Novel Ki Dunya
June 1, 2025 at 12:22 PM
#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے
#تحریر_عاصمہ_بلوچ
#قسط_نمبر_10
زیشان کام سے کچھ فرصت ملی تو لائبہ کو کال ملانے لگا
لائبہ پانی پی رہی تھی کہ بیڈ کے سرانے پر پڑا موبائل بجنے لگا لائبہ نے پیچھے موڑ کر موبائل اٹھایا اور آن کر کے بولی اسلام علیکم
زیشان نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوۓ بولا جان تمیں بہت مس کر رہا ہوں تو بس کال ہی کر سکتا تھا اور تو کچھ نہیں جیسے فری ہوا تو کر لی
لائبہ کی جیسے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی تو بنا بات کے ھممممم کیا
اچھا بتاؤ کھانا کھایا؟
لائبہ نے بہت آہستگی سے بولا نہیں
زیشان نے بولا طبعیت کیسی ہے ؟
بہت ہمت سے بولی ٹھیک ہے
زیشان لائبہ کی بات اور انداز میں بدلاؤ دیکھ کر حیران ہوا کہ ابھی تو اچھا خاصہ چھوڑ کر آیا ہوں اور ایک دم سے پوچھنے لگا لائبہ جانی کیا کسی نے کچھ کہا ؟کسی کی بات بری لگی ؟
لائبہ بےزاری سے بولی نہیں ۔۔۔
تو کیا طبعیت نہیں ٹھیک ؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں گھر آ جاؤں گا
لائبہ بولنے لگی نہیں مجھے کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں شانی
بس تھوڑا سا لگا بی پی یا شگر کم ہو گیا تھا سلطانہ آپا سے جوس بناوا کر پیا کے بہتر فیل کروں مگر وہ کمرے میں آتے ہی نکال دیا اب ہی واش روم سے آئی تھی تھبی بات کرنے کا دل نہیں ہو رہا اب آرام کرنا چاہتی ہوں شام تک ٹھیک ہو جاؤں گی
زیشان پریشان ہو کر بولنے لگا اچھا تم آرام کرو میں فون بند کر رہا ہوں بعد میں پھر کروں گا
لائبہ نے کچھ بولے بنا فون بند کر کے بیڈ پر رکھ دیا
زیشان پریشانی میں پاکیزہ کو کال کرنے لگا
پاکیزہ کمرے میں بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی جیسے موبائل بجا تو اٹھاتے ہوۓ سلام کرنے لگی آج میری کیسے یاد آ گئی
زیشان سلام کا جواب دیتے ہوۓ بولا
پاکی بات تو سنو
ارے زیشو کیا ہوا خیر تو ہے نا؟کچھ پریشان سے لگ رہے ہو
ہاں پاکی سب ٹھیک ہے تم ایسا کرو لائبہ کے پاس جاؤ
کیوں زیشو بھابھی کو کیا ہوا؟
لائبہ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے امی کو بھی بتا دو اور گل شیر کے ساتھ سیٹی ہسپتال آ جاؤ میں پہلے سے آپوئنٹ منٹ لے لیتا ہوں وہی انتظار کروں گا
اوکے زیشو
موبائل رکھتے ہی پاکیزہ بھاگی ہوئی کمرےسے باہر نکلی اور سیدا لائبہ کے کمرے کی طرف رکھ کر لیا وہ پہنچ کر دروازہ ناک کیا
لائبہ نے بہت آئستگی سے بولا آ جاؤ کون ہے
پاکیزہ کمرے میں جاتے ہی کچھ بولے بنا لائبہ کے ماتھے کو چھو کر بخار چیک کرنے لگی
ارے پاکی کیا کر رہی ہو میں بالکل ٹھیک ہوں لازم شانی نے ہی بھجا ہو گا وہ بھی نا۔۔۔
پاکیزہ اس کی الماری سے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھتے ہوۓ بولی بھابھی آپ یہ پہن کر تیار ہو جاؤ میں ابھی آتی ہوں
پاکیزہ تیزی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی ماما ۔۔۔۔ماما کرتی نیچے آئی
جمیلہ ٹی وی دیکھ رہی تھی پاکیزہ کی آواز سنتے ہی ریموٹ سے آواز آہستہ کرتے ہوۓ بیڈ سے اترنے ہی لگی تھی کہ پاکیزہ کمرے میں داخل ہو گئی اور آرام سے بیڈ پر بیٹھ کر بولنے لگی ماما وہ۔۔۔۔۔
ارے پاکی کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے
ہاں ماما ٹھیک ہے وہ آپ چادر اوڈھ لیں اور لائبہ بھابھی کو ہسپتال لے کر جانا ہے ان کی کچھ طبعیت ٹھیک نہیں ہے
زیشو سیٹی ہسپتال ہمارا انتظار کر رہا ہے
کیوں میری بچی کو اچانک کیا ہو گیا
ماما یہ سب آپ کار میں ہی پوچھ لینا ابھی چلیں
اچھا تم جاؤ لائبہ کو لے کر آؤ میں کچھ پیسے رکھ لیتی ہوں
اچھا ماما
پاکیزہ یہ بول کر کمرے سے نکلی تو لائبہ بہت مشکل سے سیڑھیاں اتر رہی تھی
پاکیزہ نے بھاگ کر اسے تھام کر نیچے لانے لگی
ارے بھابھی آواز دے دیتی ایسے آپ گر جاتی تو۔۔
اففف آپ لوگ ایسے ہی پریشان ہو رہے ہو میں بالکل ٹھیک ہوں
بھابھی آپ یہاں صوفے پر بیٹھو میں آ رہی ہوں
پاکیزہ اپنے کمرے میں جاتے ہی عجاب کرنے لگی اور پھر آ کر ماں کو آواز دینے لگی ماما جلدی کریں نا زیشو کال پر کال کر رہا ہے
جمیلہ چادر اوڑھ کر کار کی طرف جاتے ہوۓ سلطانہ سے کہنے لگی سلطانہ بات سنو
جی بیگم صاحبہ
خادم حسین کی کال یا وہ خود آئیں ہمارا پوچھیں تو ایک دم سے نہیں بتابا آرام سے بتانا
جی بیگمم صاحبہ آپ بے فکر ہو کر جائیں
گل شیر نے گیٹ کھولا اور کار نکالی اور اتر کر واپس گیٹ بند کر کے کار ہسپتال کی طرف دوڑا دی وہ پہنچ کر اندر کی طرف جانے لگے اور ذیشا سامنے روک کر واک کرتا رہا اور انتظار کرتا رہا
پاکیزہ نے جسے ہی ذیشان کو دیکھا تو لائبہ اور جمیلہ سے بولنے لگی
ماما بابی وہ رہا زیشو..
جیسے وہ وہاں گے تو ذیشان نے لائبہ کو دیکھتے ہی کریب اگیا اور بولنے لگا
ماما اپ اور لائبہ یا بیٹھ جاؤ
ایسے وہ وہاں بیٹھ گیے کچھ ٹائم انتظار کرتے رہے اور وہاں پے موجود ایک لڑکا نام لنے لگا
لائبہ اور ذیشان اندر جائے کون ہے اپ سب میں سے..
ذیشان اٹھ کر بولنے لگا
ماما اپ اور پاکی یا بیٹھو
ہم دونوں ہو کر آتے ہے
جمیلہ دیکھتے ہوئے بولنے لگی... اوکے بیٹآ
ذیشان نے لائبہ کو آگے اپنا ہاتھ دیا اور لائبہ نے ذیشان کو بےزاری سے پکڑ لیا اور ذیشان لائبہ کو اندر کی طرف لیے گيا جیسے ہی اندر گیے تو سامنے بیٹھی ڈاکٹر کو ذیشان نے سلام کیا اور لائبہ نے
ڈاکٹر نے ان کو سلام کا جواب دیتے ہوئے اشارہ کرنے لگی یا پے بیٹھ جائے ذیشان کرسی کو پیچھے کرنے لگا اور لائبہ کو بیٹھنے کو بول خود بهی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گيا
ایسے وہ ڈاکٹر ان سے سوال کرنے شروع ہوگی اور وہ جواب دینے لگ گے
کجھ ٹائم بعد ڈاکٹر لائبہ کو اندر لے جا کر چیک اپ کرنے لگی
ذیشاں بیٹھا انتظار کرنے لگا
جیسے ہی وہ ڈاکٹر باہرآئی اور ذیشان نے لائبہ کو مسکراتے دیکھ کر ان سے رہاں نہيں گیا ایک دم سے اتی ہوئی ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگا
ڈاکٹر صاحبہ سب خیر تو ہے نا
ڈاکٹر مسکراتے ہوئے بولی
سر ذیشان آپ بابا بنے والے ہے اور اپ کی مس ماما بنے والی ہے
ذیشان مسکراتا ہوا لائبہ کی طرف دیکھنے لگا اور لائبہ مسکرانے کے ساتھ شرمانے لگی
ذیشان کا دل کر رہا تھاکے وہ لائبہ کو اٹھا کر گھمانے لگ جائے
پھر ڈاکٹر نے ذیشان سے کہا
سر ذیشان اس کو بہت کمزوری ہيں تو پلیز اس کا بہت خیال کرنا ہے اپ لوگوں کو اور کم سے کم بیڈ ریسٹ کرنا ہے نہيں تو بچے یا ماں کو نقصان ہو سکتا
ذیشان ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے بولنے لگا....جی جی بہت خیال کروںگا
ایسے وہ اٹھ کر باہر کی طرف جانے لگے......
___________
تبسم اپنے کمرے سے تیار ہوکر نکلی تو سامنے صوفے پر شبانہ بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی
جب تبسم کو ایسے تیار ہو کر جاتے دیکھا تو پوچھنے لگی تبسم بیٹا اتنا سج سنور کر کدھر جا رہی ہو
تبسم اپنے کمرے کو لاک کرتے شبانہ کی آواز سنی تو بڑبڑائی اب بوڑھیا خالہ کو بھی جواب دینا پڑے گا کہ کہاں جا رہی ہوں پہلے ہی میں لیٹ ہو رہی ہوں پتہ نہیں کب جان چھوٹے گئی نہ مرتی ہے نہ سوال کرنا چھوڑتی ہے
تبسم اپنی زلفوں پر ہاتھ مارتے ہوۓ موڑی اور دیکھتے ہوۓ بولی
خالہ امی میں دوستوں کے پاس جا رہی ہوں رات سے پہلے لوٹ آؤں گی
اچھا بیٹا ٹھیک ہے مگر تمیں اپنے شوہر سے ایک بار پوچھ لینا چاہیے تھا
تبسم کو غصہ آ گیا اور بولی اففف خدایا جب سے یہاں آئی ہوں زندگی عزاب ہو گئی ہے میکے جاؤ تو تو ماں اور بیٹے سے پوچھ کر جاؤ شاپنگ جاؤ تو سارا بتا کر جاؤ اجازت لے کر جاؤ شوہر کے ساتھ جاؤ یہ شادی نہ ہوئی گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال لیا ہو جیسے
غصے میں سب بول کر باہر نکل گئی شبانہ کو اب تبسم کے اس لہجے کی عادت ہو گئی تھی
اور دل ہی دل میں کہنے لگی یا اللہ مجھ سے یا میرے بچے سے کیا غلطی ہو گئی تھی جو یہ ہمارے پلے پڑ گئی ہے
میرا مصعوم سا بچہ کیسے تھا اب کیسے ہو گیا ہے کاش میں بیٹے پر دباؤ نہ ڈالتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑھتے یا اللہ ہمیں معاف کر دے وہ روتے ہوۓ اپنے رب سے باتیں کرتی رہی
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
شہری آفس سے سیدھا گھر آیا اور آتے ہی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوۓ سامنے صوفے پر بیٹھ گیا
اور آواز دینے لگا نوری۔۔۔۔۔۔۔
نوری کچن میں کام کر رہی تھی شہری کی آواز سنتے ہی دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی باہر آئی اور شہری کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی جی شہری صاحب آپ کو کچھ چاہے ؟
ہاں ایک گلاس ٹھنڈے پانی کا پلا دو
جی ابھی لے کر آتی ہوں یہ کہہ کر نوری تیزی سے کچن کی طرف چلی گئی
شہری پیچھے صوفے سے ٹیک لگا کر کچھ پل کے لیے سکون لینے لگا
تھوڑی دیر بعد نوری پانی لے کر شہری کے پاس روکی شہری صاحب یہ لیں پانی
شہری نے نوری کی آواز سنی تو فورا سیدھا ہو کر بیٹھا اور پانی کا گلاس لے کر پینے لگا
نوری پاس کھڑی خالی گلاس کا انتظار کر رہی تھی
شہری نے گلاس اسے دیتے ہوۓ نوری سے پوچھا ماما نے کھانا کھایا یا ابھی نہیں ؟
جی بڑی بیگم صاحبہ کو کھانا بھی دیا تھا اور اس کے بعد دوا بھی کھا دی تھی
اچھا اور تبسم نے؟
شہری صاحب وہ چھوٹی بی بی تو گھر پر نہیں ہیں
گھر نہیں ہے تو کہاں گئی؟
پتہ نہیں صاحب بڑی بیگم نے پوچھا تو تھا مگر وہ بنا بتاۓ چلی گئی
اچھا اب تم جاؤ
جی صاحب نوری واپس کچن میں چلی گئی
شہری نے موبائل اور سگريٹ کا پیکٹ پاس رکھا اٹھایا اور بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
آفس کے کپڑے چینج کر کے سگريٹ چلا لی اور موبائل کو اوپر نیچے کر کے دیکھنے لگا پاس پڑی سگريٹ ٹرے میں سگريٹ کی راکھ ڈالتے ہوۓ لائبہ کو کال ملانے لگا مگر کتنی بار شہری کی کال گئی اور ہر بار اس نے کٹ کر دی شہری سگريٹ کے لمبے لمبے کش لگاتے ہوۓ اور اپنا وائٹس ایپ کھول کر لائبہ کے سٹیٹس دیکھنے لگا اسے پکا پتہ تھا جہاں بھی گئی ہے اپنی نئی تصوریں لازم لے کر آپلوڈ کی ہوں گی وائٹس ایپ کے بعد فیس بک کھول کر دیکھنے لگا اس پر اس کی اپلوڈ پک دیکھ کر پھر سے کال کرنے لگا
مگر لائبہ دوستوں کے ساتھ انجواۓ کر رہی تھی اب شاپنگ کرنے میں مصروف تھی
حفضہ لائبہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی یار بہت بھوک لگی ہے اب کچھ کھا لینا چاہیے
سمیرا بھی بولی ہاں یار مجھے بھی بہت زوروں کی بھوک لگی ہے
دونوں نے تبسم کو بولا چلو اب کچھ کھا لیں باقی بعد میں شاپنگ دیکھ لیں گے
تبسم کھانا کھاتے ہوۓبھی اپنی تصوریں اپلوڈ کرتی رہی مگر شہری کی کال کا کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی کوئی میسج کیا
کھانے کے دوران بھی تبسم کا موبائل بھجتا رہا وہ بار بار کٹ کرتی رہی آخر اس نے آواز بند کر دی
سمیرا نے اس سے پوچھا اتنا کون بار بار کر رہا ہے دیکھ لو شاید کوئی ضروری ہو تم اٹھانے کے بجاۓ بند کر دیتی ہو
لائبہ نے بڑے نخرے سے اپنے بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ بال پیچھے کیے اور کون ہو سکتا ہے میرا شوہر ہے شہری
تو تم بند کیوں کر رہی ہو اٹھاؤ دیکھو کیا کہنا چاہتا ہے
تبسم نے دوستوں کی بات پر ان کو دیکھتے ہوۓ رومینٹک انداز میں میسج ٹیپ کرنے لگی
Janu main dostoon ky sath hon ap ghr ja kr noori se kay kr khana kha lena main Sham tak aa jaun gi
Main janti hon ap muje is waqt bht miss kr rahy ho
Ap ko to bas har waqt main pass he chaye magr ab main bahr hon miss u love u Shari ki jaan Tabasam
شہری فریش ہو کر جیسے کمرے میں آیا تو بیڈ پر پڑے موبائل سے لائٹ آن آف ہو رہی تھی شہری تولیے سے ہاتھ صاف کر کے بیڈ پر پھینکے موبائل کو اٹھا کر میسج پڑھنے لگا
میسج پڑھتے ہی تبسم کا ڈرامہ سمجھ کر غصے سے موبائل کو بیڈ پر پھینکا اور کمرے سے باہر نکل گیا اورجا کر نوری نے کھانا لگایا ہوا تھا کھانے لگا۔
تبسم شام کو گھر واپس آئی تو شہری کمرے میں لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا اور ریموٹ کو گھما رہا تھا
تبسم کمرے میں آتے ہی لائٹ جلانے لگی اور بکھرے ہوۓ کمرے کا جائزہ لینے لگی اور جیسے ہی شہری کو دیکھا تو اس کے غصے والا چہرہ دیکھ کر نوری کو آواز دینے لگی نوری۔۔۔۔۔۔نوری۔۔۔۔۔۔۔
نوری آواز سنتے ہی بھاگی آئی جی بیگم صاحبہ؟
جاؤ میرے لیے ٹھنڈا جوس لے کر آؤ اور آ کر یہ کمرے میں بکھری چیزیں اپنی جگہ پر رکھو یہ شاپنگ بیگ بھی سیڈ میں رکھ دو
نوری جوس لینے چلی گئی تبسم بنا شہری سے بات کیے فریش ہونے چلی گئی
نوری جوش لےکر آئی رکھ کر کمرے کی چیزیں اٹھانے لگی
شہری نے نوری کو دیکھتے ہوۓ بولا تم یہ سب چھوڑو کچن کو جا کر دیکھو اور ہاں جاتے ہوۓ کمرہ بند کرتی ہوئی جانا
نوری شہری کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ بولی جی صاحب
نوری باہر نکل کر دروازہ بند کر کے کچن میں چلی گئی
تبسم فریش ہو کر باتھ روم سے نکلی تو کمرہ ویسے ہی بکھرا تھا دیکھ کر اپنے آپ کو شیشے میں دیکھتے ہوۓ نوری کو آواز لگانے لگی تو شہری بول پڑا
مس تبسم
تبسم فورا چونک کر موڑی
میں جان کہوں جانِ من کہوں یا جانوں کہوں
شہری کا انداز کچھ طنزيہ سا تھا وہ ریموٹ کو گھما رہا تھا
وہ فورا شہری کی طرف پلٹی اسے لگا شاید یہ آج کچھ خاص موڈ میں ہے یا خوش ہے کسی بات سے آ کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس کے بازو کو پکڑنے لگی
شہری تبسم کی طرف دیکھتے ہوۓ غصہ ہوا
تم یہ جان جانوں تو کیا عورت کہلانے کے بھی لائک نہیں ہو
میں کتنی بار کال کی ہر بار کاٹ دی اس کی کیا وجہ تھی ایسا کیا ضروری تھا
وہ میں دوستوں میں تھی تو دھیان نہیں دیا موبائل بیگ میں تھا شاید بیگ میں کچھ تھا جس سے ٹچ ہو کر جو خود کال بند ہو جاتی تھی۔
اچھا جی بہت خوب جھوٹ بنانا بھی بہت اچھے سے آتا ہے
تبسم شہری کے قریب آ کر بازو پکڑنے لگی
ارے میں کیوں آپ سے جھوٹ بولوں گی
جب میں جانے والی تھی تو موبائل چارچنگ پر تھا ایک دم اتار کر چلی گئی اور کار سے میسج کیسے کرتی پھر وہاں پہنچ کر موبائل بیگ میں رکھ دیا تھا
شہری تالی بجاتے ہوۓ واہ واہ کیا بات ہے بہت اچھا ڈرامہ ترتیب دیا ہے دار دینی چاہیے وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
اور اپنے موبائل سے اس کے پل پل پر ڈالے جانے والے سٹیٹس دیکھنے لگا یہ گھر سے نکلتے یہ کار میں یہ وہاں یہ شاپنک یہ ہوٹل یہ سب کرنے کو تو ٹائم تھا یہ نکلتے بھی آخری لگایا وہ بھی دیکھ لو اور کتنا جھوٹ بولو گی
جب سے شادی ہوئی ہے کبھی ماں کے کبھی دوستوں کے کبھی کہاں تو کبھی کہاں گھر میں کبھی ملی ہو مجھے
بےزار ہو گیا ہوں میں یہ سب دیکھ دیکھ کر
جب سےخالو ندیم آرئیان کے ساتھ بزنس شروع کیا نوکر بنا کر رکھ دیا کبھی یہ کام کبھی وہ کام حد ہوتی ہے ہر چیز کی۔
ان کا اب کہنا ہے گھر اپنا بیچ کر ان کے ساتھ جا کر رہوں اور یہاں پہلے ہی تم نے میری زندگی عذاب کر رکھ دی ہے
یہ گھر میرے بابا کی آخری نشانی ہے اور میں یہ گھر مرتے دم تک نہیں بیچوں گا
جب فرصت ملے گھر جاؤ تو اپنے باپ کو بتا دینا ان کو مدد کی ضرورت تھی میں نے ساتھ دیا وہی بہت ہے
شہری میری بات تو سنو بابا ہمارا فاہدہ ہی تو چاہتے ہیں ان کا سب کچھ ہمارا ہی تو ہے اور ان کا ہے ہی کون
پر مجھے ایسے جائیداد نہیں چاہیے
مگر کیوں شہری؟
کل ہمارا بچے ہوں گے وہ ہمارے نام سے نہیں تمارا باپ کے نام سے پہچانے جائیں گے اور ہاں ایک اور بات سن لو میں اب جلد ہی یہ کام یہ جاب چھوڑ رہا ہوں
تبسم بیڈ سے اٹھ کر قریب آتے ہوۓ بولی پاگل ہو گئےہو شہری
ہاں ہو گیا ہوں بہت پاگل ہو گیا ہوں
وہاں سارا دن محنت کرو اور یہاں بیوی پیسے اوڑاتی رہے اگر یہی پیسے کسی قریب کی مدد کر دیتی کسی بھوکھے کو کھانا کھا دیتی تو مجھے خوشی ہوتی جو تم ایک دن میں لاکھوں اڑا دیتی ہو
تبسم غصہ ہوتے ہوۓ افف سر پھر گیا ہے اپنے اوپر خرچ نہ کرو دوسروں پر کرو یہ کون سا اسلام ہے
تم کبھی نماز بھی پڑھ لیا کرو میں دیکھ رہا ہوں تمہارے دل میں خدا خوفی نہیں ہے چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں ہے۔
بس کرو شہری یہ فضول کے لیکچر دینا بند کرو
پہلے ہی تھک کر آئی ہوں کتنی دیر سے تمیں سن رہی ہوں
شہری میز کو لات مار کر غصے سے کمرے سے نکل گیا اور ٹی وی لونچ میں جا کر سگريٹ جلا لی اور لمبے کش لینے لگا
وہاں لگی ٹی وی پر نظر تو تھی مگر دھیان نہیں سوچ کہیں اور ہی تھی۔
امی کی سب بات سن لی اب میں اس کی ایک نہیں سنوں گا مجھے پتہ ہے اس بار خالو نے کہا تو امی مان جاۓ گی مگر میں اپنے باپ کی خون پسینے کی کمائی کا بنا گھر کبھی بکنے نہیں دوں گا اس کے لیے چاہیے مجھے کسی حد تک جانا پڑے
وہ اتنہ گہری سوچوں میں گم تھا کہ اسے ماں کے آنے کا احساس تک نہ ہوا
شبانہ آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی اور ٹی وی پر نظر ڈال کر پھر بولی شہری بیٹا
شہری سوچ میں ہی گم تھا
بیٹا ٹی وی میں ایسا کیا ہے جو اتنا غور سے دیکھ رہے ہو گم ہو کے
پھر شہری کے بال ماتھے سے پیچھے کرتے ہوۓ دیکھنے لگی
شہری ایک دم چونک سا گیا ڈر سا گیا اور پیچھے ہوا اور دیکھا تو ماں ارے ماما آپ؟
جاری ہے
❤️
👍
😢
🙏
😂
😮
169