیون کے بعد ہم مسلسل میدان کارزار بنے ہوئے ہیں اور لڑائیاں ہیں، قتل و غارت گری ہے، جو کسی زمانے میں جرم تصور کیا جاتا تھا، کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج وہ ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے اور سرے سے محسوس ہی نہیں کیا جا رہا کہ یہاں بدامنی ہے، یہاں لوگ محفوظ نہیں ہیں، جتنے باعزت لوگ جن کو کم از کم اپنے صوبے میں میں جانتا ہوں یا بلوچستان میں میں جانتا ہوں کوئی باعزت انسان بھتے دیے بغیر اب زندہ نہیں رہ سکتا، یہ ہماری حالت ہو گئی ہے۔ پارلیمنٹ ہے تو، ہند وستان نے ہماری ان پر حملہ کیا، ہند وستان ہر لحاظ سے ہم سے دس سے پندرہ گنا زیادہ طاقتور اور بڑا ہے دفاعی لحاظ سے بھی ہمارے اور ان کی نسبت تقریبا یہی ہے لیکن پاکستان نے جس جرآت کے ساتھ اس کا دفاع کیا، اس کے ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنایا، جن جہازوں اور جن پائلٹوں پر ان کو غرور تھا پاکستان نے ان کے غرور کو زمین بوس کر دیا، یہ سب کچھ دیکھا اور ہر طرف سے داد تحسین ملی ہماری دفاعی قوت کو، یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہماری دفاعی قوت اپنی آئینی اور پیشہ ورانہ زمہ داریوں کو پورا کرتی ہے اور خود کو وہاں تک محدود رکھتی ہے قوم کل بھی ان کے ساتھ کھڑی تھی قوم آج بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ لیکن سوالات دو ہیں، کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنی ذمہ داریوں تک محدود ہے، کیا دفاع کے علاوہ ملکی سیاست کو وہ کنٹرول نہیں کر رہے ہیں، کیا ہماری پارلیمنٹ کو وہ کنٹرول نہیں کر رہے، اگر وہ نہ چاہیں پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کے باوجود میری تقریر باہر نہیں جا سکتی، گیلری میں بیٹھے ہوئے صحافی جو آپ کے اسی سکرین کو دیکھ کر اس سے خبریں لیتے ہیں وہ بند کر دی جاتی ہے، تو پھر آپ بتائیں کہ یہ پارلیمنٹ اور یہ حکومت کیسے ساورنٹ ہے۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم تین یا چار گھنٹوں میں ہند وستان کی طاقت کو اور اس کے غرور کو خاک میں ملا سکتے ہیں تو چالیس سال سے ملک کے اندر ہم عسکریت پسندی کے خلاف لڑ رہے ہیں اس کے خلاف ہمیں کامیابی کیوں نہیں مل رہی ہے، بد امنی عسکریت پسندی، د ہشت گردی جو بھی آپ اس کو نام دیں آج ہم اسے ایک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں، آج ہم اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور عام آدمی کو امن فراہم کرنا یہ شاید اب ہماری ڈیوٹی نہیں رہی۔ جناب اسپیکر! میں یہاں پر ملک کے تمام قائدین کے سامنے ان خیالات کا اظہار کر چکا ہوں اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے دو صوبوں میں حکومتی رٹ موجود نہیں ہے، یہ اعادہ کر رہا ہوں، یہ نہیں کہ پہلی مرتبہ کہہ رہا ہوں۔ اگر دو صوبوں کے اندر حکومتی رٹ ہی موجود نہیں ہے تو ہم کس چیز کے شادیانے بجا رہے ہیں، ہم اپنے ملک میں بھی محفوظ نہیں ہیں اور دنیائے اسلام بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان تمام تر حالات میں ہماری قانون سازیاں اپنے ڈرافٹ کے اندر چیخ چیخ کر خود بتلاتی ہیں کہ اس قانون کے پیچھے کس کا پریشر ہے، آپ ہمیں اس ڈراف کے پیچھے خود بتا رہے ہوتے ہیں کہ ائی ایم ایف کا پریشر ہے، آپ خود ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کے ایف اے ٹی ایف کا دباؤ ہے، آپ ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم یہ قانون سازی اقوام متحدہ کے دباؤ پہ کر رہے ہیں اور ان کی خواہش اور ترغیب پہ کر رہے ہیں۔ ہماری سورنٹی کدھر گئی، ہم ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ہر سال 14 اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں، ہم اس دعوے کے ساتھ کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں، ایک آزاد قوم ہے لیکن بین الاقوامی سیاسی ادارے، انسانی حقوق کے ادارے جہاں بیٹھے ہوئے ہیں آج ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک یا پسماندہ ممالک وہ بین الاقوامی اداروں کے قراردادوں، ان کے پاس کی ہوئی قوانین وہ ہمارے ہاں موثر ہیں اور ہمارا اپنا آئین اور قانون غیر مؤثر اور معطل ہو جاتا ہے اس سے ابھی حال ہی میں آپ نے وہ قانون سازیاں کی ہیں جس کے آپ کا اپنا ائین ایسی قانون سازی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ کبھی ہم نے اپنا احتساب کیا ہے، کبھی ایک لمحہ کے لیے سوچا ہے اور جب آپ اس ملک کے اندر آئین کو پامال کرتے ہیں جب آپ اس ملک کے اندر قران و سنت کو پامال کرتے ہیں تو کبھی اس کو حقوق انسان کا لقب دے دیتے ہیں، کبھی اس کو حقوق نسوان کا لقب دے دیتے ہیں، میں حیران اس بات پر ہوں کہ اسی ایوان کے اندر ہم نے وہ قانون سازی بھی دیکھی ہم نے ہی اس کا دفاع کیا لیکن وہ قانون پاس ہو گیا تھا کہ حد زنا اس پہ زنا بالجبر اور زنا بالرضا کے درمیان فرق کیا گیا اور زنا بالرضا کے حوالے سے قوانین معطل کر دیے گئے، تبدیل کر دیے گئے، آئینی ترمیم تک کی گئی اور سہولتیں مہیا کی گئی۔ لیکن آج ہم 18 سال کی عمر کو نکاح کے لیے پابند کر کے اس پر سزائیں دے رہے ہیں، دولہا دلہن کو بھی سزا، ان کے والدین کو بھی سزا، اس نکاح خوان کو بھی سزا، یہ کس قانون کے تحت اس قسم کی سزائیں آپ نافذ کر رہے ہیں جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل اس کو مسترد کر رہا ہے، تمام علماء کرام اس کو مسترد کر رہے ہیں، جو قران و سنت کے حوالے سے اتھارٹی تصور کیے جاتے ہیں وہ اس کو مسترد کر رہے ہیں، خلاصہ کلام یہ جناب سپیکر مسئلے کی نزاکت کو دیکھیں اس پہلو پہ نظر ڈالیں کہ ہم جائز نکاح کے لیے تو مشکلات پیدا کر رہے ہیں اور زنا بالرضا کے لیے سہولتیں پیدا کر رہے ہیں، یہ علامت ہے ایک پاکستان کی اسلامی مملکت کی، اس کے بعد ہم اس کو اسلامی ملکت کہیں گے، یہ کوئی سر جھومر ہے کہ ہم ماتھے پہ اس کو لٹکاتے رہیں، آپ نے اس پارلیمنٹ کے اندر اپنے آئین کو پامال کیا ہے، آپ نے ایک مسلمان ملک کی پارلیمنٹ کے طور پر قرآن و سنت کو پامال کیا ہے، کب احساس ہوگا آپ کو، اور جب اس پر تنقید کی جاتی ہے تو اداریں بھی اور پتہ نہیں ان کے کام انے والے کیا کیا لوگ، این جی اوز وہ ہمارے اوپر ٹوٹ پڑتے ہیں، بھئی کبھی آپ اوپن ڈیبیٹ کریں، تم بتاؤ ہمیں تمہارا ملحدانہ فکر، تمہارا لبرل سوچ، تمہاری آزاد خیالی، تمہارے روشن خیالی آمنے سامنے اکر ہم بتائیں گے آپ کو کہ وہ کس قدر تاریک ہے اور قران و سنت کس قدر روشن اور کس قدر انسانیت کا محافظ ہے۔ چھپے چھپے پھرتے رہتے ہیں لابنگ کرتے ہیں گھر گھر میں، ایک ایک ممبر کے گھر جاتے ہیں ہم نے یہ کیا، ہم نے وہ کیا، ہم نے یہ کیا، ہم یہ کرنا چاہتے ہیں اور اس قسم کی لابنگ کے نتیجے میں ہماری قانون سازی ہوتی ہے نہ ہمارا آئین اس کا تقاضا کرتا ہے نہ ہمارا ملک اس کا تقاضا کرتا ہے نہ ہمارا معاشرہ اس کا تقاضا کرتا ہے اور اس ملک کے اندر وہ کچھ ہو رہا ہے کہ جو خود یورپ میں نہیں ہو رہا۔ جناب سپیکر! ہمیں اس پہلو کو بھی نظر رکھنا چاہیے کہ آج پھر ایک دفعہ ہم بارود اور میزائل اور بمباریوں کے نشانے پہ ہے، ہم نے بہت خون دے دیا ہے، ہماری قوم بہت قربانیاں دے چکی ہیں، ہم پہ فوج کی قربانیوں کا احترام ہے لیکن قوم نے جو قربانیاں دی ہیں نہتی قوم نے، کہ ہم ان کا دفاع نہیں کر سکتے، ہمارے پاس صلاحیت استعداد ہی نہیں ہے۔ مجھے کراچی میں بتایا گیا کہ عید کے روز دو دو سالہ بچے دو دو سالہ بچے اغوا کر لیے گئے اور جس دن مجھے یہ بتایا جا رہا تھا اس وقت تک وہ برآمد نہیں ہو سکے تھے، کہاں گئی انسانیت، کس کو آپ انسانیت کا درس دینا چاہتے ہیں، انسان تو یہ کچھ کر رہا ہے۔ اس انسانیت کی رہنمائی کے لیے کون سا نظام ہوگا جو مجھے روشنی دے سکے، اسلام سے پہلے کے معاشرے کو اسلام سے پہلے کے دور کو آج 1400 سال گزرنے کے بعد بھی ہم دور جاہلیت کہتے ہیں۔ اگر اس وقت اللہ کے دیے ہوئے نظام سے مبرہ ہو کر اپنی حیوانی خواہشات کے ساتھ زندگی گزارنے کو زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تو آج بھی اس طرح کی سوچ کو میں جاہلیت سے تعبیر کرتا ہوں یہ قطعاً قوم کے رہنمائی کرنے کے صلاحیت نہیں رکھتے، آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں ہم اپنا فکری ہتھیار بھی پھینک دیں آپ کے سامنے، ہم اپنا عقیدہ و ایمان اس کا ہتھیار بھی آپ کے سامنے پھینک دے، سرنڈر ہو جائیں، میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر ریاست کی ذمہ داروں کو، حکمرانوں کو اس قسم کے ایجنڈا قبول و منظور ہے تو پھر آپ کی اس سوچ کے خلاف میں اس ایوان سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ کچھ اللہ کو سامنے رکھے یہ ننانوے نام کا ہم بار بار حوالہ دیتے ہیں، ہم اللہ کے ننانوے صفات کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں اس لیے ہم نے لکھے ہیں سر کے اوپر کہ ان کی برکتیں نازل ہوں۔ لیکن جو کرتوت ہمارے ہیں، جو ہم کر رہے ہیں، جو انہی ناموں کے نظام کے ساتھ کر رہے ہیں اس کے بعد ہم اس کی برکات کے منتظر ہوں گے یا اس کے پھٹکار کے منتظر ہوں گے۔ کچھ تو احساس ذمہ داری ہونا چاہیے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں، آج ہمارا فلس طینی ساٹھ ہزار سے زیادہ شہید ہو چکا ہے اور ابھی تک میرے مسلمان بھائی کا خون پی پی کر صہیو نی درندوں کا پیاس نہیں بجھ رہا، مسلسل بمباری جاری ہیں، دو روز کے اندر ڈیڑھ ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں، مجھے ابھی راستے میں ایک صحافی نے پوچھا اور وہ ریکارڈ بھی کر رہا تھا کہ جی جنرل عاصم منیر صاحب اور ٹرمپ کی ملاقات ہوئی ہے آپ اس بارے میں کیا کہیں گے، میں نے کہا کہ ابھی میرے پاس تو کوئی ایسی رپورٹ نہیں ہے انہوں نے کہا کوئی وہاں پر پریس ٹاک کی ہو میرے علم میں نہیں ہے، لیکن میں ایک سیاسی کارکن کے طور پر یہ تجزیہ کر سکتا ہوں کہ اس نے ضرور کہا ہوگا کہ ا نڈیا پاکستان کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے، اس نے ضرور یہ کہا ہوگا کہ ایر ان اور ا سرائیل کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے اور اس نے کبھی نہیں کہا ہوگا کہ اسر ائیل فلس طین پر بمباری بند کر دے۔ یہ تین جملے میرے پاس ہیں کہ اُدھر سے ا نڈیا پاکستان جنگ کی بات ہوئی ہوگی، اسر ائیل اور ایر ان کے جنگ کی بات ہوئی ہوگی اور کبھی بھی فلس طین کے حوالے سے ٹرمپ نے بات نہیں کی ہوگی، کیوں یہ امتیاز برتا جا رہا ہے، جہاں پر صہیو نی مرتا ہے جہاں پر مودی مرتا ہے اس سے تو ان کو تکلیف ہو رہی ہے لیکن اگر ایک غریب مسلمان، غیر مسلح مسلمان، چھوٹے چھوٹے بچے، خواتین، بوڑھے بزرگ ان کا خون بہہ رہا ہے پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے اس کا کسی کو احساس نہیں ہے، مسلمان کی نظر سے نہ دیکھو انسان کی نظر سے دیکھو، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسلمان نہیں ہے اگر کسی شخص کی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ نہیں ہے تو پھر یہ انسانیت نہیں اسی کو ہم حیوانیت کہتے ہیں۔ اس انسانیت پر فخر مت کرو، شرم تمہارے سر جھک جانا چاہیے، اس کو انسانیت کہتے ہیں، پاکستان اسلامی دنیا کا بڑا ملک ہے، پاکستان اسلامی دنیا کا مؤثر ملک ہے، پاکستان اسلامی دنیا کا طاقتور دفاعی قوت ہے، پاکستان اسلامی دنیا کا ایٹمی طاقت ہے، پاکستان کے اندر وہ صلاحیتیں موجود ہے کہ وہ امت مسلمہ کی قیادت کرے اور ہم ہیں کہ ملک کے داخلی صورتحال میں بھی، ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں اور خطے کی صورتحال میں بھی ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں، قیادت خاک کریں گے ہم، یہی پیغام اس پارلیمنٹ سے امت مسلمہ کو جانا چاہیے، او ائی سی کو جانا چاہیے، بین الاقوامی اداروں کی کوئی حیثیت اب نہیں رہی، او ائی سی ایک دکھاوا ہے (اس آئی ناٹ سی)، سلامتی کونسل پانچ بڑے ممالک، ترقی یافتہ ممالک کی منوپلی ہے، پورا اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی امریکہ کی لونڈی ہے، جب وہ چاہیں ہماری سیاست پر بھی قبضہ کر لیں، ہم سے قانون سازی کا حق بھی چھین لیں، ہم ان کے دباؤ پر قانون سازیاں کرتے رہیں، معیشت ان کی خواہشات کے تابع کریں اور یہ جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اگر وزیر خزانہ صاحب موجود ہوتے تو میں ان کی موجودگی میں یہ کہتا کہ وزیر خزانہ صاحب یہ آپ نے تیار نہیں کیا یہ آئی ایم ایف نے تیار کیا ہے اور آپ نے پڑھ کر سنایا ہے۔ آپ کے اندر اس وقت بجٹ بنانے کی صلاحیت بھی ختم ہو چکی ہے۔ کب ایک طاقتور ملک کی حیثیت اختیار کریں گے ہم، ا یران اگر اسر ائیل کو جواب دے رہا ہے تو ایر ان کے ہاتھ روکے جاتے ہیں، اگر پاکستان انڈ یا کو جواب دیتا ہے تو پاکستان کے ہاتھ روکے جاتے ہیں، لیکن اگر وہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے تو ان کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے، ہند وستان کے مسلمان کا قتل عام ہوا اسی مودی کے ہاتھوں، یہ مسلم دشمن اور میں ایک بار اور کہنا چاہتا ہوں دوستوں سے معذرت کے ساتھ کہ اس کو پاک انڈ یا جنگ نہ کہا جائے یہ پاک مودی جنگ تھی، کیونکہ پاکستان متحد تھا اور ہند وستان کی حکومت کو ہند وستان میں کوئی تائید حاصل نہیں تھی، وہ اکیلے ہند وتوا کاٹ کھیل رہا تھا اور ایک سرکار پاکستان پہ حملہ کر رہی تھی اس کی اپوزیشن نے بھی ساتھ نہیں دیا وہاں کی اقلیت نے بھی ساتھ نہیں دیا، وہاں کے سکھ نے بھی ساتھ نہیں دیا، وہاں کے مسلمان نے بھی ساتھ نہیں دیا، تو یہ صرف مودی کی جنگ تھی۔ تو جو اکیلے جنگ لڑے گا اور کون ساتھ نہیں ہوگی تو یہ انجام ہوگا اور اگر یہاں پر قوم ساتھ ہوگی، ان کے پشت پہ کھڑے ہوگی تو پھر یہ بہادری ہوگی داد ملے گی، جب آپ بنگال میں لڑ رہے تھے تو قوم آپ کے ساتھ نہیں تھی تو نتیجہ کیا نکلا، آج آپ لڑیں اور قوم آپ کے ساتھ تھی تو نتائج کیا سامنے ائے، لیکن ہمیں خطے کی سیاست میں اس کے اچھے نتائج حاصل کرنے کی سٹریٹجی بنانی ہوگی، سوچ سمجھ کر بنانی ہوگی، ہمیں خطے میں ایران کو اعتماد میں لینا ہوگا، ہم ایر ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان کو کھل کر کھڑا ہو جانا چاہیے، ہمیں کھل کر اہل غز ہ کے ساتھ فلس طینیوں کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے، یہو د ہنو د یہ ایک ہے ایک دوسرے کی اتحادی ہے، اگر فلس طین سے آگے لبنان پر وہ حملہ کر چکا ہے، اگر وہ شام پر حملے کر چکا ہے، پرانے قبضے ایک طرف حال ہی میں جو اس نے شام کی دفاعی قوت کو تباہ کیا ہے، عراق میں جو کچھ گزری ہے وہ آپ کے سامنے ہے اس کے بعد ایر ان اس کے بعد اب پاکستان، تو فلسطین لبنان شام عراق ایر ان اور پاکستان اور پاکستان کی ایٹمی قوت کو تباہ کرنا ان کا ایجنڈا ہو سکتا ہے، اِدھر سے ہند وستان ہمارے لیے خطرہ ہے، ہم خطے میں خطے کے ممالک کے ساتھ انگیج نہیں ہو رہے، ہمیں وہ پالیسی بنانی ہوگی، ہمیں اپنے دوست ممالک ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں وہ گرم جوشی نہیں رہی ہے جو کسی زمانے میں تھی اور آج ہونی چاہیے تھی۔ تو ایسی تمام تر صورتحال میں جناب سپیکر! ہمیں غور کرنا ہوگا اور پھر پالیسیوں کے اوپر بجٹ میں ممبران اپنے حلقوں کی بات بھی کرتے ہیں، اپنے علاقوں کی بات بھی کرتے ہیں، جناب وزیراعظم نے ہمارے علاقوں میں جن منصوبوں کا خود افتتاح کیا تھا آج اسی وزیراعظم نے اپنے افتتاح کیے ہوئے منصوبوں کے فنڈز روک دیے ہیں، اب بتاؤ کس سے امید رکھیں۔ تو اللہ کے حاکمیت کے نیچے اس کی نیابت تو ہم کر رہے ہیں ہمارے حکمران کر رہے ہیں اسے کہتے ہیں اللہ کی نیابت، کہ ہم قانون پاس کریں آئین کے تحت پابند کے قرآن و سنت کے تابع، لیکن قانون سازی کرتے ہیں ہم اقوام متحدہ کے تابع، قانون سازی کرتے ہیں ہم ائی ایم ایف کے تابع اور پھر ہماری بیوروکریسی میں ایسے لوگ ہیں جو میں نے خود سنے ہیں کہ جی اگر آپ ان کی بات نہیں مانیں گے تو ریاست ختم ہو جائے گی۔ اب جو میرے ملک کو چلانے والے لوگ ان کی خودداری ان کا اعتماد اس کی حالت یہ ہے کہ اس پر فاتحہ پڑھا جائے ختم ہو چکی ہے یہ لوگ میرے ملک کو چلائیں گے، 25 کروڑ کے عوام کے اس ملک کو یہ لوگ چلائیں گے، جناب والا اس ملک میں انقلاب چاہیے، روایتی سیاست کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔ عوام کو بیدار کرو، اس میں شعور پیدا کرو تاکہ وہ اپنے مسائل کے لیے خود آواز بلند کر سکیں۔ تو یہ چند گزارشات تھیں میں نے کچھ اگر وقت زیادہ لے لیا ہے تو اس کی سزا کسی دوسرے میرے کولیگ کو نہ دینا، اللّٰہ کرے کہ ہم اپنے روش پہ نظر ثانی کریں، ملک کے اندر جمہوری اقدار کو بحال کریں، سیاست دانوں کے ساتھ انتقامی رویہ نہ رکھیں اور ایک انصاف پر مبنی نظام ہونا چاہیے، معیشت قوت کے استعمال سے بہتر نہیں ہوگی معیشت قوم کو انصاف مہیا کرنے سے ہو سکتی ہے اس کے بغیر بہتر نہیں ہوسکتی۔ وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ ضبط تحریر: #سہیل_سہراب ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز #teamjuiswat

Comments