Novel Ki Dunya
June 2, 2025 at 02:23 AM
#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے
#تحریر_عاصمہ_بلوچ
#قسط_نمبر_12
آج جب شہری کھانے کے میز پر آۓ تو اسے مت بتانا کہ کھانا میں نے بنایا ہے پلیز اسے نہیں پتہ چلنا چاہیے
نوری بولی بیگم صاحبہ لیکن۔۔۔۔۔۔۔
تبسم اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولی لیکن ویلکن کچھ نہیں بس خاموش رہو شہری آ رہا ہے جاؤ تم پانی لےآؤ سب بیٹھ کر کھانا ڈالنے اور کھانے لگے
شہری نے کھانا کھاتے ہوۓ آنکھیں بند کر لی اور بولا واؤو آج تو کھانا بہت مزے کا بنا ہے یہ بولتے ہی چلانے لگا نوری ۔۔۔۔نوری۔۔۔۔
نوری پانی لا رہی تھی میز پر رکھتے ہوۓ بولی جی شہری صاحب
نوری آج تو تم نے کھانا بہت ہی اچھا بنایا ہے
نوری شبانہ اور تبسم کے چہرے کو دیکھ کر بولنا چاہتی تھی کہ میں نے نہیں بنایا مگر تبسم نے آنکھیں دکھا کر خاموش رہنے کا کہا
تو بولی بس اتنا بولی شکریہ صاحب اور وہاں سے چلی گئی
شہری کھانا کھا کر ہاتھ دھو کر دانتوں میں ٹوتھ پک کرتا ہوا کمرے میں چلا گیا
تبسم نے نوری سے کہا برتن سمیٹ لو
شبانہ کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چل دی
اور تبسم نوری کو بول کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی
اب ہر روز کھانا تبسم بناتی شہری کے آنے سے پہلے اور شہری روز نوری کی تعریف کرتا
تو تبسم کو اپنی تعریف ہوتی محسوس ہوتی اور اس کے دل میں شہری کے لیے اور محبت بڑھتی گئی
ایک دن تبسم اور شہری دونوں اپنے کمرے میں تھے شہری آفس کا کچھ کام لپ ٹاپ پر کر رہا تھا اور تبسم گانے سن رہی تھی
ارے ہو بے رحم بے قدر بے مروت
ٹھکرا رہا ہے تو میری محبت
پیار کرتی ہوں تم سے ارے ہو ظالم
چاینے والوں کو کوئی ایسے تڑپاتا ہے
اوو میرے راجہ دیکھ لائن پہ آ جا
ورنہ بجا دوں گئ میں تیرا بینڈ باجہ
تو نے آگر پیار سے دیکھا نہیں مجھ کو
تو چھوڑ کے شہر میں چلی جاؤں گی
ضد نہ کرو جانِ وفا مان لو کہنا ورنہ میں لوٹ کے نہ کبھی آؤں گی
شہری نے کام کرتے ہوۓ ایک نظر اٹھا کر تبسم کو دیکھا اور وہ بھی شاید گانا انجواۓ کر رہا تھا اور سن رہا تھا
میں نے چاہا ہے تمیں چاہوں گی
ہو کہ تم سے جدا نہ میں جی پاؤں گی
ایک دوسرے کی محبت کو آزمانے میں
عمر بیت نہ جاۓ روٹھنے مانانے میں
ہر گھڑی تم کو میری یاد بہت آۓ گی
چین لینے نہ دوں گی تمیں تڑپاؤں گی
تم نے اگر جانِ جگر دل میرا توڑا
موبائل بج رہا تھا مگر تبسم شہری کو دیکھ کر اس میں کھوئی ہوئی تھی موبائل بج بج کر بند ہو گیا
جب پھر سے موبائل بجا تو شہری نے موبائل کی سکرین پر دیکھا تو سمیرا کالنگ
شہری نے کہا میم صاحبہ آپ کی دوست کی کال آ رہی ہے
تبسم اپنے ہی خیالوں میں گم تھی شہری کو بھی نہیں سن پائی
آخر کار شہری نے اس کے کندھے کو ہاتھ سے ہلایا اور بولا بیگم صاحبہ خیالوں کی دنیا سے فرصت ملے تو کال سن لو کب سے بج کر سر کھا رہا ہے موبائل
تبسم نے فورا موبائل کو دیکھا اور پھر سویچ آف کر کے رکھ دیا
اتنے میں شہری اٹھ کر الماری سے جوئی فائیل لینے گیا
تبسم اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی
نوری نے تبسم کو دیکھا اور بولی بیگم صاحبہ میں نے سب چیزیں کاٹ کر دھو کر رکھ دی ہیں
تبسم فورا کھانا بنانے لگی اور پھر آ کر ٹی وی لانچ میں بیٹھ گئی
کچھ پل وہاں سانس لے کر بالوں کا جوڑا بناتے ہوۓ کمرے کی طرف چل دی
تبسم ابھی کمرے کے اندر جانے ہی والی تھی کہ شہری نے آواز لگائی نوری کھانا لگا دو
کچھ دیر میں سب نے مل کر کھانا کھایا
اب تبسم شہری کی ہر چھوٹی موٹی بات کا خیال رکھتی تھی
شہری اب جب گھر آتا تو ماں سے تبسم کی تعریف سنتا تھا اور شہری اب خود بھی محسوس کرنے لگا تھا کہ تبسم اب واقحی بہت بدل چکی ہے شہری کو بھی اب تبسم سے پیار ہونے لگا تھا اب آفس میں ہو یا گھر میں اکیلے اب تبسم ہی اس کے خیالون میں ہوتی تھی مگر وہ اپنے پیار کا اب اظہار نہیں کر رہا تھا خاموش رہتا تھا
آج تبسم نے شہری کو آفس بھیج کر کمرے میں آئی تو نوری نے دروازہ بجاتے ہوۓ بولا بیگم صاحبہ میں نے سب کچھ کاٹ کر رکھ دیا ہے اب میں چھت پر جاؤں کپڑے دھونے
تبسم نے نوری سے بولا ہاں جاؤ اور ہمارے واش روم سے بھی ہمارے کپڑے لیتی جانا
نوری ان کے باتھ روم سے کپڑے اٹھا کر چھت پر چلی گئی
شبانہ اپنے کمرے میں تسبیح پڑھ رہی تھی
تبسم کمرے سے نکلتی خود کلامی کرتے جا رہی تھی کہ آج بریانی اور سالن روٹی بنا دوں دوں گی ویسے بھی بریانی شہری کو بہت پسند ہے
آج نوری کپڑے دھونے میں لگی تھی تو تبسم کو سارا کام خود کرنا پڑا
آج شہری کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو وہ آفس سے جلدی چھٹی کر کے آ گیا اور اندر آتے ہی کچن کی طرف دیکھ کر نوری سے پانی مانگنے لگا تو کھڑی سے اس کی نظر تبسم پر پڑھی جو کھانا پکانے میں مگن تھی شہری تبسم کو ایسے دیکھ کر مسکرانے لگا اور اسے دیکھ رہا تھا مگر تبسم کو کہاں ہوش تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے
تبسم حساب لگا رہی تھی اور بول بھی رہی تھی شہری کی پسند بھی بن گئی سالن خالہ امی کے لیے بھی تیار ہو گیا اب روٹی رہتی ہے بس وہ سب خوشی سے کر رہی تھی
اب وہ آٹا گوندنے لگی سالن اور بریانی کو دم رکھ کر اب آٹا گوندتے بال اوڑ اوڑ کر اسے تنگ کر رہے تھے شہری کو یہ دیکھ کر اس پر پیار آ رہا تھا تو اپنا بیگ اور فائیل میز پر رکھ کر کچن کے دروازے پر آ کر رکا اور مسکرانے لگا
تبسم کو جیسے جلنے کی بو آئی تو ایک دم آٹے والے ہاتھ سے اٹھ کر چولہا بند کرنے موڑنے لگی کہ اس کا پاؤ کسی چیز سے ٹکرا گیا اور جیسے گرنے لگی شہری نے اسے بانہوں میں تھا لیا گرنے سے بجا لیا دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے
تبسم کو پھر سے بو آئی ایک دم سھبل کر سیدھی ہوئی اور چولہا بند کر دیا اور شرمانے لگی
شہری اس کا ایسے چہرہ دیکھ کر بولا توبہ ادھر دیکھو
تبسم آنکھیں جھکی اسی طرف پلٹی شہری اپنے جیب سے ٹیشو نکال کر اس کے چہرے پر لگا آٹا صاف کرنے لگا
تبسم شہری کو دیکھ کر ایسے شرما رہی تھی جیسے کوئی نئی دلہن ہو اور شہری کو اس کا یہ انداز بہت اس کے قریب کر رہا تھا
نوری سیڑھیاں اترتے بولی بیگم صاحبہ کچھ جل رہا ہے
دونوں نے نوری کی آواز سنی تو ایک دوسرے سے دور ہوۓ
شہری جگ سے پانی ڈال کر پینے لگا تبسم آٹا اٹھا کر کور کرنے لگی
اتنے میں نوری کچن میں آئی اور شہری کو دیکھ کر حیران ہوئی صاحب جی آج آپ اتنا جلدی آ گئے ؟
شہری بنا کچھ بولے کمرے کی طرف چلا گیا
اور بیگ رکھ کر بٹن کھولتے ہوۓ فریش ہونے واش روم گھس گیا
تبسم نوری کو بولنے لگی
نوری میں نے یہ سب کر لیا ہے باقی اگے تم دیکھ لینا میں تمہارے صاحب کو کپڑے وغیرہ دے کر آتی ہوں کھانا بھی لگا دینا۔
تبسم بول کر کمرے میں آئی اور الماری میں لٹکے کپڑے نکالنے لگی وہ کپڑے دیکھ رہی تھی کہ شہری واش روم سے باہر آیا اور آواز دینے ہی لگا تھا کہ سامنے الماری کے پاس کھڑی تبسم کو دیکھ کر رک گیا
تبسم اس کے پاس آ کر کپڑے دینے لگی تو شہری کپڑے پکڑتے ہوۓ اس کی طرف بڑھنے لگا تبسم پیچھے کی طرف ہونے لگی اور جا کر الماری سے لگ گی شہری ایک ہاتھ اس کی کمر میں ڈالا اور دوسرا الماری پر رکھ کر جیسے اس کی طرف جھکا تو دروازہ بجنے لگا
شہری فورا پیچھے ہو کر بولا کون ہے
صاحب کھانا لگا دیا ہے بڑی بیگم صاحبہ آپ کا انتظار کر رہی ہیں
اچھا تم چلو ہم آ رہے ہیں
تبسم فورا باہر کی طرف نکل گئی
اور شہری چینج کر کے آ گیا سب مل کر کھانا کھانے لگے
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
اگلے دن تبسم کی فجر کے وقت آنکھ کھل گئی آزان ہو رہی تھی اس نے آزان کی آواز سنتے ہی اٹھ گئی وضو کیا اور نماز پڑھنے لگی نماز کے بعد اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگنے لگی اور پھر شہری کی طرف دیکھ کر اللہ سے اس کی محبت مانگنے لگی اور روتے ہوۓ دعا کرتی رہی
شہری نے کروٹ بدلی اور بیڈ پر اگے پیچھے ہاتھ مارنے لگا تبسم کو بیڈ پر نہ پا کر سر اٹھا کر اگے پیچھے دیکھنے لگا تو سامنے جاۓ نماز پر بیٹھی تبسم کو دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی اور مسکرا کر خود بھی وضو کے لیے اٹھ گیا
تبسم نماز ادا کر کے جاۓ نماز طے کر کے صوفے کی ٹیک پر رکھی اتنے میں شہری وضو کر کے نکلا تبسم دیکھ کر مسکرائی اور جاۓ نماز واپس اٹھا کر اسے دی شہری تو روز ہی پڑھتا تھا تبسم بیڈ پر بیٹھ کرٹیک لگاۓ اسےنماز پڑھتے دیکھ رہی تھی ساتھ دعائیں پڑھ رہی تھی جو جو اسے آتی تھی آج اس کی آنکھیں خود با خود برس رہی تھی شاید اللہ نے دل میں نرمی پیدا کر دی تھی
شہری نماز پڑھ کر جاۓ نماز کو میز پر رکھتے ہوۓ اس کو ایسے دیکھ کر اس کے پاس بیٹھا اور آنسو صاف کرنے لگا اور آنسوں کیوجہ پوچھنے لگا۔کیا ہوا یہ آنسو کیوں ؟
چھوڑیں نا بس آپ اب پھر سے سو جائیں میں آپ کو آفس ٹائم اٹھا دوں گی
شہری نے کہا میں روز نماز کے بعد سو جاتا ہوں مگر آج میں اپنی بیوی سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں
شہری نے اپنا سر تبسم کی گود میں رکھا اور لیٹ گیا تبسم نے مسکراتے ہوۓ اس کے بالوں میں اپنا ہاتھ ڈالا اور ماتھے
پر اپنے پیار کی مہر ثابت کر دی اور بولی شہری اگر میں آپ سے کچھ مانگوں تو کیا مجھے دیں گے
افف یہ کیسا سوال ہے میری ہر چیز پر تمہارا حق ہے تم کوئی کزن نہیں ہو جو پوچھ رہی ہو بیوی ہو حق ہے تمہارا جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تبسم کے آنسو پھر سے جاری ہو گئے اور آنسو شہری کے گال پر جا گرا
تبسم شہری کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی مجھے جان نہیں بس ایک وعدہ چاہیے آپ سے
کیسا وعدہ شہری نے اس کی آنکھوں میں جھنکا
یہی کہ آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہو گے کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑو گے شہری میں آپ سے بے حد محبت کر بیٹھی ہوں
شہری فورا اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا تم ایسی ہی اچھی بیوی بنی رہو تو کون پاگل ہے جو دور ہونا چاہیے گا بس میرا دل کبھی نہیں توڑنا
تبسم نے شہری کو دیکھتے ہوۓ بولا میں اب آپ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کروں گی جہاں بھی جانا ہو آپ سے پوچھ کر اجازت سے جاؤں گی نہیں تو نہیں ہر بات کا خیال رکھوں گی کہ آپ کو مجھ سے کبھی شکایت نہ ہو
شہری نے مسکراتے ہوۓ اسے گلے لگا لیا اور ماتھا چومنے لگا
وہ دونوں لیٹے اور باتیں کرتے ہوۓ پھر سے سو گئے
الارم کی آواز سے تبسم کی آنکھ کھلی تو شہری کو بھی پیار کر کے جگانے لگی
بال پیچھے کرتے ہوۓ بہت آہستگی سے بولی شہری اٹھ جائیں آفس کے لیے تیار ہو جائیں
شہری نیند میں بولا چھوڑو آج نہیں جاتا
افف شہری رات تو آپ نے کہا تھا جلدی جگانا آج آفس میٹنگ ہے آپ اٹھیں میں ناشتہ دیکھتی ہوں
یہ بولتے ہی تبسم بیڈ سے اٹھنے لگی کہ شہری نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھنچا اور اپنے اوپر کرا لی دل نہیں آج کہیں بھی جانے کو دل ہے بس سویا رہوں وہ بھی تمہارے پہلو میں
تبسم ہنستے ہوۓ افف شرم کرو اب اٹھ جاؤ میں کپڑے نکال دیتی ہوں
شہری نے اسے باہنوں کے گھیر میں مضبوط کر لیا ظالم بیوی مجھے کہیں نہیں جانا
مجھے جو بھی بولیں منظور ہے مگر آفس سے چھٹی بس اتوار کو اس سے پہلے نہیں ۔
وہ شہری کو گدگدی کرتے ہوۓ اپنی جان چھوڑا کر اٹھ گئ
تو شہری بھی مسکراتا ہوا اٹھا اور بولا کتنی بری ہو نا شوہر بول رہا نہیں جانا زبردستی بھیج رہی ہو باقی لوگوں کی بیویاں ترستی ہیں چھٹی کریں
تبسم ہنستےہوۓ کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھتے ہوۓ بولی لیکن مجھے تو کسی پر ترس نہیں آ رہا ہاہاہا
تبسم شہری کو کندھے سے پکڑ کر واش روم بھیج دیا اور کمرے سے نکل کر شبانہ کو جا کر سلام کرنے گئی تو وہ سو رہی تھی پھر کچن میں آ کر نوری کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگی ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولی افف نوری یہ سب کر دو میں تمہارے صاحب کے شوز اور سوکس نکالنا بھول گئی میں رکھ کر آتی ہوں
جی آپ جاؤ میں کر لوں گی
تبسم تیزی سے کمرے میں آئی اور جرابیں نکال کر بیڈ پر رکھی اور شوز بھی نکال کر رکھے
اتنے میں بیڈ پر پڑے شہری کے موبائل کی سکرین پر روشنی ہوئی تو تبسم نے جھانک کر موبائل دیکھا تو کسی عالیہ نام کی لڑکی کا میسج تھا شہری جی آپ کب تک آئیں گے
تبسم میسج دیکھ کر حیران ہوئی اتنے میں واش روم کے دروازے کے کھولنے کی آواز آئی اس نے موبائل اٹھا کر میز پر رکھ دیا اور اپنے بال کھول کر واپس انہیں باندھنے لگی شہری کو شک بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ موبائل دیکھ رہی تھی
شہری بالوں میں تولیہ کرتے ہوۓ شیشے کے سامنے کھڑا ہوا اتنے میں واپس میسج کی ٹیون بجی تو شہری نے پلٹ کر میز سے موبائل اٹھایا اور تیزی سے میسج ٹیپ کرنے لگا
Main 15 mint tak aa jaun ga
یہ لکھ کر بھیجا اور موبائل واپس میز پر رکھ دیا
تبسم خاموشی سے اسے دیکھتی رہی اسے بہت غصہ بھی آ رہا تھا مگر غصے پر قابو کیا ہوا تھا
شہری نے اسے خاموش دیکھا تو بولا تابو جانی جرابیں دو گی یا ہاتھ میں ہی رکھو گی
تبسم نے بولا آپ یہاں صوفے پر بیٹھو میں پہنا دیتی ہوں
وہ جیسے ہی زمیں پر بیٹھ کر پاؤں کو چھونے لگی تو شہری نے کندھے سے پکڑ کر ساتھ بیٹھا لیا اور بولا یہ کام تمہارا نہیں ہے میرا ہے اب بچے کا اتنا دماغ خراب نہیں کرو کے تم میکےجانا چاہو تو جانےنہ دے
تبسم مسکرانے کے بجاۓ خاموشی سے اٹھ کر کمرےسے باہر نکل گئی
اس کے دماغ میں اب تک یہ تھا کہ کون ہے عالیہ اور ایسی کون سی میٹنگ ہے اس کے دماغ میں بہت سارے سوال تھے مگر شہری سے پوچھتی تو اس سے دوری کا ڈر بھی تھا اب وہ شہری کو کھونا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اب وہ اس سے بہت محبت کرنے لگی تھی
شہری نے اسے چپ چپ دیکھا مگر بنا کچھ پوچھے ناشتہ کر کے نکل گیا جیسے آفس پہنچا عالیہ فائیل لے کر آئی سلام کیا
آج شہری کافی خوش تھا اس کے سلام کا جواب بھی اچھے سے دیا اور خوشی سے بولا مس عالیہ
جی سر؟
ندیم صاحب آ گئے ہیں میٹنگ شروع ہونے والی ہے
جی سر وہ لوگ آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں
شہری فائیل کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر میٹنگ روم جا کر داخل ہوا جہاں سب اسی کا انتظار کر رہے تھے
سب نے شہری کی طرف دیکھا شہری سلام کرتے ہوۓ کرسی کھنچ کر بیٹھا اور اپنا لیکچر شروع کر دیا سب خاموشی سے اسے دیکھ رہیے تھے
شہری لیکچر میں سب پر نظر ڈال رہا تھا اسے ان میں بھی تبسم نظر آنے آتی وہ مسکرا کر اپنا سارا جو تھا بول دیا سب نے تالیاں بجائی اور وہ کامیاب بھی رہا
ندیم آرئیاں اٹھ کر شہری کو گلے لگاتے ہوۓ بولے
Well-done my son in law Well-done , once again you impressed me.
شہری اپنے سسر ندیم آرئیاں کے گلے مل کر بولا بہت شکریہ سر پھر وہاں سب موجود لوگوں سے ہاتھ ملا کر شکریہ کرتا رہا
آج کافی عرصے بعد ندیم کو وہ کونٹرکٹ ملا جو وہ شوگر مل کے لیے بہت عرصے سے کوشش میں تھا
سب میٹنگ روم سے خوشی سے نکلنے لگے
شہری بھی نکل کر اپنے آفس روم کی طرف جانے لگا تو ندیم آرئیاں نے اسے آواز دے کر روک لیا
شہری پیچھے مڑ کر بولا جی سر؟
تم میرا ایک چھوٹا سا کام کرو
جی کون سا؟
کل تم تبسم کو شام ہمارے یہاں لے آنا
کیوں سر کوئی خاص بات ہے؟
ہاں کل تبسم کی سالگره ہے اور میں چاہتا ہوں تمہاری میٹنگ کی کامیابی اور اس کی سالگره دونوں ساتھ میں سلیبریٹ کریں جس میں آفس کے لوگ بھی ہوں
جی سر میں کل اسے آپ کے یہاں لے آؤں گا
لیکن بیٹا ایک بات کا خیال رکھنا
کس بات کا؟
اسے پتہ نہیں چلنا چاہیے پارٹی کا
اوکے سر نہیں پتہ چلے گا
شہری افس کے روم بیٹھ کر تبسم کے برٹھ ڈے گفٹ کا سوچتا رہا
گھر میں تبسم کا کسی چیز میں آج دل نہیں لگ رہا تھا وہ اکیلے بیٹھ کر روتی رہی اسے اب ڈر لگنے لگ گیا تھا کہ کہیں میری بد سلوکی کے دوران شہری کسی اور میں تو نہیں خود ہی سر ہلانے لگی نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا دل ڈر بھی رہا تھا شہری کہیں مجھے چھوڑ تو نہیں دے گا
اتنے میں نوری نے دروازہ بجایا
تبسم ایک دم بولی کون ہے
بیگم صاحبہ میں نے سب کر لیا آپ آ جائیں
نوری پلیز آج کھانا سرو خود کر لو میرے سر میں درد ہے آرام کرنا چاہتی ہوں
نوری کچن میں جا کر کام کرنے لگی
تبسم شہری کو کھونے کے ڈر سے روتی رہی اگر وہ کسی اور کے چکر میں ہے تو مجھ سے شیئر کر لیتے
عالیہ کے ساتھ کون سی میٹنگ ان کی تو مردانہ میٹنگ ہوتی ہے وہ کہیں اس اسے شادی تو نہیں کر رہیے اس کے دل میں طرح طرح کے وسواسے
کہیں اسے شاپنگ تو نہیں کروانے لے گئے وہ سب الٹا سوچ رہی تھی اور آس پاس پڑی چیزیں ادھر اُدھر پھینک دی اور کمرے کے کونے میں بیٹھ کر روتی رہی
آج پھر شہری اف ڈے لے کر خوشی سے گھر کے لیے نکلا کیونکہ وہ تبسم کو برتھ ڈے گفٹ دینا چاہتا تھا
وہ جیسے گھر آیا سیدھا اپنی ماں کے پاس گلے مل کر اپنی خوشی کا اظہار کیا کیونکہ اس کے لیے بہت انتظار تھا اسے
جاری ہے
❤️
👍
😢
😂
😮
🙏
172