Novel Ki Dunya
June 1, 2025 at 09:05 AM
#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے
#تحریر_عاصمہ_بلوچ
#قسط_نمبر_9
شہری صبح اٹھا اور بنا کچھ کھاۓ پیے گھر سے نکل گیا کیونکہ ماں سے اس کی ناراضگی تھی
صبع سے آفس میں بھی اس کا دل نہیں لگ رہا تھا
اس نے جیسے ہی کلنڈر پر تاریغ دیکھی
تو بہت زور سے میز پر موکا مارا اور بولا اوو شٹ آج رات بارہ کے بعد ماما کی سالگرہ ہے میں تاریغ بھول گیا اور فضول میں ان سے ناراض ہو گیا
وہ آفس میں بتا کر مال کی طرف ماما کے لیے گفٹ لینے نکالا تو ٹریفک میں پھس گیا
اسی ٹریفک میں شہری نے پاکیزہ کو زیشان کے ساتھ ہنستے دیکھا وہ کار سے نکل کر پہنچتا کہ کال اسٹاٹ ہو کر جانے لگی تب شہری فورا اس کار کو فالو کرنے لگا
وہ کار ایک مال کے باہر رکی شہری نے اپنی کار پارک میں لگائی تو زیشان اور پاکیزہ اندر جا چکے تھے
پاکیزہ اپنی شاپنگ کرنے لگی
شہری ان کے پیچھے اندر آیا مگر وہ نظروں سے اجھل ہو چکے تھے
شہری ہر طرف انہیں دیکھتا رہا مگر نظر نہیں آۓ تو اداس چہرہ بنا کر ایک دکان میں اپنی ماما کے لیے گفٹ کپڑے لینے گیا
وہاں دیکھا تو زیشان اور پاکیزہ بھی تھے
پاکیزہ ہر ڈریس خود کے ساتھ لگا لگا کر دیکھ رہی تھی
زیشو یہ دیکھو کیسا ہے
زیشان منہ بنا کر بولتا نہیں یہ نہیں
اچھا یہ دیکھو نکاح کے دن کے لیے
اچھا پاکی اب جلدی لو مجھے اور بھی کام ہے
اچھا آپ یہ پیک کروا لو
شہری نے جب سنا نکاح اور ولیمہ تو اس کا دل ٹوٹ گیا
اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جب زیشان کی بازو میں اس کی بازو دیکھی اور ساتھ بول رہی تھی زیشو برگر کھانا ہے
پھر مجھے گھر چھوڑ دینا
شہری کو اب یقین ہو گیا کہ پاکیزہ زیشان کی ہونے والی بیوی ہے
وہ ماں کا جوڑا لے کر وہاں سے نکل گیا
گفٹ کار میں آ کر ایسے پھینکا جیسے بہت ٹوٹ سا گیا ہو
اور کار کو فل سپیڈ میں 100 پر چلا رہا تھا ساتھ ان کو سوچ رہا تھا
سمندر کی طرف نکل گیا وہاں سٹیرنگ پر ہاتھ مارا اور ایک دم بریک لگا کر بہت رونے لگا کہ کس کہ لیے ماں سے رات بدتميزی کر دی وہ کسی اور کی ہے
اور میں اس کے خواب سجا بیٹھا وہ اپنے بال دونوں ہاتھوں سے پیچھے کرتے اپنے بابا کے دس سال پہلے بچھر جانے کا غم یاد آ گیا اور ماں پر کیا غصہ سوچ کر روتا رہا
یا اللہ میں نے تم سے اس لڑکی کے لیے ایک ملاقات مانگی تھی اور تم نے ایسی ملاقات کروائی کے مجھے توڑ دیا میں نے زندگی میں کسی کو پہلی بار اس نظر سے دیکھا وہ کیوں میرے نصیب نہیں کی۔۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
شہری کو سمندر پر شام سے رات ہونے والی ہو گئی
شبانہ گھر میں اکیلی بہت زیادہ پریشان ادھر اُدھر ٹہل رہی تھی اور بیٹے کی راہ دیکھ رہی تھی پتہ نہیں کچھ کھایا بھی ہو گا کے نہیں اللہ جانے کدھر چلا گیا وہ تھک کر سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی اور ہاتھ اٹھا کر خیریت کی دعائیں مانگنے لگی
سمندر پر ایک چھوٹا بچہ شہری کے پاس آیا
مگر شہری بہت اداس اپنے خیالوں میں گم تھا
انکل اللہ کے نام پر کچھ پیسے دے دیں میری ماں بیمار ہے دوائی لینی ہے
شہری کو اس نے ہاتھ سے ہلایا تو شہری خیالوں سے باہر آیا اور آنسو اپنے صاف کرتے ہوئے جیب میں ہاتھ مارا کچھ پیسے اس بچے کو دے دیے اور گھڑی پر نظر ماری تو پریشان ہو کر اٹھا کپڑے جاڑنے لگا ماں کتنا پریشان ہو رہی ہو گی فورا آ کر کار میں بیٹھا اور گھر کی طرف کار بھاگا دی
گھر آ کر کار کو اندر کیا اور اپنی اداسی چھپا لی اور ماں کو سلام کیا
شبانہ نے جیسے ہی آواز سنی اٹھ کر گلے لگا لیا اور سر ماتھا چومنے لگی اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگی خیریت سے گھر آ گیا
ارے ماما کیا ہواہے میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہےماں کے آنسو صاف کر کےگلے لگا لیا
شبانہ روتے ہوۓ بولی بیٹا مجھے معاف کر دو
ارے ماں بس کریں مجھے گرما گرم چاۓ پلا دیں میں باہر سے کھانا کھا کر آیا ہوں آج میٹنگ تھی شہری نے جھوٹ بولا اور کھانے کا منا کر دیا اور چاۓ کا بول کر کمرے میں چلا گیا
کمرے میں موبائل پرس رکھ کر سیدھا واش روم چلا گیا وہاں شیشے میں اپنے آپ کو دیکھ کر پاکیزہ اور زیشان کو سوچ کر بہت بےزاری سے بالوں میں ہاتھ مار کر پیچھے کرنے لگا پانی کا نلکا کھولا اور منہ دھونے لگا تولیہ اٹھا کر منہ صاف کرتا باہر آیا اور ماں کو صوفے پر بیٹھا دیکھا جا کر ان کے قدموں میں زمیں پر بیٹھ کر خاموشی سے سر ان کی گود میں رکھ لیا۔
شبانہ بیٹے کے سر پر ہاتھ گھومتی رہی اور بہت باتیں کرتی رہی مگر شہری اپنی دنیا میں گم تھا ماں کی ایک بھی بات نہیں سنی
بیٹے چاۓ ٹھنڈی ہو رہی ہے پھر بولو گے میں ٹھنڈی لے آئی
شہری ہواس میں آتے ہی بولا چاۓ کا اب دل نہیں رہا ماما میں نے ایک فیصلہ کیا یے
شبانہ بیٹے کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی کیا فیصلہ؟
ماما آپ کو تبسم پسند ہے نا؟
ارے چھوڑو تبسم کی بات کو آرام سے چاۓ پیو کیونکہ ماں جانتی تھی کل اسی بات سے روٹھ کر بھوکا سو گیا تھا تو اب پھر ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی
شہری ماں کا ہاتھ پکڑ کر بولا ماما بتاییں نا؟
ہاں پسند ہے مگر۔۔
تو ماما مجھے آپ کی پسند قبول ہے
کیا۔۔۔۔؟ تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟
جی جی ٹھیک ہوں اب آپ بےشک کل ہی رشتے کی بات کر لیں مجھے کوئی اعتزاز نہیں
شبانہ بہت خوش ہوئی اور بیٹے کا ماتھا چومنے لگی
بارہ بجنے سے پہلے ہی ماں کے اگے گفٹ کیک رکھا اور کاٹ کر برتھ ڈے منا لی
شبانہ بیٹے کو دیکھ کر بولی یہ سب کرنے کی کیا ضروت تھی اور یہ گفٹ اس گفٹ کے اگے تو کچھ نہیں جو آج تم نے مجھے دیا ہے میری تبسم میرے لیے گفٹ ہے
ارے ماما آپ بس خوش رہا کریں اور کل کے لیے کان پکڑ کر سوری کرتا ہوں اور پھر گلے لگ گیا اس کا دل آنسو سے پھر کر باہر چھلکنے کو تھا وہ درد چھپا کر بولا ماما اب بہت تھک گیا ہوں اب میں سونا چاہتا ہوں کل انشاءاللہ بات کریں گے
اچھا بیٹا اب جا کر آرام کرو۔
شہری گڈنائٹ بولتے ہی روم کی طرف چلا گیا اور اندھیرا کر کے بیڈ پر لیٹ گیا پاکیزہ اور زیشان اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے اور اس کے آنسو خود آنکھوں سے نکل کر کانوں کے پیچھے جا رہے تھے کب سو گیا پتہ نہیں چلا
صبع شبانہ نماز قرآن سے فارغ ہو کر بیٹے کے لیے ناشتہ بنانے لگی کچھ دیر بعد ناشتہ بن چکا تھا وہ بیٹھ کر بیٹے کا انتظار کرنے لگی پھر اٹھ کر اس کے کمرے کی طرف آئی کمرے میں آ کر سامنے والی کھڑکی کھولنے لگی اور بولی لگی شہری بیٹا اٹھو صبع ہو گی ہے ناشتہ کر کو آفس نہیں جانا
شہری مردہ لاش کی طرح وہی کا وہی سیدھا پڑا رہا
شبانہ پاس آ کر اس کے بازو کو ہلاتے بولی اٹھو شہری جیسے ہی اس کے بازو کو پکڑا بازو بہت گرم تھا شبانہ نے فورا اس کے ماتھے کو چھو کر دیکھا بہت تیز بخار میں تھا
شبانہ پریشان ہوتے ہوۓ فریزر سے ٹھنڈا پانی نکال کر لائی اس میں کپڑا بھگو کر اس کے ماتھے پر پٹی کرنے لگی اور ساتھ بولتی رہی شہری اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو
بخار کچھ کم ہوا تو شہری نے آنکھیں کھول کر ماں کو دیکھا تو مسکرانے لگا تو ماں نے اس کے گیلے بال پیچھے
کرتے ہوۓ مسکرائی اور اللہ کا شکر کرنے لگی
شہری پہلے جیسا نہ تھا اداس اداس رہنے لگا اور ماں سے چھپ کر سگريٹ بھی پینے لگا
چار ماہ بعد
لائبہ کی شادی زیشان سے ہو چکی تھی اور پاکیزہ بھی لاسٹ پیپر دے کر فری ہو گئی تھی وہ سارا دن لائبہ کے ساتھ گھر میں باتیں کرتی لائبہ شادی کے بعد بہت بدل گئی تھی فیشن چھوڑ دیا تھا اور ان کی طرح اسلامی بن گئی ضرورت کی حد تک سب کرتی اور سب گھر والوں کا بہت خیال رکھتی
زیشان اپنے کمرے میں سو رہا تھا
لائبہ ناشتہ لگا رہی تھی
جمیلہ نے لائبہ کو مسکراتے ہوۓ دیکھا بیٹا زیشان نہیں اٹھا
لائبہ سر پر ہاتھ مارتےہوۓ بولی اففف
ارے بیٹا کیا ہوا؟
ماما میں نے زیشان کو اٹھایا تو تھا پانچ منٹ کا بول کر پھر سو گئے تھے اور بیس منٹ ہو گئے اٹھے نہیں میں بھی واپس نہیں اٹھایا
اچھا اب جا کر اٹھا دو میں بھی خادم حسین کو دیکھ کر آتی ہوں کہ اب تک آۓ کیوں نہیں
جی جی ماما
لائبہ کمرے میں آئی زیشان ایسے سو رہا تھا جیسے صدیوں سے نیند نہ کی ہو
لائبہ مسکرا کر پاس آئی اور بالوں میں ہاتھ گھوماتے ہوۓ پیار سے بولی شانی اٹھیں نا آفس کے لیے آج کافی لیٹ ہو چکے ہیں اور اٹھ کر بول دیں گے میں نے اٹھایا نہیں پلیز اٹھ جائیں وہ اٹھ کر کھڑکی کا پردہ ٹھیک کرنے لگی
پھر آ کر ماتھے پر بوسہ لیا اٹھ جائیں اب
ارے بس پانچ منٹ نا
افف آپ کا پانچ منٹ پانچ منٹ کتنے گھنٹے کا ہو جاتا ہے اب بس کریں اٹھ جائیں سب ناشتے پر انتظار کر رہیں ہیں
زیشان پھر سے سو گیا
اب لائبہ کو شیطانی سوجی اور اٹھ کر پانی کا گلاس لے آئی اور منہ پر چھنٹے مار کر بولی اب آپ کے پانچ منٹ پورے ہوں گے اچھے سے
زیشان پر پانی پڑا تو ایک دم سے اٹھ بیٹھا اور ناراض نظروں سے لائبہ کو دیکھا لائبہ تھوڑا ڈر سی گئی فورا پیچھے ہوئی اور باہر بھاگنے کے چکر میں تھی کہ زیشان نے اسے کر پکڑ لیا اور بولنے لگا آج میں نے تمہیں نہیں چھوڑنا
لائبہ نے بھی اسے ڈرا دیا اور بولی جی ماما آ جائیں کہ جیسے ماما آئی ہو روم زیشان نے فورا اسے چھوڑا اور پیچھے ہوا
لائبہ فورا کمرے سے بھاگی
زیشان وہی بالوں کو پیچھے کرتا ہوا مسکرانے لگا اور سر ہلا کر واش روم کی طرف چلا گیا
زیشان جلدی سے تیار ہوا اور نیچے آ گیا
جان جلدی سے اب ناشتہ دو میں بہت لیٹ ہو چکا ہوں
لائبہ سلطانہ کا بنایا ہوا ناشتہ لا کر میز پر رکھنے لگی
سنو جان ماما بابا اور پاکیزہ نہیں نظر آ رہے
پاکی تو ناشتہ کر کے اپنے کمرے میں گئ ہے بابا باہر کام سے نکل گئے ماما شاید باہر پودوں کو دیکھ رہی ہیں اور سلطانہ برتن دھو رہی ہے
زیشان ہنستےہوۓ بولا ارے بس بس اتنی سی بات پوچھی یہاں ایک ہی سانس میں پورا نیوز چینل کھل گیا
لائبہ ہنستے ہوۓ بولی تو کیا آپ کی طرح رک رک کر بولتی
نہیں جی میں نے ایسے نہیں بولا اچھا چھوڑو یہ سب آؤ بیٹھو ناشتہ کرو
لائبہ اور وہ دونوں ناشتہ کرنے لگے
زیشان نے گھڑی دیکھی اور بولا افف آج پھر بہت لیٹ ہو گیا اور لائبہ کو پیار کرتے ہوۓ باہر کی طرف نکل گیا
کار کے پاس پہنچ کر اس نے جیب کو ادھر اُدھر ہاتھ مار کر دیکھنے لگا کار کی چابی نہیں
لائبہ چابی اٹھاۓ دروازے پر کھڑی مسکرا رہی تھی چابی والا ہاتھ اوپر کر کے
زیشان واپس جانے کے لیے جیسے موڑا تو سامنے لائبہ کو دیکھ کر مسکراتا ہوا اس کے پاس آیا
لائبہ نے چابی پیچھے کر لی
زیشان نے بولا جلدی دو میں جاؤں
نہیں جناب ایسے تو نہیں ملے گی
زیشان نے اسے بازوں میں لیتے ہوۓ بولا سوچ لو مجھے ویسے بھی آج آفس کا کوئی موڈ نہیں
افف یہ لیں چابی اور نکلنے والا کام کریں
زیشان ہنستے ہوۓ بولا اب کیسے چھوڑ دوں پکڑنے کے بعد
لائبہ نے پھر سے وہی نسخہ آزمایا بولی شیر گل چاچا
زیشان نے ایک دم سے لائبہ کو چھوڑ دیا لائبہ چابی اس کے ہاتھ میں تھامتے ہوۓ اندر کی طرف بھاگی
زیشان سر ہلاتا ہوا ہنستے ہوۓ کار کی طرف آ گیا اور کار اسٹاٹ کرتے ہی ہارن دیا شیر گل کو کہ گیٹ کھولو
شیر گل نے جیسے ہی گیٹ کھولا زیشان آفس کی طرف نکل گیا
لائبہ کمرے میں پہنچ کر دروازہ بند کر کے ہنسنے لگی اور پھر روم میں بکھری چیزیں سمیٹنے لگی
چار ماہ بعد
شہری کی شادی تبسم سے ہو گئی
نوری نوری کدھر مر گئی ہو نوری ان کے گھر کی ملازمہ تھی جو تبسم کو جیز میں ملی تھی
نوری شبانہ کے پاس ان کے سر میں تیل لگاتے اپنی زندگی کی کہانی سنا رہی تھی
جیسے اسے تبسم کی آواز آئی بولی بیگم صاحبہ مجھے چھوٹی بیگم بولا رہی ہیں میں جاتی ہوں
ہاں نوری تم جاؤ
نوری فورا بھاگ کر تبسم کی طرف آئی جو اپنے کمرے میں جا چکی تھی نوری نے دروازہ بجایا
اندر سے آواز آئی آ جاؤ
نوری دروازہ کھول کر جیسے اندر آئی تبسم نے اسے کھری کھری سنا دی
کتنی دیر سے آواز دے رہی تھی کیا بہری ہو گئی ہو کدھر مری ہوئی تھی
بیگم صاحبہ وہ میں آپ کی ساس کے سر میں تیل ڈال رہی تھی
اچھا بہانے نہ بناؤ اب جاؤ اور میرے لیے جوس اور ناشتہ لے کر آؤ
بیگم صاحبہ کیا ناشتہ آپ کے کمرے میں لاؤں؟
ہاں یہاں ہی لے کر آؤ اور جلدی اور جاتے ہوۓ ٹی وی ریموٹ مجھے تھماتے ہوۓ جانا
نوری ریموٹ دے کر کمرے سے جانے لگی تو تبسم نے پھر سے اسے آواز دی نوری سنو
جی ؟
وہ شہری کہاں ہے کیا ماں کے پاس تھا وہ بھی؟
نہیں وہ تو آفس نکل گئے اب تو ان کے آنے کا وقت ہو رہا ہے
اچھا زیادہ باتیں نہیں کرو دفع ہو جاؤ
نوری باہر آ کر خود کلامی کرتی ہوئی کچن تک آئی پتہ نہیں یہ بیگم خود کو کیا سمجھتی ہے جیسے ہم تو انسان ہی نہیں ہیں نہ شوہر کا ہوش نہ ساس کا خیال بس کھانا سونا اور ٹی وی دیکھنا اس سے تو ہم غریب اچھے اپنے گھر والے کا تو خیال کرتے ہیں
بس میک آپ اور موبائل لے کر گھوم آنے کو زندگی سمجھتی ہے پھر اپنے سر کو مارتے ہوۓ جوس بنانے لگی خیر مجھے کیا اس کی زندگی ہے جیسے بھی گزارے جوس گلاس میں ڈال کر ٹرے میں رکھ کر تبسم کے کمرے کی طرف جانے لگی
تبسم جوس پی رہی تھی تو نوری ناشتہ دے گئی
تبسم کو جیسے ہی ناشتہ ملا آرام سے کرنے لگی کچھ دیر میں اس کا موبائل بجنے لگا اس نے موبائل کو جھک کر اٹھایا اور کان سے لگاتے ہی ہیلو
ارے سمیرا کیسی ہو بہت عرصے بعد یاد کیا ہے
میں بالکل ٹھیک ہوں میں سوچ رہی تھی کافی ٹائم ہوا ملاقات ہوۓ کیوں نہ آج ملا جاۓ کسی مال میں میں حفضہ کو بھی کال کر دوں گی
ہاں ہاں کیوں نہیں تم ٹائم بتا دو میں آ جاؤں گی
ادھے گھنٹے تک نکلتے ہیں تبسم نے یہ سنتے ہی کال بند کر دی
پھر سے نوری نوری کر کے چلانے لگی
نوری کچن میں کام کر رہی تھی آواز سنتے ہی کام چھوڑ کر اس کے کمرے کی طرف آئی جی بیگم صاحبہ؟
میرا یہ جوڑا جلدی سے استری کر دو مجھے کہیں جانا ہے
بیگم صاحبہ میں کھانا بنا رہی ہوں صاحب آنے والے ہیں میں کچھ دیر میں آ کر کر دیتی ہوں
تبسم نوری کو آنکھیں نکالتے دانت پیستے ہوۓ بولی تم میرے لیے ملازمہ ہو یا ان کی تنخواہ میں دیتی ہوں یا وہ لوگ
نوری سر نیچے کر کے کپڑے اٹھا کر استری کرنے لگی
تبسم تیار ہونے میں مصروف ہو گئی
_______________
شہری آفس کے کام سے تھک کر کرسی سے ٹیک لگاۓ سگريٹ جلا کر پینے لگا شہری سب بھول تو چکا تھا مگر پاکیزہ کی وہ پہلی ملاقات آج بھی اسے یاد تھی۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
زیشان آفس پہنچ کر مصروف ہو گیا
لائبہ کمرے کی صفائی کر کے ٹی عی لگا کر ساتھ زیشان کے کپڑے استری کرنے لگی کافی کپڑے استری کر کے الماری میں اٹھا کر لگانے لگی تو اسے ہلکے سے چکر محسوس ہوۓ تو وہ ایک دم سے بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی اور دل میں سوچنے لگی شاید زیادہ کپڑے ایک ساتھ استری کیے تو بی پی یا شُگر لیول کم ہو گیا ہے وہ پاس پڑے میز پر جگ اٹھا کر گلاس میں پانی ڈالا پی کر لیٹ گئی
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ آپا سلطانہ کی مدد کا سوچ کر نیچے جانے لگی ابھی سیڑھیاں اتر رہی تھی اسے پھر سے چکر محسوس ہوا مگر اور جیسے تیسے سیڑھیوں کی سیڈ سے پکڑ پکڑ کر نیچے اتری اور سامنے پڑے کھانے کو پکڑا کرسی کھنچتی ہوئی بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لی تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد سلطانہ کو آواز دی سلطانہ آپا ۔۔۔۔
سلطانہ دن کا کھانا بنا رہی تھی آواز سنتے ہی کچن سے باہر آئی ہاتھ دوپٹے سے پونچھتی ہوئی لائبہ کے پاس آ گئی جی بیٹا آپ نے بلایا ؟
ہاں آپا طبعیت کچھ عجیب سی ہو رہی ہے پلیز مجھے ایک گلاس لیمو کا جوس بنا دیں نمک اور چینی تیز ڈال کر
جی بیٹا کمرے میں چلو میں ابھی لے کر آتی ہوں
نہیں آپا میں یہی بیٹھو گئی بس آپ کو پلا دیں
اچھا بیٹا ابھی لے کر آتی ہوں
سلطانہ تیزی سے کچن کی طرف گئی اور ہنڈی کا چولہا آنچ آہستہ کر کے جوس بنانے لگی
لائبہ کرسی سی ٹیک لگاۓ آنکھیں موند لی کچھ منٹ میں ہی سلطانہ نے آ کر بولا یہ لو بیٹا
لائبہ نے گلاس گلاس پکڑ لیا اور ایک ایک گھونٹ پینے لگی سلطانہ پاس گلاس خالی کے انتظار میں تھی مگر لائبہ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوۓ انہیں جانے کا بولا
سلطانہ جا کر واپس کھانا پکانے میں لگ گئی
لائبہ نے جوس پیا تو اس کا دل خراب ہونے لگا
وہ بوجھل قدموں سے سیڈھیاں بامشکل چڑھ کر کمرے تک آئی اور آتے ہی واش روم میں گھس گئی
اور جاتے ہی الٹاں کرنے لگی بہت تھکان سی محسوس کرنے لگی اور نل کھول کر شیشہ دیکھتے ہوۓ منہ دھونے لگی
اور تولیا اٹھا کر منہ صاف کرتے ہوۓ بیڈ تک آئی بیڈ پر بیٹھتے ہی جگ سے پانی ڈال کر پینے لگی
___________
جاری ہے
❤️
👍
😢
🙏
😮
190