Novel Ki Dunya
June 3, 2025 at 02:23 AM
#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_16 لائبہ کی ڈلیوری کے دن بہت قریب تھے سب خوش تھے آج اتوار کا دن تھا سب گھر پر موجود تھے خادم حسین اور جمیلہ آج شاپنگ کر کے لے آۓ تھےلائبہ پاکی زیشان صوفے پر بیٹھے بچے کا نام سوچ رہے تھے لڑکی ہوئی تو یہ لڑکا ہوا تھا یہ ۔۔زیشان ساتھ لائبہ کو سیب کاٹ کر دے رہا تھا اور لائبہ کو زبردستی کھانے پڑ رہے تھے وہ منہ بھی بنا رہی تھی مسکرا بھی رہی تھی اب بس کرو آپ دونوں بہن بھائی نام سوچو مجھے چلنے پھرنے دو پاکی نے کہا لڑکی ہوئی تو امائمہ لڑکا ہوا تو زمان رکھیں گے زیشان نے کہا نام تو اچھے ہیں مگر بےبی گرل کا نام میری بیگم کے نام سے شروع ہونا چاہیے پھر لائبہ کو گھورا کے یہ سب ختم کرو اور جوس بھی ابھی پینا ہے مجھے میرا بچہ موٹو سا چاہیے تمہاری طرح اوے کیا میں موٹی ہوں؟ پاکیزہ ہنسے لگی لو اب آپ کی لڑائی شروع بعد میں لڑنا ماما بابا کچھ لے کر آ گئے پیچھے دیکھو زرا خادم حسین اور جمیلہ بچے کی شاپنگ کر کے آ گئےتھے بہت سارے کپڑے اور کھلونے سب کے چہرے پر خوشی تھی۔ وہ سب سے باتیں کرنے لگے اور پاکیزہ سارا کچھ کھول کر دیکھاتی رہی اتنے میں سلطانہ سب کے لیے لمیوں کا جوس لے آئی سب کے اگے گلاس کرتی رہی سب پینے لگے زیشان نے بےبی کے کپڑے دیکھے تو بولا افف ماما آپ سارے پنک اور بلو اٹھا کر لے آئی اور کوئی کلر نہیں ملا تھا کیا لائبہ ہنستے ہوۓ فورا بولی زیشان بچوں کے یہی کلر ہوتے ہیں بےبی بوۓ کے لیے بلو اور بے بی گرل کے لیے پنک ہوتا ہے جمیلہ بولی بیٹا لائبہ بالکل ٹھیک بول رہی ہے دکان والے بھی ہمیں یہی بول رہے تھے پاکیزہ بولی افف اللہ کتنے شونے پارے چھوٹے چھوٹے شوز ہیں نا۔ زیشان پاکیزہ سے لیتے ہوۓ بہت پیار سے مسکراتے ہوۓ دیکھنے لگا تب لائبہ بولی زیشو میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں آپ جب آؤ یہ سب چیزیں لے آنا۔ زیشان نے بولا صبر ساتھ ہی چلتے ہیں زہشان لائبہ کا ہاتھ پکڑ کر کمرے تک گیا ۔ پاکیزہ اور اس کی ماں سارا سامان سمیٹنے لگی اور خادم حسین فریش ہونے چلے گئے۔ کمرے میں جا کر زیشان نے لائبہ سے کہا جان میں سوچ رہا ہوں اب تمہارے دن پورے ہیں تو میں اب آفس سے چھٹیاں لے لوں درخواست دے آؤں لائبہ نے کہا افف ابھی سے چھٹیاں نہیں ماما بھی ہیں سلطانہ آپا ہے شیرگل بھی ہے آپ اتنا ٹنس کیوں لے رہیے ہو۔ویسے بھی ابھی ایک ہفتہ ہے زیشان لائبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولا کہ اب کسی وقت بھی طبعیت خراب ہو سکتی ہے میرا ہونا بھی ضروری ہے میں رسک نہیں لے سکتا اتنے مہنے تمہاری سنتا آیا اب نہیں سنوں گا افف اچھا بابا کل جا کر آپ چھٹیاں لے لینا میری طرف سے تو جاب ہی چھوڑ دیں ہاے میری جان تم نے تو میرے دل کی بات چھین لی جاب چھوڑنے والی۔ واہ لو جی اب ہو گیا دماغ خراب اب جائیں میری دوائی لے آئیں جی جی ابھی لایا میں آپ کا فرمابردار شوہر ہوں ۔لائبہ ماتھے پر ہاتھ مارتی ہنسے لگی۔ صبع زیشان بہت خوش تھا خوشی سے تیار ہو رہا تھا لائبہ سو رہی تھی بال بکھرے ہوۓ تھے زیشان نے اسے ایسے سوتے دیکھا اس کا دل کرنے لگا آج بھی چھٹی کر لے مگر رات لائبہ نے بولا تھا تو جانا پڑے گا زیشان تیار ہو کر لائبہ کے پاس آیا پیار سے اس کے چہرے سے بال ہٹاۓ ابھی پیار کے لیے جھکا ہی تھا لائبہ کی آنکھ کھل گئی زیشان کو تیار دیکھ کر مسکرانے لگی زیشان نے اس کے ماتھے پر بوسہ لیا اب تم آرام سے سو جاؤ میں سلطانہ سے بول کر جاؤں گا ناشتہ اور دوا دے جاۓ گئی وہ اسے پیار کر کے نکل گیا لائبہ واپس سو گئی ۔ زیشان جا کر ناشتہ لگا تھا ناشتہ کرنے لگا وہی پاکیزہ بھی ناشتہ کر رہی تھی زیشان اسے دیکھ کر بولا اتنا آہستہ ناشتہ کرتی ہو پتہ نہیں شادی کے بعد تمہارا کیا بنے گا پاکیزہ چڑ کر بولی زیشو تمہیں اس ٹاپک کے علاوہ اور کوئی نہیں آتا کیا ؟ زیشان کو اسے غصہ دلا کر مزا آ گیا نہیں نا اور کوئی ٹاپک ہے نہیں بیوی کے پاس بےبی کا ماما پاس گھر کی باتیں بابا پاس جاب کی باتیں اور تمہارے پاس آ کر بہت مزے کا ٹاپک ملتا ہے ہاہاہا زیشو نہیں کرو نا مجھے یہ ٹاپک نہیں پسند دونوں میں پیار بھری نوک جوک ہوتی رہی اور پھر زیشان نے پاکیزہ کو ایف ایم آفس چھوڑا خود اپنے آفس نکل گیا ____________ لائبہ نیند سے اٹھی زیشان کو نہ پا کر مسکرا کر فریش ہونے چلی گئی آج سلطانہ کی طبعیت کچھ خراب تھی بخار اور سر درد تھا وہ ابھی کام کر کے بیٹھی ہی تھی کہ اندر سے جمیلہ نے آواز دی سلطانہ جگ میں پانی دے جاؤ ختم ہو گیا ہے سلطانہ مشکل سے اٹھی اور جگ بھر کر جانے لگی تو اسےچکر سا محسوس ہوا جگ اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ خود بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی اتنے میں لائبہ فریش ہو کر کمرے سے باہر ناشتے کے لیے نکلی تو سلطانہ کو ایسےدیکھا تو اسے سہارا دینے جا رہی تھی نیچے پانی نہیں دیکھا تو سلیپ ہو گئی بہت زور کی گری اور زور سے چلائی ماما۔۔۔۔۔ماما اتنے میں سلطانہ بھی چکرا کر گر گئی جمیلہ آواز سنتے ہی باہر بھاگی اگے دیکھا لائبہ اور سلطانہ دونوں گری ہوئی تو چلانے گئی زیشان کے بابا ۔۔۔زیشان کے بابا۔۔۔ خادم حسین نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر بھاگتے ہوۓ آۓ شیر گل کی مدد سے لائبہ اور سلطانہ دونوں کو ہسپتال لے گئے۔ ______________ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ خادم حسین اور جمیلہ لائبہ اور سلطانہ کو ہسپتال لے آۓ لائبہ کو تو فورا آئی سی او میں لے کر جانا پڑا اور سلطانہ کو انجکش وغیرہ دینے لگے خادم حسین اور جمیلہ آئی سی او کے باہر بہت پریشان چکر کاٹ رہے تھے اتنے میں زیشان پاکیزہ کے ساتھ بھاگتا ہوا آیا ابھی وہ پہنچے ہی تھے کہ ان کے پیچھے ہی لائبہ کے ماں باپ بھی آ گئے ان کے ساتھ ثناء سمیر اور نجو بھی تھے زیشان بہت فکر مند ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگا پاکیزہ زیشان کو تسلی دینے لگی کچھ نہیں ہو گا سب ٹھیک ہو جاۓ گا تم آرام سے بیٹھو یہاں ماما بابا کے پاس اتنے میں سمیر قریب آ کر بولنے لگا یار آرام سے بیٹھو پانی پیو ٹنس کی بات نہیں ہے زویا کا بھی آپریشن سے بے بی ہوا میری بیوی کا بھی تو اتنے کیوں فکر مند ہو ابھی سمیر اسے تسلی دے ہی رہا تھا کہ آئی سی او سے ڈاکٹر نکلا اور بولا آپ کی پیشنٹ کو خون کی بہت ضرورت ہے آپ میں کسی کا +A ہے تو جلدی سے دیں زیشان نے کہا میرا -O ہے یہ سب کو لگ جاتا ہے ڈاکٹر نے بولا آپ آ جائیں جلدی زیشان خون دے آ کر بیٹھ گیا کچھ گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آئی سب ڈاکٹر کے فورا پاس آ کر اسے دیکھنے لگے ڈاکٹر نے کہا کہ پیشنٹ کے ہسبنڈ کدھر ہیں زیشان فورا بولا جی میں ہوں یہ لیں یہ فارم پُر کر دیں پاکیزہ بولی یہ فارم کس لیے ہیں ؟ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ فارم اس لیے ہوتے ہیں کہ اندر جو پیشنٹ ہے اگر اسے اسے کچھ ہو جاۓ تو یہ ہماری زمہداری نہیں ہے اگر آپ چاہتے ہیں ہم اپنی کوشش جاری رکھے تو یہ فارم فیل کرنے ہوں گے نہیں تو آپ اپنے پیشنٹ کو کسی اور ہسپتال لے جا سکتے ہیں زیشان نے کہا میں کرتا ہوں پُر زیشان سارا فیل کر کے دے دیا ڈاکٹر بولی آپ بس دعا کریں اور واپس اندر چلی گئی سب دعا کرنے لگے پھر سے آئی سی او کا دروازہ کھولا سب کی نظریں وہی پر تھی ایک دوسری ڈاکٹر نکلی اور سب اس کے پاس پہنچ گئے ڈاکٹر نے کہا مرض کی حالت بہت خراب ہے ہم دونوں میں سے ایک کو بچا سکتے ہیں ماں یا بچہ آپ کو کیا چاہیے سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے زیشان کے آنسو گر رہے تھے ایک دم سے بولا ماں کو بچا لیں ۔ سب بہت دعا کرتے رہے اندر ڈاکٹر پوری کوشش کرتے رہیے ایک بار پھر آئی سی او کا دروازہ کھولا اور ڈاکٹر نے بےبی لپیٹا اٹھایا ہوا تھا سب نے بچہ دیکھا بہت خوش ہوۓ اتنے میں ڈاکٹر نے بولا آئی ایم سوری ہم نے بہت کوشش کی دونوں کو بچا سکیں مگر ماں کو نہیں بچہ پاۓ بس یہی اللہ کی رضا تھی زیشان ایک دم اپنے بال کھنچتے ہوۓ وہی کھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور رونے لگا ثناء کی اکلوتی چھوٹی بہن تھی وہ سن کر ایک دم مردہ سی ہو کر زمین پر گرتی چلی گئی لائبہ کی ماں رفعیہ جو پہلے سے شوگر کی مریض تھی اس کے دل کو کچھ ہو گیا پاکیزہ دیوار کے ساتھ لگ کر رونے لگی خادم حسین جمیلہ کو سہارا دینے لگے جس سے بچہ بھی نہیں اٹھایا جا رہا تھا سب دکھ سے الگ الگ نڈھال تھے اتنے میں نرس اور کمپوڈر نے سٹیچر آئی سی او سے نکالی جس پر لائبہ سفد چادر میں تھی سب زارو قطار رونے لگے اور وہاں کے عاملے کی مدد سے ایمبولینس میں ڈالا گیا سب ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے سلطانہ بخار میں تھی اسے بھی پتہ چلا روتی پیٹتی ہوئی آئی بہت درد بھرا منظر بن چکا تھا ہر دل دکھی تھا ہر آنکھ اشک بار تھی اسطرح دکھ میں ایک مہنہ گزر گیا بےبی گرل ہوئی تھی جو دیکھنے میں بالکل لائبہ جیسی لگتی تھی سب اپنے دکھ میں ہی رہے بچی کو بھی سلطانہ ہی زیادہ دیکھتی رہی اور جمیلہ بھی زیشان اتنا دکھ میں تھا کہ بچی کی بھی ہوش نہیں تھی ایک ماہ بعد جا کر اس نے اپنی بیٹی اٹھائی اور اپنے بیڈ روم لے کر بہت پیار کرتا رہا لائبہ اس کو ہر دم ساتھ نظر آتی رہی جو دونوں نے بچے کے ایک ساتھ خواب دیکھے تھے اسطرح وقت گزرتا رہا وقت کے ساتھ انسان دکھ کو کم محسوس کرنے لگتا دو ماہ بعد زیشان نے واپس اپنے آفس جانا شروع کر دیا روزانہ اپنی بیٹی سے مل کر جاتا اور آتے ہی اسے دیکھ کر جیسے ساری تھکان بھول جاتا بچی سب گھر والوں کے لیے ایک خاص تحفہ تھا جس نے غم کو کچھ کم کر دیا تھا بےزبان نہ سمجھ میری خاموشی کو شور کرتا نہیں _____ کبھی گہرا پانی. __________________ لینہ زیشان نھنی پری سارا دن اپنی دادو کے پاس ہوتی اور جمیلہ بہت ہی پیار سے اسے پال رہی تھی زیشان اور پاکیزہ اپنی اپنی جاب میں مصروف ہو گئے تھے زندگی چل رہی تھی وقت گزر رہا تھا وقت بہت بڑا مرہم ہے زخم کو سلا دیتا ہے درد نہیں ہونے دیتا مگر پھر کبھی ہلکی سی بھی ٹھس لگ جاۓ سارے پرانے زخم بھی تازہ ہو جاتے ہیں یہ بھی بات ہے مگر ان کی زندگی ٹھیک چل رہی تھی سب کچھ معمول کے متابق تھا۔ لینہ اکثر زیشان کے کپڑے خراب کر دیتی تھی اور پاکیزہ ہنستی زیشان لینہ کو دیکھ کر کہتا پاپا کی جان بڑی ہو لے مل کر پھوپھو کی کلاس لیں گے۔ ______________ ایک سال بعد ______________ پاکیزہ ریڈیو ایف ایم پر اپنا پروگرام کر رہی تھی اس کے بہت سارے فین تھے پہلے وہ ایک گھنٹے کا پروگرام کرتی تھی مگر سب کے اسرار پر اب تین گھنٹے کا پروگرام کرنے لگی تھی بہت لوگ اس کی سویٹ آواز کے دیوانے تھے اوپر سے بہت عمدہ طریقے سے شو کرتی تھی۔ شہری بھی اکیلے میں ایف ایم ہی سنا کرتا تھا اور اس کو بھی پاکیزہ کا پروگرام بہت پسند تھا جیسے اس کا شو ٹائم ہوتا سب کام چھوڑ کے سنتا ۔پاکیزہ کی بات چیت اور شعری سنانے کا انداز ہی الگ تھا۔ شہری بھی اب اپنی زندگی میں اب مصروف ہو گیا تھا ایک دن فری بیٹھا تھا تو یوہی اس کا بہت ٹائم بعد فیس کھولنے کو دل کیا جیسے ہی اس نے فیس بک کھولی تو انبکس میں میسج کی بھر مار دیکھ کر کھولنے لگا جو کے حمزہ کے نام سے تھے شہری سب کچھ دیکھنےلگا اور حیران پریشان ہو گیا تبسم کو پھر سے آج یاد کرنے لگا اس کا دل بہت اداس ہو گیا تو آفس سے چھٹی لے کر گھر کی طرف آ رہا تھا اور عادت سے مجبور ایف ایم آن کر لیا تب پاکیزہ اپنا شو کر رہی تھی ۔پاکیزہ کچھ اداس شعری کر رہی تھی شہری تبسم کو سوچتا گھر تک پہنچا۔ماں کو سلام کر کے سیدھا اپنے کمرے جا کر تبسم کی باتیں سوچنے لگا اور اپنی جلدی بازی میں کیے ہوۓ فیصلے پر پیچھتا رہا تھا تم جو بچھڑے ہـو ___جَلدبازی میں یار تم رُوٹھ بھی تو____سکـتےتھے! جیسے کسی نے زخموں کے ٹانکے ادھڑ دیے ہوں آنسو بہا رہا تھا آج پھر اسں کے سارے زخم تازہ ہو گئےتھے۔ ______________ تبسم اب بالکل خاموش سی کھوئی کھوئی سی رہتی رماغی مرض بن چکی تھی شہلا سے اپنی بیٹی کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی ماں تھی آخر اکلوتی اولاد تھی اسے دیکھ ماں کی ممتا ترپتی تھی۔ تبسم ہمیشہ اپنی ساری بات بتاتی مگر اس کی بات پر کسی کو یقین آتا ہی نہیں تھا ندیم باپ ہو کر اپنی بیٹی سے ایک سال سے بالکل بات چیت بند کی ہوئی تھی اس سے لاتعلق تھا۔ تبسم باپ کی محبت شفقت کو ترس گئی تھی بےزبان نہ سمجھ میری خاموشی کو شور کرتا نہیں ___ کبھی گہرا پانی.. ______________ شہری بہت دیر روتا رہا پھر فریش ہوا اسے سکون نہیں مل رہا تھا کہیں بھی وہ اپنی غلطی کی معافی مانگنے تبسم کے گھر جا پہنچا نزیرا کو دیکھ کر سلام کیا اور شہلا تبسم کا پوچھنے لگا نزیرا بھی دیکھ کر خوش اور حیران بھی تھی۔ اتنے میں شہلا بیگم تبسم کے کمرے سے نکل کر باہر آ رہی تھی کہ سامنے شہری پر نظر پڑی چونک سی گئی اور شہری کے پاس آ کر آنے کی وجہ پوچھنے لگی شہری نے فورا سلام کیا اور بولا میں تبسم سے ملنا چاہتا ہوں شہلا غصے کے انداز میں بولی اب تمہارا اس سے کوئی رشتہ نہیں رہا اور نہ وہ اس حالت میں ہے کہ کسی سے مل کر بات کر سکے اب میری بیٹی کو اس کے حال پر چھوڑ دو جو سانس لے رہی ہے وہی کافی ہے شہری نے شہلا کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے مجھے کچھ پل کے لیے بس ملنے دیں میں اپنے کیے کی معافی مانگنا چاہتا ہوں میرا دل بہت بے چین ہے مجھے آخری بار ہی سہی مگر کچھ دیر کے لیے ملنے دیں شہلا نے کہا نکل جاؤ یہاں سے اب مجھے ساری کہانی پتہ چل گئی ہے پلیز خالہ بس ایک بار اس کے بعد میں کبھی نہیں آؤں گا تم جاتے ہو یہاں سے یا میں چوکیدار کو بلواؤں اور دھکے دے کر نکلواؤں میری بیٹی کی زندگی جہنم بنا کر اب آ گئے ہو مصعوم بن کر شہری کو غصہ تو بہت آیا مگر خاموشی کے ساتھ نکل کر بہت تیز ڈرائیو کرتے گاڑی وہاں سے نکالی اور اب شہری نے حمزہ کی تلاش میں دن رات ایک کر دیا مگر حمزہ کا آتا پتہ اسے کہیں سے نہیں مل سکا۔ وہ اب تنہائی میں اکثر پاکیزہ کے شو سے اداسی دور کرتا تھا ایک دن شہری نے پاکیزہ کے شو میں کال کی تو پاکیزہ نے کہا کیا آپ کچھ سنانا پسند کریں گے؟ شہری نے کہا جی ہاں شہری نے اشعار پڑھنے شروع کیے کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں ہمارے پیروں میں کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں ہماری خاطر بھی فاتحہ ہو برائے بخشش ہم آپ اپنے پہ خاک ڈالے پڑے ہوئے ہیں ہماری آنکھوں میں جب سے اترا ہے چاند کوئی ہماری آنکھوں کے گرد ہالے پڑے ہوئے ہیں یقیں نہیں ہے خود اپنے ہونے کا ہم کو ورنہ کئی مثالیں کئی حوالے پڑے ہوئے ہیں ہمارے کمرے میں اس کی یادیں نہیں ہیں فاضل کہیں کتابیں کہیں رسالے پڑے ہوئے ہیں۔ ارے واہ واہ زبردست پاکیزہ بہت تعریف کرنے لگی ________________ شہلا اب اپنی بیٹی کو نارمل زندگی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگی ______________ ایک سال بعد ______________ تبسم اب بالکل نارمل ہو چکی تھی مگر شہری کو اب نیند نہیں آتی تھی نہ ہی سکون تھا وہ اپنی جلدی بازی کی سزا بھگت رہا تھا بہت بار کوشش کی کہ تبسم سے معافی مانگے اسے بتاۓ کہ وہ بےقصور تھی مگر اب تک اسے موقح نہیں مل پا رہا تھا ایک دن تبسم اپنے گھر کے لان میں اکیلی بیٹھی آنکھیں موند کر کرسی سے ٹیک لگاۓ تازہ ہوا لے رہی تھی شہری آج پھر سے منتیں کرنے آیا تھا کہ تبسم سے ملوا دیں مگر اس بار نہ تو ندیم گھر پر تھا اور نہ ہی شہلا شہری نے دور سے تبسم کو دیکھا تو خوش ہو گیا کے آج یہی مل گئی وہ چلتا ہوا اس کے پاس آ گر خاموش کھڑا ہو گیا تبسم اسی طرح بند آنکھیں ٹیک لگاۓ سکون لے رہی تھی کچھ دیر شہری اسے دیکھتا رہا پھر کھانس کر اپنی موجودگی کا اسے احساس دلانے لگا تبسم نے کھانسی کی آواز سنی تو ایک دم آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی تو شہری کو سامنے کھڑا پایا ایک سال بعد بھی اس نے بات کرنا گوارا نہیں کی جوتے پہنتی ہوئی اٹھ کر جانے لگی شہری نے تبسم کو روک کر اس کے سامنے کھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ لیے اور معافی مانگنے لگا تبسم نے اسےدیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے شہری اسے سب حمزہ کی بات بتا کر اپنے کیے پر نادم تھا تبسم بہت رونے والی بھاری آواز میں بولی میں نے اپنا سب کب سے اپنے رب پر چھوڑ دیا ہے میں نے کچھ کیا نہیں اس کی سزا پائی ہے میری بھی غلطی تھی میں اپنی تصوریں جو اتنی پوسٹ کرتی رہی بس جو ہوا اس میں میرے رب کی مرضی شامل تھی میں اب اُس کی رضا میں راضی ہوں اور رہی معافی کی بات تو میں نے تمہیں معاف کر دیا اتنا کچھ کوئی بھی دیکھتا سنتا تو ایسے ہی کرتا مجھے تم سے اور تمہارے نام سے نفرت ہو گئی ہے یہ کہہ کر تبسم وہاں سے تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم آ گئی اور لیٹ کر روتی رہی اور وہی سو گئی۔ جاری ہے
❤️ 👍 😢 😮 😂 🙏 179

Comments