Novel Ki Dunya
June 2, 2025 at 10:51 AM
#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے
#تحریر_عاصمہ_بلوچ
#قسط_نمبر_14
ایسے ہی کافی وقت گزر گیا تبسم اور شہری بہت خوش اور محبت سے رہ رہے تھے
مگر تبسم کی پرانی عادت اب تک گئی نہیں تھی وہ ہر موقعے کی تصوریں فیس بک پر اور وائٹس ایپ پر ڈال کر دم لیتی تھی شہری کو یہ عادت اس کی ہمیشہ سے ناگوار تھی مگر اب وہ چپ تھا کیونکہ اس بات سے اکثر ان میں تکرار ہو جاتا تھا جیسے شہری کچھ بولتا تو وہ ناراض ہوتی اور لڑ پڑتی تھی باقی سب باتیں مان لیتی مگر یہ نہیں چھوڑا کہ تصوریں ہی ہیں اور کون سا لوگ ایڈ ہیں سب اپنے ہی دوست کزن ہیں اس سے کیا مسلہ ہے تو اب شہری بس دیکھ کر خاموش تھا۔
وہ ہمیشہ کی طرح تصوریں دوستوں کو ٹیگ کرتی تھی۔اور اپنی تعریف سن کر بہت خوشی محسوس کرتی تھی
اب فیس بک وائٹس ایپ کے علاوه ٹک ٹاک بھی ہو گیا وہاں بھی دوست ہی ایڈ تھے وہ کسی انجانے کو ایڈ نہیں کرتی تھی کبھی۔
سمیرا تبسم کی جو دوست تھی اس کا یونیورسٹی میں کسی حمزہ علی کے ساتھ چکر چلتا رہا وہ کبھی اس کے پاس تو نہیں آیا مگر دور سے سلام دعا کر دیتا تھا
سمیرا نے فیس بک آئی ڈی میں حمزہ علی کو ایڈ کر لیا تھا
حمزہ علی کو سمیرہ سے اتنا تھا نہیں مگر جب تبسم اپنی پک سمیرا کو ٹیگ کرتی تو وہ حمزہ بھی دیکھ لیتا تھا یونیورسٹی میں حمزہ علی تبسم کا دیوانہ تھا کئی بار وہ تبسم سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر تبسم کبھی اسے منہ نہیں لگاتی تھی
پھر حمزہ علی نے اس کی دوست سمیرہ سے رابطے بڑھاۓ کیونکہ وہ اب تبسم کی بےروخی سے اس کو بدنام کرنا چاہتا تھا
تبسم نے بہت بار حمزہ کی بےعزتی کی وہ اندر ہی اندر انتقام لینے کا سوچتا رہا
اور سمیرا کو سیڑھی بنا کر اس تک پہنچا چاہتا تھا سمیرا کو جھوٹی محبت میں پھنسایا مگر سمیرہ اس کا ایسے کرنا پیار سمجھ رہی تھی اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی تھی اسے خبر بھی نہیں تھی کہ وہ آستین کا سانپ پال رہی ہے۔جو انہیں اس طرح زلیل کر دے گا سوچا بھی نہیں تھا۔
اب دن رات سمیرا اس سے باتیں کرتی اس کی دیوانی ہو چکی تھی کہ اس کو آئی ڈی میں بھی ایڈ کر لیا تھا اور اپنا نمبر بھی اسے دے دی تھی حمزہ ٹائم پاس کے لیے سمیرا سے بات چیت کر لیتا اور سمیرا نے خوابوں کا شہزادہ بنا لیا تھا
حمزہ تبسم کے پاس ایڈ تو نہ تھا مگر جب تبسم سمیرا کو اپنی تصوریں ٹیگ کرتی تو حمزہ کو بھی وہ نظر آ جاتی تھی وہ تبسم کی ہر تصویر اٹھا کر اپنے موبائل سیور کرتا رہا اور سو سے اوپر تصوریں ہو گئی تو اس نے تبسم کے نام سے ایک فیک آئی ڈی بنا لی اور ہر لڑکے کو ایڈ کر کے ان کو بےوقوف بناتا رہا سب تبسم تبسم کرتے وہ ہر روز نئی نئی تصوریر لگاتا تو ہزاروں لائیک لیتا اور بہت سے تبسم بن کر بات کرتا
حمزہ سمیرا سے اس کی آواز میں میسج مانگتا اور وہ اسے دے دیتی تھی حمزہ اس کی آواز اور لڑکوں کو بھی دے دیتا تھا وہ سچ سمجھتے کہ یہ تبسم ہی ہے
اور کسی کو نہیں پتہ تھا کہ اس تبسم نام کی آئی ڈی میں حمزہ علی ہے سب تبسم کے دیوانے ہوۓ بیٹھے تھے اسطرح تبسم کو وہ بدنام کر رہا تھا بہت سے لڑکوں سے ایسی بےہودہ چیٹ کرتا کہ سب بات کے لیے بےچین ہوۓ رہتے
سمیرا اپنی تصویر آپلوڈ کرتی تھی مگر ہمیشہ دوستوں کے ساتھ تبسم کے ساتھ ہوتی تھی جو ٹک ٹاک پر بناتی تھی اور پھر یہاں بھی ڈالتی تو حمزہ مزے سے دیکھتا اور پھر اٹھا کر فیک والی تبسم کی آئی ڈی میں ڈال دیتا
تبسم اب شہری کے ساتھ خوش خوش اپنی تصوریں لگانے لگی تھی حمزہ وہ دیکھ دیکھ کر جلتا رہتا اور تنہائی میں جب بھی نشے کی حاکت میں ہوتا تصوریں کھول کر دیکھتا اور بولتا تم بس میری ہو صرف میری
میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا اگر تم میری نہیں ہو سکتی تو میں تمہیں کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گا وہ نشے میں چلا چلا کر بولتا اور پھر وہی سو جاتا
______________
شہری آج نیند سے اٹھا تبسم کو گیلے بالوں میں دیکھ کر ہلکی پالکیں چھپک کر بولنے لگا جان اندر آؤ نا
تبسم شیشے سے دیکھتے ہوۓ بولی جناب زرا ٹائم پر بھی ایک نظر ڈال لیا کرو جب دیکھو رومینس کی پاتی ریتی ہے
ارے جانی وقت دیکھا ہوا ہے روز ہی
ہاں تو یہ وقت آفس کا ہوتا ہے
تبسم بالوں کا جوڑا بناتے ہوۓ مڑی چلو جلدی سے تیار ہو کے آئیں میں ناشتہ لگواتی ہوں اور ہاں میں نے سب کچھ نکال کر اپنی جگہ رکھ دیا ہے آپ فریش ہو کر سب پہن کر نیچے آ جائیں
شہری تبسم کو دیکھ کر منہ بنایا بیڈ پر تکیہ لے کر منہ پر رکھا اور سو گیا
تبسم ہنستی ہوئی کمرے سے نکل کر کچن میں چلی گئی وہاں نوری ناشتہ تیار کر رہی تھی
تبسم نے نوری کو دلام کیا اور دیکھنے لگی کیا کچھ تیار ہوا نوری سلام کا جواب دیتے ہوۓ بعلی بیگم صاحبہ میں نے سب کر لیا ہے
نوری تم برتن دیکھ لو میں چاۓ بنا لیتی ہوں
ویسے بھی خالہ امی کو اور شہری کو میرے ہاتھ کی چاۓ پسند ہے
تبسم چاۓ بنا کر اور نوری کے بنے پراٹھے اور املیٹ میز پر رکھنے لگی
شہری مشکل سے اٹھ کر تیار ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ تبسم کو آوزیں بھی دے رہا تھا فضول میں ہی مگر تبسم اب سب شہری کی حرکتوں سے واقف تھی۔وہ یہی سے ہنس کر آواز لگاتی چیزیں صوفے پر رکھی ہیں جلدی تیار ہو کے نیچے آ جائیں ۔وہ تبسم کے ایسے جواب سن کر منہ بھی بنا لیتا تھا اور ساتھ تیاری کرتا رہتا
تبسم اتنے میں شبانہ کو بھی میز پر لے آئی
شہری چلا کر پھر سے تبسم کو بولانے لگا
تابوں جلدی آؤ دیکھو شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا ہے
تبسم شبانہ کو کرسی پر بیٹھا کر خود شہری کے پاس چلی گئی اور بولی جی فرماؤ کتنا شور مچاتےہو بولو اب کیوں بولایا تھا
یہ دیکھو نا شرٹ کا بٹن
افف شہری یہ بھی خود توڑا ہو گا
شہری بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ پتہ نہیں یاد نہیں بس ٹوٹ گیا
تبسم نے بولا اچھا آپ یہی روکو میں آتی ہوں
شہری کے دماغ میں فلم کی طرع رومینس گھوم رہا تھا کہ ایک بیوی شوہر کا بٹن لگاتی ہے اور وہ اسے باہوں میں بھر لیتا ہے
اگے بھی تبسم تھی ایک دم دوسری شرٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں دے کر بولی یہ پہن لیں اور خود کمرے سے باہر نکل گئی
شہری نے منہ بنا لیا اور خود سے بڑبڑانے لگا کہ کتنی ظالم بیوی ملی ہے مجھے لگا پیار سے آ کر بٹن لگاۓ گی وہ الٹا اور شرٹ دے کر چلتی بنی۔
شہری شرٹ بدل کر باہر آ گیا اور ناشتے کے میز پر چپ چاپ ناشتہ کرتا رہا
تبسم شہری کا پلاں فیل کر کے مسکرتی رہی
شہری منہ بنا کر ناشتے سے فارغ ہوتے ہاتھ دھو کر بیگ اٹھا کر بنا کچھ بولے آفس کے لیے نکل گیا
تبسم پیچھے ہنستی رہی اور کمرہ صاف کرنے لگی
شہری آفس پہنچ کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا
مگر تبسم کو ہی سوچتا
اتنے میں دروازہ بجا تو شہری نے آرام سے کہا آ جاؤ
عالیہ اندر آئی اور بولی شہری سر آپ کو سر ندیم بولا رہیے ہیں
اچھا تم چلو آتا ہوں شہری لیپ ٹاپ بند کرتے ہوۓ کرسی پیچھے کی اور تیزی سے ندیم صاحب کے آفس دروازہ بجا کر داخل ہوا
ندیم صاحب کی میز پر ایک فائیل تھی جو وہ پڑھ کر پریشان ہو رہے تھے
شہری کو دیکھ کر اسے بیٹھنے کو بولا
شہری ان کی پریشانی چہرے سے محسوس کرتے ہوۓ کرسی کھنچ کر بیٹھا سر سب ٹھیک تو ہے؟
ندیم وہ فائیل اس کو دیتے ہوۓ بولے دیکھو اس کو
شہری بھی فائیل دیکھ کر پریشان سا ہو گیا
سر اتنا نقصان ہو رہا ہے اس والی فیکٹری کو آپ نے یہ ایاز خان کو دی تھی نا پھر اتنا نقصان کیسے ہو رہا ہے
ندیم شہری کو دیکھتے ہوۓ بولے پتہ نہیں بیٹا میری سمجھ سے باہر ہے اب یہ وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا آخر ہو گیا رہا ہے
اچھا ایسا کرو تم ہی جا کر دیکھ لو
شہری بنا بولے ھھمم اوکے سر دیکھ لوں گا
شہری یہ بول کر اٹھا فائیل لے کر اپنے آفس روم چلا گیا وہاں خاموشی سے فائیل دیکھ کر جائزہ لیتا رہا
_______________
حمزہ نے آخر وہ کر ڈالا جو سمیرہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا
حمزہ سمیرا کو کال کر کے گھومنے جانےکےلیے بولتا ہے
سمیرا نے کہا حمزہ دیکھو جب ہم یونیورسٹی تھے تو میں تمہیں مل لیا کرتی تھی مگر اب میں گھر سے نہیں نکل سکتی نہ میں جاب کرتی ہوں کہ نکل سکوں ایسے کیسے ملوں
افف جا میں جاب کے لیے بہت کوشش کر رہا ہوں جیسے ہی کوئی اچھی جاب ملتی امی کو آپ کے ہاں بھجیوں گا بس تم دعا کرو جاب مل جاۓپھر ہم جلد شادی کر لیں گے
ہاں وہ تو ہے دعا تو میان کرتی ہوں مگر مل نہیں سکتی یہ میرے لیے ممکن نہیں
جان پورے چھ ماہ ہو گئے تمہیں دیکھے ہوۓ بس میسج کال بات ہو رہی مجھے اب بس کیسے بھی میری جان سے ملنا ہے۔
ارے حمزہ پلیز سمجھو ضد نہیں کرو
بس اب مجھ سے بات نہیں کرو میں ناراض ہوں تم سے ایک خواہش نہیں پوری کر سکتی میری یہ کیسی محبت ہے کہ جس پر یقین ہی نہ ہو
حمزہ سمیرہ سے ناراض ہونے کا ڈرامہ کیا
سمیرہ بہت میسج کال مگر وہ بات نہیں کرتا تھا سمیرا تو اسے بہت دل جان سے چاہینے لگی تھی آخر اس سے اس کی ناراضگی برداشت نہیں ہوئی اس سے رہ نہیں گیا اس نے حمزہ کو میسج کیا کہ میں ملنے کو تیار ہوں
وہ گئی اور وہ اس سے ملا اور دوستوں کو تصوریں بنانے کا بولا ہوا تھا اس کے دوست اس کی تصوریں بناتے رہے ایسے سمیرہ اب ہر ماہ اس سے ملنے آ جاتی تھی پھر حمزہ نے ضد کی کہ یہ بہت لمبا وقت ہے پندہ دن کر لو تو سمیرہ تبسم کے گھر جانے کا بہانہ کر کے اس سے پندہ دن بعد ملنے لگی حمزہ ہر ملاقات پر نئی تصوریں بنواتا رہا حمزہ اپنے پلان میں اب کافی حد تک کامیاب ہو چکا تھا اب اسے اس دن کا انتظار تھا جب تبسم اس کے پاس آۓ
_______________
شہری گھر آتے ہی تھکا تھکا تھا سامنے نوری تھی بولا نوری پانی لے آؤ نوری نے پانی لایا تو شہری نے پانی لیتے ہوۓ بولا تبسم کہاں ہے؟
شہری صاحب وہ اپنے کمرے میں ہیں
تبسم نے شہری کی آواز سنی تو کمرے سے باہر آ کر شہری کو دیکھ کر بولی شہری آپ کو کچھ چائیے؟
شہری جو صوفے سے ٹیک لگاۓ آنکھیں بند کر کے ریلکس ہو رہا تھا فورا آنکھیں کھولی نہیں پانی چاہیے تھا نوری نے دے دیا
تبسم شہری کی آفس چیزیں جو اس نے میز پر رکھی تھی اٹھا کر کمرے میں جانے لگی
شہری بھی اٹھ کر اس کے پیچھے آ گیا اور آ کر بیڈ بیٹھ کر شوز اتارنے لگا تبسم نے بولا آپ رہنے دو میں کر دیتی ہوں
نہیں بس تم مجھے کپڑے دے دو چنچ کر کے سونا چاہتا ہوں سر میں بہت درد ہے کھانا بھی اٹھ کر ہی کھاؤں گا
تبسم نے المارے سے کپڑے نکال کر اسے دیے لگتا ہے بہت آج تھک گئے ہو
ہاں بس شہری نے کپڑے لیے اور واش روم گھس گیا
تبسم جلدی سے ایپل کا فریش جوش لے آئی
جیسے شہری فریش ہو کر نکلا تو تبسم کے ہاتھ میں جوس کا گلاس دیکھ کر بولا اس کا بھی دل نہیں ہے بس آرام کرنا چاہتا ہوں لائٹ آف کر دو
شہری لیٹ گیا تبسم لائٹ آف کر کے اس کے پاس بیٹھ کر بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی کیا بات ہے شہری آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہو
نہیں بس تھک گیا ہوں سو کر اٹھو گا تو نارمل ہو جاؤں گا
اچھا آپ سو جائیں میں سر دباتی ہوں وہ سر دبانے لگی اور آہستہ آہستہ سارے دن کی باتیں پوچھتی رہی
افف بابا نے آپ کو یہ کیوں دیا اب دو دن آپ مجھ سے دور رہو گئے میں بابا سے بول کر منا کر دیتی ہوں
ارے جان میں اگر تمہارے بابا کے ساتھ نہ ہوتا تو اور بھی جگہ ایسے کام ہوتے نا
تبسم نے منہ بنا کر بولا تو پھر میں بھی ساتھ چلوں گی
شہری نے ہنسی دباتے ہوۓ بولا افف تم ساتھ گئی تو میں اپنی لوور کے ساتھ ڈیٹ کیسے ماروں گا
تبسم نے اس کے سینے پر لاڈ سے مکا جڑ دیا شہری آپباز نہیں آئیں گے ایسی باتوں سے
شہری نے کہا مجھے مزہ آتا ہے تمہارے چہرے کے زاویے بدلتے دیکھ کر
شہری باتیں کرتے کرتے وہی سو گیا
دن گزرتے رہے آۓ دن حمزہ سمیرہ کو تنگ کرتا رہا اس کی بنی تصوریں اسے دیکھ کر بلیک میل کرتا اور اسے ملنے پر مجبور کرتا
سمیرا اب اپنے گھر والوں کی عزت کے لیے اس کے اگے کٹ پتکی بنی رہی
_________________
شہری اٹھا اور اپنی شہر سے باہر دو دن رہنے کی پیکنگ کروا رہا تھا تبسم پوچھ پوچھ کر سب ضرورت کی چیزیں ڈال رہی تھی اور اس کے جانے پر دل بہت اداس بھی تھا اس کا
شہری تیار ہو کر بیگ اٹھا کر نکلنے لگا اور گلے مل کر بولا جان ماما کا بہت خیال رکھنا اور جب تک میں نہیں آؤں گھر سے نہیں جانا کہیں بھی پھر میں آؤں گا تو گھومنے چلیں گے وہاں سے کچھ بھی چاییۓ ہوا میسج کر دینا اپنی جان کے لیے لیتا آؤں گا
تبسم بس خاموش اداس اسے دیکھتی رہی
شہری اس کے ماتھے پر بوسہ لیتے ہوۓ اپنی ماما کو سوتے میں دیکھ کر سفر پر نکل گیا ۔
تبسم شہری کے جاتے ہی اداس رہی ناشتہ بھی نہیں ٹھیک سے کیا نہ کھانا صیحح سے کھایا خاموشی سے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی
اتنے میں میں سمیرا نے ویڈیو گروپ بنایا اس میں تبسم اور افزاء کو ایڈ کیا اور کال بات کرنے لگی
تبسم نے سمیرا کو دیکھا جو بہت کمزور اور کلر خراب ہوا تھا تبسم سمیرا کی حالت دیکھ کر غصہ ہوئی اس پر افزاء بھی اسے سناتی رہی
تب سمیرا دونوں کے سامنے رونے گڑگڑانے لگی مدد مانگنے لگی مگر دونوں نے اس کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا
سمیرہ روتے ہوۓ موبائل بند کر کے رکھ دیا
کچھ دیر بعد تبسم کو خیال آیا کہ دوست ہے بےبس ہے تو اس کی مدد کر دینی چاہیے اس کا ایک دل کر رہا تھا جا کر حمزہ کو بہت سنا کر آئے مگر پھر اسے یاد آیا کہ شہری نے باہر جانے سے روکا ہے تو میں شہری کو نہیں کھونا چاہتی۔
تبسم اسی بارے میں سوچتی رہی اور شام ہو گئی
رات کو شہری کی کال آئی تبسم نے شہری کی دیکھ کر فورا اٹھائی کیسے ہیں آپ
میں ٹھیک ہوں میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں اب تھوڑا تھکا ہوا سو کر اٹھوں گا تو فریش محسوس کروں گا اور ماما کیسی ہیں
خالہ امی ٹھیک ہیں انہیں کھانا کھلا کر دوا دے کر سلا دیا اب میں بھی سونے ہی لگی تھی
اچھا جانی تم اب سو جاؤ میں بھی سونے لگا ہوں
تبسم نے بہت ٹائم بعد آج شہری سے پھر جھوٹ بولا اور موبائل رکھ کر تیار ہونے لگی تیار ہو کر شبانہ کے پاس آئی خالہ امی شہری نہیں ہیں تو دل بہت گھبرا سا رہا ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں ماما کے گھر سے ہو آؤں کچھ دیر میں آ جاؤں گی
ہاں بیٹا تم جاؤ شہری کی کال آئی تو بتا دوں گی
نہیں خالہ امی انہیوں نے ابھی کال کی تھی آپ کا بھی پوچھا تھا سفر سے تھکے تھے سونے لگے تھے۔
شبانہ تبسم کو دیکھتے ہوۓ بولی اچھا بیٹا تم ہو کے آ جاؤ یہاں سے بھی کامیاب ہو گئی تھی اور خود ڈرئیو کرتے ہوۓ نکل گئی اور رستے میں سمیرا کو کال کی کہ تم تیار رہو میں تمیں لینے آ رہی ہوں جیسے سمیرا کے گھر کے پاس گئی وہ اگے تیار تھی دونوں باتیں اور سفر جاری تھا تبسم سمیرا سے ساری تفسیل لیتی رہی جب ساری بات جان لی تو بولی تم حمزہ کو کال کر کے کسی ریسٹورینٹ میں بولا لو میں اس سے خود بات کروں گی تم کار میں ہی انتظار کرو میں ساری تصوریں اس کے موبائل سے ختم کروا کر واش کر کے آؤں گی اور تبسم حمزہ کے بتاۓ ہوۓ رستے پر انتظار کرتی رہی
____________
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
حمزہ لال شرٹ اور کالی پینٹ میں تھا سامنے تبسم کو دیکھ کر مسکرایا وہ چالاک انسان ایسے کیسے اکیلا آ سکتا تھا ساتھ دو دوست لایا جو ان دونوں کی تصوریں بنائیں گے حمزہ اور تبسم جیسے آمنے سامنے ہوۓ ادھر دوستوں نے تصوروں کا کام جاری کر دیا تبسم اس بات سے انجان تھی
حمزہ تبسم کو کھانے کا بولتا رہا مگر تبسم نے بس جوس پیا اور مسلسل سمیرا کی تصوریں لینے کی ڈیمنٹ کرتی رہی اور بولی کہ اپنا موبائیل دو میں اس سے ساری واش کروں گی اور جو کمیرے والی ہیں وہ بھی میرے حوالے کرو میں تمہیں اس کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں
ارے تبسم جی آپ کا کہنا ہی میرے لیے کافی ہے آپ قیمت کی کیا بات کرتی ہیں حد ہے یار اور ساتھ ہی حمزہ کا شیطانی قہقہ بلند ہوا ہاہاہاہاہا
تبسم نے غصے سے اسے دیکھا یہ فصول کا ہنسنا بند کرو اور کام کی بات کرو مجھے وہ میمری دو جس میں سمیرا کی ساری تصوریں ہیں اور جو موبائیل میں ہیں وہ میرے سامنے ساری ختم کرو وہ بہت سیریز ہو کر بولتی رہی
حمزہ نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو تبسم نے ہاتھ اگے کر دیا اور حمزہ نے رنگ نکال کر اگے کی تبسم کی اور اسکی ساری تصوریں بنتی رہی
تبسم ایک دم غصے میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی گھٹیا پن بند کرو اور تصویریں دو
حمزہ بولا کول یار بیٹھو دیتا ہوں دوست نے اشارہ کیا کے کام ہو گیا
جاری ہے
❤️
👍
😢
😮
🙏
😂
158