Novel Ki Dunya
June 3, 2025 at 10:36 AM
#کبھی_دل_نہ_ٹوٹے #تحریر_عاصمہ_بلوچ #قسط_نمبر_18 #آخری_قسط بارش بہت تیز تھی روڈ پر پانی پانی اور اوپر سے اور برس رہی تھی پاکیزہ گل شیر کے ساتھ گھر جا رہی تھی کہ ان کی کار رستے میں بند ہو گئی گل شیر پریشانی سے بارش میں نکل کر چیک کرنے لگا کافی دیر لگ گئی مگر کار اسٹاٹ نہیں ہو رہی تھی اوپر سے موبائل کے سگنل بھی نہیں آ رہے تھے کہ گھر بتا دے یا زیشان کی گاڑی منگوا سکے وہ دعا پڑھنے لگی کہ جلد مسلہ حل ہو جاۓ وہ کار میں پریشان بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اتنے میں شہری سعدیہ کو چھوڑنے کی غرض سے وہاں سے جانے لگا تو گل شیر بارش میں کھڑا کار دیکھ رہا تھا شہری نے کار آئستہ کر کے تھوڑی پیچھے کی اور آواز دے کر پوچھنے لگا کیا ہوا ہے گل شیر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو شہری نے کار کی طرف اشارہ کر کے دوبارہ اشارے سے پوچھا کیا ہوا اسے گل شیر چلتا ہوا شہری کی کار کے پاس آیا سر شاید پانی چلا گیا بند ہو گئی اگر آپ مہربانی کریں مجھے کسی پاس مکینک کی شاپ چھوڑ دیں تو ہاں مگر اب بارش میں تو کوئی نہیں کرے گا بارش رکنے پر ہی کوئی آۓ گا اچھا صاحب ایک کام کر دو ہماری بیگم صاحبہ کار میں ہے ان کو گھر تک چھوڑ دو ہم آپ کا احسان ہمیشہ یاد رکھے گا۔ اوکے آپ بھی آ جاؤ اور اپنی بیگم صاحبہ کو بھی لے آؤ تمہیں ورک شاپ چھوڑ دیتا ہوں اور بیگم صاحبہ کو گھر شیر گل بہت دعا دیتا ہوا پاکیزہ کے پاس گیا کہ ان صاحب کے ساتھ آپ جاؤ میں کار ٹھیک کروا کے آ جاؤں گا پاکیزہ کے پاس اور کوئی رستہ نہیں تھا دعا پڑھ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر کے شہری کی کار میں پیچھے سعدیہ کو سلام کرتی بیٹھ گئی اور گل شیر اپنی کار وہی لاک کر کے اگے شہری کے ساتھ بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد شہری نے گل شیر کو کار ورک شاپ اتارا گل شیر اترا تو پاکیزہ کو تھوڑی گھبراہٹ ہوئی کسی انجان آدمی کے ساتھ جاتے مگر وہاں سعدیہ سے بات چیت کرنے لگی اپنے آپ کو نارمل کرنے کے لیے تھوڑی دیر میں سعدیہ کا بس سٹاپ آ گیا وہ اتر گئی تو شہری نے سامنے والے شیشے سے دیکھا کہ بیگم صاحب ہے کون مگر پاکیزہ نقاب میں تھی مگر اتنی بارش میں گھبراہٹ سے پسنہ بار بار صاف کر رہی تھی شہری پاکیزہ سے بات کرتا مگر وہ جواب دینا کوئی ضروری نہیں سمجھ رہی تھی شہری حیران تھا عجیب ہی لڑکی ہے اتنے میں پاکیزہ کا نقاب کھل گیا وہ ابھی واپس ٹھیک کر ہی رہی تھی کہ شہری نے شیشے سے اس کو دیکھ لیا اور ایک دم سے ذور کی بریک لگا دی پاکیزہ ایک دم بریک سے اس کی سیٹ سے جا لگی شہری نے کہا سوری کافی بڑا پتھر تھا تو بارش کی وجہ سے دور سے نہیں دیکھائی دیا پاس سے ایک دم بریک لگانا پڑی پاکیزہ واپس نقاب کرتے ہوۓ بولی کوئی بات نہیں شہری اب کار کو آہستگی سے ڈرائیو کرنے لگا اور بولا مس میں نے آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے پاکیزہ خاموش ہی رہی شہری نے کہا پیزا لینڈ میں کچھ عرصہ پہلے آپ کسی کی برتھ ڈے منا رہے تھے پاکیزہ کو ایک دم یاد آیا بولی جی ماما بابا کی تھی اور دوسری بار آپ کو مال میں دیکھا تھا آپ اپنے ہسبنڈ کے ساتھ شاپنک کر رہی تھی شادی کی شاید بہت اچھے شوہر تھے آپ کے پاکیزہ حیران ہوئی شوہر کے ساتھ نہیں شاید کبھی مجھے بھائی کے ساتھ دیکھا ہو گا میری تو ابھی شادی نہیں ہوئی شہری ایک دم بولا وہ آپ کا بھائی تھا پر آپ لوگ شادی کی شاپنگ کر رہے تھے اب پاکیزہ کا ڈر بھی ختم ہو گیا تو اچھے سے جواب دینے لگی ہاں وہ میرے بھائی کی شادی کی شاپنگ کر رہے تھے ہم شہری کو دل میں بہت سکون سا محسوس ہوا تھا ایف ایم لگا دیا غزل لگی تھی شہری بھی گنگنانے لگا پاکیزہ نے پوچھا آپ ایف ایم سنتے ہیں جی ہاں ایک پروگرام بہت شوق سے سنتا ہوں تم میرے ہو کی ہوسٹ پاکیزہ ہیں بہت زبردست پروگرام کرتی ہیں پاکیزہ ہنستے ہوئی بولی اچھا تو آپ بھی سنتے ہیں جی ہاں آفس کے لیے بہت سلو ڈرائیو میں جاتے سنتا جاتا ہوں اور آپ کیا کرتی ہیں؟ اتنے میں پاکیزہ کا گھر آ گیا وہ بنا جواب دیے اتر گئی شکریہ کرتی ہوئی۔ شہری آج بہت خوش تھا آج برسوں پہلے مانگی دعا شاید آج پوری ہو گئی تھی شہری نے پھر سے غلطی کر دی سب پتہ چل گیا پر نام تو اب بھی نہیں پتہ چل سکا ۔ گھر آتے ہی ماں کو گلے لگا کر بہت پیار کرنے لگا شبانہ آج بہت ٹائم بعد بیٹے کے چہرے پر اتنی خوشی دیکھ کر حیرانی سے وجہ پوچھنے لگی ماما مجھے آج وہ ملی تھی کون وہ؟ ماما مجھے نام نہیں پتہ اس کا پتہ نہیں کیا بولے جا رہے ہو افف ماما آپ نہیں سمجھیں گی وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ گیا اور بیڈ پر کروٹیں لیتے گنگنانے لگا۔ کبھی مجھ کو ہنساۓ کبھی مجھ کو رولاۓ مجھے کتنا ستاتی ہے وہ لڑکی بہت یاد آتی ہے ______________ ✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨ شہری نے اب پاکیزہ کے بارے میں سب معلومات کر لی تھی وہ اپنی زندگی میں جیسے پھر سے لوٹ آیا تھا شہری نے اپنی ماما کو بتایا اور انہیں رستے کے لیے ان کے گھر لے گیا جمیلہ شبانہ سے ملی جو بہت اچھے اخلاق کی لگی اور شہری بھی بہت ہنڈسم تھا تو جمیلہ نے کہا ہم سوچ کر آپ کو جواب دیں گے زیشان تبسم اور لینہ کے ساتھ پندرہ دن کے لیے ملک سے باہر گھومنے گئے ہوۓ تھے خادم حسین نے بھی اپنی طرف سے شہری کا سارا بیک رونڈ پوچھ لیا تو سب کچھ اچھا تھا انہیں کوئی خامی نظر نہیں آئی تو انہیوں نے بیوی سے ہاں کر دی کہ یہ رشتہ بہت اچھا ہے پاکی کے لیے زیشان لوگ پندرہ دن بعد واپس لوٹے ماں نے زیشان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا میں خود پاکی سے بات کروں گا اس کی مرضی سے ہونا چاہیے پھر وہ تصویر لے کر پاکیزہ کے پاس گیا پاکیزہ نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا سب رشتے کے لیے بہت خوش تھے تبسم کو یہ تو پتہ تھا کوئی اچھا رشتہ آیا مگر لڑکا کون ہے وہ اسے نہیں پتہ تھا کافی دن گزر گئے شہری کو خبر ملی کہ ہاں ہو گئی تو بہت اللہ کا شکر ادا کرنے لگا شبانہ نے کہا اب ہمیں دیر نہیں کرنی بس جتنی جلدی ہو سکے شادی کرنی ہے اس لیے میں ان سے کال پر بول دیتی ہوں ہم دن رکھنے آ رہے ہیں جمیلہ نے گھر میں اچھے سے صفائی اور کھانے پینے کا انتظام کروایا کہ وہ لوگ آ رہے ہیں پاکیزہ بھی بہت اچھے سے تیار ہوئی آج لینہ اور تبسم نے مل کر اسے تیار کیا تھا بہت پیاری لگ رہی تھی پاکیزہ نے لینہ اور تبسم کی پسند سے ہی سب کیا ___________ شہری نے کریم کلر کا سوٹ پہنا جس میں وہ اور نکھرا نکھرا لگ رہا تھا پیار تو وہ پہلے سے تھا ہی آج خوشی سے کچھ زیادہ ہی نکھار آ گیا تھا شہری اور اسکی فیملی کا زیشان اور خادم نے بہت اچھے سے ویلکم کیا اور انہیں ڈرینگ روم میں بیٹھایا زیشان اندر پاکیزہ کے پاس گیا اتنی پیاری تیار ہوئی دیکھ کر بہت تعریف کرنے لگا اور پاکیزہ کے روم اپنے بال ٹھیک کرتے شیشے سے تبسم کو آنکھ مار کر ہونٹ بنا کر کس کرنے لگا تبسم ہنستے ہوۓ شرمانے لگی اور نیچے جانے کا بولنے لگی دیکھا تو لینہ سینڈل بندھ رہی تھی بیٹھ کر اس کی مدد کرنے لگی زیشان پاکیزہ کو لے جانے لگا تبسم لینہ کی انگلی پکڑ کر ان کے پیچھے آنے لگی شہری بہت بےچین ہو رہا تھا بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا کوئی اس کے اندد کی خوشی نہیں سمجھ رہا تھا اتنے میں زیشان پاکیزہ کو لے آیا وہ سلام کرتی ہوئی اپنے ماما بابا کے درمیان بیٹھ گئی شہری بار بار اسے دیکھ رہا تھا مگر پاکیزہ کی نظریں جھکی ہی رہی شبانہ شہری کا سہارا لے کر اٹھنے لگی تھی کہ سامنے سے اندر آتی تبسم کو دیکھ کر وہی بیٹھ گئی تبسم شہری کو دیکھ کر حیران ہو گئی شہری تبسم کو دیکھنے لگا تو زیشان نے تبسم کے قریب ہو کر بولا افف میں آپ لوگوں سے اپنی بیوی ملوانا بھول ہی گیا یہ ہے میری کیوٹ وائف اور یہ ہے میری جان میری بیٹی لینہ اور تبسم کو بتانے لگا کہ یہ شہری ہے اور یہ ان کی ماما پاکیزہ ان کے ہاں جاۓ گی تبسم زیشان کو دیکھ کر بولی میں ان لوگوں کو بہت اچھے سے جانتی ہوں کسے بھول سکتی ہوں میں انہیں ۔ جمیلہ نے کہا تبسم بیٹا تم انہیں جانتی ہو جی ماما ان ہی لوگوں نے مجھے بنا چھان بین کے آسمان سے زمین پر گرایا تھا۔ شہری سن کر بہت گھبرایا کہ اب یہ لوگ رشتہ نہیں دیں گے خادم حسین اٹھ کر فیصلہ سننے ہی لگے تھے کہ شہری ان کے گھٹنوں میں آ کر سب کچھ بتانے لگا کے اسے پاکیزہ ہی ہمیشہ سے پسند تھی اور پھر مال میں کیسے دیکھا اور پھر ماں کی پسند سے یہ کی سب سچ سچ بتانے لگا کہ تبسم کیسے بنا اس کی مرضی کہ جاتی تھی تو بعد میں غلط فہمی میں سب ہوا خادم حسین شہری کا سن کا پیچھے ہو گئے شہری بہت بولنے کے بعد جب سمجھا کہ اب بات نہیں بن سکتی تو بہت مشکل سے کھڑا ہوا اور ماں کو تھام کر اٹھایا دل ہی دل میں اپنی قسمت کو کوسنے لگا پاکیزہ نے شہری کی باتیں سننی تو اس کا بھی دل پگل گیا مگر وہ ان کو دھیرے دھیرے جاتا دیکھ رہی تھی کچھ بول نہیں پائی خادم حسین اور جمیلہ تبسم کی وجہ سے مجبور تھے زیشان بھی تبسم کو ہی دیکھ رہا تھا پاکیزہ سب کا چہرہ دیکھ کر اداس ہوتی رہی کیونکہ اس کے جتنے بھی رشتے آتے ان میں کچھ نہ کچھ مسلہ ہوتا تھا تو یہ لوگ رجکٹ کر دیتے مگر یہ پسند تھا مگر تبسم کی وجہ سے خاموش ہو گئے تبسم پاکیزہ کو دیکھ کر مسکرانے لگی اور بولی روک لو اس سے پہلے کہ میری طرح دیر کر دو اچھے انسان کو پہچاننے میں خادم حسین سن کر مسکرا دیے شہری بہت دکھ میں گیٹ سے بس نکلنے ہی والا تھا کے لینہ نے اس کا بازو بھاگ کر پکڑ لیا وہ اسے دیکھنے لگا اس نے پیچھے اشارہ کیا تو زیشان آ رہا تھا آتے ہی گلے لگا لیا کہ اکیلے جا رہے ہو میری بہن کو ساتھ نہیں لے کر جانا شہری نے ماں کو دیکھا دونوں کے خوشی کے آنسو نکل آۓ اتنے میں سلطانہ سب کے لیے میٹھائی لے کر آ گئی وہی ان کی مانگنی کر دی گئی کچھ وقت کے بعد بہت اچھے طریقے سے رخصتی ہوئی پاکیزہ اپنے کمرے میں بیٹھی شہری کا انتظار کر رہی تھی شہری کمرے میں آتے ہی اسے پاکیزہ کو اتنے قریب دیکھ کر سوچنے لگا کہیں یہ خواب تو نہیں بیڈ پر بیٹھتے ہی بولا سنیں کیا آپ مجھے ہاتھ لگا سکتی ہیں پاکیزہ حیران پریشان کے اس کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا اشارہ کر کے پوچھا کہ کیوں؟ کیونکہ یہ سب مجھے خواب لگ رہا ہے پاکیزہ ہنس کر اس کا ناک کھنچا اور بولی اب ٹھیک ہے شہری ہنس کر بولا یہ تو حقیقت ہے اور ہنس کر اسے اپنے حصار میں لے لیا شہری نے اپنے خفیہ پیار کا اعتراف کیا اور بہت تعریف کی کہ اب تو مجھے ایف ایم بھی میرے پاس مل گیا دونوں ہنسنے لگے _______________ ایک دن بعد ولیمہ تھا پاکیزہ کی صبع آنکھ کھولی شہری کو سوتا دیکھ کر آرام سے اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی پاکیزہ کا آج سسرال پہلا دن تھا مگر ان کے گھر شہری اور شبانہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا شبانہ کو کافی ٹائم سے شہری ہی ناشتہ کھانا بنا کر دیتا دونوں کھاتے تھے پاکیزہ تیار ہو کر باہر نکلی شبانہ کے کمرے میں آئی جو تسبیح پڑھ رہی تھی انہیں سلام کر کے کچھ دیر باتیں کی پھر چپکے سے کچن میں آ کر سب چیزیں دیکھنے لگی کیا کہاں پڑا ہے شہری نے کروٹ بدلی تو پاس پاکیزہ کو نہ پا کر اٹھ کر باتھ روم کو ناک کیا جواب نہ پا کر کھول کر فریش ہونے لگا اور بالوں میں تولیا کرتا ہوا اگے پیچھے دیکھ کر کچن کی طرف ناشتہ بنانے جانے لگا اگے پاکیزہ سب کچھ کھول کر دیکھ رہی تھی ناشتہ بنانے کی تیاری میں تھی شہری نے آتے ہی اسے پیچھے سے بازوں کے گھیر میں لیتے ہوۓ بولا ہماری نیو نویلی دلہن یہاں کیا کر رہی ہے پاکیزہ شرماتے ہوۓ آپ سو رہے تھے سوچا ناشتہ بنا دوں ارے ہٹیے یہ میرا روز کا کام ہے فٹا فٹ کر لیتا ہوں نہیں اب میں ہوں نا کر دوں گئی ارے ایسے کیسے پاکیزہ نے کہا اچھا چلو مل کر کر لیتے ہیں اسطرح دونوں نے مل کر بنایا اور میز پر لگا کر اپنی ماں کو شہری لے آیا اور مل کر تینوں ناشتہ کرنے لگے۔ اگلے دن ولیمہ تھا پاکیزہ نے چاکلیٹی کلر کا شرارہ اور قمیض پہنی ہوئی تھی اور لمبے بال اب شیشے کے اگے جوڑے میں قید کر رہی تھی شہری تو بس اسے دیکھتا ہی رہا شہری نے بھی سفید کلر کا سوٹ پہنا اور دونوں تیار ہو کر شبانہ کو ساتھ لیا اور کار میں آ گئے شبانہ دونوں کو دعا دیتی رہی پاکی جب مسکراتی گال پر ڈمپل دیکھ کر شہری کا دل دھڑک جاتا سب دلہا دلہن کا ہال میں انتظار کر رہے تھے شہری نے ایک ہاتھ سے ماں کو سہارا دیا اور ایک سے پاکیزہ کا ہاتھ بازوں میں لیا اور ہال پہنچے سب سے ملنے لگے شہری پاکیزہ کو بار بار دیکھے جا رہا تھا پاکیزہ بھی دل بھی اللہ کا شکر ادا کرتی رہی کہ جیسے لائف پاٹنر چاہیے تھا ویسا کیرنگ ملا __________ تبسم کمرے میں تیار ہو رہی تھی زیشان انہیں کمرے سے لینے آیا لینہ تیار ہوئی بیٹھی تھی زیشان نے آتے ہی بولا پاپا کی جان یہاں بیٹھی ہے پھوپھو اسے وہاں ڈھونڈ رہی ہو گی لینہ نے پاکیزہ کا سنا تو بولی ماما بس کریں بہت پیاری لگ رہی اب مجھے پھوپھو پاس جانا ہے زیشان نے کہا لینہ جاؤ دیکھو دادا ابو اور دادو تیار ہیں لینہ اوچھلتی ہوئی باہر نکل گئی زیشان نے تبسم کو ایک دم ساتھ لگا لیا ارے آپ کدھر نکل رہی ہو میں تو بیٹی کو بھگایا تھا تبسم نے اس کی گردن میں بازو ڈال کر بولی شرم نہیں آتی ولیمہ کسی کا اور رومینس آپ کو سوج رہا ہے زیشان ہنستے ہوۓ کیوں مجھے منا ہے کیا اتنے میں لینہ نے آ کر دروازہ کھولا زیشان ایک دم دور ہوا تبسم بیڈ شیٹ ٹھیک کرنے لگی پاپا سب تیار ہیں چلو اب سب کار میں بیٹھے اور ہال آ گئے شہلا اور ندیم نے شبانہ کو اتنا کمزور اور ایسی حالت دیکھ کر ناراضگی ختم کر کے ان سے ملنے لگے شبانہ بھی ان سے مل کر بہت خوش ہوئی ثناء سمیر لینہ میں لائبہ کو دیکھ کر بہت پیار کرتے رہیے تبسم خادم حسین اور جمیلہ کی اپنے ماں باپ سے بڑھ کر خدمت کرتی _____________ ایک سال بعد تبسم کو زیان پیدا ہوا سب کو زیان کی فکر لگی ریتی اور تبسم کو لینہ کا ہی خیال رہتا کیونکہ لینہ کی وجہ سے اسکی زندگی میں خوشیاں آئی تھی۔ پاکیزہ کو بھی بیٹا عاصم ہوا اور شہری پاکیزہ کا بہت زیادہ خیال رکھتا شبانہ بچوں کو خوش دیکھ کر اب بالکل ٹھیک ہو گئی تھی سب ٹوٹے اور پھر جوڑے مگر پہلے سے زیادہ مصبوطی کے ساتھ گھوم پھر کر خوشیاں پھر سب کے پاس لوٹ آئی۔ ختم شد _________________ نوٹ ، ازقلم عاصمہ بلوچ ۔۔ میں اس ناول میں یہ بتانا چاہتی تھی کہ بنا ضرورت اپنی تصوریں نہیں لینی چاہیے اور خاص کر میڈیا پر تو کبھی بھول کر بھی مت ڈالو دوسرا یہ کہ انسان غلطی کہیں کرتا ہے مگر سزا کہیں جا کر ملتی ہے جہاں وہ بالکل بے قصور ہوتا ہے اسے یہی ہوتا ہے میں بے قصور ہوں مگر اپنی کی غلطی بھول جاتا ہے مگر اللہ بھولنے والا نہیں مگر انسان توبہ کرے لے دل سے تو نہ صرف معاف کر دیتا ہے بلکہ پہلے سے بہتر نوازتا ہے ہم ہی صبر اور انتظار نہیں کرتے انسان ہر بات میں جلدی چاہتا ہے مگر ہوتا وہی ہے تو منظورِ خدا ہوتا ہے اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور نہ ظلم کرتا ہے انسان اپنے آپ پر خود ظلم کرتا ہے انسان اگر ایک جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے تو لازم اس سے بہتر اسے ملنے والا ہوتا ہے مگر وہ اسی کے سوگ میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے ہمت کبھی نہیں ہارنی چاہیے یہ نہیں کہ ایک جگہ سے ٹوٹے تو بس زندگی اب ختم ہو گئی نہیں جس طرح کچی پنسل ٹوٹنے پر وہ ضائح نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دونون سمت سے شاپ کر کے نیۓ سرے سے استمال میں لائی جاتی ہے ایسے ہی ہماری زندگی بھی ہے مگر کوئی سمجھے تو۔ میری پوری کوشش تھی کسی کے ساتھ نا انصافی بھی نہ ہو اور میرا میسج جو ناول کے زریعے دینا تھا وہ بھی پہنچا سکوں تو میں کہاں تک کامیاب ہوئی یہ اب آپ کے کمینٹس بتائیں گے آپ سب کا بہت شکریہ۔
❤️ 👍 😂 🙏 😢 😮 351

Comments