Novel Ki Dunya
June 11, 2025 at 08:19 AM
ناول: قسمت سے ہاری میں (پارٹ 2) از قلم: پلوشہ صافی قسط نمبر: 02 #dont_copy_paste_without_my_permission ( ترکی میں ) کرن پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے اس نیوز چینل کے آفس میں موجود تھی۔ کچھ ہی دیر میں اس کا انٹرویو ہونے جا رہا تھا۔ وہ بلیک لانگ سکرٹ کے ساتھ سفید شرٹ پہنے گلے میں ترکش طرز کا نیکلیس ڈالے بالوں کا دھیلا جوڑا بنائے سٹوڈیو کے صوفے پر بیٹھی تھی۔ ایک میک اپ آرٹسٹ اس کا میک اپ صحیح کر رہی تھی اور ایک ٹیکنیکل سٹاف ممبر کرن کے شرٹ پر چھوٹا سا مائک چسپاں کرنے لگی ہوئی تھی۔ کرن سے کچھ فاصلے پر اپنے سٹاف سے انٹرویو میں کئے جانے والے سوالات پر تبصرہ کرتے لمبے چوڑے سنہرے بالوں والا ترکش اینکر بھی اپنی تیاری مکمل کرنے میں لگا ہوا تھا۔ ڈایریکٹر نے شو لائیو جانے سے پانچ منٹ پہلے سب کو آواز لگائی تو ایک ہڑبڑی سی مچ گئی۔ کرن پہلے بھی کئی مرتبہ اپنے ادارے کی سربراہی کرتے بہت سے تجزیاتی شوز میں حصہ لیں چکی تھی لیکن ایک انٹرنیشنل نیوز چینل پر پہلی مرتبہ نمودار ہورہی تھی اس لیے دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی تھی۔ التمش جوشیلے انداز میں اپنے سیٹ پر بیٹھے اور کرن سے شو شروع کرنے کی تصدیق چاہی تو کرن نے بھی اسی جوشیلے انداز میں سر اثابت میں ہلایا۔ اسی کے ساتھ کیمرے کے پیچھے ڈایریکٹر نے اشارہ کیا اور چھوٹی سی اسکرین پر ان کا عکس دکھائی دینے لگا۔ سب سے پہلے سامنے کیمرے میں دیکھتے ہوئے اینکر التمش نے شو کا آغاز کیا۔ "السلام علیکم۔۔۔۔۔ میں اور میرا شہر شو دیکھنے والوں سب ہی ناظرین کو میں آج کے اس نئے شو میں خوش آمدید کہتا ہوں۔۔۔۔" جوان التمش نے مسکراتے ہوئے پروفیشنل انداز میں آغاز کے کلمات کہے ۔ فلحال اسکرین پر اینکر ہی نظر آرہے تھے۔ کرن کمر سیدھی رکھے اپنا بزنس وومن کا چہرہ بنائے اپنی نوبت کا انتظار کر رہی تھی۔ شروعاتی کلمات کہہ کر اب اینکر کرن کا تعارف کروانے لگے۔ "آج ہماری خاص مہمان انتالیہ شہر کی بہت ہی معروف مصنفہ اور زنان ادارے کی فعالی کارکن ہے۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے کتابوں اور شوسل خدمات سے ہمارے شہر میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔۔۔۔۔ میں ان کا مشکور ہوں۔۔۔۔ آج ان کی آمد سے میرے شو کو چار چاند لگ گئے ہیں۔۔۔۔۔ " التمش یوں ہی کیمرے میں دیکھتے ہوئے کرن کی کارکردگیوں کی تعریف کرتے ہوئے گویا تھے۔ "مس کرن جمیل۔۔۔۔۔ خوش آمدید۔۔۔" التمش نے اپنا رخ کرن کی جانب کرتے ہوئے کہا۔ ڈایریکٹر نے اسکرین پر دیکھتے ہوئے کیمرہ مین کو کرن کو دکھانے کا اشارہ کیا۔ کیمرہ مین نے تیزی سے کیمرے کا فوکس کرن پر برابر کر لیا۔ "تعریف کا شکریہ التمش صاحب ۔۔۔۔ اللہ نے انسان کو اشروف المخلوقات پیدا فرمایا ہے۔۔۔۔ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور نیکی کرنے کا حق ہمیشہ ادا کرتے رہنا چاہیے۔۔۔۔۔" کرن خوش مزاجی سے انسانوں کے صفات بیان کرنے لگی۔ التمش پوری توجہ سے ان کی باتیں سنتے ہوئے سر کو ہامی میں جنبش دینے لگے۔ "میں بس قدرت کا حق ادا کر رہی ہوں۔۔۔۔ ہمیں اپنے ہاتھ اور زبان کے ذریعے برائی کو روکنا چاہیئے اور نیکی کا درس دیتے رہنا چاہیئے۔۔۔ میں بھی وہی کر رہی ہوں۔۔۔۔۔" اس نے کیمرے میں دیکھتے ہوئے اپنے الفاظ ادا کیے۔ التمش نے ایک نظر اپنے سامنے پڑے کاغذ پر ڈالی اور دوسرا سوال پوچھنے لگا۔ "آپ تو آئے دن مظلوم خواتین کے لیے مسیحا بنتی جا رہی ہے۔۔۔۔ سنا ہے آپ ان کے لیے کوئی نیاء پراجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے۔۔۔۔ اپنے نئے پراجیکٹ کے بارے میں ہمارے ناظرین کو کچھ معلوم فراہم کیجیئے۔۔۔" بات کرتے کرتے انہوں نے کیمرے کے جانب دیکھ کر ہاتھ لہرایا۔ کرن نے ایک نظر التمش کے اشارے کے سمت میں دیکھا اور پھر سر کو خم دیں کر معلومات بیان کرنے لگی۔ "ہمارا ادارہ ان بے سہارا لڑکیوں کے لیے ایک سرپناہ بنا رہیں ہیں۔۔۔۔ جو کسی بھی رشتے کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتیں رہیں ہیں۔۔۔۔ خواہ وہ کسی بھی طبقے نسل ذات پات کی ہو۔۔۔۔ ہماری لیگل ٹیم ان کو پورا سپورٹ کریں گی۔۔۔۔۔۔ ان بے سہارا لڑکیوں کو رہنے کے جگہ اور اپنا خود کا کمانے کے لیے ذرائع فراہم کئے جائیں گے۔۔۔۔" کرن صاف گوئی سے اپنے آنے والے پراجیکٹ کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے لگی۔ "اکثر مرد عورت پر ہاتھ اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔۔۔۔ انہیں تذلیل کر کے ایسے نفسیاتی مرد حضرات کو تسکین ملتی ہیں۔۔۔۔۔ لیکن کوئی بھی عورت بے چاری نہیں ہیں۔۔۔۔ انہیں آزاد رہنے کا پورا حق ہیں۔۔۔۔ اور ان عورتوں کو یہ حق دلانے میں ہمارا ادارہ پورے ایمانداری سے کام کر رہا ہے۔۔۔۔" کرن اپنا فقرہ مکمل کر کے التمش کے آگلے سوال کے خاموش ہوگئی۔ التمش بے تاثر انداز میں کرن کو سن رہا تھا۔ اس کے چپ ہونے پر وہ استحزیہ مسکرایا۔ "بہت بہادر خاتون ہے آپ۔۔۔۔۔ ایک مرد کے شو میں بیٹھی آپ مردوں کی برائی کر رہی ہے۔۔۔۔" اس نے آبرو اچکا کر پوچھا۔ التمش کے سوال پر کرن سر جھٹکتے ہوئے مسرور ہوئی۔ "آپ نے میرے جملے پر غور نہیں کیا التمش صاحب۔۔۔۔ میں نے اکثر نفسیاتی مرد کہا ہے۔۔۔۔ سارے مرد نہیں۔۔۔" کرن نے فخریہ انداز میں آبرو اچکائے۔ التمش کے تاثرات بدل گئے۔ ماحول کو خوشگوار بنانے وہ پروفیشنل انداز میں ہنسے۔ "پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔ ویسے بھی میں بہت اچھا شوہر ہوں۔۔۔۔" اس نے سامنے پڑے کاغذ پر نظر ڈال کر اگلے لائن کو یاد کرتے ہوئے کہا۔ کرن چہرے پر آتے بالوں کو سنوارتے سامنے دیکھنے لگی۔ "اب یہ تو آپ کی بیگم ہی اچھا بتا سکتی ہے۔۔۔۔" کرن نے التمش کے مذاق میں اپنے حاضر جوابی سے اضافہ کیا۔ التمش اس کے جواب میں ہلکا مسکرائے اور سامنے کیمرے میں دیکھنے لگے۔ "جی تو ناظرین۔۔۔ اس وقت آپ کے ٹی وی اسکرین پر مس کرن جمیل کے ادارے کے کانٹیکٹ نمبرز اور ای میل ایڈریس چل رہے ہونگے۔۔۔۔۔۔ اگر آپ ان سے ذاتی طور پر رابطہ کر کے مزید معلومات لینا چاہتے ہیں تو درج ذیل نمبرز پر کال کر کے یا ان کے آفس ای میل کر کے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔" اینکر نے جوشیلے انداز میں کرن کے آفس کے نمبرز اور ای میل ایڈریس بناتا شروع کیا۔ دوسری طرف ڈائریکٹر کے ساتھ بیٹھے ایڈیٹر نے کمپوٹر پر تیز تیز انگلیاں چلا کر وہی معلومات اسکرین پر بھی چلانا شروع کیا۔ معلومات کے متعلق بتا کر التمش ایک مرتبہ پھر کرن کے جانب متوجہ ہوا۔ "آپ میرے شو کے ذریعے عوام کو جو بھی پیغام دینا چاہیں تو کیمرہ آپ کے خدمت میں حاضر ہے۔۔۔۔" اس نے سامنے کیمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کرن نے مشکور ہونے انداز میں سر کو جنبش دیا اور کیمرے کے جانب دیکھنے لگی۔ "اس وقت مجھے دیکھنے اور سننے والے سب ہی معززین سے میری درخواست ہے کہ آئے اور ہمارے ساتھ اس کارِ خیر میں تعاون کریں۔۔۔۔ آپ سب کے مدد کے بغیر ہمارے لیے اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔۔۔۔۔ میری سب ہی اندرون ملک اور بیرون ملک سرمایہ کاروں سے یہ اپیل ہیں کہ اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال کر آپ بھی اس نیکی میں شامل ہوجائے۔۔۔۔۔ اگر آپ کے چند رقم سے ایک مظلوم کی زندگی سنور جائے تو اللہ آپ کو اس کا اجر دس گنا زیادہ عطا کریں گا۔۔۔۔" کرن نے مخصوص مسکراہٹ بنائے کیمرے میں دیکھتے ہوئے کہا۔ کرن کے بقایہ لفظوں میں التمش نے بھی اپنے حصے کا اضافہ کیا۔ "اور اس نیک کام میں شامل ہونے کے لیے اس وقت آپ کے ٹی وی اسکرین پر ایک اکاونٹ نمبر شائع ہورہا ہے۔۔۔۔ آپ چاہے تو انلائن ٹرانسفر کے ذریعے اپنا فنڈ جمع کروا سکتے ہیں۔۔۔۔۔ یا اگر آپ ترکی میں موجود ہیں تو مس کرن کے آفس جا کر بذاتِ خود فنڈ مہیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔" التمش نے آخری جملہ مکمل کر کے کرن کے جانب دیکھا۔ ان کا اشارہ سمجھ کر کرن پھر سے گویا ہوئی۔ "اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں۔۔۔۔ آپ کا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں جائے گا۔۔۔۔۔ ہمارے آفیشل ویب سائٹ پر پوائنٹ ٹو پوائنٹ آپ کو سارے تعمیراتی کام سے اپ ڈیٹ رکھا جائے گا۔۔۔۔" کرن نے الوداعی انداز میں ایک مرتبہ پھر سر کو خم دیتے ہوئے اپنا فقرہ مکمل کیا۔ آخر میں پس منظر میں میوزک چلاتے ہوئے کیمرہ التمش کے قریب کر دیا گیا۔ "اسی امید کے ساتھ اس شو کو تمام کرتے ہیں کہ آپ مس کرن کے ساتھ تعاون ضرور کریں گے۔۔۔۔" کہتے ساتھ اینکر نے اپنا رخ کرن کے جانب موڑا۔ "آپ کے آنے کا بہت شکریہ مس کرن۔۔۔۔ میری دعا ہیں آپ یوں ہی ہمیشہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی الناس(عورت) کو اندھیرے سے نکل کر روشنی سے روشناس کرتی رہیں۔۔۔۔" التمش نے مسکرا کر ان کے الوداعی کلمات کہے۔ کرن نے سر کو خم دے کر ان کا شکریہ ادا کیا اور کیمرے میں دیکھتے ہوئے ناظرین سے رخصت لیا۔ التمش نے آخری کلمات کہے اور شو کو ختم کیا۔ "زندگی رہی تو ایک نئے مہمان۔۔۔ ایک نئے تجربے کے ہمراہ آپ سب کی خدمت میں پھر حاضر ہونگا۔۔۔۔ تب تک کے لیے اجازت چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔" اس نے پیشانی تک ہاتھ لے جا کر لہرایا اور اسی اثناء کیمرہ بند کر دیا گیا۔ کیمرہ بند ہونے کے ساتھ کرن اور التمش اپنے نشستوں پر سے اٹھے اور مصافحہ کرتے ہوئے الوداعی کلمات کہے۔ ٹیکنیکل اسٹاف نے اسٹیج پر آکر کرن کے شرٹ پر چسپاں چھوٹا مائک نکالا پھر کرن ڈائریکٹر سے رخصت لیتی اپنی سیکرٹری کے پاس آئی اور اس کے ہمراہ کوریڈور میں چلتے ہوئے نیوز چینل کے آفس سے باہر جانے لگی۔ انشا گل پچھلے چھ سالوں سے کرن کی سیکرٹری تھی۔ کرن اور انشا گل میں بہنوں کے جیسے تعلقات تھے۔ کرن کے لیے جیسے نور ہوا کرتی تھی اب وہ جگہ انشا گل نے لے لی تھی۔ انشا گل کی فیملی کو بھی کرن اتنی ہی دل عزیز تھی اور ہمیشہ اس سے محبت اور اپنائیت سے ملتے۔ انشا گل ہاتھ میں ٹیب پکڑے کرن کے ساتھ ساتھ چلتی اس سے مخاطب ہوئی۔ "انٹرویو بہت اچھا رہا۔۔۔۔ دیکھنا بہت جلد فیڈ بیک آنا شروع ہوجائے گا۔۔۔۔ " اس نے پُر امید انداز میں کرن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ کرن نے مسکرا کر اس کے جانب دیکھا۔ "انشاءاللہ۔۔۔۔ " اس نے انشا گل کے بازو پر ہاتھ رکھ کر تھپتھپایا۔ ان کا ڈرائیور گاڑی آفس گیٹ کے سامنے لے آیا تھا۔ انشا گل نے پہلے کرن کو بیٹھنے کے لیے کہنا چاہا لیکن کرن نے انکار کر دیا۔ "تم جاو۔۔۔۔۔ میں چہل قدمی کرتے ہوئے جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔" کرن نے اپنا بیگ گاڑی میں رکھتے ہوئے انشا گل کو آفر کیا۔ کرن کی بات سن کر انشا گل حیران ہوگئی تھی۔ "ٹھیک ہے پھر میں بھی آپ کے ساتھ پیدل چلتی ہوں۔۔۔۔۔" اس نے دوستانہ انداز میں جواب دیا۔ وہ رات کے اس پہر کرن کے اکیلے جانے پر راضی نہیں تھی۔ کرن نے اس کا خدشہ سمجھتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ "نہیں میں اکیلے جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ ویسے بھی تمہارا اور میرا گھر الگ الگ حصے میں ہے۔۔۔۔" اس نے نرمی سے سمجھایا پھر سر گاڑی کے اندر کر کے ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ "میڈم کو ان کے گھر چھوڑ کر تم بھی اپنے گھر چلے جانا۔۔۔۔ میں خود سے چلی جاوں گی۔۔۔" کرن نے حکم صادر کرنے کے انداز میں کہا تو ڈرائیور نے پھرتی سے سر اثابت میں ہلایا۔ انشا گل جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن کرن کے ضد پر بے دلی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ان کے وہاں سے روانہ ہونے کے بعد کرن اپنی ہیل سینڈل اتار کر ننگے پیر فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ رات کے اس پہر انتالیہ شہر میں سکون تھا۔ سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے بس ایک آدھ دکانیں کھلی نظر آرہی تھی۔ وہ ونڈو کے پار مال کے اندر سامان سمیٹتے ورکرز کو دیکھتے ہوئے چل رہی تھی۔ آسمان میں چمکتے چاند اور تارے اسے مزید مسرور کرنے لگے تھے۔ تیز ہوا کے چلتے اسے ہلکی ٹھنڈ لگنا شروع ہوگئی۔ شہر کی رونقوں سے محظوظ ہوتے جب وہ اپنے اپارٹمنٹ کے احاطے میں پہنچی تو اندر داخل ہونے کے بجائے وہ ساحل کنارے آگئی۔ آج سمندر بھی خاموش تھا بلکل کرن کی زندگی کے مانند۔ لیکن یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی جو کچھ ہی پل کی مہربانی ثابت ہونے والی تھی۔ *****************&&&&&*************** ( پاکستان میں ) رانا مبشر کو روحان کے تینوں بچے بہت عزیز تھے۔ زینب اور ذیشان کی ان سے اچھی بنتی بھی تھی صرف سفیان تھا جو رانا صاحب کی موجودگی سے چھنپ سا گیا تھا۔ وہ جب بھی سفیان کے سامنے آتے وہ گھبرا جاتا اور ڈر کر چھپ جاتا۔ رانا صاحب کو اس کا ان سے خوفزدہ ہونا بہت کھٹکتا تھا۔ اس لیے وہ از خود سفیان کے دل میں اپنی جگہ بنانے کے لیے آفس سے آتے ہوئے اس کے لیے کھلونے لے آتے۔ اس کے ساتھ الگ الگ گیمز کھیلتے اسے اپنے ساتھ سیر پر لے جاتے۔ کبھی اگر نور سفیان پر غصہ کرتی تو رانا صاحب اس کی دفاع کرتے۔ بچے تو پیار کی مورت ہوتے ہیں۔ اپنے لیے رانا صاحب کی یہ شفقت سفیان کو زیادہ دیر ان سے دور نہیں رکھ پائی تھی۔ وہ ان کے ساتھ گھل مل گیا تھا۔ حتہ کہ کبھی کبھار تو رات کو سوتے ہوئے بھی ان کے پاس سونے کی ضد کرتا اور رانا صاحب کے احترام کی خاطر نور کو اس کی ضد کے آگے ہار ماننی پڑتی۔ اس دن رانا صاحب آفس سے جلدی آگئے۔ روحان کسی میٹنگ کے لیے اسلام آباد گیا ہوتا تھا اور نور زینب اور ذیشان کو اسکول سے لانے گئی ہوئی تھی۔ گھر پر رانا مبشر اور سفیان لاؤنج کے بڑے صوفے پر بیٹھے تھے۔ رانا صاحب سفیان کو پھل کاٹ کر کھلا رہے تھے جب ان کی نظر سامنے دیوار گیر LCD ٹی وی پر پڑی۔ آواز بند کی ہوئی تھی لیکن تصویر کسی انٹرنیشنل نیوز چینل کی چل رہی تھی۔ "لگتا ہے نور جلدبازی میں ٹی وی آن چھوڑ گئی ہے۔۔۔۔" انہوں نے سر جھٹکتے ہوئے دل میں سوچا۔ رانا صاحب نے سینٹرل ٹیبل پر پڑا ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور ٹی وی بند کرنے لگے ہی تھے کہ ٹھٹک گئے۔ انہیں اپنے آنکھوں دیکھے پر یقین نہیں آرہا تھا۔ حیرت سے آنکھیں کھلی رہ گئی تھی۔ سفیان ان کا ہاتھ جھنجوڑتا ان سے کچھ کہہ رہا تھا لیکن رانا صاحب مانو وہاں موجود ہی نہیں تھے۔ وہ بنا پلک جھپکائے یک ٹک ٹی وی پر نظر آتے عکس کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ رانا مبشر کی ٹی وی اسکرین پر سے نظریں نہیں ہٹ پا رہی تھی۔ انہوں نے آواز اونچی کر دی۔ جس چہرے کو وہ بے یقینی سے دیکھ رہے تھے۔ جن حرکات نے ان کے اوسان خطا کر رکھے تھے۔ آواز سننے کے بعد ساری بے یقینی اور حیرانگی حقیقت میں تبدیل ہونے لگی۔ ٹی وی پر کرن کا وہی انٹرویو پروگرام چل رہا تھا جو اس نے ایک دن پہلے انتالیہ میں ریکارڈ کروایا تھا۔ اور ٹائم کے فرق سے پاکستان میں اس وقت چلایا جا رہا تھا۔ رانا مبشر کرن کو ایک ہی نظر میں پہچان گئے۔ وہ چہرہ رانا مبشر کیسے بھول سکتا تھا۔ اس آواز سے وہ نا آشنا کیسے ہوسکتا تھا۔ اس کی وہ ادائیں وہ مسکراہٹ دیکھ کر رانا صاحب کو سات سال قبل والی کرن یاد آئی وہ آج بھی ویسی تھی دلکش اور حسین بلکہ اس کی شخصیت مزید ابھر گئی تھی لیکن اب خوف کی جگہ اعتماد تھا ڈر کی جگہ خود مختاری تھی۔ اپنی آپ بیتی یاد کرتے رانا صاحب کو شدید غصہ آنے لگا اس لیے سفیان کے تنگ کرنے پر وہ چڑ گئے۔ ان کے ماتھے پر بل نمودار ہوگئے اور ضبط کرنے جبڑے سخت کر دیئے۔ ان کے بدلتے تاثرات دیکھ کر سفیان گھبرا گیا اور صوفے پر سے اتر کر اپنے کمرے میں بھاگ گیا۔ رانا مبشر کے چاروں طرف اس وقت صرف کرن اور اپنا ماضی گردش کر رہا تھا انہیں کسی اور کا خیال بھی نہیں رہا تھا۔ ایک لمبی سانس لے کر انہوں نے خود کو نارمل کیا اور جیب سے اپنا موبائل نکال کر ٹی وی اسکرین پر چلتے کرن کے کانٹیکٹ نمبرز اور ای میل ایڈریس نوٹ کرنے لگے۔ ******************&&&&*************** دن بھر رانا مبشر کا مزاج بد مزہ رہا نہ انہوں نے ٹھیک سے کھانا کھایا۔ نہ ٹھیک سے بچوں کو وقت دیا۔ رات کے وقت بھی ڈنر کے چند لقمے کھا کر وہ سر درد کا بہانہ کر کے جلدی اپنے کمرے میں آگئے اور دروازہ لاک کر دیا تاکہ کوئی مداخلت نہ کریں۔ شب خوابی کی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے وہ اپنے بیڈ کے کراون سے ٹیک لگائے نیم دراز بیٹھے تھے۔ انگلیاں لیپ ٹاپ پر چلتی ان نمبرز اور ای میل ایڈریس کو تلاش کرنے لگی۔ ایک کے بعد ایک کر کے کرن کے بارے میں سارے معلومات کھلتے گئے اور رانا مبشر کے آبرو پھیلتے گئے۔ کرن کی کامیابیاں اس کے سوشل کارگردگیاں دیکھ کر رانا صاحب دنگ رہ گئے تھے۔ ہر ایک کلک کے ساتھ ایک نیاء خلاصہ ایک نیاء انکشاف ہوتا۔ کرتے کرتے انہیں کرن کا آفیشل ویب سائٹ بھی مل گیا تھا جہاں اس کے نئے پراجیکٹ اور آئندہ ماہ پبلیش ہونے والے کتابوں کی فہرست موجود تھی۔ کرن کا آفیشل ویب سائٹ کھولے رانا صاحب گہری سوچ میں بیٹھے رہے۔ پھر ایک نتیجہ اخذ کر کے انہوں نے موبائل اٹھایا اور ایک کال ملائی۔ ***************&&&&&*************** ( ترکی میں ) کرن پھول دار لمبا میکسی پہنے بالوں کی چھٹیاں بنائے اپنے کیبن میں بیٹھی لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ کر رہی تھی جب دروازہ کھول کر ہمایوں اندر داخل ہوئے۔ کرن نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے اپنے کام کے جانب متوجہ ہوئی۔ ہمایوں میز کے پار کرسی پر بیٹھے اور جیب سے ایک چیک نکال کر کرن کے آگے کیا۔ "سوچا تمہارے پراجیکٹ کی سنگ بنیاد میرے حصے سے رکھی جائے۔۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے وصاحت دی۔ کرن نے مشکور ہوتے ہوئے چیک لیا اور ٹیبل کے دراز میں رکھ دیا۔ پھر سپیکر پر انشا گل سے دو چائے بھجوانے کیلئے کہہ کر پھر سے ٹائپنگ کرنے لگی۔ وہ اس کے اگلی کتاب کے اہم نقاط تھے اور اس سے پہلے کہ اس کے ذہن سے مہو ہوجاتے وہ تیز تیز انگلیاں چلا کر لیپ ٹاپ میں درج کر رہی تھی۔ ہمایوں نے کرن کو مصروف دیکھا تو معذرت خواہ انداز میں کنکارا۔ "کرن آج شام کیا کر رہی ہو۔۔۔" اس نے کرن کے مزاج کو مطعالہ کرتے ہوئے کہا۔ کرن کی چلتی انگلیاں رک گئی اس نے حیرت انگیز نظروں سے ہمایوں کو دیکھا۔ "اصل میں اتنے دن ہوگئے ہے مجھے ترکی آئے ہوئے۔۔۔۔۔ کہی گھومنے نہیں گیا۔۔۔۔ تو آج شام کہی ڈنر کرنے چلتے ہیں۔۔۔۔" ہمایوں نے تیزی سے اپنے جملے کی وضاحت دی۔ کرن ہمایوں کے آفر پر مضطرب ہونے لگی۔ "آج تو بلکل فارغ نہیں ہوں۔۔۔" کرن نے مدافعتی انداز میں کہا۔ "ٹھیک ہے تو کل چلتے ہیں۔۔۔" ہمایوں نے اسے قائل کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ "کل بھی نہیں ہوسکتا۔۔۔" کرن اب بھی انکاری تھی۔ "تو پرسوں ٹھیک رہے گا۔۔۔۔۔ میں ابھی مزید دو ہفتے یہی ہوں۔۔۔۔ تو جس بھی دن تم فری ہو میں آسکتا ہوں۔۔۔۔" ہمایوں کسی صورت کرن کا انکار ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ مزید زور دیتا کہ دروازے پر دستک دیتا ملازم چائے کے کپ لیئے اندر داخل ہوا اور تہذیب سے ایک کپ کرن کے آگے رکھا اور دوسرا ہمایوں کے آگے پھر سر کو خم دے کر واپس پلٹ گیا۔ کرن اپنے چائے کا کپ ہاتھ میں اٹھا کر گویا ہوئی۔ "میں آجاتی ہمایوں لیکن۔۔۔۔۔ یہ پورا مہینہ میں بلکل فارغ نہیں ہوں۔۔۔۔۔ پبلشر سے تاریخ لیں چکی ہوں اور اس سے پہلے مجھے کتاب مکمل کر کے دینا ہے۔۔۔۔ اوپر سے باس نے اس نئے پراجیکٹ کی ساری زمہ داری میرے سر کی ہے۔۔۔۔۔ ہر طرف سے کاموں میں جکڑی ہوئی ہوں۔۔۔۔ بلکل وقت نہیں مل رہا۔۔۔۔۔" کرن نرمی سے یک کے بعد دیگر اپنے مصروفیات کی فہرست گنوانے لگی۔ ہمایوں کے تاثرات سپاٹ ہوگئے۔ "ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں تمہیں قائل نہیں کر سکتا کرن۔۔۔۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا۔۔۔۔۔ اپنے لیے بھی کچھ وقت نکالو۔۔۔۔۔ یہ دنیا اور اس کے کام ایک دن ہم سے چھوٹ جائے گے۔۔۔۔ ہمارے پاس صرف وہ وقت بچے گا جس میں ہم نے اپنے لیے کچھ کیا ہوگا۔۔۔" سپاٹ انداز میں کہہ کر ہمایوں ماتھے پر بل لیئے وہاں سے اٹھ گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا روانہ ہوگیا۔ کرن نے افسردگی سے پہلے کیبن کے بند دروازے کو دیکھا پھر ہمایوں کے چائے کے کپ کو جس سے ابھی بھی بھاپ نکل رہی تھی۔ پھر اس نے بے دلی سے اپنا کپ پرے رکھا اور لیپ ٹاپ بند کر دیا۔ اس کا موڈ غارت ہوچکا تھا جو اہم نقاط وہ درج کرنے لگی ہوئی تھی وہ سب اس کے ذہن سے مہو ہوچکے تھے۔ ****************&&&&************* اس رات کرن ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی کانٹے سے سلاد کے ٹکرے منہ میں ڈالتے آج آفس میں ہمایوں کے ساتھ ہوئے مباحثے کے بارے میں انی کو بتا رہی تھی۔ انی پین میں کباب فرائی کرنے رکھ کر اس کے جانب مڑی۔ "ہاں تو غلط کیا کہا اس نے۔۔۔۔۔ ٹھیک تو کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔ کچھ اپنے بارے میں بھی سوچوں۔۔۔۔ اپنے لیے وقت نکالو۔۔۔۔" انی نے ہمایوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا اور پھر سے کباب کے جانب متوجہ ہوئی۔ کرن پھیکا سا مسکرائی۔ "کچھ سوچنے کے لیے ہوتا تو سوچتی انی۔۔۔۔۔ میری زندگی تو بس کتابوں اور آفس کے گرد ہی رہ گئی ہیں۔۔۔" اس نے دل گرفتگی سے وضاحت پیش کی۔ انی کباب پلیٹ میں نکال کر لائی اور خود بھی کھانا کھانے بیٹھ گئی۔ "رہ نہیں گئی کرن۔۔۔۔ تم نے خود بنا لی ہے۔۔۔۔ ابھی بھی جوان ہو۔۔۔۔ اور خود مختار بھی۔۔۔۔۔ اپنے ماضی کی تکلیف سے باہر آو۔۔۔۔۔ ایک دفعہ شادی ناکام ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ پوری زندگی اکیلے رہا جائے۔۔۔۔۔ ہمایوں کا پروپوزل منظور کرنے کے لیے تو میں نے بھی اتنا سمجھایا لیکن تم کسی کی سنتی کہاں ہو۔۔۔۔۔۔ " انہوں نے پیار سے کرن کو سمجھانے کی کوشش کی۔ کرن انی کو اپنے اور رانا مبشر کے بارے میں پہلے سے سب بتا چکی تھی۔ کرن مضطرب انداز میں غیر مروی نقطہ کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔ "کوشش کرتی ہوں انی۔۔۔۔۔ لیکن نہ میں تب آرین سے شادی کر پائی تھی۔۔۔۔۔ نہ اب ہمایوں سے کر پا رہی ہوں۔۔۔۔۔" وہ ہلکی آواز میں اپنی دلی کیفیت بیان کرنے لگی۔ انی یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔ "یہ شادی۔۔۔۔۔ شوہر۔۔۔۔۔ گھر گھرہستی جیسے الفاظ سن کر مجھے وہ وقت یاد آجاتا ہے۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو کئی دفعہ سمجھایا لیکن۔۔۔۔۔ لیکن مضبوط ارادہ نہیں بن پاتا۔۔۔۔" اس نے لب کاٹتے ہوئے کہا۔ اس کے آگے کرن نے خاموشی اختیار کر لی اور اپنا کھانا کھانے لگی۔ انی چند لمحے اس کے گویا ہونے کی منتظر تھی پھر سر جھٹک کر کھانے کے جانب متوجہ ہوئی۔ وہ جانتی تھی کرن اپنے اندر امڑتے شور کو ظاہری خاموشی سے ٹالنا چاہتی ہے اس لیے انہوں نے مزید بحث نہیں کی۔ ***************&&&&&*************** ( پاکستان میں ) شام کے وقت روحان صوفے پر بیٹھے تنے ہوئے اعصاب سے ذیشان کا ریاضی ٹیسٹ دیکھ رہا تھا۔ "یہ کیا ہے ذیش۔۔۔۔۔ کوئی بھی سوال ٹھیک سے حل نہیں کیا۔۔۔۔" اس نے سخت لہجے میں کہا۔ ذیشان جو پہلے ہی ٹیسٹ میں خراب نمبر آنے پر اداس تھا پاپا کے ڈانٹنے سے مزید مایوس ہوگیا۔ "پچھلے پورے ہفتے یہ سارے سوالات میں نے سکھائیں تھے نا۔۔۔۔"روحان کے ڈانٹ میں زرا بھی نرمی نہیں آئی تھی۔ نور نے ذیشان کو مایوسی میں گھیرے دیکھا تو روحان کو مخاطب کیا۔ "اتنا بھی مت ڈانٹوں۔۔۔۔ اب ہر کوئی آپ کی طرح ریاضی کا سوپر مین نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔ دیکھو پہلے ہی ٹیسٹ خراب ہونے سے وہ کتنا اپ سیٹ ہے۔۔۔۔ آپ مزید موڈ نہ بگاڑے اس کا۔۔۔۔" نور کی ممتا اسے مزید ذیشان کو جھڑکتے نہیں دیکھ پائی تھی۔ روحان نے نور کو دیکھ کر دوستانہ مزاج بنائے اور بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ "چلو کوئی بات نہیں۔۔۔۔ یہ تو ماہانہ امتحانات تھے۔۔۔۔۔ سالانہ امتحان میں ڈبل محنت کریں گے اوکے۔۔۔۔۔۔" اس نے ذیشان کی افسردگی کم کرنے کی کوشش کی۔ ذیشان نے پھیکا مسکرا کر ساتھ بیٹھی زینب کو دیکھا جس نے ریاضی کے امتحان میں پورے نمبرز لیئے تھے۔ ریاضی کے معاملے میں زینب اپنے پاپا جیسے ہی ہوشیار تھی جبکہ ذیشان کمزور تھا۔ روحان زینب کا رزلٹ کارڈ دیکھ کر اسے سراہ رہا تھا جب سیڑھیوں پر بوٹوں کی چھاپ سنی۔ رانا مبشر سوٹ بوٹ میں تیار سر کے اور شیو کے خاکی پڑتے بال نفاست سے تازہ تراشے ہوئے مہنگی پرفیوم لگائے ہشاش بشاش ہو کر نیچے آرہے تھے۔ ساتھ ساتھ ایک ملازم ان کا بیگ اٹھائے نیچے لا رہا تھا۔ روحان اور نور میں حیرت انگیز نظروں کا تبادلہ ہوا۔ روحان اپنے جگہ پر سے اٹھ کر رانا صاحب کے سامنے آگیا۔ "رانا بھائی۔۔۔۔۔ آپ کہی جا رہے ہیں۔۔۔۔" اس نے سر تا پیر ان کی تیاری سے محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا۔ رانا صاحب تسکین سے مسکرائے۔ بااعتماد اور با وقار ہونے میں تو وہ آج بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ہنڈسم و پر کشش شخصیت کے حامل انہوں نے چمکتی آنکھوں سے روحان کو دیکھا۔ "ہاں روحان۔۔۔۔۔ اتنے عرصہ قید میں رہ کر زندگی سے اکتا گیا تھا۔۔۔۔۔ اب یورپ ٹور پر جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ دنیا کو پھر سے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ زندگی کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔" انہوں نے خوشگوار مزاجی سے پر امید انداز میں وضاحت دی۔ نور اور روحان ان کے اس فیصلے پر بہت خوش ہوئے تھے۔ "یہ تو بہت اچھی بات ہے رانا بھائی۔۔۔۔ لیکن آپ مجھے بتا دیتے میں بھی ساتھ آجاتا۔۔۔۔۔ آپ اکیلے اتنا لمبا سفر کیسے کریں گے۔۔۔۔۔ " روحان نے متفکر انداز میں ان کے بازو پر ہاتھ کر رکھا۔ رانا صاحب نے تسلی دینے روحان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے دباؤ دیا۔ "روحان۔۔۔۔ ابھی اتنی طاقت ہے مجھ میں کہ اپنا خیال خود رکھ سکوں۔۔۔۔۔ " رانا صاحب نے با اعتماد لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ روحان اب بھی مطمئن نہیں ہوسکا تھا لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے رانا صاحب آگے بڑھ گئے اور بچوں سے ملنے لگے۔ زینب اور ذیشان تو اچھے سے ملے لیکن سفیان رانا صاحب کے جانے پر راضی نہیں تھا وہ رونی شکل بنائے ان کے ساتھ جانے کی ضد کرنے لگا۔ "سفیان۔۔۔۔ بڑے پاپا کام کے سلسلے سے جارہیں ہیں۔۔۔۔۔ کچھ دن میں واپس آجائیں گے۔۔۔۔ آپ کو نہیں لے جا سکتے۔۔۔۔" نور نے اسے گود میں اٹھا کر پیار کر کے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ممی کے بہانے سے قائل نہیں ہوسکا اور مسلسل نفی میں سر ہلانے لگا۔ رانا صاحب نے اسے نور کی گود میں سے اٹھایا اور پھر اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھا کر سمجھانے لگے۔ " آپ میری بات تو مانتے ہو نا۔۔۔۔۔ اپنی ممی کو زیادہ تنگ مت کرنا۔۔۔۔ میں جتنی جلدی ہوسکے واپس آجاوں گا۔۔۔۔ اور آپ کو ٹائر والے جوتے چاہیئے نا۔۔۔۔۔ وہ لازمی لاوں گا۔۔۔۔" انہوں نے سفیان کو اس کی من پسند چیز کی یاد دہانی کرواتے ہوئے آنکھیں جھپکائی۔ سفیان کا چہرا کھل اٹھا تھا۔ اس نے بڑے پاپا کی یہ آفر منظور کر لی اور ان سے لپٹ کر انہیں خوشی خوشی رخصت کیا۔ ****************&&&&****************** ( ترکی میں ) کرن صبح پہلے پبلشر کے دفتر اپنے کتاب کی پہلی قسط جمع کروانے چلی گئی تھی۔ پھر پبلشر کے آفس سے وہ سیدھے اپنے آفس آگئی۔ لانگ سکرٹ اور فلورل شرٹ پہنے بال کھلے رکھے ہلکا سا میک اپ کئے وہ انشا گل سے باتیں کرتی کوریڈور میں چل رہی تھی کہ اچانک اس کے قدم منجمد ہوگئے۔ چہرے کا رنگ زرد پڑنے لگا۔ اس پر خوف سا طاری ہوگیا تھا۔ اس کا دل کیا زمین چاک ہوجائے اور وہ چھپ جائے۔ کرن کے عین سامنے کچھ فاصلے پر رانا مبشر، سیلان کے ساتھ کھڑے نظر آرہے تھے۔ وہ اس شخص کو کیسے بھول سکتی تھی۔ ہاں مگر اتنا ضرور بھول گئی تھی کہ زمین گول ہے زندگی میں کبھی کسی موقع پر رانا مبشر سے پھر سے سامنا ہوسکتا ہے۔ سیلان نے کرن اور انشا گل کو آتے دیکھا تو رانا صاحب کو ان کی جانب متوجہ کیا اور وہ دونوں قدم قدم چلتے ان کے پاس آنے لگے۔ رانا مبشر کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ کرن کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ نا چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طور پر اس کے قدم پیچھے ہٹنے لگے۔ اس کی آنکھیں متواتر رانا مبشر پر مرکوز تھی۔ وہی کھڑی گردن۔ وہی رعب دار چال۔ وہی تھیکی نظریں۔ وہی پر کشش مسکراہٹ۔ اپنے شاہانہ اسٹائل میں تیار وہ بھی کرن کو ہی دیکھے جارہے تھے۔ کرن کے قریب پہنچ کر سیلان نے سب سے پہلے رانا صاحب کا متعارف کروایا۔ "میم یہ مسٹر رانا مبشر ہے۔۔۔۔۔ خاص پاکستان سے آئے ہے۔۔۔۔۔ آپ کے نئے پراجیکٹ پر کافی بڑی انویسمنٹ کر رہے ہے۔۔۔۔ آپ سے پرسنلی ملنا چاہتے تھے۔۔۔۔" سیلان نے پروفیشنل انداز میں ایک سانس میں رانا مبشر کی تفصیل بتائی۔ کرن نظریں جھکائے خاموش کھڑی تھی۔ اپنے اضطراب کو قابو رکھنے کی کوشش کرتی وہ مٹھیاں سختی سے مینچھے ہوئے تھی۔ جب کرن نے رانا مبشر کا استقبال کرنے میں پہل نہیں کیا تو انشا گل کنکاری اور رانا صاحب سے مصافحہ کرنے لگی۔ "ہیلو مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔ میں انشا گل۔۔۔۔ کرن میم کی پرسنل سیکرٹری۔۔۔۔ آپ کی کال پر مجھ سے بات ہوئی تھی۔۔۔۔ ترکی میں خوش آمدید۔۔۔۔۔ سفر کیسا رہا آپ کا۔۔۔۔" دوستانہ انداز بنائے انشا گل نے اپنا تعارف کروایا اور پھر ان کا حال احوال دریافت کرنے لگی۔ رانا مبشر کی تیز نظریں کرن پر ہی جمی ہوئی تھی۔ کہی نہ کہی اتنے سالوں بعد وہ اس طرح کرن سے مل کر خود بھی مضطرب سے تھے لیکن بہ ظاہر خود کو کمپوز دکھا رہے تھے۔ " بہت شکریہ انشا گل۔۔۔۔ سفر بھی بہت لطف اندوز رہا۔۔۔۔۔ کافی سالوں بعد سفر کیا تو بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔ کافی کچھ بدل گیا ہے۔۔۔۔۔ دنیا دن بہ دن ترقی کرتے جا رہی ہے۔۔۔ " انہوں نے کنکھیوں سے کرن کو دیکھتے ہوئے انشا گل کے سوال کا جواب دیا۔ ان کا جواب سیلان اور انشا گل کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ان دونوں میں حیرت بھری نظروں کا تبادلہ ہوا لیکن کرن کے تاثرات سپاٹ ہوگئے تھے۔ رانا مبشر بل واسطہ جسے اپنی بات سمجھانا چاہ رہے تھے وہ سمجھ گئی تھی اس لیے تسکین سے مسکرانے لگے۔ ماحول میں بڑھتے تناو کو دیکھتے ہوئے سیلان نے کرن کو مخاطب کیا۔ "میم پراجیکٹ کے متعلق کیبن میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔۔" اس نے احتراماً دھیمے آواز میں کہا۔ کرن نے ایک نظر رانا مبشر کے سراپے کو دیکھا اور سر جھکا کر آگے بڑھ گئی۔ اس کے پیچھے انشا گل اور سیلان بھی رانا صاحب کی خیر مقدمی کرتے ہوئے چلنے لگے۔ ****************&&&&************* جاری ہے
❤️ 👍 😮 😂 😢 🙏 207

Comments