Novel Ki Dunya
June 2, 2025 at 03:10 PM
#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے
#تحریر_عاصمہ_بلوچ
#قسط_نمبر_15
تبسم وہ تصوریں اس وقت میرے پاس نہیں ہیں میں تمہیں پرسوں دے دوں گا کل مجھے کسی کام سے جانا ہے کل نہیں دے سکوں گا
تبسم بہت غصے میں ہو کر بولی اب تم میری کال کا انتظار کرنا میں تمہیں خود بولا کر لے لو گی
تبسم بےچاری کو نہیں پتہ تھا کہ دوست کو بچانے کے چکر میں اس کی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے
حمزہ نے دوسرے دن وہ ساری اپنی اور تبسم کی تصوریں بڑے بوز میں رنگ بھی دے رہا وہ ہاتھ اگے کر رہی اس طرح ساری تصوریں تبسم والی فیک آئی ڈی میں ڈال دی۔اور دوستوں کے ساتھ آج حمزہ جشن منا کر بہت خوش تھا
کچھ دن گزر گئے شہری کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہوئی کہ یہ گھر سے گئی تھی نہ ہی تبسم نے زکر کیا کچھ دن کے بعد شہری کو دوبارہ شہر سے باہر جانا پڑا تو تبسم کو یہ موقح اچھا ملا وہ پھر سے سمیرا کو بچانے نکلی اور حمزہ کو پارک میں بلوایا مگر حمزہ نے اس بار بہت اچھا انتظام کیا ہوا تھا
تبسم جیسے ہی کار پارک کر کے نکلی تو کسی چیز سے ٹکرا کر گرنے لگی تو حمزہ نے اسے باہنوں میں تھام لیا اور ہنستے ہوۓ سیدھا کیا ادھر تصوریں بن رہی تھی افف تبسم سوری میں بھول آیا گھر کل یہی آنا میں دے دوں گا یہ اس کی ایک اور چال تھی
تبسم نے کہا میں یہی سے واپس جا رہی ہوں اور صبع سات بجے یہی پر لے کر آنا
صبح تبسم جلدی اٹھ کر اس سے تصوریں لینے گئی تو حمزہ نے پار کے باہر الگ انتظام کیا ہوا تھا جیسے تبسم آ رہی تھی کہ ایک دوست نے اگے اپنی لات کر دی تبسم سیدھی جا کر حمزہ پر گری اور دوسرا دوست بڑی پھرتی سے تصوریں نکالتا رہا تبسم اٹھ کر اس پر برس پڑی بہت سنا دی وہ سوری کر کے معصوم بن کر چلا گیا
اس تیسری ملاقات میں اس نے سمیرا کی ساری تصوریں سب کچھ تبسم کے حوالے کر دیا تبسم بہت خوش ہو کر گھر لوٹ آئی
چند دن بہت آرام سے گزرے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا تبسم کو بہت فخر کہ میں نے سمیرا کی عزت بچا لی دونوں دوست تبسم کی بہت تعریف کرتی رہی مگر تبسم نے سختی سے منا کیا کہ یہ بات شہری تک کبھی نہیں پہنچنی چاہیے
تبسم اور شہری اپنی زندگی سکون سے رہنے لگے
ادھر حمزہ اپنے پلان میں کامیاب ہو چکا تھا
اس نے وہ سارے تصوریں اسی تبسم والی آئی ڈی میں ڈال دی اور بہت سارے لڑکوں سے چیٹ کرتا رہا تبسم بن کر اور ان میں سے کافی لڑکوں کے ساتھ پک ایڈیٹ کر کے وہ بھی اپلوڈ کر دی اب وہ بہت خوش تھا
______________
کچھ دن گزرے آج پھر شہری کو شہر سے باہر جانا پڑ گیا وہ بھی دو دن کے لیے
شہری کو اب تبسم بہت فرمابردار بیوی لگنے لگی تھی کہ میں اسے بولا باہر نہیں جانا وہ نہیں گئی اب میرے بغیر کئ نہیں جاتی وہ اسی میں خوش تھا شبانہ جاتے دیکھتی رہی مگر اسے لگا شہری کو بتا کر جاتی ہے اس لیے یہ بات کسی کو نہیں پتہ ہوئی کہ تبسم باہر جاتی رہی
جب تبسم کی واپسی تھی تو کال کر کے بات کی تو تبسم نے بولا بتاؤ آج کیا کھانا پسند کرو گے میں خود آپ کے لیے بناؤں گی
شہری نے کہا جان میں کچھ فائیل ضروری پہلے آفس دوں گا پھر گھر آؤں گا تم تیار ہو کر رہو
تبسم نے کہا کیوں آج کوئی خاص بات ہے؟
نہیں نہیں میں پیچھلے دو ماہ سے کافی بزی رہا اپنی جان کو ٹھیک سے وقت نہیں دے پایا بس اب سوچ لیا کتنا بھی تھکا ہوں آج ہم کھانا باہر ہی کھائیں گے تھوڑی تمہاری اوٹینگ ہو جاۓ گی
ارے شہری آپ سفر کر کے اتنے تھکے آؤ گے ضروری تو نہیں ہم پھر کبھی چلے جائیں گے
ارے جان تم سے بڑ کر اب کچھ نہیں ہے بس میں نے بول دیا سو بول دیا تیار رہنا میں آتے ہی لے چلوں گا
شہری نے پیار کر کے کال رکھ دی
تبسم بہت خوش اور تیار ہونے لگی
_____________
حمزہ نے بہت مشکل سے آخر شہری کی آئی ڈی ڈھونڈ ہی لی اور شیطانی مسکراہٹ کرتے اسے ساری تصوریں بھجتا رہا انبکس میں
شہری نے فیس بک تو نہیں مگر میسنجر اوپن ہی تھا مگر وہ کام سے جا رہا تھا تو مناسب نہیں سمجھا اوپن کرنا اور آفس آ کر ندیم صاحب کو فائیل دی اور بولا اب میں گھر چلتا ہوں وہ بہت خوش تھا اور چابی گھوماتا ہوا کار میں آیا
شہری کار اسٹاٹ کرنے سے پہلے موبائل پر کسی کو میسج کرنے لگا تو اس نے کافی سارے میسنجر پر آۓ میسج دیکھے تو میسنجر کھول لیا جیسے کھولا تو تصویروں کی بھرمار حمزہ اپنی اصل آئی ڈی سے تبسم والی فیک آئی ڈی میسج کرتا اور وہاں سے خود ہی تبسم بن کر میسج کے جواب دہے ہوۓ وہ بھی سکرین شاٹ لے کر بھجے
شہری وہ سب خاموشی سے دیکھتا اور پڑھتا رہا اس کی آنکھیں دکھ اور غصے سے لال ہوتی رہی شہری نے بہت تیز ڈرائیو سے کار گھر کی طرف بھاگا دی
گھر پہنچ کر بہت غصے میں طوفان کی طرح گھر داخل ہوا
تبسم آج شیشے کے آگے بال بناتے ہوۓ بہت خوش تھی کیونکہ اس کو اتنا اچھا خیال کرنے والا ہمدرد مخلص انسان اس کے پاس تھا مگر اس کو بہت بعد میں اس بات کا احساس ہوا اب وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی اب ہر مکمن کوشش سے اسے اپنا کر لیا تھا اور اب وہ بہت خوشی سے رہتی تھی
ابھی تبسم بال بنا ہی تھی تھی کہ اچانک وہ ہوا جس کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا
شہری آتے ہی تبسم کو بازو سے پکڑا اور بہت زور دار ٹھپڑ مارا نکل جاؤ میرے گھر سے مکار عورت
اس سے پہلے کے تبسم وجہ پوچھتی
شہری بہت غصے میں تھا بجاۓ یہ کہ اسے مارتا پیٹتا اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے تبسم کو دیکھ کر بولا
تبسم آرائیاں میں اپنے پورے ہوش و احواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔۔میں تمیں طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔تبسم میں تمیں طلاق دیتا ہوں
تیں بار طلاق دےکر بیڈ پر بیٹھ کر سر پر ہاتھ رکھ کر خاموش ہو گیا
تبسم یہ سنتے ہی مردہ لاش کی طرح زمیں پر بیٹھ گئ اور رونے لگی کہ میں نے ایساکیا کر دیا جو شہری نے میری زندگی اجاڑ دی وہ بنا کچھ بولے سوچے جا رہی تھی اور روۓ جا رہی تھی وہ یہ بات بات سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جو تصوریں بڑے شوق سے پیاری پیاری بنا کر اپلوڈ کرتی رہی آج انہیں کی وجہ سے یہ سب ہوا۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
شہری نے کافی دیر بعد سر اوپر اٹھایا تو تبسم کو گرا ہوا بےہوش دیکھا تو بوجھل قدموں سے چلتا اس کے پاس آیا اسے بے ہوش دیکھ کر پاس ٹیبل پر پڑا پانی اس کے اوپر چھڑکاؤ کرنے لگا جب تبسم بلکل بھی ہلی جولی نہیں گھبرا سا گیا اور اسے اٹھا کر باہر کی طرف بھاگا اور شور مچاتے انداز میں شکیل شکیل دروازہ کھولو شکیل جو آرام سے بیٹھا تھا سن کر شہری کی گھبرائی آواز تو بھاگ کر دروازہ کھولا
شبانہ نے بیٹے کی چلانے کی آواز سنی تو نوری کو آوازیں لگانے لگی
نوری بھی شہری کو ایسے جاتے دیکھ کر شبانہ کی طرف بھاگی
شبانہ نوری کا سہارا لیتے ہوۓ شہری تک چلتی آئی
شہری کیا ہوا ہے بہو کو
شہری بنا کچھ بولے تبسم کو کار میں ڈال رہا تھا اور دروازہ بند کر کے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر جیسے ہی چلانے لگا
شبانہ نے شہری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا بولتے کیوں نہیں ہو کیا ہوا ہے تبسم کو
شہری ماں کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوۓ نوری کو بولا ماں کا خیال رکھنا میں اسے ہسپتال سے دیکھا کر آتا ہوں
شبانہ ضد کرنے لگی نوری مجھے بھی کار میں پیچھے بیٹھا دو
شہری ماں کا سن کا چپ ہو گیا تو نوری شبانہ کے ساتھ خود بھی بیٹھ گئی
شہری نے تیز ڈرائیو کرتے ہوۓ سی ایم ایچ ہسپتال لے گیا
وہاں ڈاکٹر نے تبسم کی حالت دیکھتے ہوۓ آئی سی او میں بھیج دیا
شہری دیوار سے ٹیک لگا کر خود کو ہی سھبالتا رہا شبانہ اور نوری پاس پڑے بینچ پر بیٹھ گئی سب میں مکمل خاموشی تھی
ندیم اور شہلا اتنے میں آ گئے اور آتے ہی شہری سے تبسم کی خیریت پوچھنے لگے
شہری اس وقت کسی سے بھی بات کے موڈ میں نہیں تھا وہ خود بھی ڈاکٹر کے جواب کا انتظار کر رہا تھا
آئی سی اؤ میں سے جیسے ڈاکٹر باہر آیا سب اس کی طرف دیکھنے لگے ڈاکٹر نے کہا آپ کے پیشنٹ کی حالت کافی خراب ہے اچانک اسے بہت بڑا صدمہ لگا ہے بس دعا کریں اسے دعا کی ضرورت ہے ورنہ کومے میں جانے کا ڈر ہے
شہری یہ سنتے ہی اپنے ہاتھ دونوں منہ پر رکھ کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور خاموش ہی رہا اتنے میں آزان کی آواز آنے لگی شہری نے جیسے آزان کی آواز سنی اسے لگا خدا مجھے دعوت دے رہا ہے تو شہری فورا نماز کے لیے چلا گیا
شہری نماز پڑھ کر جب لوٹا تو کچھ ہی دیر بعد نرس باہر آئی سب ہی اسے امید سے دیکھ رہیے تھے نرس نے کہا آپ کی پیشنٹ ہوش میں آ چکی ہے اب خطرے سے باہر ہے ایسے مریض کومہ میں بھی چلے جاتے ہیں اللہ کا بہت کرم ہوا آئی سی آو میں تو نہیں مگر کچھ دیر میں اسے روم شفٹ کر دیا جاۓ گا آپ لوگ وہی مل سکتے ہیں
سب اللہ کا شکر ادا کرتے رہے کچھ دیر بعد تبسم کو روم بھیج دیا گیا
سب سے پہلے شبانہ نے نوری کا سہارا لیا اور تبسم سے ملنے گئی پیچھے ہی ندیم اور شہلا بھی اس کے کمرے میں آۓ تبسم بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور آنکھیں بند ہی تھی ندیم تبسم کے سر ہاتھ پھرنے لگا شہلا بھی پاس ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی شبانہ بھی پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی پاس ان کے نوری کھڑی سن تبسم کو ہی دیکھ رہے تھے
تبسم کو ہوش میں آ تو چکی تھی مگر دواؤں کے زیر اثر شاید غنودگی میں تھی جیسے غنودگی ختم ہوئی اور اسے سب یاد بھی آنے لگا تو رونے لگی سسکیاں لے لے کر ندیم اور شہلا اسے پیار کرنے اور سہارا دینے لگے اور اصل وجہ پوچھنے لگے۔
تبسم بس روتی اور سسکیاں لیتی رہی شہلا اس کے اور نزديک ہوئی اس کے بالوں کو پیچھے کرتے ہوۓ پیار سے بولی
میری جان بتاؤ مجھے کیا ہوا کیا شہری نے کچھ کہا تھا ڈانٹا تھا؟
تبسم روتے ہوۓ بولی ماما شہری نے مجھے۔۔۔۔
ہاں ہاں بیٹا کیا کہا شہری نے تمیں بولو ڈررو نہیں
ما۔۔۔۔ما۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔شش۔۔۔شہری نے ایک دم پھر سے رونے لگی ماں نے ساتھ لگاتے ہوۓ پوچھا کیا شہری نے کیا؟؟
مجھے طط طلاق دے دی
شبانہ نے تو طلاق کی آواز سنی تو مردہ لاش کی طرح ہو گئی
شہلا اور ندیم حیرانی سے سوال کرنے لگے کہ طلاق مگر کیوں کیا وجہ ہوئی
تبسم مزید روتے سر اور ہاتھ کے اشارے سے بولی مجھے نہیں پتہ کیوں دی
ندیم نے بیٹی کے سر پر پیار سے بوسہ دیتے ہوۓ اسے ہمت دینے لگے اس کا ہاتھ پکڑ لیا شہلا بھی اس کو پیار کرنے لگی
شبانہ کو اب شہری کے آنے کا انتظار تھا
شہری خاموشی سے دروازہ کھولا اور اندر آیا شب شہری کی طرف دیکھنے لگی کہ کچھ بولے گا مگر شہری بھی خوموشی اور دکھ سے تبسم کو دیکھ رہا تھا تبسم نے شہری کو دیکھ کر گردن گھما لی
شبانہ نے نوری کا سہارا لیا اور اٹھ کر شہری کے پاس آئی اور آتے ہی زور دار تھپڑ شہری کو دے مارا
شہری بالکل خاموش کھڑا رہا اس کی آنکھیں بہنے کو تیار تھی مگر اس نے خود کو بہت مضبوطی سے سھبالا ہوا تھا
شبانہ نے شہری کو کالر سے پکڑ کر جھجوڑا اور پوچھنے لگی کہ تم نے اسے طلاق کیوں دی کس لیے دی
شہری ماں کو بس چلاتے سن رہا تھا مگر بے جان سا ہو کے
شبانہ بیٹے کی باہنوں میں ہی جھول گئی اور بےہوش ہو گئی شہری نے تھام کر پاس کرسی پر بیٹھا کر ٹیک لگا دی نوری نے تھام لیا اور شہری پانی کا چھڑکاؤ کر کے ہوش میں لانے لگا
شبانہ ہوش میں آ تو گئی مگر بالکل خاموش سی ہو گئی
اتنے میں ندیم صاحب نے بہت تعمیل سے بولا شہری صاحب اب ہمیں بتا دو کہ طلاق کیوں دی ہے
شہری بامشکل بولا اپنی بیٹی سے پوچھ لیں
تبسم خاموشی سے دیکھنے لگی
ندیم نے پھر کہا اسے خود بھی نہیں پتہ تم ہی بتا دو
شہری نے کہا میرا تو دل تھا اس کا گلا ہی دبا دوں مار دوں اسے اور خود پھانسی پر چڑھ جاؤں وہ لال ہوتی آنکھوں سے چلا کر بولنے لگا
ندیم نے کہا آرام سے بات کرو ہسپتال ہے تمہارا گھر نہیں
شہری نے اپنا موبائل نکال کر ندیم کے ہاتھ میں رکھ دیااور بولا میسنجر کو کھول کر دیکھیں
ندیم نے کھولا تو ساری تصوریں اور میسج پڑھنے لگا ایسی تصوریں اور وہ بھی اتنے لوگوں کے ساتھ میسج بھی بےہودہ تو ندیم وہی لڑکھڑانے لگا شہری نے سہارا دے کر کرسی پر بیٹھایا اور موبائیل اب ندیم سے لے کر شہلا کو دینے لگا وہ بھی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی پھر شہری نے موبائیل اپنی ماں کو دیا
سب موبائیل دیکھ کر شبابہ بھی اور سب تبسم کو گھورنے لگے اور نفرت سے دیکھنے لگے
تبسم نے بولا مجھے بھی دیکھاؤ ایسا کیا ہے
نوری نے شہری سے موبائیل لے کر اسے دے دیا
تبسم نے جیسے ہی دیکھا اس کے تو ہوش ہی اڑ گئے حمزہ کے ساتھ تصوریں اور لڑکوں کے ساتھ بھی اور چیٹ بھی تو چلا کر روتے ہوۓ بولنے لگی
یہ کسی نے میرے خلاف شازش کی ہے یہ میں نہیں ہوں شہری بولا مس تبسم پھر بولا اب تو نام لیتےہوۓ بھی نفرت آتی ہے
مجھے بس اتنا بتاؤ میرے شہر سے باہر جانے پر تم گھر سے باہر گئی تھی کہ نہیں ؟؟
تبسم خاموش رہی کیونکہ اسے الفاظ ہی نہیں مل رہیے تھے کیا بولے
شہری نے کہا تمہاری خاموشی نے مجھے توڑ دیا ہے شہری کہ آنسو گرنے لگے وہ بنا مزید بولے کمرے سے نکل گیا
شبانہ نوری کا سہارا لیتے ہوۓ کار تک آئی
ندیم تبسم کو دیکھ کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔۔
شہلا نہ چاہتے ہوۓ بھی ماں تھی کیا کرتی وہی بیٹھی تھی
تبسم اپنے باہر جانے پر اور حمزہ کی اس حرکت پر رو کر اسے بد دعا دینے لگی
شہری کار ڈرائیو کرتے آنسو بہاتا رہا
شبانہ بیٹے کے گرتے آنسو دیکھ کر بے بس تھی الفاظ نہ تھے کہ بولے بیٹا چپ ہو جاؤ دیکھ کر خاموش رہی
شہری گھر آتے ہی اپنے کمرے میں دروازہ بند کر کے اندر سارا دن پڑا رہا
تبسم کی وہ ساری تصوریں کسی اور کے ساتھ سوچ کر روتا رہا اپنی قسمت کو کوستا رہا اسے یہ تھا کہ اگر تبسم کو کوئی اور پسند تھا تو مجھ سے شادی کر کے اتنا پیار جتلانے کی کیا ضرورت تھی اس نے مجھے کیوں دھوکا دیا کیوں میرے دل میں اپنے لیے پیار پیدا کر دیا
غصے سے بیڈ شیٹ کھنچے کر نیچے پھینک دی تکیہ بھی خود نیچے ہی تھا وہی بیٹھ کر سگريٹ پر سگريٹ جلا کر دھواں دھواں پورے کمرے میں کیا ہوا تھا نہ جانے کتنے پیکٹ خالی کر چکا تھا
شبانہ بیٹے کی حالت دیکھ کر بھوکھی پیاسی اپنے کمرے میں شوہر کو یاد کر کے روتی رہی شبانہ کو جب بھی کوئی دکھ تکلیف ہوتی اسے اپنا محروم شوہر بہت یاد آتا
________________
تبسم اپنے والدین کے ساتھ تھی ماں کی تو ممتا جاگ گئی تھی مگر ندیم کے دل میں بہت نفرت آ گئی تھی ہر وقت غصے میں رہنے لگے۔
تبسم اکثر خوابوں میں بھی شہری سے یہی الفاظ سنتی اور راتوں کو روتی اور اسے حمزہ کا شیطانی قہقہ بھی کانوں میں گونجتا وہ روتے ہوۓ ہمیشہ اسے بد دعائیں دیتی کہ یا اللہ جس نے میرا ہستا بستا گھر اجاڑا اسے دنیا آخرت میں زلیل کرنا اور زلت کی موت دینا اس کے سارے خاندان کو پکڑ ہو اس کی تب اسے احساس ہو کہ اس نے کیا کیا تھا۔
۞۞۞۞۞
سات ماہ کے بعد
۞۞۞۞۞
سمیرا کی بھی کچھ تصوریں حمزہ کہ پاس تھی جو اس نے نٹ پر ڈال دی تھی جب سمیرا کو پتہ چلا بہت روتی رہی کہ اللہ تم سے بدلا لے گا سمیرا نے خوفزدہ ہو کر خودکشی کر لی تھی
___________
ادھر حمزہ کے گھر والوں کا بہت بری طرح اکسیڈنٹ ہوا سارا گھر اس کی آنکھوں کے سامنے چلا گیا اور اسکی ایک بازو اور ٹانگ کٹ گئی اور اتنے انجکشن لگتے رہے کہ اس کو خارش کی بیمار ہو گئی اور سارا دن خارش کرتا پورے جسم میں موت مانگتا موت بھی نہیں آئی وہ بہت مشکل سے باتھ روم گیا اور باتھ روم میں گر گیا اسے وہاں اپنے سارے گناہ یاد آنے لگے اس نے سمیرا کے ساتھ کیا کیا تھا تبسم کے ساتھ اور بھی جس کے ساتھ جو کیا سب اسے آج یاد آ رہے تھے وہ بے بس تھا آج بہت مشکل سے خود کو گھسیٹتا ہوا باتھ روم سے باہر آیا اور اس نے سوچا یہ سب میرے گناہوں کی سزا ہے شاید میں بتا کر کچھ سکون میں ہو جاؤں اس کا ایک بازو کٹ چکا تھا ایک ہاتھ سے موبائیل بیڈ پر رکھ کر فیس بک کھولی تبسم والی آئی ڈی کو مکمل ڈلیٹ کیا اور شہری کے اکاونٹ میں جا کر میسج ٹائپ کیا کہ میں اپنے کیے کی سزا پا رہا ہوں مجھے جسم میں کیڑے پڑ گئے اور میں موت کے منہ میں ہوں میں نے جو کچھ بھی آپ کو بھجا تھا سب کا سب فیک تھا میں نے ہی تبسم کے نام کی آئی ڈی بنا رکھی تھی وہ یونیورسٹی میں مجھے لفٹ نہیں کرواتی تھی مجھے سب کے سامنے زلیل کیا تھا تو میں نے بدلا لینے کے لیے یہ سب کیا اس کی کوئی غلطلی نہیں تھی اس نے شہری کے انبکس بھج دیے۔مگر شہری کافی عرصے سے فیس بک میسنجر سب ختم کر دیا تھا اب وہ یہ استمال نہیں کرتا تھا۔
__________
تبسم مسلسل دکھ میں رہ رہ کر باپ کی نفرت بھی سہہ کر دماغی مرض بن چکی تھی ۔
_________
شہری خاموش اداس بس اپنی ماں کے لیے زندہ تھا اسے اپنی زندگی سے ہی نفرت تھی
___________
اسی دوران پاکیزہ نے ریڈیو ایف ایم پر جاب شروع کی ہوئی تھی
__________
ِجاری ہے
❤️
👍
😢
😮
😂
🙏
182